hamare masayel

زندگی میں وراثت كي تقسيم، وراثت کے احکام

زندگی میں وراثت كى تقسيم

سوال: مکرمی مفتی صاحب عرض یہ ہے کہ میں ترکہ تقسیم کرناچاہتا ہوں، کیا خبر کل کوئی حادثہ ہوجائے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ کس کو کتنا حصہ ملنا چاہئے؟

میرے والدین انتقال کرگئے میری ایک  بیوی ہے پانچ بیٹے ، دو بیٹیاں اورایک نواسی، کیا نواسی کا بھی حصہ لگےگا؟

امید کہ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما کر مشکور ہوں گے.

المستفتی:  ابو سعد سنجرپور اعظم گڑھ

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی جائدادتقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کو برابر حصہ دے، اسی طرح اپنی بیوی کو جتنا دینا چاہے دے سکتا ہے اور نواسی بھی گرچہ بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں وارث نہیں بنتی ہے لیکن اسے بھی زندگی میں کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اس لئے کہ یہ ہدیہ ہے اور اپنی زندگی میں جس کو جتنا چاہے ہدیہ دے سکتا ہے۔

البتہ اگر آپ  وراثت کے طرز پرتقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وقت آنے پر ورثہ میں اختلاف نہ ہو  تو اس کی بھی اجازت ہے، چنانچہ اس لحاظ سے آپ کی کل جائداد کو 96 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے 12 حصہ آپ کی بیوی کو، اور پانچوں بیٹوں کو مجموعی طور پر 70 حصہ، یعنی ایک ایک بیٹے کو 14،14 حصے، اور دونوں بیٹیوں کو مجموعی طور پر 14 حصہ یعنی ایک ایک بیٹی کو 7،7 حصہ ملے گا، واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال الله تعالى : ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ ﴾ (النساء: 11).

وقال تعالى : ﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ﴾. (سورة النساء :12).

عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰه عنه وهو علی المنبر یقول: أعطاني أبي عطیة، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضی حتی تشهد رسول اللّٰه ﷺ، فأتی رسول اللّٰه ﷺ، فقال: إني أعطیت ابني من عمرة بنت رواحة عطیة، فأمرتني أن أشهدک یا رسول اللّٰه! قال: أعطیت سائر ولدک مثل هٰذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا اللّٰه واعدلوا بین أولادکم. قال: فرجع، فردّ عطیته. (صحیح البخاري/باب الإشهاد في الهبة 1/352 رقم: 2515).

ولو وهب رجل شیئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضیل البعض في ذٰلک علی البعض. روی المعلی عن أبي یوسف أنه لا بأس به إذا لم یقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سویٰ بینهم یعطي للإبنة مثل ما یعطي للإبن، والفتویٰ علی قول أبي یوسف. (فتاویٰ خانیة 3/ 279)

وأما إذا أراد الرجل أن یقسم أملاکه فیما بین أولاده في حیاته، لئلا یقع بینهم نزاع بعد موته؛ فإنه وإن کان هبة في الاصطلاح الفقهي، ولکنه في الحقیقة، والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغي أن یکون سبیله سبیل المیراث. (تکملة فتح الملهم/ کتاب الهبة 2/ 75 مکتبة دارالعلوم کراچی(. ولو وھب رجل لأولادهٖ في الصحة سوّی بینھم ھو المختار. (الفتاویٰ الهندیة 4/ 391 زکریا).

وفي الخلاصة: المختار التسویة بین الذکر والأنثیٰ في الهبة، ولو کان ولده فاسقًا. (البحر الرائق/ کتاب الهبة 7/ 288 کراچی، 7/ 490 زکریا).

وذهب الجمهور إلیٰ أن التسویة مستحبة، فإن فضل بعضًا صح وکره۔ (فتح الباري 5/ 214 دار الفکر بیروت).

 والله أعلم

 تاريخ الرقم:  6/2/1440ه 16/10/2018م الثلاثاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply