hamare masayel

سعی کے بعد دو رکعت کی حیثیت

(سلسلہ نمبر: 357)

سعی کے بعد دو رکعت کی حیثیت

سوال: حج وعمرہ میں صفا و مروہ کی سعی کے بعد دو رکعت نماز کی فقہ حنفی میں کیا حیثیت ہے؟ برائے کرم مدلل وضاحت فرمائیں۔

المستفتی: محمد سالم مدنی، امام مسجد السلف الصالح دبئی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 صفا ومروہ کی سعی کے دو رکعت نماز حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے.

علامہ کمال بن ہمام فتح القدیر میں سعی کو طواف پر قیاس کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ سعی کے بعد دو رکعت نماز مستحب ہے تاکہ سعی کا اختتام بھی طواف کے اختتام کی طرح رہے، آگے تحریر فرماتے ہیں کہ اس قیاس کی بھی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں مطلب بن ابی وداعہ سے روایت ہے کہ آں حضور علیہ السلام جب سعی سے فارغ ہوئے تو مطاف میں دو رکعت نماز ادا فرمائی، لیکن اس روایت کی سند کے ساتھ ساتھ متن پر بھی محدثین کرام نے کلام فرمایا ہے، چنانچہ بذل المجہود (9/ 353، قدیمی) کے حاشیہ میں ہے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے علامہ نووی کی مناسک کی شرح میں لکھا ہے حنفیہ کی کتب میں تصحیف ہوگئی ہے، “اذا فرغ من سعیہ” کے بجائے “اذا فرغ من سبعہ” ہے یعنی جب آپ طواف کے ساتوں شوط سے فارغ ہوئے تو دو رکعت نماز ادا کی، خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث اضطراب فی السند والمتن کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ یہ امکان ہے کہ حنفیہ کا مستدل قیاس کے ساتھ ساتھ کوئی اور حدیث بھی ہو جہاں تک ہماری رسائی نہ ہو کیونکہ شارح بخاری بحر الحدیث علامہ حسن العدوی الحمزاوی (متوفی: 1303 ہجری) کی تصنیف النور الساری من فیض صحیح الإمام البخاری کے حاشیہ میں ہے کہ اس نماز کے قائل صرف حنفیہ ہی نہیں ہیں بلکہ روایات حدیث میں اس نماز کا تذکرہ موجود ہے، اسی طرح علامہ نووی نے امام شافعی کے حوالہ سے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ سعی کے بعد نماز ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سعی کے بعد دو رکعت نماز مستحب ہے اسے سنت وواجب نہیں کہا جاسکتا۔

الدلائل

قال الحصكفي: وندب ختمه (السعي) بركعتين في المسجد كختم الطواف (الدر المختار).

قال العلامة ابن عابدين الشامي: (قوله وندب إلخ) ذكره في الخانية وغيرها، وقوله كختم الطواف ليكون ختم السعي كختم الطواف كما أن مبدأهما بالاستلام قال في الفتح: ولا حاجة إلى هذا القياس إذ فيه نص وهو ما روى «المطلب بن أبي وداعة قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغ من سعيه جاء حتى إذا حاذى الركن فصلى ركعتين في حاشية المطاف وليس بينه وبين الطائفين أحد» رواه أحمد وابن ماجه وابن حبان. (رد المحتار: 2/ 501).

ولم يذكر صلاة ركعتين بعد السعي ختما له وهي مستحبة لفعله عليه السلام لذلك لما رواه أحمد. (البحر الرائق: 2/ 359).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

11- 10- 1441ھ 4- 6- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply