درویش صفت عالم دین

ملاقات ایک درویش صفت عالم دین سے

ملاقات ایک درویش صفت عالمِ دین سے

بقلم: حضرت مولانا مولانا قيام الدين صاحب  القاسمي، جنرل سكريترى جمعية علماء ضلع بستى۔

عقل و شعور اور ذہنی بالیدگی کا زمانہ اور بیسویں صدی عیسوی کی آٹھویں دہائی کی وہ اکائیاں ہیں، جن میں راقم الحروف کے طالب علمی کی مرحلہ وار تسلسل اور ارتقائی منازل ہیں، جو دروس نظامیہ کی متوسطات پر مشتمل ہیں، چنانچہ انھیں مرحلوں میں جہاں کہیں مسجدوں میں مجھے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوتا تو وہاں مولانا محمد مصطفے مدرسہ نور العلوم مجھو امیر کی طرف سے شائع کردہ ایک دائمی جنتری برائے ضلع بستی آویزاں نظر آتی، جس میں اوقات نماز سے متعلق ہدایات، تاکیدات اور اشاریہ ہوتے چونکہ قمری ماہ و سال اور تاریخ کی اہمیت کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ میں شمسی میقات اور جنتری کا بھی بڑا اہم رول ہوتا ہے جس کے لئے مولانا مرحوم نے اس فریضہ خوشگوار کو انجام دے کر آج سے تيس سال قبل پورے علمائے ضلع بستی ( سدھارتھ نگر ، سنت کبیر نگر ) کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا اور جنتری کے بالائی گوشوں پر یہ شعرع وقت طلوع دیکھا وقت غروب دیکھا۔ اب فکر آخرت ہے دنیا کو خوب دیکھا‘ رقم کر کے گویا آپ نے امت مسلمہ کو اس بات کی دعوتِ فکر دی کہ شب وروز کی آواگون، زرق برق دنیاوی مرغوبات چند روزہ ہیں اس لئے آخرت کا تفکر اور استحضار ہی ایک بندہ مومن کے لئے ذخیرہ آخرت اور نجات کا ذریعہ ہے۔

 بڑے ہی افسوس کی بات تھی کہ مجھ جیسے بد نصیب کو ایسے ذمہ دار مخلص داعی سے نہ تو ہ تو بھی علیک سلیک کا اتفاق ہوا اور نہ ہی آپ کی رفتار زندگی سے زانوئے ادب تہ کرنے کا کوئی موقع میسر ہوا، ہاں فقط دائمی جنتری اور فکر آخرت کا پیغام ہی میرے لئے آپ کا وجہ تعارف بنا اور اس کا شہرہ بزمانہ طالب علمی ہی میرے کانوں سے آٹکرایا تھا لیکن میرے اس حسرت و یاس کا طلسم اس وقت تو ٹوٹا جب کہ آج سے تقریبا چھ برس پہلے ضلع سنت کبیر مگر کے مقام گھساون پور کولہی کی سرزمین پر بتاریخ ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء بروز بدھ نماز عشاء کے بعد راقم کی قیادت میں حاجی اصغر علی مرحوم کے زیر انتظام یک روزہ عظیم الشان اجلاس عام منعقد ہوا تھا، جس میں ملک کے مشاہیر علمائے کرام تشریف فرما تھے اور اجلاس کی فریضہ صدارت کے انجام پذیر وقت کے رئیس القلم حضرت مولانا الحاج عبد الحفیظ رحمانی حفظہ اللہ تھے۔  (مولانا اب مرحوم ہو چكے ہيں) دراصل یہ اجلاس حاجی اصغر علی مرحوم نے اپنے سفر حج کے موقعہ مبارکہ پر حجاز مقدس کی عزم و حوصلہ سے سرشار ہو کر نہایت ہی خلوص اور جذبہ شوق سے منعقد کیا تھا بحمد للہ اجلاس کی کاروائی حسب پروگرام بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔

 اجلاس کے دوسرے دن ۲۵/ اکتوبر ۲۰۰۷ء بروز جمعرات بوقت چاشت حضرت مولا نا محمد عبد اللہ مظاہری صدر المدرسین مدرسہ اشرف العلوم ہٹوا بازار ضلع بستی کی معیت میں براہ بَنِیتُھو(Banethu) واپسی کا فیصلہ ہوا اس لئے کہ احباب کے طے شدہ پروگرام کے تحت بنیتھو میں کچھ لوگوں سے ملاقات کرنی تھی چنانچہ وہاں پہونچ کر ملاقات کی پر تکلف رسم پوری ہوئی اس کے بعد غیر رسمی طور پر مولانا محمد عبد اللہ صاحب کے توسط سے ایک ایسے درویش صفت عالم دین سے ملاقات ہوئی کہ جن کے چہرے مہرے سے علم وفکر کی بو باس اور پیشانی سے نورانیت ٹپک رہی تھی بلکہ دعائے نیم شبی اور لذت سحر گاہی سے آشنا شخص معلوم ہور ہے تھے، اور ساخت کے اعتبار سے بھی آپ کی جسمانی پوزیشن طہارت و تقوی اور اسلامی وضع قطع کی خوب دعویدار اور اسلاف کی یاد گار تھی، چونکہ مخاطب اور متکلم مولانا موصوف اور مولا نا مرحوم ہی تھے، اس لئے ہم لوگ مقتدی اور سامع کی حیثیت سے خاموش رہے بلکہ ان دونوں حضرات کی مصافحتی کشش سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان شیخین کے مابین کوئی دیرینہ والہانہ جذ بہ انس و محبت کارفرما ہے، جس کی وجہ سے نہایت اطمینان کے ساتھ بلا تکلف خیر و عافیت کا کھلے لفظوں میں تبادلہ خیال ہو رہا ہے، دریافت کے بعد معلوم ہوا کہ مولانا محمد مصطفے صاحب ہیں جو مجھوا میر میں عرصہ دراز تک انتظامی اور تدریسى خدمات سے منسلک رہے۔

 بقول مولانا محمد عبد اللہ صاحب کہ” مولانا محمد مصطفے صاحب مدرسہ جعفر یہ ہدایت العلوم کر ہی میں زمانہ طالب علمی کے ہمارے سینئر ہم عصر تھے آپ اسی وقت سے صوم وصلوٰۃ کے پابند اور صوفی جی کے نام سے مشہور تھے”  اب اس مختصر اور جامع مشاہداتی تعارف کے بعد ہی مجھے عربی کا ایک مقولہ: الأذن تعشق قبل العین ( نگاہوں سے پہلے كان مشتاق ہوتے ہيں) یاد آرہا تھا اور اسی کے تناظر میں ر میں ماضی کے جھروکوں سے بار بار میں آپ کا بچشم خود مطالعہ اور مشاہدہ کر کے من میں ڈوب کر اپنی زندگی کا سراغ بھی پار ہا تھا۔

بہر حال اس فکر آخرت کے پیکر منکر المزاج اور علم دوست انسان کو دیکھنے کے بعد مجھے جو کچھ ملا بخدا میں یہ کہ سکتا ہوں کہ وہ کانوں کے سنے ہوئے سے فزون تر تھا۔ اور حقیقت بھی ہے کہ جب میں نے مولانا نا مرحوم کے متعلق انھیں کے حلقہ احباب کے موقر اور مشہور شخصیات کی تحریروں اور تقریروں سے واقفیت حاصل کرنی چاہی تو میں نے آپ کو نیک فرمانبردار محنتی طالب علم عالم اسلام کی دو بڑی درسگاہوں دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور کا فارغ التحصیل، قائدانه خادمانه مزاج کا حسین امتزاج سنجیدہ فکر اور بلند کردار کا حامل، مشفق معلم، فکر مند مصلح اور باکمال امانت دار منتظم پایا، اور سب سے بڑی بات یہ تھی مولانا الحاج محمد مصطفے مظاہری ثم قاسمی صاحبِ نسبت بزرگ عالم تھے، انھوں نے نہایت ہی خاموشی اور گمنامی کے ساتھ ہمیشہ داعیانہ اور مصلحانہ رول ادا کیا جس کی وجہ سے امت کے نو نہالوں، جوانوں بوڑھوں بالخصوص نئی نسل کے علماء کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے، بلا شبہ مولانا مرحوم خشیتِ الہی میں ڈوبے ہوئے تھے اس لئے انتظامیات ، درسیات معاملات، اخلاقیات اور عبادات میں اپنا مقام آپ رکھتے تھے۔

ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان!

قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

 یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے مدرسہ نور العلوم مجھو امیر میں ۲۹ سال تعلیمی نظیمی خدمات انجام دے کر وہاں کی سر زمین کو الوداع کہا تو بلا تفریق مرد وزن سب لوگ مولانا کی فرقت سے نمدیدہ ہو گئے تھے اور عقیدت و محبت کا اظہار کر رہے تھے کہ آپ ہمیں خدمت کا موقع ضرور دیں جس کے لئے باشندگانِ مجھو امیر نے آپ کو دوبارہ لانے کے لئے بہت سی کوششیں بھی کیں لیکن چونکہ آپ کے جسمانی قوئی مدرسہ کی خدمات سے قاصر تھے اس لئے آپ نے معذرت کا اظہار کیا۔ صاف صاف بات ہے کہ جو انسان جس قدر اللہ تعالی سے محبت کرے گا اللہ کی مخلوق اسی قدر اس سے محبت کرے گی۔ جو انسان جس قدر اللہ رب العزت کی عبادت کرے گا مخلوق اسی قدر اس کی خدمت میں لگی رہے گی۔ اور جو انسان جس قدر اللہ سے ڈرے گا خوف کھائے گا اللہ کی مخلوق اس سے اسی قدر مرعوب رہے گی۔ الحمد للہ یہ باتیں مولانا مرحوم کے اندر ضر در پائی جاتی تھیں ۔

 ہمارے ایک حاضر باش دوست ہیں مولانا سید محمود اختر صاحب ( ہٹوا بازار ) وہ مولانا مرحوم کے متعلق کچھ تعارفی باتیں کر رہے تھے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک میں ہم اپنے احباب کے ساتھ بغرض فراہمی چندہ ممبئی کے سفر پر تھے حسن اتفاق مولانا مرحوم کا ہم سفر ہونے کا ہمیں شرف حاصل ہوا ظاہر سی بات ہے کہ اسفار و معاملات سے انسان کے اوصاف اور اس کے اسرار ورموز کھل کر سامنے آجاتے ہیں ، بقول مولانا سید محمود اختر صاحب بات یہ تھی ہمارے کچھ دوست دوران سفر رخصت پر عمل پیرا تھے یعنی وہ روزے سے نہیں تھے اور ادھر مولانا کے اکا بر جیسے طرز عمل اور ان کی خشیتِ الہی سے محظوظ اور مرعوب ہو رہے تھے تو ایک ساتھی نے نہایت ہی ادب و احترام سے کہا کہ حضرت آپ او پر والی سیٹ پر آرام كيجئے تو مولانا نے نہایت ہی خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ بلا تکلف آپ لوگ اپنا کام کیجئے اسلئے کہ آپ نے بصیرت سےتاڑ ليا  تھا کہ ماجرا کیا ہے۔

واقعی یہ تھے الله والے کہ جن کی قدر و منزلت عوام اور علماء دونوں کی نگاہوں میں ہوا کرتی ہے اور ایسی شخصیت کی اہمیت اور ضرورت اس وقت اجاگر ہونے لگتی ہے جب وہ ہمارے درمیاں سے ناپيد ہو چکی ہوتی ہے، چنانچہ اس پاک طینت عالم دین نے تعلیم وتعلم ، خدمت دین اور عبادات کے ساتھ حج وعمرہ کی سعادت عظمی سے مشرف ہو کر معمولی علالت کے بعد اپنی زندگی کی تقریبا چوسٹھ سالہ فاصلہ طے کرتے ہوئے ۲۸ ستمبر ۲۰۱۰ء منگل کے روز رات کے دو بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اور اپنے آبائی وطن کے مقامی قبرستان میں سپردخاک ہوئے۔

آسماں تيرى لحد پر شبنم افشانى كرے

سبزہ ء نورستہ اس گھر كى نگہبانى گرے

 پسماندگان میں اہلیہ پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کے علاوہ ایک ہرا بھرا کنبہ ہے۔ مولانا مرحوم كے  بڑے صاحبزادےعبدالباری صاحب اردو ہندی اور انگریزی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اس وقت جنوبی ہند کے تاریخی شہر میسور کرنا ٹک میں فائبر کمپنی کے مالک ہیں دوسرے اور تيسرے صاحبزادے  حافظ وقاری عبدالہادی، وحافظ وقاری عبدالعلیم یہ دونوں حافظ وقاری ہیں، اور عربی دوم تک تعلیم حاصل کی ہے بر وقت یہ دونوں حضرات تجارتى پیشے سے منسلک ہيں، اور  گجرات کے سب سے بڑے صنعتی شہر انکلیشور میں رہائش پذیر ہیں۔ چوتھے صاحبزادےحافظ عبدالباسط یہ سعودی عربیہ کے مشہور شہر جدہ میں برسر روزگار اور مقیم حال ہیں جب کہ چھوٹے صاحبزادے مولانا عبدالباقی ندوی ہیں انھوں نے ملک کی مشہور درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے علمیت کورس سے سند فراغ حاصل کی ہے یہ ایک صاحب قلم بے باک صحافی ہیں اور ملک کے ایک تیز رفتار اردو روزنامه اخبار سے جز وقتی طور پر منسلک ہیں نیز ضلع کے مشہور اور قدیم ادارہ جامعہ رحمانیہ پَسَائى سنت کبیر نگر میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں، بدرگاہ رب العزت دعا گو ہوں کہ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور اولاد واحفاد کو مولانا کے طرزِ زندگی كو اپنانے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی جراءت و ہمت دے اور صدقہ جاریہ بنائے!

کون سا جھونکا بجھا دے گا کسے معلوم ہے

 زندگی کی شمع روشن ہے ہوا کے سامنے

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply