(سلسلہ نمبر: 807)
غیر ذمہ دار شوہر سے طلاق اور بچی کی پرورش کا حق
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں:
میں نے اپنی بیٹی کا نکاح 18؍نومبر 2018ءکو مسمی سبحان الٰہی ولد دلشاد الٰہی صاحب ساکن لکھنؤ کے ساتھ کیا تھا۔ ابتداء سے ہی سبحان الٰہی کی بعض عادات کے سبب میری بیٹی کافی دقت و پریشانی میں رہی۔ سبحان الٰہی کی ان عادتوں پر ان کے والدین بھی کسی قسم کی روک ٹوک سے قاصر اور پریشان رہتے تھے۔ ان تمام مسائل کے سبب میں اپنی بیٹی کی خانگی ضروریات کی تکمیل میں بھی حسب موقع وسہولت تعاون کرتا رہا؛ لیکن سبحان الٰہی اپنی حرکات وعادات سے باز نہیں آئے اور میری بیٹی کے ساتھ ان کے معاملات اچھے نہیں رہے۔ اسی دوران ستمبر 2021ء میں اس کی ایک بیٹی بھی تولد ہوئی لیکن سبحان الٰہی وان کے والدین وبھائی وغیرہ کے برتاؤ اور طرز میں کسی قسم کا فرق نہیں آیا جس کے سبب میری بیٹی جون 2022ءمیں اپنے مائیکے چلی آئی اور اس نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور وہ اب اسکے ساتھ رہنے کو رضا مند نہیں ہے۔ بوقت شادی میں نے جو سامان جہیز وغیرہ کی شکل میں دیا تھا وہ بھی اب مجھے واپس مل چکا ہے۔ سبحان الٰہی میری بیٹی کو اب بھی اپنے ساتھ رکھنے کی بات کر رہے ہیں لیکن بیٹی کسی بھی صورت میں شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورت حال میں برائے مہربانی شرع شریف کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(۱) شوہر و بیوی کی درمیان علیحدگی کی کیا شکل ہوگی؟
(۲) میری بیٹی کی بیٹی یعنی میری نواسی کی پرورش کی ذمہ داری علیحدگی کی صورت میں کس کی ہوگی؟ بچی کی پرورش کے اخراجات کی ادائیگی کب تک ضروری ہوگی۔
(۳) بچی کے والد کیا علیحدگی کے بعد بھی اس سے ملاقات کر سکیں گے اور کس طرح؟ بینوا توجروا
المستفتی: شہزاد وارث وارثی، اٹاوہ
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں زوجین کے اولیاء کو بیچ میں پڑ کر معاملہ کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے، اگر کسی طرح ساتھ رہنے کی شکل پیدا نہ ہو تو بیوی شوہر سے طلاق لے لے، اور اگر خود طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو خلع لے لے، اگر اس ہر تیار نہ ہو تو بیوی کو چاہیئے کہ وہ اپنے قریب کسی شرعی پنچایت میں اپنی پوری صورت حال لکھ کر درخواست کرے کہ آپ لوگ شوہر سے مجھے طلاق دلوائیں، طلاق پر اگر راضی نہ ہو تو خلع کرائیں، اور اگر خلع پر بھی راضی نہ ہو تو شرعی پنچایت نکاح فسخ کرسکتی ہے.
2/ اور رہا بچی کی پرورش کا حق نو سال تک ماں کو حاصل ہے، بشرطیکہ وہ دوسری جگہ بچی کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے، اگر اس نے بچی کے غیر محرم سے شادی کرلیتی ہے تو حق پرورش ساقط ہوجائے گا، اس دوران بچی کی پرورش کا خرچہ باپ کے ذمہ ہوگا.
پرورش کے دوران باپ اپنی بچی سے جب چاہے مل سکتا ہے، اس کو اپنی بچی سے ملنے سے روکنا شرعاً درست نہیں ہے۔
الدلائل
ولا بأس به عند الحاجة للشاق بعدم الوفاق بما يصلح للمهر ( شامي 5/87 زكريا ).
وَأَمَّا سَبَبُهُ فَالْحَاجَةُ إلَى الْخَلَاصِ عِنْدَ تَبَايُنِ الْأَخْلَاقِ وَعُرُوضِ الْبَغْضَاءِ الْمُوجِبَةِ عَدَمَ إقَامَةِ حُدُودِ اللَّهِ تَعَالَى وَشَرْعِهِ رَحْمَةً مِنْهُ ( البحر الرائق (3/ 253).
“(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب.” (الهداية: 2/ 436).
“أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي … وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة … والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد – رحمه الله تعالى-: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين… وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا”. (الفتاوى الهندية: 1/ 541).
و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة. (الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر).
والله أعلم . حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
25- 6- 1445ھ 8-1- 2024م الاثنین
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.