hamare masayel

مستری کا ٹھیکہ پر زیادہ کام کرنا

 (سلسلہ نمبر: 517)

مستری کا ٹھیکہ پر زیادہ کام کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ راج مستری ہو یا کسی بھی شعبے سے منسلک حضرات، روزانہ کی خدمت (کام) کرنے میں ایسی سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دیکھنے والا (مالک) اسے بہت محنتی تصور کرتے ہیں مگر اسی کو اسی کام کا ٹھیکہ (رقم مختص کرکے کام کی ذمہ داری سونپنے) پر ہفتہ دن کے کام کو کم وقتوں اور دنوں میں پورا کر لیا کرتے ہیں، کیا اس طرح سے سست روی کا مظاہرہ کرنا شرعی حیثیت سے پکڑ کا سبب نہیں بنے گا ؟ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ شریعت مطہرہ میں گنجائش ہے؟

المستفتی: محمد نفیس سیتاپوری۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: اگر کسی کو کام کرنے کے لئے اجرت پر لیا جائے تو اسے چاہئیے کہ امانت و دیانت کا مظاہرہ کرے، بلا وجہ سستی اور کاہلی کرکے کام کو بڑھانا اور زیادہ مزدوری حاصل کرنا جائز نہیں۔

عام طور پر راج مستری روزینہ کام کے لئے ایک وقت متعین رکھتے ہیں اسی کے حساب سے کام شروع اور ختم کرتے ہیں، لیکن اگر ٹھیکہ لے لیتے ہیں تو کام کو پہلے شروع کرتے ہیں اور بعد میں بند کرتے ہیں مزید اضافی محنت بھی کرتے ہیں، اگر اس طرح وہ کام کو جلدی ختم کرلیں تو شرعاً کوئی حرج نہیں، لیکن اگر وہ روزینہ اتنی سستی سے کرتے ہیں کہ مالک ٹھیکہ دینے پر مجبور ہو تو ایسا کرنا درست نہیں۔

    خلاصہ یہ ہے کہ ہر مستری پر یکساں حکم نہیں لگایا جاسکتا، اگر کوئی امانت دیانت کے ساتھ روزینہ یا ٹھیکہ پر کام کررہا ہے تو جائز ہے، اور اگر سامنے والے کو دھوکہ دے رہا ہے تو پھر اس کا عمل شرعاً درست نہیں ہوگا۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (النساء: 29).

عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا “. (صحيح مسلم، كتاب الإيمان/ باب من غشنا فليس منا، رقم الحديث: 101).

وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. (مسند الإمام أحمد، رقم الحديث: 20695).

استأجرہ لیبني له حائطًا بالأجر، والجص، وعلم طوله وعرضه جاز. (الفتاویٰ الهندیة، الإجارۃ / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع: 4/ 451، زکریا).

 والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

9- 3- 1442ھ 27- 10- 2020م الثلاثاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply