musalman aur haalat

موجودہ حالات ميں مسلمانوں كى دينى ملى اور سماجى ذمہ دارياں

موجودہ حالات ميں مسلمانوں كى دينى ملى اور سماجى ذمہ دارياں

بقلم: محمد ہاشم قاسمى  بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ

نحمده ونصلي على رسوله الكريم أما بعد: فقد قال الله في القرآن المجيد أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم: ﴿وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ [آل عمران: 139]

محترم سامعين! اس وقت ہمارا  وطن عزیز ایک ناگفتہ بہ حالات  سے دوچار ہے۔ہمارے ملك ہندوستاں پر ہزار طرح كے خطرات منڈلا رہے ہيں، نوٹ بندى اور كرونا وائرس نے سب كى كمر توڑ ركھى ہے، ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، چہارجانب ہُو سى كيفيت ہے، تعليم گاہوں كى حالت بد سے بدتر ہو چكى ہے،خصوصاً  اس وقت ہندوستانى مسلمانوں کو تو بندشوں اور پابندیوں میں جکڑ دیا گیاہے، ان پر چو طرفہ حملے ہو رہے ہيں،ان پرعرصہ ء حيات تنگ كيا جا رہا ہے،وطن كى سرزمين  اپنی وسعت کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوچکی ہے۔وطن كے تئيں ان كى جانفشانيوں اور قربانيوں كو يكسر فراموش كر كےان كو غدار بتايا جا رہا ہے، مسلمان بچوں كو ديش دَرُوه كے فرضى الزامات ميں پھنسا كرانہيں ہراساں كيا جا رہا ہے، ماب لنچنگ سے ان پر جبر واستبداد كےپہاڑ توڑے جا رہے ہيں،  علوم وفنون، سائنس وٹکنالوجی کی ہمہ جہت ترقی کے اس دور میں بھی مسلمان تاریک گلیاروں میں بھٹک رہے ہیں۔ دوسرى طرف وہ اپنوں کے درمیان اختلافات کی جنگوں میں برسرِ پيكار ہيں، كوئى كسى كى بات سننے اور ماننے كے ليے تيار نہيں، اس وقت وہ اتنے نڈھال اور زخمی ہوچکے ہیں کہ ان ميں كھڑے ہونے كى طاقت وہمت باقى نہيں ہے، ایسے میں سیاسی مار اور مخالف قوتوں کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ ہماری دین سے دوری، دین  سےبیزاری كى وجہ سے اللہ نے اپنی رحمت ، نصرت ومدد چھین کر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیاہے۔ یہی کیا کم تھا کہ صاحبِ اقتدار اپنے اقتدار کا فائدہ اٹھاکر ہم كو ہمارے ناکردہ گناہوں کى سزا دے رہا ہے:

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

لیکن یہ کیوں ہو رہاہے؟  كيسے ہو رہا ہے؟اس کے پیچھے کیا ہے؟ کون پسِ پردہ بیٹھا ہے؟  اس كے عوامل اور محركات كيا ہيں؟ یہ ايسے اہم ترین سوالات ہیں جن کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔

ع  كچھ ان كى نگاہ كافر تھى ، كچھ ہميں بھى خراب ہونا تھا

حاضرينِ عظام! ماضی کی یادیں، اس کے حالات، اس كے عروج وزوال كى داستانيں کسی قوم کے لئے تازیانۂ عبرت ہوتے ہیں۔ مذکورہ ملکی و قومی حالات کا تجزیہ اگر ماضی سے کیا جائے تو يہ بات طشت از بام ہو جاتى ہے کہ جب جب اس امت نے اپنے سرچشمۂ حیات سے رشتہ توڑا۔ اللہ کی عبادت اور اس كى خوشنودى سے  منھ موڑا، اس كے اوامرسے اعراض کیا، اور مناہى كى طرف لپكے، رسولِ اکرم صلى الله عليہ وسلم کی سنتوں کو  پسِ پشت ڈال ديا، ان كو پامال ہوتے ہوئے خاموش تماشائى بنے رہے، اپنے اخلاق وکردار کو اسلام کے آئینہ میں دیکھنے کے بجائے غیراسلامی آئینہ سامنے رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی ، اور علماء اورمصلحینِ امت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا،دین اور دیندار طبقہ سےبيزارى،  اور علماء سے کنارہ کشی اختیار کی تو يہ امت تنازعات کا شکار ہوکر مختلف گروہوں میں بٹ گئى، اپنے وجود کو کھودیا ، يہاں تك كہ ذلالت ورسوائی کے عمیق غار میں ڈھکیل دی گئی۔

جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا

جب صرصر عِصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا

وہ سوز و گُداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا

پَروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا

          محترم سامعين! تاریخ پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ  ڈالتے ہوئے ميں يہ كہنا چاہتا  ہوں کہ انقلابِ ایران کے وقت ايسا ہى کچھ ہوا تھا۔ انقلابِ مصر کے وقت بھى يہى حالات تھے۔ اُندُلُس ميں سلطنتِ اسلاميہ کو انہی اسباب و وجوہات كى بنا پر تاخت وتاراج کردیا گیا۔ مڈل ايسٹ ميں روس كى مسلمانوں كے ساتھ سفاكيّت اور بر بريّت كى داستانيں اسى كا پيش خيمہ تھيں،  اسپین سے مسلمانوں کا اخراج اور ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کا قتل، سيكڑوں نادرونایاب کتابوں پر مشتمل علماء ومحدیثين اور مفسرين كى لازوال كاوشوں اور كتابوں كو جلا خاكستر  كركے دریا بُرد کردیاگیا كر ديا گيا،ان سب كى اہم وجوہات بھى  دین بیزاری، دین سے دوری، علما سے اختلاف تھى، خود ہمارے ہندوسان كى يہى صورتِ حال تھى، اور جب مسلمان ہوش میں آئے اور گہری نیند سے بیدار ہوئے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا، سب کچھ لٹ چکا تھا،اور اس وقت تو حالات مزيد سنگين ہوگئے ہيں ، وہى مسلمان جنھوں نے ہندوستان كو اپنے جگر كا ٹكڑا سمجھ كر اپنے سينے سے لگايا، اور ايك سے بڑھ كر ايك لا زوال آثار سے سرفراز كيا، آج انھيں پر اَنگشت نمائى ہو رہى ہے، انہيں كے آثار كو كھرچ كھرچ كر يہاں سے مٹانےكى لا حاصل سعى كى جارہى ہے ليكن:

بھلاؤ لاكھ مجھے تم بھلا نہ پاؤگے

مرے خيال سے دامن بچا نہ پاؤگے

حاضرين كرام! آج بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی حالت کچھ اسی طرح کی ہے، بلكہ ہمارے ملك ميں اس سے بھى بد تر ہے، كبھى علماو مفکرین، ومصلحین وصالحين، حاملینِ شریعت، عالمینِ قرآن وسنت کو کبھی دقیانوسی کا طعنہ ديا جارہے، اور كبھى اپنی تجدّد پسندی اور آزادانہ خیالات کی روشنی سے عوام الناس کوعلماء سے برگَشتہ كرنے كى  کوشش کی جارہی ہے، تو کبھی ان پر دنیا پرستی کا الزام لگاکر لوگوں کو ان سے بیزار کیا جارہاہے۔ نتیجتاً عوام نے اپنی راہ الگ کرلی ہے۔ علماء سے ان کا دور كا رشتہ  بھى نہیں رہا۔ علماء  بھى اپنی دنیا میں مگن ہیں۔

دنیا میں اپنی آپ مگن ہم ہیں اس طرح

اپنوں کا کچھ خیال نہ رشتوں کا پاس ہے

اس صورتِ حال كى صرف عوام ہى ذمہ دار نہيں ہے، كچھ نام نہاد علماء بھی اس جرم ميں ان كے برابر كے شريك ہيں،  بعض علما تو ایسے ہیں جن كے کردار  سےعلما كى پورى جماعت  كو لوگ شك كى نظر سے ديكھتے ہيں، جن كے قول وعمل ميں مكمل تضاد ہے، جن كا ظاہر باطن كا الٹا ہے،تن ہےاجلا من كالا ہے، وه صرف دنیا کی لالچ میں دین کے سودائی بنے پھرتے ہيں، بے قیمت سامانِ دنیا کے لئے بیش قیمت دینی علوم کے ہرجائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ایسے ہی ضمیر فَروشوں کی دشمن عناصر کو تلاش رہتی ہے۔ جن کے کندھے پر بندوق رکھ ہم کو نشانہ بناتے ہیں۔پھر ہماری اجتماعی قوت پاش پاش   ہوجاتی ہے، ہم خود اپنى نظر سے ہى گر جاتے ہيں، آج كل نيوز چينلز كى ڈِيِبيٹ ميں اس طرح كے مناظر ديكھے جا سكتے ہيں۔

مرا عزم اتنا بلند ہے كہ پرائے شعلوں كا ڈر نہيں

مجھے خوف آتشِ گل سے ہے كہيں يہ چمن كو جلا نہ دے

محترم حضرات! آج پورے مسلم معاشرہ میں عموماً یہ دیکھا جارہاہے کہ ہر وہ فرد جس کو سیاست میں کوئی عہدہ وقار  حاصل ہے، جس كا كوئى مقام ومرتبہ ہےوه اپنی امارت کی بقاء کی جنگ لڑرہاہے۔ دوسروں کی عزت آبرو سے کھیل رہاہے۔ کسی کو اپنے سےآگے جانے كى  تو دور کی بات ہے، اپنے برابر بھی پھٹکنے نہیں دے رہاہے۔ اگر کوئی کوشش کرتاہے تو اس کی کوشش کے ساتھ اس کوبھى کچل دیا جاتاہے، دبا ديا جاتا ہے،  ایک طرف تو یہ ہورہاہے، دوسری طرف اُمراء  ورُوَسَاء کی ایک بڑی جماعت ہے جس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مالداری، ثروت ودولت اس کی میراث ہے، اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ، جو غریب ہیں وہ غریب ہی رہیں۔ ان کو ہمارے گلیارے قدم رکھنے اور ہماری گلی میں آنے کے لئے سوچنا بھی زیب نہیں۔ تیسری طرف علمِ دین کا ایک میدان ہے جہاں کا ہر مرد میدان نے اپنی دنیا الگ آباد کر رکھی ہے، ہر ایک کا ایک علاحدہ مکتبۂ فکر ہے، ہر فرد اپنے دسترس والے علاقہ کا امیر بنا ہواہے، وہی قائد دینی اورعلمی رہنما ہے۔ وہ دوسروں سے اختلاف ہی نہیں بلکہ دشمنانہ چپقلش رکھتاہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اسی سے اس کی دکان چل سکتی ہے، اسی طرح اس کی بقاء ممکن ہے۔

فرقہ بندى ہے كہيں اور كہيں ذاتيں ہيں

كيا زمانے ميں پنپنے كى يہى باتيں ہيں

حاضرين! اگر آج بھى مسلمان اپنى قدرو قيمت كو پہچان ليں، اپنے ملى تشخص كو برقرار ركھيں، اپنے ظاہر وباطن كو اسلامى شعار كے سانچے ميں ڈھال ليں، اور اس بات كوباور كر ليں كہ اسلام ہى حق اور سچ ہے حق وباطل كى لڑائى ميں ، سچ اور جھوٹ كى كشمكش ميں ہميشہ حق اور سچ كى جيت ہوئى ہے، باطل ہر حالت ميں حق كے سامنے گھٹنے ٹيكنے پر مجبور ہوتا ہے، اگر ان كے دل ميں يہ بات راسخ اور پيوست  ہو جائے تو وقت کا میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلی ہو، اسلام اور مسلمانوں كےخلاف كتنى ہى زہر افشانى كرے، مسلمانوں كو بدنام كرنے كے ليے پورا آئى ٹى سيل جمع ہو جائے، سوشل ميڈيا پر ان كے خلاف ٹرينڈ چلائے،  آڈيوز اور وىڈيوز كو اڈٹ كر كےان كو پھنسانے كےلئے ان كے بيانات كو توڑ مروڑ  كرپيش كيا جائے، لیکن جيت ہميشہ حق اور سچ كے پرستاروں كى ہوئى ہے اور ہوگى، اسلام کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولا ہے اور بولے گا، کیوں کہ اسلام سرپرستی کے لئے آیا ہے۔ اس پر کسی کو سرپرستی کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔

ستيزہ كار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوى سے شرارِ بو لہبى

لیکن شرط ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم رہنماؤں، دينى ،سیاسی، اور سماجى كاركنان، علماء اورمصلحین  کومتحد ہونا پڑے گا، اپنے انا کے دیوتاؤں کو توڑ کر ایک فلیٹ فارم پرآنا ہوگا، اپنے اندر اخلاص وللہیت پیداکرنی ہوگی، نیت کو درست کرنا ہوگا،  ایک متحدہ ومجتمعہ قوت بنانی ہوگی، قانونی جنگ کے لئے علم ودانش کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا۔ مسلکی، علاقائی، زبانی، تعصب کو بالائے طاق رکھ کر حکومت ِوقت کو چیلنج کرنا ہوگا۔ قاتل کی آنکھوں ميں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی۔ حالات کسيے ہی ناگفتہ بہ کیوں نہ ہوں ان سے مقابلہ کی ہمت وجرات کرنی ہوگی۔ یہ سوچنا ہوگا کہ جو کچھ ہواہے اور جو کچھ ہوگا وہ سب اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ سے غفلت اور اس سے مایوسی کفر وناکامی ہے۔دعا ہے کہ اللہ ہم کو اس کی توفیق دے، ہم سب كو سچا پكا مسلمان بنائے، اور آپس ميں مل جل كر اسلامى شعار كے ساتھ زندگى گزارنے كى توفيق بخشے آمين۔

ملت كے ساتھ رابطہ استوار ركھ

پيوستہ رہ شجر سے اميدِ بہار ركھ

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply