علامہ قمر الدین گوركھپوری رحمہ اللہ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند
بقلم: مفتى محمد اجمل قاسمی، خادم تدریس مدرسہ شاہی مرادآباد۔
2003ء مطابق 1424ھ میں ہم نے دارالعلوم دیوبند سے تكمیل فضیلت كی سعادت حاصل كی، دورہٴحدیث شریف میں جن اساتذہ كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كرنے كا موقع ملا، وہ سبھی عمر كے آخری پڑاؤ میں تھے، مگر صحت تقریبا سبھی كی اچھی تھی، حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ (م: 20/ مئى 2020ء) نے ایک مرتبہ فرمایا كہ ہم آم كی پكی ہوئی فصل ہیں، كچھ نہیں معلوم كون كب شاخ سے ٹپک جائے، مگر اس وقت یہ خیال بھی نہ ہوتا كہ یہ كہكشاں اتنی جلد بكھر جائے گی، لیكن آج جب پیچھے مڑ كر دیكھتے ہیں، تو سناٹا نظر آتا ہے، كہكشاں ڈوب چكی ہے، ہاں دو تین ستارے افق پر باقی ہیں جن سے یادوں كے دریچے روشن ہیں۔
اِن سال خوردہ ضعیف العمر اساتذہ میں ذوق ومزاج ، طرز واسلوب،علمی رسائی ووسعت مطالعہ، تحقیق و تفحص كا فطری فرق موجود تھا،كسی كا طرز كلام اصولی رنگ تھا، كسی كا درس تحقیقی رنگ لیے ہوئے تھا، دلائل میں موازنہ اور مقارنہ كا سلسلہ تھا، كسی كے یہاں نقطہٴ اختلاف پر ارتكاز اور شان اجتہاد و استنباط نمایاں تھی، كسی كے یہاں اختصار و ایجاز تھا، كسی كے یہاں كم استعداد طلبہ كی رعایت كا پہلو غالب تھا، مگر ایک چیز ان سبھی حضرات میں قدرے مشترک تھی كہ وہ سبھی علم و عمل كے جامع تھے، پیرانہ سالی وضعیف العمری كے باوجود مساجد كی حاضری، نماز باجماعت، اور شب خیزی كا اہتمام نمایاں تھا، ذكر واذكار كے معمولات سے تنہائیاں آباد تھیں، صلاح وتقوی اور تدین كا غلبہ تھا، یہ باتیں اُس وقت ہمارے لیے زیادہ لائق التفات نہیں تھیں، خیال تھا كہ جو شیخ ہو،عالم دین ہو، موقر ادارے كا استاذ ہو اسے تو ایسا ہونا ہی چاہیے؛لیكن تدریسی میدان میں پندرہ سولہ سال كی مدت گذارنے كے بعد آج جب اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں تو سعدی شیرازی كا زباں زد خاص وعام یہ شعر بے اختیار زبان پر آتاہے:
چہل سال عمر عزیزت گذشت
مزاج توازحال طفلی نہ گشت
(كہ عمر عزیز كے چالیس سال گزار لینے كے بعد بھی تمہارے اندرسے بچپنا نہیں گیا) وہی غفلت ہے، وہی كوتاہی ہے،وہی بے ڈھب زندگی ہے،عمر عزیز كا سبک سیر مسافر ہنوز بے سمتی كا شكار ہے، آج جب اپنے حالات پر نظر ڈالتے ہیں توان مشائخ اور اساتذہ كرام كے تدین اور صلاح وتقوی كی قدر معلوم ہوتی ہے جوہمارے لیے لمحہٴ فكریہ بھی ہے اور تازیانہٴ عبرت بھی۔
اساتذہ كی نیكی كا ذكر چھڑا تو زمانہ طالب علم كا ایک قصہ بھی یاد آگیا، ہم گھر سے چھٹی گذار كر دیوبند جارہے تھے، ٹرین پر سوار ہوئے تو دیكھا كہ سامنے كی سیٹ پر ہمارے ایک استاذ محترم تشریف فرما ہیں، غالبا یہ گھر سے دیوبند كا دوسرا ہی سفر تھا، سفر جاری رہا اوروقت پر نمازیں بھی ہوتی رہیں، رات كو ہم سبھی لوگ سوگئے، كچھ وقت سولینے كے بعد میری نیندكھلی، تو دیكھا استاذ محترم مصلی بچھا رہے ہیں، میں بھی نماز كے لیے اٹھنے لگا، توانہوں اشارے سے لیٹے رہنے كو كہا اور فرمایا ابھی فجر كا وقت نہیں ہوا، رات كا سناٹا، ٹرین تیزرفتاری سے منزل كی سمت محو خرام، مسافر گہری نیند كی آغوش میں، آمد ورفت تقریباً موقوف، حضرت نے باطمینان نماز تہجد ادا كی، مصلے پر تسبیحات میں مشغول رہے، پھر نماز فجر پڑھی اور ہم سے كہا كہ اب نماز پڑھ لو، سفر میں شب خیزی كا یہ اہتمام ، اور چلتی ٹرین میں رات كے پچھلے پہر تہجد كی یہ پرسكون ركعتیں دل میں ایک خوشگوار یاد كی طرح محفوظ ہیں، كوئی وعظ و تقریر دل میں كیا اتنی اثرانداز ہوگی جنتا اس واقعہ نے متاثر كیا، كہنے والے نے سچ كہاہے:
تقریر سے ممكن ہے نہ تحریر سے ممكن
وہ بات جوانسان كا كردار كرے ہے
پچھلے دنوں اسی مبارک كہكشاں كا ایک ستارہ اور غروب ہوا، 19 جمادی الاخری1446 مطابق22 دسمبر2024 ہمارے عظیم المرتب استاذ، دارالعلوم دیوبند كے شیخ ثانی، صالحین كی یاد گار حضرت مولانا علامہ قمرالدین گوركھپوری اس دارفانی سے دار بقا كی طرف رحلت فرماگئے، حضرت مولانا كا شمار دارالعلوم دیوبند كے قدیم اساتذہ میں ہوتاتھا، آپ كو یہ امتیاز بھی حاصل تھا كہ آپ كو شیخ الہند رحمہ اللہ كے تین جلیل القدر تلامذہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی ، (م: 1957ء)حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی، (م: 1967ء) حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی (م: 1972ء) رحمہم اللہ سے شرف تلمذ حاصل تھا، حضرت درس میں ضروری گفتگو فرماتے، نہ زیادہ تطویل ہوتی اورنہ ہی زیادہ اختصار، اُس وقت حضرت سے دورہ حدیث میں صحیح مسلم اور سنن نسائی متعلق تھی، تكمیل تفسیر میں تفسیر ابن كثیر بھی پڑھاتے تھے، صحیح مسلم میں آپ كا درس شرح نووی علی مسلم وفتح الملہم كے مباحث كا خلاصہ ہوتاتھا، اكابر علماء دیوبند كے اقوال و تشریحات كو بھی اہمیت اور اہتمام سے نقل فرماتے تھے، نسائی میں بھی عموما حواشی كا خلاصہ مختصر انداز میں پیش كردیتے تھے، تفسیر ابن كثیر پڑھنے كی نوبت نہیں آئی، جو طلبہ مستفید ہوئے وہ آپ كے درس كی تعریف كرتے تھے۔
ادھر حضرت مولانا عبدالحق اعظمی رحمہ اللہ سابق شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند (1928ء – 30 دسمبر 2016ء) كے انتقال كے بعد سے صحیح بخاری كی جلد ثانی بھی آپ سے متعلق ہوگئی تھی، جب علالت وضعف زیادہ بڑھ گیا تو جلد ثانی كے چند پارے ہی آپ سے متعلق رہ گئے، درس بخاری میں شركت كا موقع ہمیں تو نہ مل سكا كہ اس كے بارے میں كچھ عرض كیا جائے،البتہ بالكل آخری زمانہ كی درس بخاری كی ایک ویڈیو سننے كا موقع ملا، حضرت نے اس درس میں خاصی مفصل گفتگو كی ہے، اور بے تكلف علماء اور شراح كے اقوال نقل فرمائے ہیں، كبر سنی كے اس مرحلے میں جب كہ ضعف و اضمحلال اپنی آخری انتہا كو پہنچا ہوا تھا زبان و حافظے كی یہ توانی باعث حیرت بھی معلوم ہوئی اورقابل رشک بھی، زبان و حافظے كی اس توانا ئی كو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم كے مبارک ارشادات سے اشتغال كی بركت ہی كہا جاسكتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے:
نَضَّر اللہُ امْرَءًا سَمِع مِنّا شَیْئًا ، فَبَلَّغَہ كَمَا سَمِعَہ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أوْعَی لَہ مِنْ سَامِعٍ [1]
(اللہ تعالی اس شخص كوتر وتازہ ركھے، جس نے ہم سے كچھ سنا،پھر جیسا سنا تھا ویسا ہی اس كو پہنچایا، اس لیے كہ جن لوگوں كو بات پہنچائی جاتی ہے ان میں بہت سے لوگ (اپنے سے پہلے ) سننے والے سے زیادہ اس كو سمجھنے اور محفوظ كرنے والے ہوتے ہیں)
چنانچہ دیكھا گیاہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی احادیث سے اشتغال ركھنے والے لوگو ں كے دل ودماغ آخرتک عموما تروتازہ ہی رہتے ہیں۔
حضرت علامہ كی شخصیت كے كچھ پہلو ہیں جنہوں نے راقم الحروف بطور خاص اپنی طرف متوجہ كیا ہے، اور بلاشبہ ان باتوں كو آپ كی اہم خصوصیات قرار دیا جاسكتا ہے:
(1) آپ كو صلحاء، اتقیاء، اہل اللہ بالخصوص اكابر دیوبند سے حددرجہ محبت اور عقیدت تھی، اورآپ كے حافظے میں ان كے حالات و واقعات اور ارشادات و ملفوظات كا بڑا ذخیرہ موجود تھا، چنانچہ آپ كی گفتگو ،آپ كی مجالس، آپ كے وعظ، اور آپ كے دروس اہل اللہ اور خاصان بارگاہ الہی كے تذكروں سے معطر رہا كرتے تھے، كوئی موضوع ہو، كوئی موقع ہو آپ كو برمحل اور برموقع اكابر كے واقعات وارشادات یاد آجاتے تھے،اوران كو سنا كر آپ خود بھی محظوظ ہوتے اور دوسروں كو بھی محظوظ فرماتے، ان واقعات و ارشادات كے ذریعہ آپ طلبہ، حاضرین و سامعین میں ورع وتقوی اور تعلق مع اللہ كی شمعیں روشن كرتے،اور انہیں اكابر كی طرح رسوخ فی العلم اور عزیمت واستقامت اختیار كرنے كی دعوت دیتے۔
آپ كا یہی ذوق ومزاج تھا جوآپ كو اہل اللہ كے آستانوں تک لے گیا، آپ كے رشتے بزرگوں سے ہمیشہ استوار رہے، آپ اہل اللہ كے محب بھی تھے اور محبوب بھی، آپ كو اپنے جلیل القدر استاذ جامع منقول و معقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی سے گہری عقیدت ومحبت تھی؛ بلكہ كہنا چاہیے كہ آپ فنا فی الاستاذ تھے، چنانچہ ہر چھوٹی بڑی چیز میں حضرت علامہ كا قول پیش فرماتے، بلكہ وہ اپنے مدعا كو علامہ كے اقوال و ملفوظات ہی كے ذریعہ پیش كرنے كے عادی سے ہوگئے تھے، گویا كہ ان كا مدعا ”گفتہ آيد از حدیث دیگراں” نہ سہی “از حدیث علامہ” تو ہوتا ہی تھا۔ ویسے تو آپ علم وفضل میں ایک مقام ركھتے تھے، مگر خیال ہوتاہے كہ شاید ‘‘علامہ’’ كا سابقہ آپ كے نام كے ساتھ اس لیے جڑا كہ آپ كی گفتگو میں حضرت علامہ بلیاوی اور ان كے واقعات و ملفوظات كا ذكر بہت كثرت سے ہوتا تھا، چنانچہ لفظ “علامہ” کی کثرت تکرار کی وجہ سے خود بھی اسی لقب سے یاد كیے جانے لگے۔
بزرگوں سے یہی عقیدت ومحبت تھی جو آپ كو فراغت كے بعد مصلح امت حضرت مولانا وصی اللہ الہ آبادی رحمہ اللہ كے آستانے تک لےگئی اورآپ ان كے حلقہ تربیت سے وابستہ ہوئے، اوران كی وفات كے بعد پھر آپ حضرت مولانا ابرارالحق حقی ہردوئی رحمہ اللہ (پ: 1339ھ مطابق 20 دسمبر 1920ء –م: 1426ھ مطابق 17 مئی 2005ء) سے وابستہ ہوگئے، حضرت ہردوئی آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے اور بڑی شفقت اوردل داری معاملہ ركھتے، آپ كو حضرت ہردوئی اور بعض دیگر مشایخ طریقت سے اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی، آپ كی صورت شكل، اور رفتار و گفتار سے آپ كا خانقاہی ذوق جھلكتا تھا، چہرے بشرے سے صالحیت اور تقوی كا اثر نمایاں محسوس ہوتاتھا۔
آپ طلبہ كو اساتذہ اوراہل اللہ كی خدمت وصحبت كی تاكید بھی فرماتے تھے، كہتے تھے كہ میں نے حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ كی خدمت كی ہے اورمجھے ان كے خادم ہونے پر فخر ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے كہ شاگردی اختیار كرنے سے استاذ كا علم ملتا ہے اور خدمت سے استاذ كی جانشینی ملتی ہے، فرماتے كہ حضرت شیخ الہند سے علم بہتوں نے حاصل كیا، لیكن جانشینی حضرت مدنی كے حصے میں آئی، اس لیے كہ انہوں نے استاذ كی زبردست خدمت كی تھی، خود اپنی بھی مثال دیتے كہ میں نے حضرت علامہ بلیا وی كی خدمت كی حضرت دارالعلوم میں مسلم شریف پڑھایا كرتے تھے، میں بھی آج مسلم شریف پڑھا رہا ہوں۔
(2) آپ كے اندر طلبہ كی روک ٹوک اور تربیت كا جذبہ موجزن تھا، چنانچہ آپ اپنے مخصوص انداز میں طلبہ كی بے اعتدالیوں پر روک ٹوک كرتے رہتے تھے، دارالعلوم میں ہمارا زیادہ تر قیام احاطہ مسجد قدیم میں ہی رہا اور اكثر نمازیں اسی میں ادا ہوتی تھیں، حضرت بھی عموماً نماز اسی مسجد میں ادا فرماتے تھے، نماز كے بعد آپ گاہے گاہے طلبہ كو نماز وغیرہ سے متعلق ان كی لاپروائیوں اور بے اعتدالیوں پر تنبیہ فرمایا كرتے ، بہت سے طلبہ نماز میں اپنے كپڑے اور داڑھی وغیرہ سے كھیلنے لگتے ہیں، بعض ایک ہی پاؤں پر زور دے كر كھڑے ہوتے ہیں، بعضوں كو سنتوں كی ادائیگی اور دعا وغیرہ كا زیادہ اہتمام نہیں رہتا، حضرت اكثر اس طرح كی باتوں پر نكیر فرماتے، اور خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے كی تاكید كرتے، اپنی بات كی تائید میں احادیث اور فقہی كتابوں كے حوالے بھی پیش فرماتے۔ اسی طرح ایک كوتاہی جو تقریبا ہر جگہ پائی جاتی ہے وہ یہ كہ بہت سے لوگ فجر كی جماعت شروع ہونے كے بعد بھی صفوں میں یا صفوں سے متصل سنت پڑھنے لگتے ہیں،جب كہ جماعت شروع ہوجانے كے بعد صفوں كے درمیان یا ان سے متصل سنت پڑھنا سخت مكروہ ہے، حضرت نے بارہا اس پر تنبیہ فرمائی، اسباق میں بھی آپ موقع بموقع سنتوں كے اہتمام اور ترک معصیت وغیرہ كی تاكید كرتے رہتے تھے۔ اس وقت كے اساتذہ میں حضر ت اپنی اس خصوصیت میں ممتاز تھے۔
(3) تیسری چیز جس نے راقم الحروف كو متاثر كیا وہ حضرت كے اوصا ف جمیلہ تھے ،آپ كی طبیعت میں بے انتہا سادگی تھی، ہرطرح كے تكلف سے بری تھے، نرم خو، نرم مزاج، اور نہایت سہل الحصول تھے، ظاہر كے صاف اور باطن كے پاک تھے، عداوت ودشمنی اور نفرت وحسد جیسے اخلاق ذمیمہ سے دور ونفور تھے، انہوں نے دارالعلوم دیوبند كے انتظامی اختلاف كا وہ زمانہ بھی دیكھا جس میں اپنے كو بچانا اور الگ ركھنا نہایت مشكل تھا، مگر وہ لڑائی جھگڑے اور دھڑے بازی سے ہمیشہ كنارہ كش رہے، طلبہ كی شرارتوں اور نامناسب رویوں پر غصہ آجانا عام سی بات ہے، لیكن میں نے كبھی ان كو غصہ ہوتے ہوئے نہیں دیكھا، انتقام كا مزاج نہیں ركھتے تھے، بہت جلد راضی ہوجاتے، طلبہ كے لیے بڑے شفیق تھے، معذرت قبول كرلیتے اور عفو درگذر سے كام لیتے، طلبہ ان كی نیكی كی وجہ سے دل سے ان كا احترام كرتے، ان سے محبت ركھتے، لیكن نرم مزاجی كا فائدہ اٹھاكر شوخی پر دلیر بھی ہوجاتے۔
ہم نے ان كو ہمیشہ خوش اور مطمئن پایا، جس حال میں رہے مست و مگن رہے، حالات، احباب، اہل تعلق اور اہل زمانہ سے ان كو شاكی نہیں پایا، قدوقامت كے اچھے تھے، اللہ نے باطنی خوبیوں كے ساتھ ظاہر ی وجاہت سے بھی نوازا تھا، گفتگو اور ملاقات میں ہنستے اور مسكراتے رہتے، اور كبھی كبھی بزرگانہ مزاح بھی كرلیا كرتے تھے، سادگی نے ان میں ایک خاص طرح كی معصومیت پیدا كردی تھی، بعض مرتبہ شرم وحیا كی باتیں بھی اثناء گفتگو سادگی اوربے تكلفی سے كہہ جاتے، لیكن ان كے معصومانہ انداز كی وجہ سے وہ ذوق پر گراں ہونے كے بجائے باعث لطف ہوتی :
وہ دن، وہ محفلیں، وہ شگفتہ مزاج لوگ
موجِ زمانہ لے گئی كیا جانے كس طرف
حضرت علامہ كا ایک خاص وصف یہ بھی تھا كہ وہ ادعا، تعلی اور احساس برتری سے نا آشنا تھے، ظنز و تعریض كا ان كی گفتگو میں گذر نہ تھا، وہ كسی بات كو دل پر لینے كے عادی نہیں تھے، مجلس گئی ،بات گئی، اور پھر ایسے ہوجاتے جیسے كچھ ہوا ہی نہ ہو۔
زندگی کا سفر
حضرت علامہ قمرالدین بن حاجی بشیرالدین یوپی ضلع گوركھپور كے موضع بڑہل گنج میں 2فروری 1938ء كو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم كے حصول كے بعد آپ نے مدرسہ احیاء العلوم مباركپور اعظم گڈھ[2] میں ایک سال تعلیم حاصل كی، پھر وہاں سے معروف درسگاہ دارالعلوم مئو چلے گئے، اور وہاں سے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں آپ نے 1957ءمیں فراغت حاصل كی، اور دوسال مزید دارالعلوم میں قیام كركے مختلف علوم وفنون میں پختگی حاصل كی۔
تحصیل علم كے بعد آپ اپنے استاذ حضرت علامہ بلیاوی رحمہ اللہ كی كوشش سے مدرسہ عبدالرب دہلی[3] میں مدرس ہوگئے، وہاں كم وبیش آٹھ سال رہے، مختلف علوم و فنون كی كتابیں وہاں آپ سے متعلق رہیں، ایک مسجد میں آپ لوگوں كو درس تفسیر بھی دیا كرتے تھے، پھر حضرت علامہ كی كوششوں سے آپ دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہوگئے، دارالعلوم میں آپ كا تقرر 1966ء میں عمل میں آیا، آپ نے محنت اور دلچسپی سے كتابیں پڑھائیں، جس كی وجہ جلد ہی آپ ترقی كرگئے، اور منتہی درجات كی كتابیں آپ سے وابستہ ہوگئیں، آپ نے دارالعلوم 58 سال تدریس كی خدمت انجام دی، اس طرح درازگیٴ عمر كے ساتھ حسن عمل كی بھی سعادت آپ كے حصے میں آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا مبارک ارشاد ہے:
‘‘طُوبَی لِمَنْ طَالَ عُمُرُہُ ، وُحَسُنَ عَمَلُہ’’. [4]
اس شخص كو خوش خبری ہو جس كی عمر بھی لمبی ہوئی اورحسن عمل كی دولت بھی اسے ملی
اس طویل عرصے میں آپ سے ہزاروں طالبان نبوت نے اكتساب فیض كیا، درس وتدریس كے ساتھ آپ كے یہاں وعظ و ارشاد كا سلسلہ بھی تھا، چنانچہ آپ كے اصلاحی ،تربیتی اورعلمی اسفار بھی ہوتے رہتے تھے، تمل ناڈ كے شہر آم بور میں آپ نے كئی سال رمضان میں اعتكاف فرمایا، یہاں بڑی تعداد میں خلق خدا نے آپ سے اكتساب فیض كیا، اور بہت سے علماء نے آپ سے روحانی تربیت بھی حاصل كی،اور سلوک واحسان كے مراحل طے كركے اجازت وخلافت سے بھی سرفراز ہوئے، بعض سعادت مند متوسلین نے آپ كے ارشادات وملفوظات كو جمع كركے شائع بھی كیاہے۔
آپ ایک عرصے سے مختلف عوارض سے دوچار تھے، بالآخر وقت موعود آپہنچا، اور آپ 19 جمادی الاخری 1446ھ مطابق 22 دسمبر 2024ء كو اس جہان فانی كو الوادع كہہ گئے، احاطہ دارالعلوم میں آپ كی نماز جنازہ ادا كی گئی، اور مزار قاسمی میں مدفون ہوئے۔
آپ لا ولد تھے،چنانچہ آپ نے اپنے ایک بھیجے مولانا معراج الحق صاحب زید مجدہم كی كفالت كی، اور ان كی تعلیم وتربیت فرمائی، مولانا معراج الحق صاحب نے ایک طویل عرصے تک مدرسہ شاہی میں تدریس كی خدمت انجام دی،اور پھر گھریلو حالات اور حضرت کی علالت و معذوری كی وجہ سے مستعفی ہوگئے، مولانا موصوف اور ان كے بچے شروع سے ہی حضرت الاستاذ كے ساتھ رہے اوران كی خدمت و تیمار داری كے فرائض انجام دئے، اللہ تعالی ان حضرات كی خدمتوں كو قبول فرمائے اور حضرت الاستاذ كواپنی شایان اجروانعام سے نوازے آمین!
محمداجمل قاسمی، خادم تدریس مدرسہ شاہی مرادآباد، 21 رجب1446 ھ مطابق22 جنوری 2025ء
حوالاجات
[1] (سنن ترمذی: 2657)
[2] مدرسہ احیاء العلوم مبارکپور، ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش، ہندوستان میں ایک معروف دینی تعلیمی ادارہ ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد 1317ھ مطابق 1899ء میں مبارک پور قصبہ کے محلہ پورہ رانی میں مولانا حکیم الٰہی بخش مبارک پوری کے ہاتھوں ہوئی۔
[3] مدرسہ عبدالرب دہلی 1875ء میں مولانا عبدالرب دہلوی نے قائم کیا۔ ابتدا میں یہ جامع مسجد دہلی کے قریب تھا، بعد میں کشمیری گیٹ کی مسجد آسیہ بیگم میں منتقل ہوا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے یہاں تدریس کی، اور مولانا منظور نعمانی بھی اس کے طلبہ میں شامل رہے۔ یہ مدرسہ دہلی کے قدیم دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔
[4] (مسند احمد: 7212)


Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.