hamare masayel

سیف شاپ (safe shop) کمپنی کا حکم

(سلسلہ نمبر: 787)

سیف شاپ (safe shop) کمپنی کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

کہ ایک کمپنی ھے جسکا نام سیف شاپ ( safeshopindia.com  Safe Shop)  ہے، یہ آن لائن مارکیٹنگ کرتی ھے، دہلی میں اسکا ہیڈکواٹر ہے، یہاں سے پورے ملک بھر میں کام کرتی ھے، آن لائن پوری زندگی میں ایک بار بارہ سے پندرہ ہزار روپئے کا سامان خریدا جاتا ہے، سامان تو کسی بھی دوکان سے خریدا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ کمپنی بزنس کرنے کیلے موقع دیتی ہے جس میں دو ممبر بنانا ہوتا ہے،  ان دونوں ممبر سے پانچ، پانچ سو روپیہ ملتا ہے پھر وہ لوگ بھی دو ممبر بناتے ہیں’ پھر ان کو بھی اسی طریقے سے روپیہ ملتا ہے اس طریقے سے ممبر بنانے کیلئے ہمیں ان کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے، اس طرح سے چار پانچ سال تک محنت کرنی ہوتی ہے ممبر بنانے کیلئے، اس طرح چار پانچ سال محنت کرکے دس ہزار ممبر بنانے پر ایک ڈائمنڈ بنتے ہیں، پھر ان کو رٹائرڈ کردیا جاتا ہے، اب انکو ممبر سازی کے پیسے نہیں ملیں گے اس طریقے ہفتہ واری روالٹی انکم ان تک پہنچ جاتی ھے ہفتہ میں پورے دو لاکھ کم سے کم روپیہ ہوتا ہے اپنے نیچے والے کو گائڈ کرنا ہوتا ھے۔

براۓ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں مکمل جواب تحریر فرمائیں۔

نوٹ: یہ کمپنی 2001 سے کام کررہی ہے، ڈائمنڈ بننے کے بعد پوری زندگی روالٹی انکم ملتی رہے گی بشرطیکہ دس ہزار ممبر کام کرتے رھیں۔

المستفتی: محمد مہتاب عالم چمپارن۔

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: مذکورہ کمپنی گرچہ حکومت ہند سے منظور شدہ ہے لیکن کمپنی کا جو طریقہ کار ہے کہ ممبر بننے کیلیے کمپنی ہی کا سامان خریدنا ضروری ہے اس کو شریعت کی اصطلاح میں بیع بالشرط کہتے ہیں جس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، اسی طرح بارہ سے پندرہ ہزار روپئے لگاکر ابتدا کرنا پھر اس سے آگے فائدہ ملے گا کہ نہیں یہ معلوم نہیں ہے کیونکہ دس ہزار ممبر بنانا اور سب کا مارکیٹ میں کام کرنا یقینی نہیں ہے یہ قمار اور جوا کی شکل ہے یہ بھی شریعت میں ناجائز ہے، نیز یہ نٹورک مارکیٹنگ کی شکل ہے جس میں شرعاً بہت سی قباحتیں (جھوٹ، غرر، دھوکہ دہی اور غیر متعلقہ شرطیں) ہیں اس لیے اس کمپنی کا ممبر بن کر اس سے فائدہ حاصل کرنا درست نہیں ہے۔ (مستفاد فتوی دار العلوم دیوبند)

الدلائل

قال اللہ تعالی: ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل (البقرۃ: 188).

عن عمروبن شعیب عن أبیه عن جده أن النبی صلی اللہ علیه وسلم نھی عن بیع وشرط۔ (المعجم الأوسط للطبرانی ، رقم الحدیث: ٤٣٥٨).

وعن أبی ھریرۃ رضي اللہ عنه قال: نھی رسول اللہ صلّی اللہ علیه وسلم عن بیع الحصاۃ وعن بیع الغرر ۔(سنن النسائي ،رقم الحدیث: ٤٥١٨).

إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی. (رد المحتار: ٦١/٤).

ولوکان البیع بشرط لا یقتضیه العقد وفیه نفع لأحد المتعاقدین أی البائع والمشتری أولمبیع یستحق النفع ۔۔۔۔۔۔فیکون ربا، وکل عقد شرط فیه الرباط یکون فاسدا۔ (مجمع الأنھر ٩٠/٣).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

1- 3- 1445ھ 17-9- 2023م السبت

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply