hamare masayel

ڈپازٹ کی رقم کو استعمال کرنا

ڈپازٹ کی رقم کو استعمال کرنا

سوال: عرض یہ ہے کہ آج کل نئی دوکان یا فلیٹ بنتا ہے تو صاحبِ دوکان کرایہ دار سے کچھ رقم ایڈوانس مانگتا ہے جسے ڈپازٹ بھی کہتے ہیں اور ہر ماہ  الگ سے کرایہ دار دوکان کا کرایہ علیحدہ  ادا کرتا ہے، اور ڈپازٹ کی رقم کو صاحب دوکان اپنے استعمال میں لاتا ہے، جب کبھی کرایہ دار دوکان یا مکان خالی کرتا ہے تو  یہ ڈپازٹ کی رقم اسے واپس  کی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا  ایڈوانس رقم مانگنا صحیح ہے؟ اور کیا اس رقم کو صاحب خانہ اپنے استعمال میں لا سکتا ہے؟

امید کہ تشفی بخش  جواب دیکر ممنون  فرمائیں گے۔

المستفتی: محمد انور داؤدی اعظم گڈھ

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

کرایہ کے علاوہ مزید پیشگی رقم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر آئندہ کرایہ دار دوکان میں کوئی نقصان کردے یا وقت پر کرایہ ادا نہ کرے تو مالک اس سے اپنا حق وصول کرلے، اس طرح کرنا درست ہے؛ لیکن ڈپازٹ کی رقم ابتداءً امانت ہے اور اس میں تصرف نہیں کرنا چاہئیے، البتہ ابتلاء عام ہونے کی وجہ سے بہت سے حضرات نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ کرایہ دار کی طرف سے دلالة اِجازت ہونے کی بنا پر اس ڈپازٹ کی رقم میں مالک مکان یا دوکان کا تصرف کرنا جائز ہے؛ لیکن تصرف کرتے ہی یہ رقم امانت سے خارج ہوکر دین مضمون کے درجہ میں آجائے گی۔

یہاں واپسی کی مدت گرچہ مجہول ہے؛ لیکن عرفِ عام ہونے کی وجہ سے یہ جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہے، اس لئے اسے قابل تحمل قرار دیا جائے گا اور عقد میں فساد نہیں آئے گا۔

الدلائل

الأمانة عند الفقهاء هو الشيء الذي یوجد عند أمین … سواء أو کان أمانة في ضمن عقد کالمأجور … والأصل الأمانة موافقة الحق بإیفاء العهد في السر ونقیضها الخیانة. (معجم الفقیه والمتفقه 87).

هل للمرتهن الانتفاع بالرهن أم لا؟ فنقول: أفرد الشیخ المحقق عبد الحي اللکنوي رحمه اللّٰه تعالیٰ هٰذه المسئلة في رسالة سماها ’’الفلک المشحون في الانتفاع بالمرهون‘‘ وهي جزء من مجموعة رسائل اللکنوي (3/ 403-415) فذکر أن فیها خمسة أقوال: وأن أصححها وأوفقها بالروایات الحدیثیة أنّ الانتفاع إذا کان مشروطًا حقیقة أو عرفًا یکره کراهة تحریمیّة، وإن لم یکن مشروطًا لا یکره۔ وجمع بین الأقوال کلها، فقال: فمن قال بعدم الجواز یحمل علی المشروط، ومن قال بالجواز یحمل علی غیر المشروط حقیقة أو حکمًا، ومن قال بالحرمة فقوله قریب من القول الراجح، هٰذا حاصل ما ذکره، ومن أراد التفصیل فلیراجعها.

وبهٰذاظهر أن نهي العلماء عن الانتفاع بالمرهو لصون الناس عن الوقوع فیما لا یجوز؛ لأن الإذن المجرد عن شوب الاشتراط الحقیقي والعرفي في زماننا نادر. واللّٰه أعلم. (الفتاویٰ السراجیة، کتاب الرهن/ باب تصرف الراهن والمرتهن 527، وکذا في الشامي/ کتاب الرهن 10/ 83 زکریا).

ولو أذن الراهن للمرتهن في استعماله أو إعارته للعمل فهلك الرهن قبل أن يشرع في العمل أو بعد الفراغ منه هلك بالدين لبقاء عقد الرهن. ( الدر المختار مع رد المحتار 131/10 زكريا).

المعروف عرفا كالمشروط شرعاً. (الأشباه والنظائر 343، مكتبة فقيه الأمة ديوبند).

المودع إذا خلط الودیعة بماله أو بودیعة أخری بحیث لا یتمیز ضمن. (الفتاویٰ التاتارخانیة 16/ 54 رقم: 24172 زکریا)

الخلط علی أربعة أوجه:… الرابع: خلط بطریق الممازجة للجنس بالجنس کخلط دهن اللوز بدهن اللوز وبهٰذا ینقطع حق المالک عند أبي حنیفة … وهٰذا إذا خلط الدراهم بغیر إذنه، فأما إذا خلطها بإذنه فجواب أبي حنیفة لایختلف؛ بل ینقطع الملک بکل حال، وعن أبی یوسف أنه جعل الأقل متابعاً للأکثر، وقال محمد یشارکه بکل حال … وأبوحنیفة رحمه اللّٰه یقول: بانقطاع حق المالک في الکل ومحمد بالشرکة في الکل. (الفتاویٰ التاتارخانیة 16/ 55 رقم: 24173 زکریا)

والله أعلم

تاريخ الرقم:    23/5/1440هـ 30/1/2019م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply