سیرت نبوی

ہندوستان کے موجودہ حالات، سیرت نبوی کے تناظر میں

از قلم: مولانا عبد الله صاحب كٹولى اعظم گڈھ ىوپى انڈيا

مقصد تخلیق: اللہ رب العزت  “سورۃ الانسان ” میں انسان کی تخلیق  اورمقصد تخلیق  کو  بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

{هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا (1) إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (2) إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا} [الإنسان: 1 – 3]

ترجمہ: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ؛ تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا  ، پھر ہم نے اسے راستہ دکھایا  اب وہ چاہے  شکر کرنے والا بنے  یا کفر کرنے والا بنے ۔

مذكوره  بالاآيت میں غور وفکر سے پتہ چلتا ہے کہ  انسان میں  ودیعت  کردہ حاسہ سمع وبصر  ہدایت قبول کرنے کے دو اہم  ذرائع ہیں ؛ اسی لئے رب کریم نے  بنی نوع انسان کی  رشدو ہدایت کے لئے دو طریقے کا انتخاب  فرمایا ۔

۱ –   آسمانی صحیفے اور کتابیں ۔جنہیں پڑھ اور سن کر انسان رہنمائی حاصل کرے۔

۲ –  انبیاء علیہم السلام۔جن  کے نقش قدم پر چل کر انسان ہدایت سے سرفراز ہو۔

انبیاء علیہم السلام کی بعثت :چنانچہ ابوالانبیاء حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد مصطفی ﷺتک جتنی بھی امتیں گذریں  سب کی ہدایت کے لئے  یہی دو طریقے  تھے  ، ایک نبی مبعوث ہوتا اور اس کے ساتھ صحیفے  یا کتاب کا نزول ہوتا جس کی روشنی میں وہ اپنی اپنی امتوں کو دین کی طرف  بلاتے ، سب کی  دعوت کا محور توحید( ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلانا) ہوتا تھا ؛مگر شریعت الگ  الگ ہوتی ، نیز سب کی دعوت  اپنی اپنی قوم تک محدود  ہوتی  تھی ۔  اسی طرح  وقت کے ساتھ ساتھ یکے بعد دیگرے نبی آتے  رہے  اور اپنا اپنا فریضہ انجام دیتے  رہے  ، بالآخر خلاصہ کائنات فخرموجودات  سید الانبیاء خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ مبعوث ہوئے ، آپ  کی نبوت  عالمی قرار پائی ارشاد باری ہے:

 {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا} [سبأ: 28]

ترجمہ:  ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے۔

آپ ﷺ کی جامع شخصیت :اللہ نےآپ کو خاتم النبیین بناکرآپ کی ذات والا صفات میں تمام انبیاء کے اوصاف جمع  کردئے  ؛چنانچہ وقت واحد میں آپ  موسی علیہ السلام کی طرح صاحب حکومت تھے  اور ہارون علیہ السلام کی طرح صاحب امامت بھی ، ذات مبارک میں نوح علیہ السلام کی سی سرگرمی ، ابراہیم علیہ السلام جیسی نرم دلی ، یوسف علیہ السلام جیسا درگذر، یعقوب علیہ السلام کا سا صبر ، سلیمان علیہ السلام کی سطوت ،  عیسی علیہ السلام کی سی خاکساری ، یحیی علیہ السلام کا سا زہد، اسماعیل علیہ السلام کی سی سبک روی کامل ظہور بخش تھی ۔

اے کہ برتخت سیادت  ز ازل جاداری

آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

خورشید رسالت مآب میں اگر چہ تمام مقدس رنگ موجود تھے لیکن رحمۃ للعالمینی کا رنگ ایسا نمایاں تھا کہ جس نے تمام رنگتوں کو  اپنے اندر لیکر دنیا کو ایک برگزیدہ وچیدہ (بیضا ونقیہ) روشنی سے منور کردیا ہے۔

جس طرح آپ آخری نبی تھے ؛اسی طرح آپ پر جو کتاب نازل کی گئی وہ کتاب  بھی تمام آسمانی کتابوں کے لئے حرف آخر ٹھری ؛ جس میں کم وبیش سبھی  کے مضامین کو یکساں جمع کردیا گیا ، پس ایک طرف  قرآن  کوفرقان ،نور مبین، ہدی للعالمین  بناکر اتارا گیا، تودوسری طرف نبی  کومعلّم ومربی ، قائد ورہبر، رحمۃ للعالمین بنا یا گیا؛ پھرکیا تھا  ہدایت کے ان دونوں چشموں  سے عقائد وعبادات، اخلاق وعادات ، تہذیب وتمدن، اخوت وبھائی چارہ ، تزکیہ واحسان ،علم ویقین ،صبرورضا ، عدل وانصاف، معاشرت ومحبت کے ایسے دھارے ابل پڑے کہ جس نے صرف عرب کے ریگستان  ہی نہیں بلکہ پورے عالم کو پر بہار بنا دیا ، خزاں آلود فضا  لہلہا اٹھی ، غنچے چٹخنےلگے ،  کلیاں  مسکرانے لگیں ، لالہ وگل کھلنے لگے   ، بلبلوں نے توحید کا ترانہ گایا ، کنکریوں نے کلمہ پڑھا ( لا إله إلا الله محمد رسول الله ) ظلمت وتاریکی میں پڑے   بدو عرب مینارہ نور بن کر چمکنے لگے،ایک ایسا  انقلاب برپا ہوا  کہ دنیا آج تک  اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ بقول دريابادي :”

 ایک پاک روح دنیا میں اصلاح وتزکیہ کے لیے آتی ہے اور اپنے فیض صحبت سے بہت سے اندھوں کو بینا، بہت سے بیماروں کو تندرست اور بہت سے مردوں کو زندہ کردیتی ہے۔ کارخانہ فطرت میں اس قانون فطرت کی نظیریں برابر ملتی رہتی ہیں۔لیکن دنیا میں یہ انقلا ب روحانی پیدا کردینا کہ کل تک جو رہزن تھے وہ آج اچھے رہرو ہی نہیں، بلکہ بہترین رہبر بھی ہوجاہیں، کل تک جن کی زندگی فسق وفجور کی نذر تھی، آج وہ اتنے بلند ومقدس مرتبہ پر پہنچ جائیں کہ صداقت و پاکیزگی کو ان کے انتساب سے شرف  حاصل ہوجائے،کل تک جو مردہ تھے، وہ آج زندہ ہی نہیں بلکہ دوسروں کو زندہ کردینے والے بن جائیں۔ ایسے آفتاب کا طلوع جو ہر ذرّہ کو آفتاب بنا دے، ایسے مسیح کا نزول جو مردہ کو مسیح بنا دے۔۔اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں بجز سرورعالم ﷺکےصحابیوں،بجزمحمدﷺ کےغلاموں کےاورکہیں بھی مل سکتی ہے؟.

اللہ مراتب بلند کرے اکبر الہ آبادی کے، سارے مضامین نعت کا عطر ایک شعر میں کھینچ کے رکھ دیا ہے:

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا

ہدایت کے یہی دونوں چشمے (قرآن اور سیرت طیبہ) امت محمدیہ کے لئے دستور حیات قرار پائے ، لہذا جس طرح قرآن کو “کتابِ ہدایت” بنایا گیا اسی طرح ذات نبی کو اسوہ اور نمونہ بنایا گیا.ارشاد باری ہے:

 {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ} [الإسراء: 9]

ترجمہ: بلاشبہ یہ قرآن سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

ذات نبی کو اسوہ حسنہ  بناکر  اللہ نے اپنے قرآن فرمایا:

{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} [الأحزاب: 21]

ترجمہ: تمہارے لئے آپ  کی ذات  بہترین نمونہ ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لئے  جو اللہ اور یوم آخرت کا یقین رکھتے ہیں ، اور بکثرت اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔

حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما:كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ . (موطأ امام مالك باب النهي عن القول بالقدر).

ترجمہ: میں نے تمہارے پاس( تمھاری ہدایت کے لئے ) دو چیزیں چھوڑ رکھی ہیں جب تک تم اسے پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور وہ دونوں چیزیں کتاب اللہ (قر آن کریم) اور سنت رسول اللہ(سیرت طیبہ) ہیں.

پس اگر کتاب اللہ  لوگوں  کو ضلالت وگمراہی کی آلودگیوں سے نجات دہندہ ہے  ، تو  وہیں نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ انسانی شاہراہ حیات پر کامیابی وکامرانی کی شاہ کلیدہے ، ایک طرف قرآن  سرمدی پیغام کا حامل  ہے تو دوسری طرف ذات نبی  اسوہ کامل ہے  بلکہ  دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں ، نہ تو قرآن کو نبی سے الگ کرکے  سمجھا جاسکتا  ہے، اور نہ  ہی ذات نبی کو قرآن سے الگ کیا جاسکتا ہے “یہی وجہ ہے کہ ام المؤمنین  عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی سیرت واخلاق پر  گفتگو کرتے ہوئے  فرمایا تھا:

 “کان خلقه القرآن”. (مسند احمد :ج 41 ص 148)

ترجمہ: آپ کی  سیرت سراپا قرآن تھی، اور قرآن کے بارے میں  آپ نے فرمایا ہے:

 “ولا تنقضي عجائبہ ولا یخلق عن کثرۃ الرد” (سنن الترمذي :باب ماجاء في فضل القرآن .2906)

ترجمہ: اس قرآن کے عجائبات ( علوم ومعارف کبھی ختم ہونے والے نہیں  اور یہ بار بار کے تکرار سے کبھی بھی پرانا نہیں ہوگا ( کہ اس سے دل اکتا جائیں)  اس سے صاف نتیجہ یہی نکلتا ہے قرآن کی طرح سیرت کے عجائبات بھی  کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں

لہذا آپ  کی سیرت طیبہ  اپنی ظاہری باطنی وسعتوں اور  گہرائیوں کے لحاظ سے  کوئی شخصی سیرت نہیں بلکہ ایک عالمگیر اور بین الاقوامی سیرت ہے  جو کسی شخص واحد کا دستور زندگی نہیں بلکہ جہانوں کے لئے ایک مکمل دستور حیات ہے  جوں جوں  زمانہ ترقی کرتا چلا جائے گا اسی حد تک انسانی زندگی  کی استواری اور ہمواری کے لئے اس سیرت کی ضرورت  شدید  سےشدید تر ہوتی چلی جائے گی۔

زمانہ اور اس کا تمدن  اپنی ارتقائی حرکت سے کہاں سے کہاں تک پہونچ گیا  اور کل کو نہ معلوم کہاں تک جا پہونچے  لیکن وہ کہیں بھی پہونچے اور اس کی تمدنی  زندگی کے گوشے کتنے بھی پھیل جائیں  اور پھیل کر زمین وآسمان خلاء و فضا سبھی کو ڈھانپ لیں  ،پھر بھی یہ ارتقائی سیرت اور اس کے تدین کے گوشے  اسی حدتک تمدنی گوشوں کی تقویم واصلاح کے لئے  شاخ در شاخ ہوکر نمایاں ہوتے رہیں گے  جیسا کہ وہ ابتک زمانہ کی مدنی ترقی کے ساتھ ساتھ نمایاں ہوتے رہے  اور ان میں سکون اطمینان کی روح پھونکتے رہے ہیں۔

آپ کی سیرت مبارکہ ربع مسکون میں بسنے والے سبھی فرد ومجتمع کے لئے اسوہ کامل ہے ۔عرب وعجم ، مصرو روما ، بر اعظم ایشیاء وامریکہ  بلکہ دنیا  کےکسی بھی گوشے میں جہاں بھی امت محمدیہ  علی صاحبہا ألف تحیۃ آباد ہے  اپنے تمام دینی ، سیاسی،  سماجی مسائل کے حل میں سیرت مقدسہ کے سوا کوئی جامع نمونہ نہیں پاسکتی۔

  ہندوستان کے موجودہ حالات  کا  اگر سیرت نبوی کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو مختصرا   چند  اہم نکات پر بحث کی جاسکتی ہے۔

 دینی مسائل:

