hamare masayel

نماز میں سلام میں وبرکاتہ کا اضافہ

(سلسلہ نمبر 297)

نماز میں سلام میں وبرکاتہ کا اضافہ

سوال: اگر نماز میں السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ کہہ کر کوئی سلام پھیرے تو نماز کا کیاحکم ہوگا؟ آیا نماز واجب الاعادہ رہے گی یا نہیں؟

المستفتی: عبد الحکیم حلیمی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

سلام میں منقول الفاظ پر ہی اکتفا کرنا چاہیے تاہم اگر کسی نے وبرکاتہ کا اضافہ کردیا تو اس کی وجہ سے نماز میں کوئی فساد نہیں آیا، نماز درست ہوگئی ہے۔

الدلائل

(و) أنہ (لا یقول) ہنا (وبرکاتہ) وجعلہ النووی بدعة، وردہ الحلبی. وفی الحاوی أنہ حسن. (الدر المختار ) وفی ردالمحتار: (قولہ وردہ الحلبی) یعنی المحقق ابن أمیر حاج حیث قال فی الحلیة شرح المنیة بعد نقلہ قول النووی إنہا بدعة ولم یصح فیہا حدیث بل صح فی ترکہا غیر ما حدیث ما نصہ: لکنہ متعقب فی ہذا فإنہا جائت فی سنن أبی داود من حدیث وائل بن حجر بإسناد صحیح. وفی صحیح ابن حبان من حدیث عبد اللہ بن مسعود، ثم قال: اللہم إلا أن یجاب بشذوذہا وإن صح مخرجہا کما مشی علیہ النووی فی الأذکار، وفیہ تأمل. اہ. (قولہ وفی الحاوی أنہ حسن) أی الحاوی القدسی. وعبارتہ: وزاد بعضہم وبرکاتہ وہو حسن اہ.وقال أیضا فی محل آخر: وروی وبرکاتہ ․ (الدر المختار مع رد المحتار: 2/241، ط:زکریا دیوبند )

واللہ أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

9- 1441ھ 27- 4- 2020م الاثنین.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply