hamare masayel

پائجامہ یا پینٹ نیچے سے موڑ کر نماز پڑھنا

پائجامہ یا پینٹ نیچے سے موڑ کر نماز پڑھنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ پائجامہ یا پینٹ کو نیچے سے موڑ کر نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی یا نہیں؟

بعض حضرات مسلم شریف کی ایک حدیث اور در مختار کی ایک عبارت پیش کرکے کہتے ہیں ایسی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور وہ نماز قابل اعادہ ہے۔ برائے کرم مدلل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں!

المستفتی: محمد امین الرشید سیتامڑھی۔

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

  مرد کے لئے نماز میں یا نماز سے باہر اپنے کپڑے کو ٹخنے سے نیچے لٹکانا گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث میں اسے قابلِ لعنت عمل کہا گیا ہے؛ لہٰذا نماز کی حالت میں بالخصوص کوئی ایسا لباس پینٹ یا پائجامہ پہننا جس سے ٹخنےڈھک جائیں قطعا ناجائز ہوگا، اور اگر بالفرض کسی نے ایسا لمبا کپڑا پہن رکھا ہے، تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ نیچے سے موڑ کر ٹخنے کھول لے؛ تاکہ گناہ سے بچ جائے۔

نماز میں پائجامہ یا پینٹ کو نیچے سے موڑنا زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی ہے اور ٹخنہ ڈھک کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اس لئے اگر ایسی صورت حال پیش آجائے تو مکروہ تحریمی کے مقابلے میں مکروہ تنزیہی کا ارتکاب ہلکا ہوگا۔

مسلم شریف کی جس حدیث اور در مختار کے جس جزئیہ کی بات آپ نے کی ہے اس میں کپڑے موڑنے کا مصداق آستین وغیرہ کا کپڑا موڑنا ہے، اس کا تعلق پائجامہ موڑنے سے نہیں ہے جیسا کہ حوالہ میں علماء کی تصریحات میں آرہا ہے؛ لہٰذا پائجامہ موڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی. فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

الدلائل

عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار. (صحیح البخاري، اللباس/ باب ما أسفل من الکعبین فهو في النار رقم: 5787)

عن أبي ذر رضي اللّٰه عنه عن النبي ﷺ قال: ثلاثة لا یکلمهم اللّٰه یوم القیامة: المنان الذي یعطی شیئاً إلا منه، المنفق بالحلف الفاجر، والمسبل إزاره. (صحیح مسلم 1/ 71)

عن أبي جحیفة رضي اللّٰه عنه قال: فرأیت رسول اللّٰه ﷺ خرج في حلة مشمرًا، فصلی رکعتین إلی العنزة.  (صحیح البخاری، کتاب الصلاة/ باب التشمر في الثیاب رقم:  5786).

قال الحافظ ابن حجر: قال الإسماعیلي: وهٰذا هو التشمیر، ویوخذ منه أن النهي عن کف الثیاب في الصلاة محله في غیر ذیل الإزار، ویحتمل أن تکون هذه الصورة وقعت اتفاقاً، فإنها کانت في حالة السفر، وهو محل التشمیر. (فتح الباري 13/ 314 دار الکتب العلمیة بیروت)

عن إبن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: أمر النبي ﷺ أن یسجد علی سبعة أعظم ونهی أن یکف شعره أو ثیابه. (صحیح مسلم: 1/ 193)

اتفق العلماء علی النهي عن الصلاة وثوبه مشمر أو کمه أو نحوه أو رأسه معقوص أو مردود وشعره تحت عمامته أو نحو ذلک، فکل هذا منهی عنه باتفاق العلماء وهي کراهة تنزیهیة، ولو صلی کذلک فقد أساء وصحت صلاته. (شرح النووي علی صحیح مسلم: 1/ 193،  فتح الملهم 972، المنهاج بشرح المسلم 483).

قاعده 19: إذا تعارض مفسدتان دوعی أعظمهما ضررا بارتکاب أخفهما. (قواعد الفقه 56).

کذا في الأشباه والنظائر تحت القاعدة الخامسة وفیها أیضا: ثم الأصل في جنس هٰذه المسائل أن من ابتلي ببلیتین وهما متساویان یأخذ بأیتهما شاء وإن اختلفا یختار أهونهما. (الأشباه 261 زکریا).

والله أعلم

تاريخ الرقم: 18/4/1440هـ 26/12/2018م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply