(سلسلہ نمبر: 737)
مقروض شخص کا عمرہ
سوال: مقروض شخص کا عمرہ کرنا کیسا ہے؟
المستفتی: عبد اللہ ، سنوارہ ، اعظم گڑھ ۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: مقروض کے پاس اگر اتنی رقم موجود ہو کہ عمرے کے اخراجات منہا کرنے کے بعد بھی وہ آسانی سے قرض ادا کرسکتا ہے یا قرض خواہ نے اتنی مہلت دے رکھی ہے کہ عمرہ سے واپس آکر سہولت سے قرض ادا کر سکتا ہے تو عمرہ پر جانا درست ہے۔ لیکن اگر قرض خواہ اپنے قرض کا اسی وقت مطالبہ کررہا ہو یا عمرہ پر جانے کی وجہ سے قرض ادا کرنے میں تاخیر ہوسکتی ہے تو ایسے آدمی کو پہلے اپنا قرض ادا کرنا چاہیے؛ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور عمرہ نفل ہے اسی طرح قرض کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور شریعت اسلامیہ نے حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیا ہے تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور پیار ومحبت کی فضا معاشرے میں قائم رہے۔
الدلائل
أما في حق المقترض، فالأصل فیه الإباحة، وذلك لمن علم من نفسه الوفاء، بأن کان له مال مرتجی، وعزم علی الوفاء منه وإلا لم یجز، ما لم یکن مضطرا، فإن کان کذلك وجب في حقه لدفع الضرر عن نفسه. (الموسوعة الفقهية، الحکم التکلیفي للقرض: 33/ 113).
ووسعه أن یستقرض ویحج الخ، أما إن علم أنه لیس له جهة القضاء أصلاً فالأفضل عدم الاستقراض؛ لأن تحمل حقوق اللّٰه تعالیٰ أخف من ثقل حقوق العباد. (غنیة الناسك، ۳۳/بحوالہ کتاب المسائل).
مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع. (قوله: لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاوناً بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد. (الدر المختار مع رد المحتار: 2/ 462).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند
16- 9- 1444ھ 8-4- 2023م السبت
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.