         ملک ہندوستان مختلف  تہذیب وتمدن کا ایک عجیب وغریب سنگم ہے ، جہاں بے شمار مذہب کے ماننے والے ایک ساتھ بستے ہیں ،  اور ہر ایک مذہب کے متبعین اپنے اپنے رسم ورواج کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں سب کی اپنی اپنی  مخصوص  عبادت گاہیں  ہیں ۔مسلمان بھی اپنے دینی  امور کی انجام دہی میں الحمد للہ  آزاد ہیں ، شرائع اسلام پر عمل کرنے میں بلا کسی قید وبند کےخود مختار ہیں مسجد کے مناروں سے اذانوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے اور پنجگانہ نمازوں کا باجماعت  قیام بھی ہوتا ہے مکمل دینی رنگ وڈھنگ میں مدارس اور  دینی مراکز  بھی ہیں  ،جگہ جگہ مسجدوں کی آبادکاری بھی ہوتی ہےجس سے کھلی دینی فضا کا  ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ اسلامی حمیت دل میں پیدا ہوتی ہے  اور اس کے امت مسلمہ ہند پر بہترین اثرات   بھی مرتب ہوتے ہیں ۔مگر افسوس امت مسلمہ ہند ان ساری سہولتوں کے باوصف طرح طرح کی  کشمکش  کا شکار ہے ، کہیں فرقہ بندی  ہے تو کہیں ذات پات کا جھگڑا ہے، کوئی مغرب کا پرستار ہے تو کوئی خدا بیزار ، کوئی تقشف وزہد کو مکمل ایمان گردانتا ہے ، تو کوئی  آزادی ضمیر اور حریت فکر کو دین لبادہ پہنائے ہوئے ہے ،کہیں  سیاست کے نام پر  مذہب کا سودا ہے تو کہیں رسم ورواج کو مذہب کے چولے میں پرودیا گیا ہے، غرضیکہ ہر ایک فرقہ  جماعت یا فرد   اپنے کو  دین حق  کاپرستار اور سیرت مقدسہ کا پیروکار سمجھتا ہےمگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

وكل يدعي وصلا بليلى

وليلى لا تقر لهم بذاك

ہر ایک لیلی سےتعلق کا داعی ہےمگر لیلی ان سے تعلق کا اقرار نہیں کر رہی ہے

علامہ اقبال نے کیا ہی خوبصورت انداز میں اس کا نقشہ کھینچا ہے ۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا   زمانے میں پَنپنے  کی یہی  باتیں ہیں

٭٭٭

کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، رُوح میں احساس نہیں

کچھ  بھی  پیغامِ  محمّدؐ  کا تمھیں  پاس  نہیں

  دوسری طرف چونکہ ملک ہندوستان  ایک کثیر المذاہب ملک ہے؛  جہاں تہذیبیں باہم متصادم بھی ہیں اور مخلوط بھی اور اس  اشتراک باہمی کے نتیجے میں  دین اسلام کے پیروکار مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں ، ایک طبقہ  : دین بیزار  جوصرف نام کا مسلمان ہے۔ دوسرا طبقہ : جو بیچ کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے نہ  مکمل دین پر نہ بلکل منحرف بلکہ اپنے دین کو لیکر احساس کمتری اورتردد کا شکار ہے ۔  تیسرا طبقہ : جو مکمل اسلامی رنگ وڈھنگ میں رہتا ہے  اور ہر عمل کو اسلامی نقطہ نگاہ سے پرکھتا ہے  پھر قبول کرتا ہے۔

 تہذیبی اختلاف اور اس کے منفی ومثبت اثرات کے تعلق سے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر سیدہ ربیعہ  کی تحریر پڑھنے کے لائق ہے وہ لکھتی ہیں” کثیرالمذاہب سماج میں رہائش پذیرافرادجب تہذیبی وثقافتی اوردینی مسائل کاسامناکرتےہیں توان کے رویے تین طرح کے ہوتے ہیں:

 1 – یاتوکلی طورپراپنی تہذیب وثقافت اوردین کوخیرباد کہہ دیتےہیں۔

 2 – جواس قدربڑاقدم نہ اٹھاسکیں وہ غیروں سے متاثرہوکراوران کے اعتراضات کاحصہ بن کراندرہی اندرکڑھنے لگتے ہیں  اوراحساس کمتری کا شكار ہوجاتے ہیں۔

 3 – وہ اس قدرپختہ اوروسیع الذہن ہوتے ہیں کہ اپنی تہذیب وثقافت اورمذہبی اقدارپرعامل رہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے معاشرے کی اچھی اورمثبت اقدارکوبھی اپنا لیتے ہیں اوربری اقدارسے اپنے آپ کومحفوظ بھی کرلیتے ہیں”۔

4 – آج ملک ہندوستان  میں مسلمان اقلیت میں ہیں کوئی بھی مسلم اقلیت چاہے جہاں بھی رہائش پذیرہواس کے لیے اسوہ حسنہ یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زندگی اورتعلیمات ہی راہنماہیں۔آپ صلى الله عليه وسلم کومکہ میں خودایک اقلیت کے مذہبی راہنماکی حیثیت سے رہناپڑ اس لیے سیرت نبوی صلى الله عليه وسلم میں مسلم اقلیتوں کے لیے ایک بلیغ نمونہ موجود ہے ۔رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے قرآنی تعلیمات والٰہی ارشادات کے پس منظرمیں تیرہ برسوں تک مکی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقاء کاایک نقشہ تیارکیا۔

سيرت مقدسہ کا  ہر پہلو مسلمانوں کے لئے آئینہ اور نمونہ ہے مگر  آپ  کا مکی دور  مسلم اقلیتوں اور بالخصوص امت مسلمہ ہند کے لئے بہت اہم ہے ۔

آپ کی بعثت ایسے معاشرے میں ہوئی تھی جو ملک ہندوستان ہی کی طرح کفر وشرک کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا ، جہاں ظلم کا ننگا ناچ تھا ، شراب  عام تھی ، جوے اور سٹہ بازی کا رواج تھا ،انسانیت مرچکی تھی ، اخلاق کا جنازہ نکل چکا تھا ، معمولی معمولی باتوں پر سالہا سال جنگ  چھڑی رہتی ، اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر  بتوں کی پوجا  ہوتی تھی  ، ایسے متعفن ماحول میں  آپ  تشریف لاتے ہیں اور توحید  کی  شمع جلاتے ہیں  جس کی ابتدا تین سال تک خفیہ تبلیغ سے ہوتی ہے  جو  قرآنی حکم کے مطابق”:

{وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ } [الشعراء: 214]

ترجمہ: اے نبی اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ.

اپنے گھرانے تک محدود تھی  ، یہ ایک عالمی  دعوت کا آغاز تھا جو گھر والوں کو کھانے پر جمع کر کے شروع کیا گیا  ، جس میں چند لوگ اسلام سے متعارف ہوئے ، پھر حکم الہی ہوتا ہے:

{اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ} [الأنعام: 106]

 اب آپ صفا پہاڑی پر ببانگ دہل توحید کا اعلان کرتے ہیں:

” أیہا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا “(مسند أحمد ج 25 ص 405)

 قوم کا یہ سننا تھا کہ مخالفتیں شروع ہوگئیں  ، اپنوں اور پرایوں کی جانب سے  ایذاؤں کا تسلسل ہے مگر پائے ثبات میں لغزش نہیں  ، تکلیفیں حد سے سوا ہوتی  ہیں  مگر  دھن اور  پختہ  ہوتی چلی جاتی ہے ۔

جتنی جتنی ستم ِیار سے کھاتا ہے شکست

دل جواں اور جواں اور جواں ہوتا ہے

 ایک مشن تھا جسے پورا کرنا تھا ، ایک پیغام تھا جسے  پورے عالم  کے چپہ چپہ تک پہونچانا تھا ، وہ پیغام کوئی عام پیغام نہیں تھا بلکہ خدائے واحد کی جانب سے سرمدی پیغام تھا  ، وہ کلمہ طیبہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کی لازوال دعوت تھی جس کے لئے  محمد مصطفی  ﷺ نے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کیں  ، ساری پیش کش کو ٹھکرایا  کبھی اپنے چچا ابو طالب سے یوں گویا ہوئے  ”خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لئےآمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں،،

کبھی قوم کی جانب سے اس تجویز کو ” ہم آپ کے پاس ایک تجویز پیش کرتے ہیں ،جس میں آپ کے لیے بھلائی ہے آپ نے دریافت فرمایا ،کیا ہے؟انہوں نے کہا :ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات وعزیٰ وغیرہ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں ،(یعنی بقائے باہم کے اصول پرہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور ایک دوسرےکے جذبات کا احترام کریں ،)رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں حکم الٰہی کا انتظار کروں گا ،پھر جواب دوں گا ،آخر لوح محفوظ سے اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہوئی ،سورۂ کافرون،اور قرآن کریم نے اس نظریہ کو بالکل ناقابل قبول قراردیا ۔

سیرت مبارکہ کے اس حسین پہلو سے  ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ رواداری میں اتنا تجاوز نہ کرجائیں کہ کفرو اسلام کی سرحدوں كو ملا دیں، کیونکہ وہ ذات جو سارے عالم کے لیے رحمت تھی جب انھوں نے ایک بال برابر بھی کفر وشرک سےکوئی سمجھوتہ نہیں کیا تو پھر ہم کون ہوتے ہیں، ایمان وہی مقبول ہوگا جو شرک سے پاک ہو،ملت ابراہیمی جس کی اساس ہو ، آب زلال کی طرح تمام شکوک وشبہات سے نتھرا  بیضا  ونقیہ ہو، جہاں شرک کا شائبہ بھی نہ ہو ، لہذا  ہندوستانی مشرکانہ ماحول میں عقیدہ توحید کو سیرت نبوی کے سانچے میں رکھ کر ہی مسلمان نجات پاسکتا ہے۔

 آپ ﷺنے مکہ میں رہتے ہوئے  سلسلئہ دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے  اصحاب کی ٹولیاں بنائیں جو  مشن دعوت کو خفیہ طور پر بڑھاتے رہے  چراغ سے چراغ جلتا رہا اور مسلمانوں کے تعداد بڑھتی رہی ، کبھی آپ  گھر گھر اس پیغام کو سناتے تو کبھی بنفس نفیس میلوں میں شرکت کرکے خدا کے  کلام کو سناتے اور دعوت دیتے ، جب موسم حج  کا وقت آتا  تو آپ بیرون مکہ سے آئے ہوئے لوگوں کے خیموں میں جاکر دین کی تبلیغ کرتے، طفیل بن عمرو دوسی کا اسلام اسی محنت کا نتیجہ تھا بیعت عقبہ  اولی بیعت عقبہ ثانیہ بھی اسی جگہ انجام پائی۔

آپ ان لوگوں کی جو مسلمان ہو چکے تھے ان کی تعلیم وتربیت کا گھروں میں بندوبست کرتے  کبھی  خفیہ تعلیمی مراکز  قائم کرتے  جن میں سر فہرست مرکز علم دار ارقم کو شمار کیا جاتا ہے ، یہیں آکر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے۔    

سیرت طیبہ سے ہمیں یہ بھی درس ملتا ہے کہ جس طرح  آپ نے مکہ میں رہتے ہوئے شدید مخالفتوں کے باوجود اپنا دعوتی مشن اور تعلیم و تعلم کوجاری رکھا ، اسی طرح امت مسلمہ ہند حتی الوسع خفیہ اور علانیہ دعوت  وتبلیغ  اور علم کے مراکز کے سلسلے کو قائم کرے ، اپنے قریبی ہمسایوں محلوں اور غیر مسلم رشتہ داروں میں تبلیغ کو رواج دے ، اپنے اخلاق وکردار سے  انہیں متاثر کرے، قرآن کا پیغام سناکر دین اسلام کی طرف رغبت دلائے، بالخصوص اسلامی مساوات کو فروغ دیکر انہیں دین کی طرف مائل کرے ۔اس انتظار میں بیٹھنا کہ پہلے سارے مسلمان اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں تب غیروں میں تبلیغ کریں گے یہ  ایسی خام خیالی  ہے جو صبح قیامت تک ممکن نہیں (إلا أن یشاء الله).

دشمنوں کی نفرت کا علاج نبی رحمت کے دامن میں

 ساتھ ہی ساتھ غیروں میں دعوت  دین کو عام   نہ کرنے کے سبب انکے اندر   دین اسلام سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ مزید برآں  شدت پسند غیر مسلم جیسے پشپیندرا  وغیرہ کو شوشل  میڈیا پر اسلام  اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے  کا موقع بھی مل جاتا ہے۔                

 اے کاش ہم مسلمانان ہند بھی اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جس کا ایندھن آپ کی  تڑپ اور کڑھن سے لیتے۔ غور کریں، بار بار سوچیں کیا ہم نے دین کی خاطر کوئی تکلیف براشت کی؟ خون  بہانا تو دور کی بات  کیاکبھی پسینہ بھی اس دعوت کو فروغ دینے میں بہایا ؟ کیا کبھی  بدن پر پتھر کھائے؟ کیا فاقے سے کبھی پیٹ پر  پتھر باندھے؟کیا ہم عمار و یاسر رضی اللہ عنہما کو  دی گئی  تکلیفیں بھول گئے ؟ کیا ہمیں  تپتی ریت میں بلال کا جلنا یاد نہیں؟ کیا خباب  ارت کی لوہے کی سلاخوں سے داغی ہوئی کمربھلائی جاسکتی ہے ؟ کیا سمیہ  کی شہادت    ہمارےدل میں  شہادت کی آگ  نہیں بھڑکا تی؟ کیا خبیب بن عدی کے  کٹتے جسم  ہماری آنکھوں کو نم نہیں کرتے ؟کیا ابوبکر صدیق کا زخمی ہونا  ہمیں یاد نہیں؟کیا مصعب بن عمیر کی ماں کا  جارحانہ رویہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ؟ (رضی اللہ عنہم ) اگر ایسا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کرسوچیں اورجواب دیں، کیا واقعی ہم مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان ہیں ؟؟؟

کیا ہم مسلمان ہیں ؟؟؟؟؟

کیا صحیح معنوں میں ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں ؟؟؟؟

کیا واقعی ہم صحابہ کے پیروکار ہیں ؟؟؟؟

 اس لیے  ہندوستان ميں مقیم مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ عبودیت کے تقاضوں کے مطابق اسوہ رسول ﷺکواپناتے ہوئےمشقتوں اورتكالیف کی پرواہ کیے بغیراپنے مذہبی فرائض اداکریں اوراگراس سلسلے میں کسی قسم کی تكالیف، پریشانیاں اوررکاوٹیں سامنے آئیں توان کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنے مقصدکی تکمیل میں سرگرم رہیں ۔اللہ تعالی بھی فرماتاہے کہ:

{وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ} [العنكبوت: 3]

ترجمہ: کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائیگا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اورانھیں آزمایانہیں جائیگا ۔اور بیشک ہم نے آزمایا تھا ان لوگوں کو جو ان سے پہلے گزرے پس اللہ تعالیٰ ضرور دیکھے گا انھیں جودعوائے ایمان میں( سچے تھے اور ضرور دیکھے گا )ایمان کے( جھوٹے )دعویداروں کو ۔”

سیاسی مسائل:

آپ  مکی دور مسلم اقلیتوں  کے سیاسی مسائل میں بڑا  اہم کردار ادا کرتا  ہے ، سیرت مطہرہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ مکہ میں سیاسی امور سے  بالکل الگ نہیں تھے، چنانچہ صحابہ اسلام لانے کے باوجود اپنے اپنے عہدہ ومنصب پر قائم تھے، اور مشرکین مکہ نے انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا نہیں تھا اور نہ صحابہ خود سبکدوش ہوئے ، آپ نے حلف الفضول میں شرکت کی ، اس سےمسلم اقلیت  کا ملک کے سیاسی امور میں  مشارکت کا جواز ملتا ہے ۔ سعید حوی  میثاق مدینہ کی ایک دفعہ ” وإن یہود بنی عوف أمۃ مع المؤمنین” کے تحت لکھتے ہیں کہ مسلمان اور غیر مسلمان ایک سیاسی وحدت بن سکتے ہیں اور کسی ایک ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب کے پیروکار ایک امت کہلائے جاسکتے ہیں ۔

مکہ میں  جتنے قبائل تھے سب کے لئےنوادی تھے  قبیلہ کا کوئی اہم اعلان اسی نادیہ (مجلسی کونسل ) سے ہوتا ، آپ نےزید بن حارثہ کو اپنا متبنی بنانے کا اعلان یہیں کیا تھا۔

تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہوجانا مکہ کے ایک سیاسی عہدنامہ بائیکاٹ  پر ہی عمل کا نتیجہ تھا اور جب تک وہ عہد نامہ باقی تھا آپ اور آپ کے اصحاب نہیں نکلے جب  تحریر کو دیمک نے کھاکر ختم کردیا تب آپ  باہر آئے ۔

غرضیکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مکی دور کی روشنی میں  مختلف المذاہب قوموں سے  بشروط تحالف ومیثاق عہد ہی سیاسی حل نظر آتا ہے ، البتہ جہاں مسلمان اس پوزیشن میں ہوں ان کی اپنی سیاست کامیاب ہوسکتی ہے تو اسلامی اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔مگر آیت تمکین

 {الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ} [الحج: 41]

اور آیت استخلاف:

{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ} [النور: 55]

کی روشنی میں ہو، اسلامی تعلیمات سے خالی سیاست ملک عضوض ہوگی جس سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہوگا۔

ہندوستان کی مسلم اقلیتوں کے سامنے اس وقت  سب سے اہم سیاسی مسئلہ انکی شناخت کا تحفظ ہے موجودہ ظالم حکومت  کے ارادے انہیں سیاست  سےبے دخل کردینے کے ہیں ، ہر دن نئے نئے قانون کے ذریعے ان پر عرصئہ  حیات تنگ کیا جارہا ہے  کبھی این آرسی کا مسئلہ  ہے  تو کبھی سی اے اے ،کبھی طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے ،تو گھر واپسی کی مذموم کوشش ہوتی ہے ۔ اس کا قرآنی حل تو یہ ہے کہ  مسلمان ایمان کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ان شاء اللہ ظالم کیفر کردار کو پہونچ جائیں گے.ے  آیت کریمہ آیت کریمہ:

{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ } [إبراهيم: 13]

اسی کاپیغام دیتی ہے ،

سیاسی حل یہ ہے کہ رسول کریم ﷺکی مکی اور مدنی زندگی میں مختلف خاندانوں کے درمیان مواخات اور انصار و مہاجرین کے مابین رشتہ اخوت پر غور کیا جائے، مدینہ میں بنو نظیر،بنو قریظہ اور دوسرے غیر مسلم قبائل سے حلیفانہ معاہدات کا جائزہ لیا جائے،جس کے ذریعے رسول اکرم نے مدینہ کی ریاست کو انتہائی بصیرت مندی سے محفوظ کردیا، نیز صلح حدیبیہ کی روشنی میں قومی تحفظ اور مذہبی سالمیت کی منصوبہ بندی قائم کی جائے جس کے دور رس نتائج کے ذریعے اسلام صرف تین سالوں میں پورے جزیرہ نمائے عرب کے گوشوں میں پھیل گیا۔

دوسرا تدبیری حل یہ ہیکہ امت  مختلف طبقات کے ساتھ متحد ہو

مسلکی،علاقائی ،خاندانی اور تمدنی و تہذیبی اختلافات سے بالاتر ہو، جزئی اختلافات کی آزادی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم کھڑی ہو ،تاکہ سیاسی پلیٹ فارم پر ایک قوت بن کر ابھرے،

اس کی آواز جرس کارواں ثابت ہو،

اس کا وجود باحیثیت اور حکومتی ایوانوں میں اثر انداز ہو، تاکہ ملک وقوم کی سالمیت کے خلاف اٹھنے والے فرقہ وارانہ اصول وقوانین کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج تاریخ رقم کرنے کی طاقت رکھے،

  ماضی قریب میں جس طرح شاہین باغ کی تحریک ایوانوں میں زلزلہ پیدا کیا تھا ایسے ہی مرتب منظم مضبوط محکم لائحہ عمل کی ضرورت ہے.

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

سماجی مسائل:

ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک صالح معاشرہ کس طرح وجود میں آئے ؟ اورکس طرح مسلم اقلیت  غیر مسلم اکثریت کے ساتھ اپنے سماجی  روابط رکھے ؟ کن بنیادوں پر باہمی تعلقات قائم ہوں ؟  غیروں کی رسوم ورواج کے تئیں ہمارا برتاؤ کیا ہو ؟ ان سارے سوالوں کا  بہت واضح جواب  ہمیں آپ کی سیرت مبارکہ سے ملتا ہے۔

آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں  ایک صالح معاشرہ کی بنیاد ڈالی ، اور ہر لحاظ سے ایک کامیاب معاشرتی زندگی گذاری ، آپ نے معاشرتی پہلو کو قرآن کے آئینہ میں اس قدر مزین کردیا تھا  کہ آج بھی  دنیا اس کی نظیر سے قاصر ہے ، اس  صالح معاشرہ پر انسانیت کو فخروناز  ہے  ، تمام جاہلانہ باطلانہ  رسوم کو  کتنی  نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ آپ نے بدل ڈالا ، کل تک  جن کی زندگیاں کبروغرور تکبر ونخوت میں آلودہ تھیں  آج وہی “عباد الرحمن “بن گئے ،  لو گوں سے بات بات پڑ بلاوجہ الجھنا تو الگ رہا صدیوں کی اس عادت اور پشتہا پشت کی اس خصلت کو چھوڑ کر اب اس قدرخاکسار ومسکین ہوگئے ہیں کہ ہاتھ پیر کی زیادتیوں اور بات چیت کی سختیوں کا ذکر نہیں، ان کی رفتار تک ان کی فروتنی وحلم پر گواہی دے رہی ہے؟ اور ازخود تو اب کسی سے کیا چھیڑ کریں گے۔ جب دوسر ے اپنی نادانی وسفاہت سے اپنی شرارت وخباثت سے انھیں چھیڑتے ہیں،ان کی دل آزاری کے لئے ان پر اعتراضات کرتے ہیں،تو اس کے معاوضہ میں بھی ان کی جبین تحمل پر شکن نہیں پڑنے پاتی،بلکہ حلم وآشتی صلح و نرمی کے لہجہ میں ان سے اپنی سلامتی چاہتے، یا ان کے حق میں سلامتی کی دعا کرتے گذر جاتے ہیں!

{وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا} [الفرقان: 63]

ابھی کل کی بات ہے کہ ساری ساری رات، شراب خواری، ناچ رنگ اور بے حیائی کے دوسرے مشغلوں میں کاٹ کر صبح کر دیتے تھے، پر آج وہی خدائے رحمن کے بندے ہیں،

{وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا } [الفرقان: 64]

جویہی نہیں کہ اپنے ان گندے مشغلوں سے یکسر تائب ہو چکے ہیں، بلکہ اب ان کی پوری راتیں نماز و عبادت کی، دعا وقرآن خوانی کی اور تہجد کے سجود وقیام نذر ہونے لگی ہیں ، اب وہ  عذاب الہی سے خائف اور جہنم سے ڈرنے لگے ہیں ، بلا تحاشہ نہ مال کو فضول بہاتے ہیں اور نہ ہی  اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتے  ہیں  ، اب صرف ایک اللہ کی پرستش  انکی عبادت کا مرکز ہے قتل وقتال سے اجتناب  زنا سے دوری ہوگئی ،  اب تک ان کی زندگیاں جھوٹ  مکر وفریب لہو لعب فسق فجور میں گذررہی تھیں آج وہی جھوٹی شہادت اور لغو باتوں سے دور بہت دور ہوگئے۔  الغرض  قبل بعثت عرب کے  دینی  اخلاقی سماجی  احوال کو پڑھئے   پھر ان آیتوں کو پڑھ کر  انکے اندر  ہونے والی تبدیلیوں کا  جائزہ لیجئے ، ایسا لگے گا کایہ پلٹ گئ ،  دل بد ل گئے مردہ سماج زندہ ہوگیا  ۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  معاشرہ  میں اجتماعیت اور باہمی اخوت کو باقی رکھنے کے  لئےرسولُ اللَّه ﷺ نے:

لا تَحاسدُوا، وَلا تناجشُوا، وَلا تَباغَضُوا، وَلا تَدابرُوا، وَلا يبِعْ بعْضُكُمْ عَلَى بيْعِ بعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللَّه إِخْوانًا، المُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِم: لا يَظلِمُه، وَلا يَحْقِرُهُ، وَلا يَخْذُلُهُ، التَّقْوَى هَاهُنا ويُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلاثَ مرَّاتٍ بِحسْبِ امرئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِر أَخاهُ المُسْلِمَ، كُلّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حرامٌ: دمُهُ، ومالُهُ، وعِرْضُهُ” رواه مسلم” (2564)

 کا درس دیا ، آپس میں  الفت ومحبت  کو قائم کرنے کے لئے رسول الله ﷺ: مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى” (رواہ مسلم: 2586) کا حکم دیا ،  آپ نے فرمایا اس قدر مظبوط ربط باہم رہو  کہ:

 المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضًا، وشبك بين أصابعه.(بخاری:2446)

  آپس میں مسلمان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ، جب آپ نے مواخات کی یہ فضا قائم کی تو رب کریم نے قرآن میں سراہا آیت کریمہ نازل ہوئی :

{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ } [الفتح: 29]

آپ کی پوری سماجی زندگی اپنے اصحاب  کے ساتھ الفت ومحبت، رحم وکرم  ،اخوت و بھائی چارہ سے عبارت  تھی ، آپ قائد ہیں مگر کوئی شان امتیازی نہیں ، ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، مل جل کر کھانا پینا ، فتوحات ہورہی ہیں ، مال و متاع کی ریل پیل ہے مگر وہی چٹائی اور ٹاٹ کا اوڑھنا بچھونا ہے ، کبھی کھجور پانی پر گذر تو کبھی وہ بھی میسر نہیں ، کیا کسی قائد کی زندگی  میں یہ مثالیں مل سکتی ہیں ؟ کیا کسی نے اس قدر سادہ زندگی گذاری ۔

  گھریلو معاشرتی زندگی کو دیکھئے خو د سارا کام اپنے ہاتھوں سے ہورہا ہے ، جوتے کا تسمہ کپڑے کا پیوند گھر کی صفائی  خود کے ہی کرلیتے ، مگر گھر کو محبت سے آباد رکھتے ۔بچوں پر شفقت  ومحبت کے پھول نچھاور کرتے ، بیویوں  کی دلجوئی کرتے ، دوستوں کی عزت اور ان کا پاس ولحاظ  کرتے ۔

جہاں قرآن کریم غیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے:

{ لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الممتحنة: 8]

  وہیں آپ  کی سیرت طیبہ میں بھی اس کی بڑی ترغیب ملتی ہے ، بلکہ غیروں کے ساتھ  حسن سلوک آپ کا  طرہ امتیاز ہے ، آپ کوبچپن سے ہی مشرکین عرب امین وصادق کہتے چلے آرہے تھے ،آپ کے پاس امانتیں رکھتے ، اپنے جھگڑوں میں حکم بناتے ، آپ نے بعثت کے بعد اپنے غیر مسلم رشتہ داروں  اور دوسرے ہم وطنوں سے تمام سماجی تعلقات کو برقرار رکھا ، ان سے تجارتی تعلقات باقی رکھا ، انکے یہاں آنا جانا ، آپسی میل ملاپ کسی کو کم نہیں کیا ، بعض غیر مسلم گھرانوں کو اپنے یہاں  کھانے کی دعوت دی ، طائف کے سفر میں غیر مسلم کے یہاں قیام کیا  ، کھانا کھایا ، غیر مسلم کی پناہ لی ، یہود سے  قرض لیا ۔آپ نے عمروبن امیہ الضمری  کو اپنا سفیر بناکر نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کی  سفارش کریں اور ان کی حفاظت کے لئے حکمران کو آمادہ  کریں۔

ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں:

”چالیس برس کی عمرمبارک میں رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے تعلقات شخصی اوردینی بیک وقت تھے۔اعزہ واقربا جن   میں رضاعی رشتہ داربھی شامل تھے اورخون کے قرابت داربھی ،تاجروکاروباری، عام افرادوطبقات، شیوخ واکابرحتی کہ جان ودین کے دشمنوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقاتیں اوردوسرے سماجی روابط شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی تھے۔”

  یہی نہیں بلکہ بعثت کے بعد مکہ مکرمہ آنے والے لوگوں سے بھی آپ  کے مذہبی  شخصی  انفرادی اور اجتماعی تعلقات قائم تھے ، اسی تعلق کی بنیاد پر آپ کی نبوت کا چرچا مکہ سے باہربھی ہونے لگا تھا ، شاہ حبشہ نجاشی سے بھی آپ کے  انفرادی تعلقات تھے اور اسی تعلق کی بنیاد پر آپ نے اپنے اصحاب کو وہاں ہجرت کا حکم دیا تھا  ، گرچہ آپ نے مذہبی امور میں  غیروں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ عملا ان کی مخالفت کا حکم دیا  مگر ان کے دین میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا ، اور نہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی جبر کیا ، آپ نے  نرم معاشرتی رویے اور اخلاق کریمانہ  سے ان کے دل جیتے ، ایک مر تبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحا بہٴ کرام کے سا تھ بیٹھے ہوئے تھے‘ ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ صحابہٴ کرام نے سوال کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو یہودی غیر مسلم کا جنازہ ہے، اس کے احترام کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا اِنَّ فِیْہِ لَنَفْسًا آخر وہ بھی تو انسان تھا۔ ( مشکوٰة: ۱۴۷)

آپ کے ہمسائے میں یہودی رہتے تھے اگر ان کے یہاں کوئی بچہ بھی بیمار ہوجاتا ؛ تو آپ اس کی عیادت کے لئے اس کے گھر جاتے ، بنی عریض نامی ایک  یہودی قبیلہ مدینہ میں رہتا تھا اس کی کسی بات سے خوش ہوکر آپ نے اس کے لئے کچھ سالانہ معاش مقرر فرمائی ۔آپ نے اپنی رضاعی  ماں حلیمہ سعدیہ جب مکہ آئیں تو ان کا استقبال کیا اور ماں میری ماں کہہ کر لپٹ گئے ، آپ کی رضاعی بہن  شیماء حنین میں قیدی ہوکر آئیں آپ  ان کو دیکھ کر روپڑے اور ان کا اعزاز واکرام کیا ۔ 

 یہ اور اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری برقرار رکھی اور تعلقات کبھی منقطع نہیں کیے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ رکھنا چاہیے، ممکن ہے وہ مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کے قریب ہوجائیں، شکوک وشبہات سے دل پاک ہوجائے؛ اس لیے کہ آپسی ملاقات سے بہت سی غلط فہمیاں خود بخود ور ہوجاتی ہیں۔ اسلام کے پھیلنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کا بڑا دخل ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ نہ کرتے تو بیچ میں نفرت کی دیوار حائل ہوجاتی اور اسلام کی تعلیمات انھیں سمجھنے کا موقع نہ ملتا۔

ہندوستان میں مسلم اقلیتیوں کو چاہئے اپنے سماجی  ربط وتعلقات کو غیروں کے ساتھ مضبوط کریں ،اس  کا بڑا فقدان ہے ، دونوں طرف ایک عجیب دوری قائم ہوتی جارہی ہے ، ایک بستی میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے سماجی امور میں شرکت نہ کے درجے میں  ہے بلکہ مسلم کمیونٹی اور غیر مسلم کمیونٹی میں ہم نے ایک  دیوار قائم کرلی ہے، اگر ان کے سا تھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے اور انہیں اسلام کا عادلانہ نظام بتایا جائے ، اس کی خوبیوں سے باخبر کیا جائے ، اور اپنے عمل واخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے ، ان کے ساتھ تعاون کی مختلف شکلوں کو روا رکھا جائے  تو عجب نہیں کہ  اسلام کا گراف  سرزمین ہند میں بڑی تیزی سے بڑھے ، اور بڑھتی نفرت کی دیوار خود بخود گرجائے۔

خاتمه : اس مقالے کا  تتمہ  حضرت قاری طیب صاحب کی تحریر کے ایک اقتباس  پر کرنا مناسب ہوگا جس میں انہوں  نے  سیرت  کی جامعیت  اور عالمگیریت  کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے  فرماتے ہیں”پس اس جامع سیرت میں جہاں گلیم پوشی ہے ، وہیں  عالمی حکمرانی بھی ہے ، جہاں شاہی ہے وہیں رویشی بھی ہے ، جہاں ” أنا النبی لا کذب کا نعرہ جلال ہے وہیں ” لا تقولوا أنا خیر من یونس بن متی ” کا نعرہ جمال بھی ہے ، وہاں  جس طرح ایک ہاتھ میں خدا کی روشن کتاب ہے  وہیں درسرے ہاتھ میں اعلاء کلمۃ اللہ کی چمکتی ہوئی تلوار بھی ہے  ، وہاں جس طرح بغض فی اللہ کے تحت اللہ اکبر کا رجز ہے  وہیں حب فی اللہ کے تحت مکہ کو أنت أحب البلاد إلی اللہ کا خطاب بھی ہے ، وہاں جس طرح خانگی زندگی میں ” کلمینی یا حمیرا کلمی کے محبت آمیز مخاطبات ہیں وہیں بین الاقوامی زندگی میں سلاطین عالم کو فرامین نبوت کے ذریعہ خطاب بھی کیا جارہا ہے ، غرض أنا الضحوک أنا القتال کے نعرے بیک وقت جمع ہیں  اور شدت ورحمت ساتھ ساتھ چل رہی ہیں  اللہ کی طرف سے اپنے نبی کو یہ بھی حکم ہے “فبما رحمة من الله لنت لهم”  اور یہ بھی امر ہے کہ“جاهد الکفار والمنافقین واغلظ علیهم” نہ شدت  میں رحمت مانع ہے نہ رحمت میں شدت  نہ جہاد میں مجاہدہ نفس خارج ہے نہ مجاہدہ میں جہاد  قاہرانہ اور مشفقانہ دونوں شانیں جمع ہیں  یہ بھی ارشاد ہے کہ” أنا سید ولد آدم” اور سچا ارشاد ہے  اور یہ بھی ارشاد ہے کہ” اللہم أحیني مسکینا وأمتني مسکینا “ اور بجا ارشاد ہے ،  جلو میں عبد الرحمن بن عوف ، جابر بن عبد اللہ عثمان بن عفان جیسے اغنیاء صحابہ بھی  اور ابوذر غفاری ، مقداد ، عماربن یاسر اور ابوہریرہ جیسے فقراء صحابہ بھی ہیں حضرت عمر اور خالد جیسے تلوار کے دھنی اور شجاعان عرب بھی قدموں سے لگے ہوئے ہیں  اور زید بن ثابت ، حسان بن ثابت جیسے قلم کے دھنی بھی وابستہ دامن ہیں اور سب کے ساتھ صدیق اکبر جیسے جامع صفات صحابی بھی ، جو ایک امت واحدہ ہیں تابع فرمان ہیں اور ان سب پر رحمت نبوت کی کرنیں یکسانی کے ساتھ پڑ رہی ہیں  لیکن نہ اغنیاء کو فقیر ہوجانے کی ہدایت ہے نہ فقراء کو اغنیاء بن جانے کا  امر ہے ، نہ ارباب سیف کو  قلم سنبھالنے کی ہدایت ہے ، اور نہ ارباب قلم کو  تلوار پر مجبور کیا جارہا ہے  بلکہ سب طبقے اپنے اپنے حال میں مست رہ کر  انہی متفاوت احوال سے بارگاہ حق میں واصل ہورہے ہیں ۔

ع   یوں بہم کس نے کئے ساغر وسنداں دونوں

اسی جامع سیرت پر آپ نے اپنی امت کو تربیت دی اور یہی جامعیت واعتدال امت سے ہمہ وقت مطلوب بھی ہے  جو اس سیرت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا  ، اس سیرت سے اس وقت کی مضطرب دنیا کو امن وچین ملاتھا  ، اسی سیرت سے آج کی دنیا  کو بھی راہ دکھانے کا راستہ مطلوب ہے”

آج  ملک ہندوستان  ہی نہیں بلکہ پورا  عالم  کراہ رہا ہے اور شدت سے متلاشی ہے کہ کوئی شخصیت اٹھے  جو اسے حیات آفریں پیغام دے ،مئے توحید اور جام احمد پلاکر  اسے ہوش میں لائے ۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

ذیل میں مسلم اقلیت اور بالخصوص ہندی  مسلمانوں کے لئے ڈاکٹر مظہر یسین کی کتاب ” مکی اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل ” کی روشنی میں چند نکاتی لائحہ عمل پیش کیا جاتا  ۔

 1 – مسلم اقلیت میں اجتماعیت اورشعور مدنیت کافعال ہوناناگزیرہے۔

2 – مسلم اقلیت کوانفرادی کردارکی بجائے اجتماعی تعمیرکے لیے کوشش کرنی چاہئے۔

3 – غیرمسلم ممالک میں دین اسلام کی دعوت وتبلیغ   کے لیے قابل قبول اورمؤثرلائحہ عمل مرتب کرناچاہئے۔

4 – مقامی مراکزتعلیم وتربیت اورمقامات اشاعت وتبلیغ   کے قیام کو يقینی  بنانا چاہئے۔

5 – جن  علاقوں میں مسلم اقلیتوں کے جان ومال اوردین کی حفاظت ممکن نہ ہوانہیں چاہئے کہ وہ دوسری مسلم اقلیت یاکسی دوسرے محفوظ علاقے میں منتقل ہوجائیں۔

6 – مسلم اقلیت کوا پنے دستورملکی، نظام حمایت اورانصرام تحفظ سے پوری طرح استفادہ کرناچاہئے۔

7 – مسلم اقلیتوں کوچاہئے کہ وہ اپنے آپ کوعصرحاضرکے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیارركہیں اورجدیدعصری تعلیم سے آراستہ کریں۔

8 – غیرمسلموں کے اسلام پراعتراضات کے جواب دینے کے لیے مسلم اقلیتوں کو مختلف مقامی زبانوں میں مہارت حاصل کرنی چاہئے   اور ذرائع ابلاغ شوشل میڈیا کو بھر پور استعمال  کرنا چاہئے تاکہ ان کوتشفی بخش جواب دیے جاسکیں۔

9 – مسلم اقلیتوں کی تعلیمی برتری، دینی فوقیت اورسماجی اجتماعیت کے ساتھ ساتھ اقتصادی اورمعاشی استحکام بھی ضروری ہےبلکہ یہ ان کادینی فریضہ ہے۔

10 – مسلم اقلیتوں کے چاہئے کہ وہ اپنی اپنی اکثریتوں سے سماجی روابط بحال رکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کے لیے کوشش کرنی چاہئے اوردین سے مضبوط وابستگی اوراللہ تعالیٰ سے تعلق کوقائم رکھناچا ہئے۔

11 – مسلم اقلیتوں کے لیے اسوہ نبوی صلى الله عليه وسلم یہی ہے کہ وہ اپنی تہذیبی وملی اوردینی شناخت کوبہرحال قائم رکھیں.کیونکہ یہی ہے جہان ابلیسی میں ان کی شان جبرائیلی۔

عصرحاضرکی مسلم اقلیتوں کے لیے مندرجہ بالاپیش کردہ لائحہ عمل بہت عمدہ اورقابل عمل ہےاورغیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے مسائل کے حل میں بہت اہم وکار آمدثابت ہوسکتاہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply