(سلسلہ نمبر: 747)
ضرورت سے زائد زمین کا بیچ کر حج کرنا
سوال: فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ میں:
ایک خاتون کے پاس دیڑھ بیگھا کھیت ہے جس کی قیمت تقریباً دس سے بارہ لاکھ تک ہو سکتی ہے اور اس کی پیداوار سے گھر کا خرچ چلتا ہے نقد پیسے ان کے پاس نہیں ہیں، شوہر کے پاس بھی کوئی جائیداد نہیں ہے؛ البتہ بیٹے کماتے ہیں اور حسب استطاعت ان کا خرچ برداشت کرتے ہیں، کیا ایسی صورت میں وہ کھیت بیچ کر انھیں حج کرنا ضروری ہے؟
کیا اس بنا پر ان کا کھیت ضرورت اصلیہ سے زائد سمجھا جائے گا کہ ان کے خرچے کی ذمہ داری ان کے شوہر اور بیٹوں پر ہے؟
المستفتی محمد اسحاق حلیمی۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں چوں کہ کچھ حصہ بیچنے کے بعد بقیہ سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے؛ اس لئے کچھ حصہ بیچ کر حج کرنا ضروری ہے۔ (مستفاد: فتاوی عثمانی: 2/ 206).
الدلائل
(ومنها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة ۔۔۔۔ وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبًا وجائيًا راكبًا لا ماشيًا، وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه. كذا في محيط السرخسي۔۔الخ. (الفتاوى الهندية: 1/ 217).
إن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبًا وجائيًا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، وإلا فلا۔ (الفتاوى الهندية: 1/ 218).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
13- 10- 1444ھ 4-5- 2023م الخمیس
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.