hazrat muaviah

کیا حضرت امیر معاویہ کے سارے متبعین ناصبی تھے؟

  • Post author:
  • Post category:Urdu Articles
  • Post last modified:September 4, 2023
  • Reading time:8 mins read

کیا حضرت امیر معاویہ کے سارے متبعین ناصبی تھے؟

نوٹ: قارئین کرام! زیر نظر تحریر جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ کے دو موقر استاذ حضرت مولانا رفیق المنان صاحب قاسمی اور حضرت مولانا سید جاوید صاحب ندوی کی ہے، تحریر کی بنیادی وجہ مولانا سلمان صاحب حسینی ندوی کا وہ مشہور جملہ ہے جس کو انھوں نے اپنی کئی ایک ویڈیو کلپ میں امام ذھبی کی طرف منسوب کرکے بيان كيا ہے کہ أتباع معاوية هم النواصب، معاویہ کی اتباع کرنے والے ناصبی تھے اس جملے کے بارے میں رفیق المنان صاحب کا کہنا ہے کہ یہ جملہ امام ذہبی پر افترا ہے، ذھبی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے، اس کے بعد مولانا جاوید صاحب نے جواب میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا سلمان صاحب اپنے قول میں صادق ہیں، اس کے جواب میں مولانا رفیق المنان صاحب نے ایک تحریر لکھی، غرض کہ ساری باتیں جن کا اس نوٹ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ سب کچھ اس مضمون میں شامل ہے، آپ حضرات بغور پورا مضمون پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ کون حق پر ہے۔


 

علامہ ذہبی کی طرف ایک موضوع عبارت کا انتساب

از:  رفیق المنان القاسمی عفا اللہ عنہ

مولانا سلمان ندوی صاحب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ایک جملہ بار بار دہراتے ہیں، اور پھر اپنے ذوق و روش کے مطابق تبرا کے تیر چلاتے ہیں.  پہلے وہ ذہبی کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہیں، پھر ان کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علامہ ذہبی نے کہا ہے : “أتباع معاوية هم النواصب “.

میرے علم و مطالعہ اور ذوق و وجدان کے مطابق یہ انتساب صحیح نہیں ہے. اس جملے کے بارے میں میرا دعویٰ یہ کہ:

“إن هذہ الجملة بهذہ الألفاظ مختلقة و مکذوبة علي الذہبی و مفتراۃ علیه”.

کسی کے جھوٹ کی نقاب کشائی میرے لئے کوئی خوش گوار عمل نہیں ہے، لیکن علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پر کی جارہی اس علمی بد دیانتی کا پردہ چاک کیا جائے۔

ویسے اب بھی میری شدید خواہش ہے کہ بادل ناخواستہ کیا جانے والا میرا یہ دعویٰ غلط نکل جائے، اور مجھے بے حد خوشی ہو گی اور میں انتہائی ممنون و شکر  گزار ہوں  گا۔

اگر کوئی   صاحب اس دعوے کو غلط ثابت کر دیں اور یہ بتا دیں کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ جملہ اپنی کس کتاب کی کس جلد میں کس صفحہ پر کہا اور لکھا ہے؟

اگر علامہ ذہبی کی کسی کتاب میں یہ جملہ مل جاتا ہے (حالانکہ مجھے یقین ہے کہ نہیں ملے گا،) تو پھر دیکھیں گے کہ اس کا سیاق و سباق کیا ہے؟  اور اصلا ذہبی نے کہا  کیا ہے اور اس کو اپنے غلیظ مقاصد کے لئے کس طرح فریب کارانہ استعمال کیا جارہا ہے؟

اور اگر ذہبی کی کسی کتاب میں یہ جملہ نہیں ملتا اور ان شاء اللہ نہیں ملے گا تو بتا یا جائے کہ اس حرکت کو کیا نام دیا جائے اور اس کو کس  ” اچھے ” عنوان سے معنون کیا جائے؟

ہم سنتےاور کتابوں میں پڑھتے تھے کہ پہلے مبتدعہ، ملاحدہ و ناخدا ترس لوگ اپنے باطل افکار و نظریات کی تائيد و حمایت میں اور ان کی ترویج و تشہیر کے لئے حدیثیں وضع کر کے انہیں عام مسلمانوں میں پھیلاتے اور انہیں گمراہ کر تے تھے۔

آج ایسا کرنا تو ممکن نہیں ہے، لیکن کچھ  “دھن کے پکے مگر عقل کے کچے” لوگ شاید یہ سوچتے ہیں کہ لاکھوں علماء کی کڑورو‌ں کتابیں ہیں، اگر ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی جملہ اچھال دیا جائے تو کس کو پتہ چلے گا؟  کس کو اتنی فرصت اور شوق ہے کہ ایک جملہ کی تحقیق و تلاش میں کتابوں کے وسیع و عریض صحرا کی خاک چھانے اور اس میں اپنا سر کھپائے. ایسے لوگوں کو خوف خدا دامنگیر ہو تا ہے نہ پکڑے جانے کا ڈر.   اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ، شعور اور صدق مقالي کی توفيق بخشے۔

علامہ حافظ شمس الدین الذہبی ( 673 ھ  ۔. 748ھ.   1274م  ۔  1348م).  کی مصنفات کی تعداد 200 سو سے متجاوز ہے، جن میں تاریخ الاسلام،  سیر أعلام النبلاء، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال، العبر في خبر من غبر،  الطب النبوي و غیرہ ان کی بہت مشہور کتابیں ہیں، ان میں سے بعض کتابیں بیحد ضخیم ہیں۔

“تاریخ الإسلام” 53 جلدوں پر مشتمل ہے،  “سیر اعلام النبلاء” کی 25 جلدیں ہیں، اسی طرح دوسری متعدد مصنفات کی ضخامت بھی اچھی خاصی ہے. اب اگر کوئی ایک جملے کی تلاش میں نکلے تو وہ ان کتابوں میں کہاں ڈھونڈ پائے گا. اور کیسے تلاش کرے گا؟ لیکن چوری بہرحال چوری ہے، صحیح جانچ میں وہ ضرور پکڑی جائے گی۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی چوری نہیں پکڑی جائے گی اور ان کی طلاقت لسانی و زور خطابت کی بنا پر لوگ ان کی بات آنکھ بند کرکے تسلیم کر لیں گے اور شیرینی سحر البیانی کے شکر پاروں میں چھپے زہر پاروں کو بھی آسانی سے نگل جائیں گے، وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں.

پھر یہ جملہ زبان حال سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ موہم اور اپنے اجمال کی بنا پر گمراہ کن فقرہ ذہبی جیسے ذی علم و بصیرت امام کا نہیں ہو سکتا، پہلے پہل جب میں نے ان کی زبان سے یہ جملہ سنا، تب ہی میرا ماتھا ٹھنکا تھا، اور میں نے تحقیق کی ٹھانی، اور تحقیق کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے.

اس جملے کا بھونڈاپن خود بتا رہا ہے کہ یہ کسی رافضی کا وضع کردہ ہے یا کسی رفض زدہ شخص کا۔

کہے دیتی شوخی نقش پا   کی

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

ذہبی بھلا ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت معاویہ اور ان سے نظریاتی اتفاق رکھنے والے دیگر صحابہ اور ان کے تمام کے تمام حمایتی بلکہ ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے افرادبھی ناصبی تھے، جیسا کہ سلمان صاحب ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتے ہیں. حاشا و کلا امام ذہبی کا دامن اس غلاظت سے پاک ہے.

ہاں انہوں نے یہ ضرور کہا کہ حضرت معاویہ کے حمایتیوں میں ناصبی بھی تھے، جیسے حضرت علی کے حامیوں میں رافضی بھی تھے اور انہیں رافضیوں میں سے خارجی بھی نکلے، یہ پہلے حضرت علی کے کٹر حامی اور حضرت معاویہ کے سخت دشمن تھے، مگر صفین کے بعد وہ حضرت علی کے بھی کٹر دشمن بن گئے اور ان کو کافر قرار دیا، ان کے خلاف بغاوت و خروج کیا، اور ان کے قتل کو سب سے بڑا کار ثواب قرار دیا، اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبد الرحمن بن ملجم کو خوارج   “افضل امت ” مانتے ہیں.

امام ذہبی حضرت معاویہ اور تمام صحابہ کرام کے نام عزت و تکریم سے لیتے ہیں، چاہے وہ حضرت علی کے ساتھ والے ہوں، یا حضرت معاویہ کے، یا غیر جانبدار۔

خود حضرت معاویہ کے بارے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اسی کو پڑھ لیا جائے تو جناب سلمان صاحب کا بنا یا ہوا ہوائی قلعہ دھڑام  سے گر کر بکھر جاتا ہے۔


کاروبارِ تحقیق میں آبروئے تحقیق کا فقدان

از: سیّد جاوید احمد ندوی  (جامعہ اسلامیہ ، مظفر پور ، اعظم گڑھ)

[زیرِ نظر مضمون علمی دیانت کے تقاضے سے لکھا گیا ہے ، اس میں نہ اپنی شانِ تحقیق بگھارنی مقصود ہے اور نہ کسی کی دل آزاری پیشِ نظر ہے ، اور دوسری بات یہ کہ جناب مولانا رفیق المنان صاحب قاسمی (جن کے مضمون پر یہ تبصرہ تحریر کیا گیا ہے) نے خود بھی اس بات کا دعوی کیا ہے کہ اگر کوئی ان کے دعوے کو غلط ثابت کر دے ، تو انھیں خوشی ہوگی ، صرف ان کی خوشی کی خاطر یہ مضمون معرضِ تحریر میں لایا گیا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ صحابۀ کرام کے باب میں میرا نقطۀ نظر مولانا سلمان حُسینی صاحب کے نقطۀ نظر سے مختلف ہے ، اسی طرح مولانا سلمان صاحب کی تقریر میں اور بھی کچھ دوسری باتیں ہیں ، ان سے کوئی تعرّض نہیں کیا گیا ہے ، مولانا موصوف کے مضمون کی پہلی قسط میرے پیشِ نظر ہے ، اس میں انہوں نے جس بات کا چیلینج کیا تھا ، صرف اس کا اس مضمون میں جائزہ لیا گیا ہے ، اس لیے اس مضمون کو مولانا سلمان صاحب کے تمام نظریات کی حمایت نہ سمجھا جائے ، بلکہ زیرِ بحث مسئلہ تک ہی اس کو محدود مانا جائے]۔

مولانا سلمان صاحب نے اپنی ساڑھے تیرہ منٹ کی تقریر میں علّامہ ذہبی کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ ” معاویہ کے اتباع کرنے والے ناصبی تھے”، اور ذھبی کے تعلق سے اتنی بات بالکل درست ہے ، کیونکہ علامہ ذہبی نے اپنی کتاب “سیر أعلام النبلاء” میں بلا شبہہ یہ بات لکھی ہے ۔

اپنی تقریر میں مولانا سلمان صاحب نے اس بات کو عربی میں یوں ادا کیا ہے : أتباع معاویة ھم النواصب۔

یہ بات انہوں نے Quotation اور اقتباس کے طور پر نہیں پیش کی ہے ، بلکہ ذھبی کے نظریہ اور فکرہ کے طور پر اسے پیش کیا ہے ، یعنی ان کی یہ بات روایت بالمعنی کے طور پر زیرِ بحث آئی  ہے ، نہ کہ روایت باللفظ کے طور پر ، کیونکہ علامہ ذھبی نے حضرت معاویہ کے حامی گروہ کو بصراحت ناصبی لکھا ہے اور اصل مقصود اسی بات کی تردید مولانا موصوف کے پیشِ نظر ہے ، اور ذھبی نے اتنی بات بلا شبہ اپنی کتاب “سیر أعلام النبلاء” میں لکھی ہے ، اور جہاں تک مولانا سلمان صاحب کے اس عربی جملہ أتباع معاویة ھم النواصب کی بات ہے ، تو اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ علامہ ذھبی کی کئی سطروں پر پھیلی ہوئی تحریر کا لبِّ لُباب اور خُلاصہ ہے ، ہم آگے چل کر علامہ ذھبی کی وہ لمبی عبارت نقل کیے دیتے ہیں ، تاکہ اہلِ نظر صورتِ مسئلہ کو بچشمِ خود ملاحظہ کر کے اپنا تأثّر بھی ضرور پیش کریں ، جب مولانا رفیق المنان صاحب اس موضوع پر تحقیق کے دعوے دار ہیں ، تو اتنی موٹی بات آخر وہ کیوں نہ سمجھ سکے ؟ بلکہ صد افسوس کہ وہ سب کچھ سمجھ بوجھ کر عمداً ایسا کر رہے ہیں ، ہم احباب کو آگے خود مولانا موصوف کے اپنے الفاظ میں دکھائیں گے کہ مولانا کس طرح سب کچھ جان ، سمجھ کر رائی کا پربت بنا رہے تھے ، کیونکہ اس طرح انھیں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ہاتھ آرہا تھا ، اللہ تعالی ہوائے نفس سے ہماری حفاظت فرمائے ۔

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

مولانا موصوف کی اپنی تحقیق کا یہ حال ہے کہ ان کی پوری تحریر پڑھ جانے کے بعد بھی کہیں تحقیق کے نام پر ایک تحقیق کا بچہ نظر نہیں آتا ، تاہم بلند بانگ دعوے سے پورا مضمون بھرا پڑا ہے ، موصوف کا یہ دعوی ملاحظہ فرمائیں:

میرے علم و مطالعہ اور ذوق و وجدان کے مطابق یہ انتساب صحیح نہیں ہے ، اس جملہ کے بارے میں میرا دعوی یہ ہے کہ “انّ ھذہ الجملة بھذہ الألفاظ مختلقة و مکذوبة علی الذھبی و مفتراة علیه”۔

حالانکہ درست اور معقول بات یہ ہوتی کہ اس کو یوں تعبیر کیا جائے : “إنّ ھذہ النظریة بھذہ الألفاظ لا تثبت عند الذھبی، بل ھذہ النظریة وردت عندہ بغیر الألفاظ التی تقدّم بھا سلمان الحسینی و ھذا أمر تافه لا یُعبأ به”۔

جملہ کی بات کرنا بالکل طفل سنجی اور عبث ہے ، نظریہ کی بات کرنی چاہئے تھی کہ ذھبی نے حامیانِ معاویہ کے تعلق سے اپنا یہ نظریہ پیش کیا ہے ، یا نہیں ؟ ہاں اگر کوئی واقعی لکیر کا فقیر ہی بن گیا ہے ، تو اس کے لیے اس سے زیادہ موقع نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ پھر یہ کہے کہ ذھبی نے گروہِ معاویہ کے بارے میں اپنا نقطۀ نظر ناصبیت کا ضرور بیان کیا ہے ، لیکن ان لفظوں کے ساتھ نہیں ، جو سلمان صاحب نے اپنی تقریر میں پیش کیا ہے ، اس سے زیادہ کی گنجائش ہرگز نہیں ہو سکتی تھی ، کیونکہ ذھبی نے بصراحتِ لفظ حضرت معاویہ کے حامی گروہ کو ناصبی کہا ہے ، لیکن ذھبی کی لمبی چوڑی عربی عبارت دورانِ تقریر نقل نہیں کی جا سکتی تھی ، اس لیے اس کا لبِّ لُباب اور خُلاصہ “أتباع معاویة ھم النواصب” کی ترکیب کے ذریعہ پیش کردیا  اور کمال یہ ہے کہ موصوف مولانا سلمان صاحب کے اس عربی جملہ کا اصل مدّعا بے کم و کاست اچھی طرح سمجھ بھی رہے ہیں ، انھیں ذرا بھی اس سلسلے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے ، چنانچہ وہ خود آگے اپنی تحریر میں لکھتے ہیں:

“ذہبی بھلا ایسی بات کیسے لکھ سکتے ہیں کہ حضرت معاویہ اور ان سے نظریاتی اتفاق رکھنے والے دیگر صحابہ اور ان کے تمام کے تمام حمایتی ، بلکہ ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے افراد بھی ناصبی تھے ، جیساکہ سلمان صاحب ببانگ دہل یہ دعوی کرتے ہیں ، حاشا و کلا امام ذھبی کا دامن اس غلاظت سے پاک ہے”۔

(مولانا سلمان صاحب کا جملہ بس اتنا بتاتا ہے کہ ذھبی حامیانِ معاویہ کو ناصبی سمجھتے ہیں ، نرم گوشہ اور گرم گوشہ کی ذمہ داری خود مولانا موصوف کے سر) ۔

جب محقّقِ موصوف مولانا سلمان صاحب کی عربی عبارت کے اصل مدّعا سے واقف ہی ہیں ، تو بار بار جملہ جملہ کی رٹ کیوں لگاتے نظر آتے ہیں ؟ جملہ کے اصل الفاظ کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں ؟ ذھبی کی اصل بات اور نظریہ کی تحقیق ہونی چاہئے تھی کہ انہوں نے یہ نظریہ اپنی کسی کتاب میں پیش کیا ہے ، یا نہیں ؟ مولانا موصوف کا دعوی ہے کہ ذھبی نے یہ نظریہ اپنی کسی کتاب میں پیش نہیں کیا ہے ، تمام تر بلند بانگ دعوائے تحقیق کے با وجود موصوف کی نگاہِ تحقیق ذھبی کی اس بات تک نہ پہنچ سکی ، کیونکہ ظاہر ہے کہ کارِ تحقیق ذوق و وجدان سے سر نہیں ہوتا ، یہاں خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی ، یہاں ژرف نگاہی ، تجسُّس ، بصیرت ، گہرائی و گیرائی اور جُہدِ مسلسل کی بار بار ضرورت پڑتی ہے ، یہاں دعوائے محض کوئی مثبت نتیجہ ظاہر نہیں کرتا ۔

لیکن بفضله تعالی میں نے اپنی تمام تر بے بضاعتی اور تہی دامنی کے با وجود ذھبی کا یہ نقطۀ نظر ان کی کتاب “سیر أعلام النبلاء” سے ڈھونڈھ نکالا ہے ، اب قارئین با تمکین کی خدمت میں علامہ ذھبی کی عبارت پیش کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں:

“و خلف معاویة خلقٌ کثیرٌ یجبّونه و یتغالونه فیه و یفضّلونه ، إما قد ملكهم بالكرم و الحلم و العطاء و إما قد وُلدوا في الشام على حبّه و تربّى أولادهم على ذلك و فيهم جماعة يسيرة من الصحابة و عددٌ کبیرٌ من التابعین و الفضلاء و حاربوا معه أھل العراق و نشؤوا علی النصب ، نعوذ باللہ من الھوی”۔ [سیر أعلام النبلاء 128/3]۔

( ایک بڑی جماعت نے معاویہ کو اپنا امام مانا ، وہ ان سے غلو کی حد تک محبت کرتے تھے ، بلکہ علی کے مقابلہ میں ان کی افضلیت کے قائل تھے ، یا تو معاویہ نے اپنے کرم ، حلم اور عطا و بخشش کے ذریعہ انھیں اپنا ہمنوا بنایا تھا ، یا پھر شام میں پیدا ہونے کی وجہ سے انھیں ان سے محبت تھی ، ان کی آل و اولاد کی بھی کچھ اسی طرح تربیت ہوئی ، ان میں صحابہ کی بھی ایک مختصر جماعت تھی اور تابعین اور با کمال لوگوں کی بڑی جماعت تھی ، ان سب لوگوں نے معاویہ کے ساتھ اہل عراق سے جنگ کی ،  ناصبیت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔

علامہ ذھبی کی پوری عبارت پڑھ لینے کے بعد کیا کوئی صاحبِ بصیرت یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ علامہ ذھبی کیسے حضرت معاویہ کے حامیوں کو ناصبی کہہ سکتے ہیں ؟ “و نشؤوا علی النصب” یہ فقرہ کس کے بارے میں ذھبی نے لکھا ہے ؟ اس سے پہلے کن لوگوں کا تذکرہ ہے ؟ شیعوں کا ، یا خوارج کا ؟ ظاہر ہے ان میں سے کسی کا نہیں ، بلکہ اہلِ شام ، حامیانِ معاویہ کا تذکرہ ہے ، جن کے بارے میں ذھبی صرف اتنی بات نہیں کہتے کہ وہ ناصبی تھے ، بلکہ اس سے کہیں سنگین اور سخت تعبیر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ناصبیت پر ہی ان کی اٹھان ہوئی تھی اور ناصبیت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ، یعنی وہ بہت غالی قسم کے ناصبی تھے ۔

موصوف کا درج ذیل فقرہ تو میں  سمجھنے سے قاصر ہوں ، وہ لکھتے ہیں:

حاشا و کلّا امام ذھبی کا دامن اس غلاظت سے پاک ہے۔

میں اس رکیک فقرہ کو پڑھ کر حیران ہوں کہ کیا غلاظت سے پاک گفتگو کرنے میں کوئی قباحت تھی ؟

  اگر مولانا موصوف کی نظر میں حامیانِ معاویہ کو ناصبی کہنا غلاظت ہے ، تو پھر امام ذھبی کا دامن غلاظت سے پاک تو نہیں ہوا ، ان کے دامن کو غلاظت سے آلودہ کرنے والا کون ہوگا ؟ جب اس طرح غیر علمی گفتگو کی جاتی ہے ، تو یہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔

مولانا موصوف نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ اپنے مضمون میں یہ چیلینج کیا تھا کہ اگر کوئی میرے اس دعوے کو غلط ثابت کر دے ، تو مجھے بے حد خوشی ہوگی ، خود مولانا کے الفاظ میں ان کا چیلینج ملاحظہ فرمائیں:

ویسے اب بھی میری شدید خواہش ہے کہ با دل نا خواستہ کیا جانے والا میرا یہ دعوی غلط نکل جائے ، اور مجھے بے حد خوشی ہوگی ، اور میں انتہائی ممنون و شکر گزار ہوں گا ، اگر کوئی صاحب اس دعوے کو غلط ثابت کر دیں اور یہ بتا دیں کہ علامہ ذھبی رحمه اللہ نے یہ جملہ اپنی کس کتاب کی کس صفحہ پر کہا اور لکھا ہے؟

چونکہ مولانا موصوف کو اپنا دعوی غلط ثابت کیے جانے پر خوشی ہونے والی  تھی ، اس لیے میں نے با دل نا خواستہ صرف موصوف کی خوشی کی خاطر علامہ ذھبی کی پوری بات ان کی اپنی عبارت میں پورے حوالے کے ساتھ نقل کر دی ہے ، اب سیاق و سباق کو مولانا بغور ملاحظہ فرما کر دیکھ لیں کہ مولانا کا دعوی کتنا درست ہے؟

مولانا محترم کی خوش فہمی کی وجہ میں نہیں سمجھ سکا ، آخر انھیں اس بات کا اطمینان کیسے تھا ؟ کہ مولانا سلمان صاحب بنڈل مار رہے ہیں ، کوئی نہیں ثابت کر سکتا کہ علامہ ذھبی نے یہ بات لکھی ہے اور یہ کہ امام ذھبی یہ بات حضرت معاویہ کے حامیوں کے بارے میں کیسے لکھ سکتے ہیں ؟ اور پھر یہ کہ میرا ذوق و وجدان اور علم و مطالعہ اس انتساب کو درست نہیں سمجھتا ، وغیرہ و غیرہ ۔

یہ سب کیا ہے ؟ کیا ان ہی کھوکھلے دعووں کو تحقیق کہا جاتا ہے ؟ کیا موصوف کی منتہائے تحقیق بس یہی ہے ؟ دعوی ، دعوی اور بس دعوی !!

ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

اور اگر ذھبی کی کسی کتاب میں یہ جملہ نہیں ملتا اور ان شاء اللہ نہیں ملے گا ، تو بتایا جائے کہ اس حرکت کو کیا نام دیا جائے اور اس کو کس “اچھے” عنوان سے معنون کیا جائے ؟ ۔

لیکن میں محوِ حیرت ہوں کہ کیا اتنی بڑی بات اور اتنا بڑا دعوی صرف ایک خیالی تحقیق کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے ؟ اتنی بڑی بات کہنے کے لیے تو بڑے وسیع مطالعہ ، قیامت خیز انکشاف ، بے مثال اور پُر زور تحقیق پیش کرنے کی ضرورت تھی ، جو یہاں سرے سے نا پید ہے ، مجھے حیرت ہے کہ ساڑھے تیرہ منٹ کی مختصر تقریر میں مولانا سلیمان حسینی صاحب نے صحاحِ ستہ سمیت مختلف کتب حدیث سے بیسیوں حدیثیں پیش کر کے خود صحابئ رسول حضرت معاویہ کو ہی سوالوں کے حصار میں بند کر دیا ہے اور حضرت علی کے خلاف ان کی دعوت کو جھنم کی دعوت بزبان رسالت مآب ثابت کر دیا ہے ، اس بات کا دفاع کرنا زیادہ اہم تھا ، یا ان کے اَتباع کی ناصبیت کا دفاع ؟ گویا مولانا موصوف کی نظر میں اَتباعِ معاویہ خود حضرت معاویہ  سے زیادہ اہم ہیں ، جبھی تو ان کا دفاع نہ کر کے ، ان کے اَتباع اور حامیوں کا دفاع کرنے لگے ، یہ منطق تو میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آئی ، امام ذھبی کا حوالہ زیادہ وزنی ہوگا ، یا رسالت مآب ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ؟

لیکن جناب موصوف نے ان سب اہم اور حسّاس باتوں کی طرف سے کلی اغماض برت کر امام ذھبی کی بات کی تحقیق میں لگ گئے اور بالآخر نا کامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ، حالانکہ یہ بات صرف ذھبی نے ہی نہیں کہی ہے ، بلکہ اور بھی متعدد نمایاں اور قد آور شخصیات نے یہ بات کہی ہے ، لیکن موصوف محترم کو اس کی کچھ خبر نہیں ۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

 ہم آگے ان شخصیات کی بات بھی نقل کریں گے، تاکہ مولانا کی جرأتِ رندانہ کا ذرا کچھ دیگر احباب بھی اندازہ کر سکیں۔

مولانا موصوف کی یہ باتیں بھی کچھ عجیب و غریب ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:

“لیکن کچھ “دھن کے پکے ، مگر عقل کے کچے” لوگ شاید یہ سوچتے ہیں کہ لاکھوں علماء کی کروڑوں کتابیں ہیں ، اگر ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی جملہ  اچھال دیا جائے ، تو کسی کو پتہ چلے گا ؟ کسی کو اتنی فرصت اور شوق ہے کہ ایک جملہ کی تحقیق و تلاش میں کتابوں کے وسیع و عریض صحرا کی خاک چھانے اور اس میں سر کھپائے ؟ ایسے لوگوں کو  خوفِ خُدا دامن گیر ہوتا ہے ، نہ پکڑے جانے کا ڈر”۔

مولانا موصوف کی مذکورہ بالا باتیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے ، جیسے یہ کسی ایسے شخص کی باتیں ہوں جو اپنے زمانہ سے ذرا واقف نہ ہو ، ایسا ماضی میں سوچا جا سکتا تھا ، آج کے جدید دور میں ایسا وہی شخص سوچ سکتا ہے جسے ماضی و حال کی مطلق خبر نہ ہو ، ایک خیالی تحقیق اور خوش فہمیوں کے فریب نے موصوف سے نہ جانے کیا کیا ہفوات تحریر کرا دیے ، آخر فرضی طور پر مولانا سلمان صاحب کی کھوپڑی میں اپنا بھیجہ داخل کرنے والی فضولیات کی ضرورت کیا تھی ؟ یہ ساری  قیاس آرائیاں اپنی ایک خیالی تحقیق کے بل بوتے پر ؟ ایں چہ بو العجبی است ؟ میں مولانا موصوف کی ان خوش فہمیوں کی کوئی توجیہ کرنے سے قاصر ہوں ، لیکن ہر کسی کو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو شخص دنیا کے سامنے آتا ہے ، وہ یوں ہی نہیں آ جاتا ، بلکہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر پہلے وہ تیار ہو جاتا ہے ، پھر میدانِ کارزار میں اترتا ہے ، لہذا اسے ہلکے میں نہ لیں ، اگر اس سے لوہا لینے کا شوق ہو ، تو خود بھی پہلے کیل ، کانٹوں سے خوب تیار ہو لیں ، پھر میدان میں اتریں ، یہی فطری اور معقول طریقہ ہے ، ورنہ بصورت دیگر شدّتِ شوق میں آبروئے تحقیق کا بھرم بھی قائم نہ رہ سکے گا ۔

موصوف کے ذیل کے ادب پارے بھی قابلِ ملاحظہ ہیں:

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی چوری نہیں پکڑی جائے گی اور ان کی طلاقت لسانی و زورِ خطابت کی بنا پر لوگ ان کی بات آنکھ  بند کر کے تسلیم کر لیں گے اور شیرینی سحر البیانی کے شکر پاروں میں چھپے زہر پاروں کو بھی آسانی سے نگل جائیں گے ، وہ خود فریبی میں مبتلاء ہیں۔

مولانا سلمان صاحب کی تقریر سن کر اگر کسی محقّق کو یہ دھوکہ ہو جائے کہ وہ کسی مقرّر کی تقریر سے زیادہ کچھ نہیں ، تو اس خود فریبی کا انجام بھی ظاہر ہے کہ خوش گوار نہیں ہوگا ، سلمان سب سے پہلے وقت کا بے مثال محقّق اور بلند پایہ محدّث ہے ، جو  بد قسمتی سے قادر الکلام اور فصیح البیان مقرّر بھی ہے ، لیکن مولانا موصوف اپنی اگلی تحریر میں یہ ضرور بتائیں گے کہ چوری کس کی پکڑی گئی اور کون سی ؟ اور خود فریبی میں مبتلاء کون تھا ؟

مولانا موصوف اپنی تحقیق کو خود ہی داد و تحسین دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

پہلے پہل جب میں نے ان کی زبان سے یہ جملہ سنا ، تب ہی میرا ماتھا ٹھنکا تھا ، اور میں نے تحقیق کی ٹھانی اور تحقیق کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

اب مجھ جیسے لوگ حیرت زدہ ہوں گے کہ موصوف نے کیا تحقیق پیش کی ہے ؟ یہی کہ مجھے یہ بات علامہ ذھبی کی کسی کتاب میں نہیں ملی ، یا یہ خوش فہمی کہ امام ذھبی یہ بات کیسے لکھ سکتے ہیں ؟ یا یہ کہ میرا ذوق و وجدان اس کو صحیح تسلیم نہیں کر تا۔

اگر ان میں سے کسی ایک بات کو بھی کوئی تحقیق سمجھتا ہے ، تو اسے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ تحقیق کسے کہتے ہیں ؟ لوگ خوش فہمیوں میں نہ جانے کیا کیا گُل کھلاتے ہیں اور یہ سمجھ  بیٹھتے ہیں کہ کارے کردم۔

کسی کو رافضی کہنا ، گالیاں دینا ، بھپتیاں کسنا اور الزام تراشیاں کرنا بہت آسان ہے ، لیکن علمی گفتگو کرنا ، نئی تحقیق پیش کرنا اور اشکالات کو رفع کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ۔

آگے مزید لکھتے ہیں:

اس جملے کا بھونڈا پن خود بتا رہا ہے کہ یہ کسی رافضی کا وضع کردہ ہے ، یا کسی رفض زدہ شخص کا۔

اس کے فوراً بعد موصوف نے اپنی فراست و طبّاعی پر بطور استشہاد ذیل کا یہ شعر بھی لکھا ہے:

کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

جب کوئی شخص اپنے فہم و فراست کے تعلق سے اس درجہ غلط فہمی کا شکار ہو جائے کہ وہ علم و تحقیق کے بجائے لوگوں کے عقیدہ و ایمان کا فیصلہ تنہا اپنی فراست کے بل پر کرنے لگے ، تو پھر جو تباہی مچے گی ، وہ یقیناً نا قابل بیان حد تک نا خوش گوار ہوگی ۔

جب کوئی شخص اس مقام کو پہنج جائے کہ وہ نا زیبا اور نا شائستہ باتیں بولنے لگے ، تو پھر سمجھ جائیں کہ اس کے تر کش کے تمام تیر ختم ہو چکے ہیں ، اس نے اس معرکہ میں اپنا آخری تیر تک جھونک دیا ہے ، اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ، چلیے اب دیکھتے ہیں : کون کون ہماری صفوں میں رافضی ہے ؟ موصوف جس جملہ کی تلاش میں سر گرداں تھے (جو ان کی نظر میں اتنا بھونڈا ہے کہ اس کا لکھنے والا یا تو رافضی ہوگا ، یا رفض زدہ) اور وہ انھیں امام ذھبی کے یہاں نہیں مل سکا ، لیکن وہ بھونڈا اور رفض زدہ جملہ انھیں ایک دوسرے علامہ و حافظ کے یہاں مل سکتا تھا ، لیکن ان کا اشہبِ تحقیق وہاں تک نہیں پہنچ سکا ، شارحِ بخاری حافظ و علامہ ابن حجر عسقلانی (773ھ__852ھ) ، جن کی کتابوں کی تعداد 300 تک پہنچتی ہے ، اور جو روایات و اسانید کے علم کا ایسا بے مثال امام و عبقری ہے کہ اس کے بعد اس جیسا اب تک پیدا نہیں ہوا ، وہ بخاری کی شرح “فتح الباری” میں اسی بھونڈے جملے أتباع معاویة ھم النواصب کو ( معمولی تصرف کے ساتھ جس سے معنی و مضمون میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ) جگہ دیتا ہے اور بڑی وضاحت سے اس بھونڈے جملہ سے حامیانِ معاویہ کا تعارف کراتا ہے ، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : وإنما هو وصف النواصب أتباع معاوية بصفين [فتح الباری :495/17 ، دار أبی حیان ، القاھرة ، 1416ھ]

(اس میں نواصب کا وصف بیان کیا گیا ہے جو معاویہ کے اتباع ہیں ، جو صفین میں ان کے ساتھ تھے )۔ موصوف ابن حجر کو بھی رافضی ہی سمجھتے ہوں گے ؟ یا پہلے سے اگر اس بھونڈے جملہ کا راز نہیں معلوم تھا ، تو اب ان کی رافضیت کا اعلان ضرور کریں گے ۔

اس فہم و فراست کی زد میں آکر نہ جانے اور کون کون کیا کیا بننے والا ہے ؟ اس طرح کا انکشاف تو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے بھی کیا ہے ، لیجئے یہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں: سبّ علي رضي الله عنه كان شائعا في أتباع معاوية ….و هو من البغي الذي استحقّت الطائفة أن يقال لها الطائفة الباغية۔ [فتاوی ابن تیمیہ 337/4)۔

(معاویہ کے ماننے والوں میں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سبّ شتم عام تھا ، ۰۰۰ان ہی سب باغیانہ کردار کی وجہ سے اس گروہ کو باغی گروہ کہا گیا ہے)۔

یہ اس شخص کی باتیں ہیں جو بلا شبہہ اہل تشیّع کے خلاف اہل سنت کا نمائندہ مانا جاتا ہے ، کیا موصوف محترم اہل سنت کے اس نمائندہ کو بھی رافضی ، یا رفض زدہ شمار فرمائیں گے ؟

اصل میں مولانا موصوف کو ان ائمۀ اسلام کے حسنِ گفتار سے دھوکہ ہوا ہے ، چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں:

امام ذھبی حضرت معاویہ اور تمام صحابۀ کرام کے نام عزت و تکریم سے لیتے ہیں ، چاہے وہ حضرت علی کے ساتھ والے ہوں ، یا حضرت معاویہ ، یا غیر جانب دار۔

یہیں سے موصوف کو دھوکہ ہوا ہے ، ظاہر ہے یہ ائمہ سارے صحابہ کے نام عزت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں ، لیکن کسی حقیقت کو چھپاتے ہرگز نہیں ہیں، جس نے جو کچھ کیا ، اس کی تفصیلات انہوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کر دی ہیں ، جو جیسا تھا ، اس کا کردار و عمل اپنی کتابوں میں محفوظ کر دیا ہے ۔

 اسی غلط فہمی اور کنفیوژن کی وجہ موصوف نے ذھبی کے نظریہ کی چھان پھٹک کرنا ضروری نہیں سمجھا اور تنہا اپنے ذوق و وجدان سے ایک فیصلہ کر کے اپنا دعوی تک صادر فرما دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ، اور یہ کہ یہ بھونڈا جملہ کوئی رافضی ہی لکھ سکتا ہے ، ائمۀ اسلام کو سمجھنے کے لیے انھیں پڑھنا پڑے گا ، پڑھے بغیر غیرت کا اظہار ایک بُرائی کے سوا کچھ نہیں ۔

اب اخیر میں مولانا موصوف سے یہ گزارش ہے کہ بلا شبہہ حضرت معاویہ صحابی  ہونے کی وجہ سے اپنے ماننے والوں سے زیادہ اہم اور قابلِ احترام تھے ، آپ کو چاہئے تھا کہ بجائے امام ذھبی کا دفاع کر نے کے ، حضرت معاویہ کا پُر زور دفاع کرتے اور ان ہی کتبِ حدیث سے جن کے حوالے مولانا سلمان صاحب پیش کر رہے ہیں ، آپ بھی حضرت معاویہ کی تائید میں  بیسیوں حدیثیں پیش کر کے ان کے دلائل کا ردّ کرتے ، چلیے موقع ابھی ہاتھ سے گیا نہیں ہے ، ابھی یہ قرض آپ کے سر باقی ہے ، اس قرض کو پہلی فرصت میں اپنے سر سے اتارنے کی کوشش کریں ، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ وما علینا الا البلاغ


 

جواب حاضر ہے

از:     رفیق المنان القاسمی عفا اللہ عنہ  (جامعه اسلاميه مظفر پور اعظم گڑھ)

ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے معزز دوست مولانا سید جاوید احمد صاحب نے ہماری خوشی کی خاطر ایک فاضلانہ مضمون سپرد قلم فرمایا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارا  دعویٰ تمام تر کوششوں کے بعد بھی غلط ثابت نہ کیا جاسکا۔

مولانا نے جلد بازی اور جوشِ دفاع میں علامہ ذہبی کی پوری عبارت دیکھے بغیر ذہبی کی آدھی بات کی بنیاد پر اپنے پورے مفروضہ کی عمارت کھڑی کردی اور میری بات غلط ثابت کرنے کی جلدی میں وہی مفروضہ لے کر سامنے آگئے، اور لطف یہ ہے کہ مولانا پوری سنجیدگی سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ذہبی کی جس عبارت تک ان کی “نظر رسا” پہونچ گئی اس ناچیز کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اور اسی غلط فہمی کی بنا پر انہوں نے اپنے مضمون کا عنوان ہی رکھ دیا”کاروبار تحقیق میں آبروئےتحقیق کا فقدان” اور اس میں وہ کیا کچھ کہہ گئے

ع: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

بہرحال اطلاعاً عرض ہے کہ ذہبی کی عبارت میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا  بلکہ سب سے پہلے اسی پر نظر گئی اور الحمدللہ میری نظر آدھی بات تک محدود نہیں رہی؛ بلکہ میں نے علامہ ذہبی کی پوری بات اور پوری عبارت بہ غور پڑھی تھی اور میں ساری کارستانی سمجھ چکا تھا اور میں نے اپنی تحریر میں پوری بات کا خلاصہ لکھ بھی دیا تھا لیکن حیرت ہے کہ اس پر نظر نہیں گئی۔

مولانا سلمان صاحب اور ہمارے معزز دوست مولانا جاوید احمد صاحب کی نظر متصلاً بعد والی عبارت پر پہونچی ہی نہیں یا پہونچی لیکن خلاف مطلب سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیاگیا، انھوں نے صرف اسی آدھی بات سے مطلب رکھا جو ان کے مفید ِمطلب تھی۔

آج بہت سی ویب سائٹس ہیں جہاں شیعہ باحثین بیٹھے ہوئے  اہل سنت کی کتابوں سے اس طرح کی چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور  اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لوگ دھوکہ کھا جائیں، میں نے پہلے مولانا سلمان صاحب کی ذکر کردہ عبارت کو گوگل پر سرچ کیا تو ایک شیعی ویب سائٹ پر ذہبی کی وہی آدھی عبارت سامنے آئی جو مولانا جاوید احمد صاحب نے پیش کی ہے، اور کمال ہوشیاری سے وہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو مولانا سلمان صاحب کا مدعا ہے، پھر ہم نے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا تو حقیقت کھل کر سامنے آگئی

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

بس وہی بات انھیں “خوش گوار” گزری ہے

مجھے شک ہے کہ یہ تحقیق کہیں اسی گوگل سرچ کا نتیجہ تو نہیں جس میں ذہبی کی آدھی بات ذکر کی گئی ہے اور آدھی چھپا لی گئی ہے، کیوں کہ جس کے سامنے ذہبی کی پوری عبارت ہو وہ میرے خیال میں وہ بات نہیں کہہ سکتا جو مولانا نے کہی ہے۔

بہرحال اب ہم اصل مدعا پر آتے ہیں اور اور زیر نظر مضمون میں پیش کئے گئے دعاوی کا نکتہ وار جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ میرا اعتراض محض جملہ کے الفاظ پر نہیں ہے، جیسا کہ مولانا باور کرانا چاہتے ہیں، الفاظ تو محض معنی کے لئے قالب ہوتے ہیں اور کسی کے کلام میں استعمال شدہ الفاظ اور جملوں سے ان کے متبادر معنی و مفهوم ہی مراد ہوتے ہیں۔

ہم اپنے اس دعوے پر اب بھی قائم ہیں  کہ علامہ ذہبی کی طرف جو عبارت منسوب کی گئی ہے وہ اپنے متبادر معنی و مفهوم کے اعتبار سے بالکل صحیح نہیں ہے اور ذہبی پر اتہام سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، علامہ ذہبی نے وہ بات قطعاً نہیں کہی ہے جو ان کا “نظریہ” بتا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

مولانا کے لمبے چوڑے مضمون کا ایک بڑا حصہ ہماری تحریر کے اقتباسات اور ان پر تیز و تند اور تلخ تبصروں پر مشتمل ہے، ہم ان کا کوئی جواب نہیں دیں گے نہ ہی ان کی ذات اور ان کے علم و دیانت پر کوئی تبصرہ کریں گے۔

حکایت بود بےپایاں بہ خاموشی ادا کردم

مولانا جاوید احمد صاحب ہمارے ناقابل تردید دعویٰ کی بزعم خود تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اپنی تقریر میں مولانا سلمان صاحب نے اس بات کو عربی میں یوں ادا کیا ہے : “أتباع معاوية هم النواصب“۔

یہ بات انہوں نے Quotation اور اقتباس کے طور پر نہیں پیش کی ہے؛ بلکہ ذھبی کے نظریہ اور فکرہ کے طور پر اسے پیش کیا ہے، یعنی ان کی یہ بات روایت بالمعنی کے طور پر زیرِ بحث آئی  ہے، نہ کہ روایت باللفظ کے طور پر، کیونکہ علامہ ذھبی نے حضرت معاویہ کے حامی گروہ کو بصراحت ناصبی لکھا ہے اور اصل مقصود اسی بات کی تردید مولانا موصوف کے پیشِ نظر ہے، اور ذھبی نے اتنی بات بلا شبہ اپنی کتاب “سیر أعلام النبلاء” میں لکھی ہے: “مولانا سلمان صاحب کا جملہ بس اتنا بتاتا ہے کہ ذھبی حامیانِ معاویہ کو ناصبی سمجھتے ہیں”۔

معزز  وکیل دفاع کا بیان آپ نے پڑھ لیا،  اب ذرا مولانا سلمان صاحب کا بیان بھی سن لیں:

 “امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ جو بڑے جلیل القدر محدث تھے، اور محدثین کا ان پر اتفاق ہے، ان کے دور  اور ان کے بعد کے دور میں بھی، انھوں نے فرمایا تھا “أتباع معاوية هم النواصب” معاویہ کے جو بھی پیچھے چلنے والے ہیں، ان کی اتباع کرنے والے ہیں وہ سب ناصبی ہیں، اسی طرح کی ملتی جلتی بات امام ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ نے فرمائی”۔

اسی طرح وہ ایک اور ویڈیو خطاب میں کہتے ہیں:

“امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ”أتباع معاوية هم النواصب” معاویہ کی اتباع کرنے والے ناصبی تھے”۔

مولانا سلمان صاحب کے ان الفاظ کو بہ غور پڑھئے اور دیکھئے کہ کیا کسی بھی پہلو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جناب عالی علامہ ذہبی کی عبارت کا اقتباس  نہیں پیش کر رہے بلکہ ان کی بات کا ملخص اپنے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں؟

اگر تقریر عربی میں ہوتی تو یہ تاویل شاید چل بھی جاتی، لیکن تقریر اردو میں  ہے اور کہا جا رہا ہے کہ

 “ذہبی نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ “أتباع معاوية هم النواصب” معاویہ کی اتباع کرنے والے سب ناصبی ہیں”

تو کس کے وہم گمان میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہ ذہبی کی عبارت کا اقتباس نہیں پیش کیا جا رہا ہے،  بلکہ ان کی کئی سطری عبارت کی تلخیص کی جا رہی ہے، پوری تقریر میں کیا کوئی ایسا اشارہ یا قرینہ موجود ہے جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ یہ حافظ ذہبی کی عبارت کا اقتباس نہیں بلکہ اس کا ملخص پیش کیا جا رہا ہے؟  یہاں ظاہراً یہی نظر آتا ہے کہ بلا کسی لیت و لعل کے اپنی  “وضع کردہ “عبارت ذہبی کی طرف منسوب کی جا رہی ہے جو یقیناً خیانت اور اتہام کے دائرے میں آتا ہے۔

محترم وکیل صفائی کا پیش کردہ دوسرا نکتہ یا دعویٰ پہلے سے بھی زیادہ مخدوش اور مضحکہ خیز  ہے،  آئیے اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مولانا موصوف بڑے دم خم اور ادعا کے ساتھ فرماتے ہیں کہ

“مولانا سلمان صاحب نے اپنی ساڑھے تیرہ منٹ کی تقریر میں علّامہ ذہبی کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ “معاویہ کے اتباع کرنے والے ناصبی تھے”، اور ذھبی کے تعلق سے اتنی بات بالکل درست ہے ، کیونکہ علامہ ذہبی نے اپنی کتاب “سیر أعلام النبلاء” میں بلا شبہہ یہ بات لکھی ہے “حقیقت یہ ہے کہ یہ علامہ ذھبی کی کئی سطروں پر پھیلی ہوئی تحریر کا لبِّ لُباب اور خُلاصہ ہے”۔

آئیے! دیکھتے ہیں کہ معزز وکیل صفائی کے اس دفاعی نکتہ میں کتنی سچائی ہے؟ اور کیا واقعی علامہ ذہبی رحمة اللہ  عليه نے اپنا یہ “نظریہ و فکرہ” پیش کیا ہے کہ

“معاویہ کے جو بھی پیچھے چلنے والے ہیں، ان کی اتباع کرنے والے ہیں وہ سب ناصبی ہیں،”(مولانا سلمان صاحب کے الفاظ)

جیسا کہ مولانا سلمان صاحب اور ان کے وکیل صفائی مولانا جاوید احمد صاحب دعویٰ کرتے ہیں؟

ہمارا واضح اور دو ٹوک موقف یہ ہے کہ نہیں اور قطعاً نہیں، یہ بالکل جھوٹ اور ذہبی پر افترا ہے۔

اگر ان کی مراد”اتباع” سے بعض اتباع ہوتے تو بات درست تھی، اور یہ بات ہر کوئی جانتااور مانتا ہے اس میں ذہبی کی کوئی تخصیص نہیں ہے، لیکن اس طرح تنقیص و اہانت صحابہ کے لئے جواز فراہم کرنے کا ان کا مقصود حاصل نہ ہو پاتا ، اس لئے انہوں نے اپنے مفروضہ جملے کو موجبہ کلیہ کے طور ذکر کیا جیسا کہ ان کے الفاظ “سب ناصبی تھے” سے ظاہر ہے، اور وہ اس کے عموم میں صرف اتباع و اخلاف معاویہ ہی کو نہیں بلکہ خود حضرت معاویہ اور ان کے ہمنوا صحابہ کو لا کر ان پر زبان طعن دراز کرنے کا جواز تلاش کرنا  چاہتے ہیں اور اس کے لئے حافظ ذہبی کا سہارا لینا چاہتے ہیں، ہمارا اصل اعتراض یہی ہے۔

اس گمراہ کن دعوے کی بنیاد “سیر اعلام النبلاء” کی وہ عبارت ہے جس کے آدھے حصے تک ہی ان کی نظر پہونچ سکی، اور اسی کو پیش کر کے سمجھ لیا کہ حق دفاع ادا ہو گیا اور ہمارا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا

ع: سخن شناس نہ ای دلبرا ! خطا ایں جا ست

مولانا جاويد احمد صاحب ذہبی کی آدھی عبارت تک اپنی رسائی کو اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور راقم الحروف کو طعن و طنز کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

“مولانا موصوف کا دعوی ہے کہ ذھبی نے یہ نظریہ اپنی کسی کتاب میں پیش نہیں کیا ہے، تمام تر بلند بانگ دعوائے تحقیق کے با وجود موصوف کی نگاہِ تحقیق ذھبی کی اس بات تک نہ پہنچ سکی”

ع:    اب کوئی  بتلائے  کہ  ہم  بتلائیں کیا؟

یہاں سب سے پہلے ہم ذہبی کی عبارت کا وہ حصہ پیش کر تے ہیں جو مولانا جاوید احمد صاحب نے پیش کی ہے:

و خلف معاوية خلقٌ کثيرٌ يحبّونه و يتغالونه فيه و يفضّلونه، إما قد ملكهم بالكرم و الحلم و العطاء و إما قد وُلدوا في الشام على حبّه و تربّى أولادهم على ذلك و فيهم جماعة يسيرة من الصحابة و عددٌ کبيرٌ من التابعين و الفضلاء و حاربوا معه أهل العراق و نشؤوا علی النصب، نعوذ بالله من الهوى”. [سير أعلام النبلاء 128/3]۔

“(ایک بڑی جماعت نے معاویہ کو اپنا امام مانا ، وہ ان سے غلو کی حد تک محبت کرتے تھے؛ بلکہ علی کے مقابلہ میں ان کی افضلیت کے قائل تھے، یا تو معاویہ نے اپنے کرم ، حلم اور عطا و بخشش کے ذریعہ انھیں اپنا ہمنوا بنایا تھا ، یا پھر شام میں پیدا ہونے کی وجہ سے انھیں ان سے محبت تھی ، ان کی آل و اولاد کی بھی کچھ اسی طرح تربیت ہوئی ، ان میں صحابہ کی بھی ایک مختصر جماعت تھی اور تابعین اور با کمال لوگوں کی بڑی جماعت تھی ، ان سب لوگوں نے معاویہ کے ساتھ  اہل عراق سے جنگ کی ،  ناصبیت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی)”۔

مولانا جاويد صاحب کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز ہے، تعلی و احساس برتری کا یہ عالم ہے کہ راقم السطور جیسے لوگوں کو وہ اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ وہ کسی عربی عبارت کا ترجمہ بھی کر سکیں۔

ہم مولانا کے علم و صلاحیت اور ان کی امانت و دیانت پر کوئی سوال نہیں اٹھائیں گے، لیکن یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ انہوں نے ترجمہ تو ٹھیک ہی کیا ہے  لیکن اس میں چند باتیں محل غور ہیں۔

انہوں نے “خلف” کا ترجمہ کرنے میں غلطی کی ہے۔ “خلف يخلف ” کا بنیادی مفہوم  “خلف” (پیچھے)  ہے،  “امام” ( آگے )  نہیں، اس لئے خلف کا ترجمہ”امام بنانا”  یا   “امام ماننا “صحیح نہیں ہو سکتا۔

مولانا کو عربی زبان پر اچھی دسترس حاصل ہے، لیکن زبان دانی اور زبان کے ذوقِ صحیح میں بڑا فرق ہے، عربی زبان کا صحیح ذوق رکھنے والا “خلف” کا وہ ترجمہ کبھی نہیں کر سکتا جو انھوں نے کیا ہے، یہاں ان کی عجمی نفسیات چپکے سے اپنا کام کر گئی۔

مولانا نے اپنی تحریر میں “ذوق و وجدان” کا بڑا مذاق اڑایا ہے، لیکن ہم کیسے بتائیں کہ وہ کیا چیز ہے اور کتنے کام کی چیز ہے؟

ع: ذوقِ ایں بادہ نہ دانی بخدا تا نہ چشی

یہاں  “خلف معاوية خلق كثير”  کا صحیح ترجمہ ہو گا “معاویہ نے اپنے پیچھے ایسے بہت سے لوگ چھوڑے…. ” یا “معاویہ کے  پیچھے ایسے بہت سے لوگ تھے…” ۔

در اصل یہاں بات ان لوگوں کی نہیں ہو رہی ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت معاویہ کے ہمنوا بن گئے تھے اور ان کا ساتھ دیا تھا،بلکہ یہاں ذکر ان لوگوں کا ہو رہا ہے جو حضرت معاویہ کے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت ان کے خلف یا  ناخلف بنے تھے یعنی بات أتباع معاوية کی نہیں بلکہ أخلاف معاوية کی ہو رہی ہے۔

یہاں “خلف” اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہے:

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا. [مريم: ٥٩].

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا. [الأعراف: ١٦٩].

اگر یہاں ” خلف” باب تفعيل سے ہو تب بھی اس کے معنی “امام ماننا” یا “حکمراں بنانا” نہیں؛بلکہ اپنا جانشین اور قائم مقام بنانا ہوں گے، جیسے یہ کہنا تو صحیح ہے کہ”خلف أبو بکر عمر” کہ حضرت ابوبکر نے عمر کو اپنا جانشین بنایا، لیکن اگر یہ کہنا ہو کہ لوگوں نے حضرت ابوبکر کو “خلیفہ بنایا”  یا  ” امام مانا” تو اس کے لئے “خلف الناس أبا بکر” کی تعبیر عربی محاورہ کی رو سے صحیح عربی تعبیر نہیں، بلکہ عجمی تعبیر ہو گی۔

ترجمہ میں دوسری محل غور چیز یہ ہے کہ”يفضِّلونه” کا  ترجمہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے،مولانا نے اس کا ترجمہ”علی کے مقابلہ میں ان کی افضلیت کے قائل تھے” کیا ہے، جب کہ اس کا ترجمہ “وہ ان کو ترجیح دیتے تھے”  کافی تھا، کیونکہ کسی کی رائے اور موقف کو ترجیح دینا اس کی افضلیت کے قائل ہونے کو مستلزم نہیں ہے، خود حضرت معاویہ اور ان کے ہمنوا صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ سے افضل مانتے تھے صرف خونِ عثمان کے قصاص کے مسئلے پر اتفاق نہ ہوسکا اور بات بڑھ گئی تھی۔

“جاء أبو مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية ، وقالوا : أنت تُنازِعُ عليّاً أم أنتَ مثله ؟ فقال : لا والله إني لأعلم أنه أفضل مني وأحق بالأمر مني ، ولكن الستُم تعلمون أنَّ عثمان قُتِلَ مظلوماً ، وأنا ابنُ عَمِّه ، والطالب بدمه ، فائتوه ، فقولوا له ، فليدفَع إلي قتلة عُثمان ، وأسلم له . فأتوا علياً ، فكلموه ، فلم يدفعهم إليهِ”. [سير أعلام النبلاء:  3 /140].

“ﻭﻋﻦ ﻗﻴﺲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺯﻡ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻝ ﺭﺟﻞ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻦ ﻣﺴﺄﻟﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺳﻞ ﻋﻨﻬﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻓﻬﻮ ﺃﻋﻠﻢ ﻣﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﻮﻟﻚ ﻳﺎ ﺃﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺃﺣﺐّ ﺇﻟﻲّ ﻣﻦ ﻗﻮﻝ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺑﺌﺲ ﻣﺎ ﻗﻠﺖ، ﻭﻟﺆﻡ ﻣﺎ ﺟﺌﺖ ﺑﻪ، ﻟﻘﺪ ﻛﺮﻫﺖ ﺭﺟﻼ‌ً ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ e ﻳﻐﺮّﻩ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﻏﺮﺍ، ﻭﻟﻘﺪ ﻗﺎﻝ ﻟﻪ: “ﺃﻧﺖ ﻣﻨﻲ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﻣﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺇﻻ‌ّ أنه ﻻ‌ ﻧﺒﻲّ ﺑﻌﺪﻱ”، ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﻳﺴﺄﻟﻪ ﻭﻳﺄﺧﺬ ﻋﻨﻪ، ﻭﻟﻘﺪ ﺷﻬﺪﺕ ﻋﻤﺮ ﺇﺫﺍ ﺃﺷﻜﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻣﺮ ﻗﺎﻝ: ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ. ﺛﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻠﺮﺟﻞ: ﻗﻢ ﻻ‌ ﺃﻗﺎﻡ ﺍﻟﻠﻪ ﺭﺟﻠﻴﻚ، ﻭﻣﺤﺎ ﺍﺳﻤﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺪﻳﻮﺍﻥ. [“ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ” (17/ 347) ﻁ: ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻔﻜﺮ].

علامہ ذہبی کی مذکورہ عبارت میں ایک اور جملہ ہے “نشؤوا علی النصب” (ناصبیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی)

مولانا جاويد احمد صاحب نے اس کا شاندار با محاورہ ترجمہ کیا ہے، لیکن آج کتنے لوگ اس محاورے کی حقیقت سے واقف ہیں؟ اس با محاورہ ترجمہ سے اس جملے کی صحیح ترجمانی نہیں ہو پاتی،  اس کے صحیح معنی ہوں گے  “وہ نصب زدہ ماحول میں پلے بڑھے تھے”۔

اور ظاہر ہے کہ ان “نصب زدہ ماحول میں پلے بڑھے لوگوں” میں اصحاب رسول تو نہیں ہو سکتے، کیونکہ صفین کے وقت سب سے کم عمر صحابی کی عمر بھی 24 سال سے اوپر ہی ہوگی ان کے بارے میں یہ کہنا قطعاً صحیح نہیں ہو گا کہ وہ ناصبیت میں پلے بڑھے تھے اور ناصبیت ان کی گھٹی ميں پڑی تھی۔

اس لئے مولانا سلمان صاحب کا یہ دعویٰ کہ حضرت معاویہ کے  اتباع کرنے والے سب ناصبی تھے، اور اس جھوٹ کو علامہ ذہبی کی طرف منسوب کرنا  ناقابل بیان حد تک غلط ہے۔ اور مولانا جاوید احمد صاحب جیسے ذہین فطین شخص نے کس جھونک میں اس کی تائید وتوثیق کردی، یہ سمجھ سے  باہر ہے۔

ع:   بريں عقل ودانش ببايد گريست

مولانا ہم پر طنز کرتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ کا دفاع کرنے کے بجائے ان کے ناصبی اتباع کا دفاع کرنے بیٹھ گئے، لیکن ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے ناصبی اتباع، اور حضرت علی مرتضیٰ کےرافضی اتباع سے ہمیں کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہے، ہم نے جو کچھ کیا اور کر رہے ہیں وہ دفاعِ صحابہ کے جذبہ سے کیا اور کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔

اب ہم علامہ ذہبی کی عبارت کا اگلا حصہ پیش کر تے ہیں جو اسی عبارت سے متصل و مربوط ہے جس کو مولانا جاوید احمد صاحب نے پیش کیا ہے، جس سے سکے کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے، اور مولانا سلمان صاحب کے دعوے کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے:

كما قد نشأ جيش علي رضي الله عنه ، ورعيته – إلا الخوارج منهم – على حبه والقيام معه ، وبُغض من بغى عليه والتبري منهم ، وغلا خلق منهم في التشيع”۔

(جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج اور ان کی رعایا  – ان میں سے خوارج کو چھوڑ کر  –  ان سے محبت، ان کی حمایت اور ان سے بغاوت کرنے والوں سے بغض ونفرت اور ان سے برأءت و بیزاری پر پروان چڑھی اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے تشیع میں غلو اختیار کیا)۔

پوری عبارت آپ کے سامنے ہے، اسے بغور پڑھئے اور دیکھئے! کہ کیا اس میں یک طرفہ طور پر ذہبی کا کوئی ایسا “نظریہ و فکرہ” سامنے آتا ہے جس کا ملخص اور” لب لباب” ان لفظوں میں بیان کیا جائے کہ “معاویہ کے اتباع کرنے والے سب ناصبی تھے“؟  جیسا کہ مولانا سلمان صاحب کا دعویٰ ہے، اور معزز وکیلِ صفائی اسے درست قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں

ع:  بسوخت عقل ز حيرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست

اگر کوئی ناصبی مولانا سلمان صاحب والی یہی تکنیک اور یہی منطق استعمال کرے اور ذہبی کی عبارت کے ابتدائی حصہ کو نظرانداز کرکے صرف بعد والی عبارت کے پیش ِنظر  یہ دعویٰ کرے کہ “ذہبی کے نظریہ کے مطابق حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے سب اتباع غالي شیعہ يعني رافضي تھے” تو کیا یہ دعویٰ قابل تسلیم ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں اور قطعاً نہیں۔ تو جس طرح یہ “ناصبی ” دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ایسے ہی وہ  “رافضی “دعویٰ بھی هرگز قابل تسلیم نہیں هو سكتا۔

یہاں ذہبی در اصل اپنا کوئی نظریہ نہیں بیان کر رہے ہیں، یہ تو ایک حقیقت ہے جو ہر کوئی جانتا ہے کہ طرفداران معاویہ میں بہت سے لوگ ناصبی، اور حامیان علی میں سے بہت سے لوگ غالی شیعہ اور رافضی بن گئے تھے۔

ذہبی در اصل اس وقت کی تلخ حقیقت اور سنگین و مشکل حالات کی تصویر پیش کر رہے ہیں، آگے کی عبارت میں اس کی مزید وضاحت ہے، اور فریقین اور دوسری جماعتوں کے بارے میں ذہبی نے اپنا اور اہل سنت کا واضح موقف بیان کیا ہے۔

“فبالله كيف يكون حال من نشأ في إقليم ، لا يكاد يُشاهد فيه إلا غالياً في الحب ، مُفرطاً في البغض، ومن أين يقع له الإنصافُ والاعتدال؟ فنحمد الله على العافية الذي أوجدنا في زمان قد انمحص فيه الحق ، واتضحَ من الطرفين ، وعرفنا مآخذ كل واحد من الطائفتين ، وتبصرنا ، فعذرنا واستغفرنا ، وأحبنا باقتصاد، وترحمنا على البغاة بتأويل سائغ في الجملة ، أو بخطأ إن شاء الله مغفور ، وقلنا كما علمنا الله ﴿ربنا اغفر لنا ولإخوانِنَا الذين سبقونا بالإيمان ولا تَجْعَل في قُلُوبِنَا غِلا للذين آمنوا﴾ [الحشر : ۱۰] وترضينا أيضاً عمن اعتزل الفريقين ، كسعد بن أبي وقاص ، وابن عُمر ، ومحمد بن . مسلمة ، وسعيد بن زيد ، وخلق . وتبرأنا من الخوارج المارقين الذين حاربوا عليّاً ، وكفروا الفريقين . فالخوارج كلاب النار ، قد مَرَقُوا من الدين ، ومع هذا فلا نقطع لهم بخلود النار ، كما نقطع به لعبدة الأصنام والصلبان [“سير أعلام النبلاء” للذهبي 3/128].

واضح رہے کہ اس وقت کے ناصبی اور غالی شیعوں میں بھی اتنا تشدد نہیں تھا جو بعد کے ادوار میں پیدا ہو گیا، وہ مخاصمت و منافرت رکھتے تھے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے تھے، مگر ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے تھے، خود ذہبی نے لکھا ہے :

“وكان الناس في الصدر الأول بعد وقعة صفين على أقسام :  أهل سنة ، وهم أولو العلم ، وهم محبون للصحابة كافون عن الخوض فيما شجر بينهم، كسعد وابن عمر ومحمد بن مسلمة وأمم ، ثم شيعة يتوالون وينالون ممن حاربوا علياً ويقولون : إنهم مسلمون بغاة ظلمة، ثم نواصب : وهم الذين حاربوا علياً يوم صفين، ويقرون بإسلام علي وسابقيه ويقولون خذل الخليفة عثمان. فما علمت في ذلك الزمان شيعياً كفر معاوية وحزبه ، ولا ناصبياً كفر علياً وحزبه، بل دخلوا في سب وبغض، ثم صار اليوم شيعة زماننا يكفرون الصحابة، ويبرؤون منهم جهلاً وعدواناً، ويتعدون إلى الصديق قاتلهم الله ، وأما نواصب وقتنا فقليل، وما علمتُ فيهم من يكفر علياً ولا صحابياً”. [سير اعلام النبلاء: 5/374].

ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ علامہ ذہبی کی آدھی بات کو سامنے رکھ کر مولانا سلمان صاحب نے جو دعویٰ کیا کہ”معاویہ کے اتباع کرنے والے سب ناصبی ہیں” قطعاً غلط، بےبنیاد اور جھوٹ ہے۔

اب ایک شیعہ محقق کا اسی طرح کا  ایک دعویٰ ملاحظہ فرمائیں! وہ کہتا ہے:

 “مجموعة من الصحابة كانوا نواصب، والناصبي منافق بدلالة الحديث الشريف الصحيح”.

آگے وہ ذہبی کی اسی آدھی عبارت کو حوالے میں پیش کرتا ہے:

سير أعلام النبلاء للذهبي: (3/128) ـ متحدِّثًا عن أتباع معاوية ـ : “وفيهم جماعة يسيرة من الصحابة وعدد كثير من التابعين والفضلاء وحاربوا معه أهل العراق ونشؤوا على النصب نعوذ بالله من الهوى”.

ذہبی کی عبارت پیش کرنے کے بعد وہ اس سے یہ نتیجہ مستنبط کرتا ہے:

 “وبناءًا عليه يكون الذهبي قائلاً بأن هناك مجموعة من الصحابة كانوا نواصب، والناصبي منافق بدلالة الحديث الشريف الصحيح”.

اس شیعہ”محقق”  کا اندازِ استدلال بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ مولانا سلمان صاحب کا ہے، لیکن اس نے کم از کم اتنی دیانت داری کا مظاہرہ کیا کہ اس نے اپنے الفاظ کو ذہبی کی عبارت کے ساتھ خلط نہیں کیا تاکہ صراحتاً جھوٹ بولنا لازم نہ آئے، لیکن مولانا سلمان صاحب کو اتنی سی دیانت داری برتنے کی توفیق نہ ہو سکی، اور اپنی من گھڑت اور فرضی بات کو علامہ ذہبی کی طرف منسوب کرنے میں انھیں ذرا بھی جھجھک اور حیا دامن گیر نہ ہوئی۔

ع  بہ بیں تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا ست

آئیے!  اب حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس عبارت کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں جو مولانا جاوید احمد صاحب نے مولانا سلمان صاحب کی تائید وحمایت میں پیش کی ہے، اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس سے مولانا سلمان صاحب کا مدعا ثابت ہوتا ہے؟

شرح الوجيز للرافعی میں خوارج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:

“هم فرقة من المبتدعة خَرَجوا على عليّ، حيثُ اعتقدوا أنَّه يَعرِف قَتَلَةَ عثمان ويقدر عليهم، ولا يَقتَضُ منهم لرضاه بقتله ومُواطَأته إياهم، ويَعتَقِدُونَ أنَّ مَن أَتَى كبيرة فقد كَفَرَ وَاسْتَحقَّ الخلود في النار، ويطعنون لذلك في الأئمة”، انتهى.

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اس عبارت میں شروع کے اوصاف خوارج کے بیان کئے گئے ہیں وہ دراصل نواصب کے اوصاف ہیں، خوارج تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر اور ان کے خونِ ناحق کے برحق ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے، صفین تک وہ حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھے، واقعہ تحکیم کے بعد وہ حضرت علی مرتضیٰ کے مخالف اور باغی ہو گئے اور انہیں کافر تک قرار دے دیا۔

“ليس الوصف الأول في كلامه وصف الخوارج المبتدعة، وإنَّما هو وصفُ النَّواصب  أتباع معاوية بصفين، وأما الخوارج فمن مُعتَقَدِهم تكفير عثمان وأنَّه قُتِلَ بحَقِّ، ولم يزالوا مع علي حتَّى وَقَعَ التَّحكيمُ ،بصفّين، فأنكروا التَّحكيم وخَرَجوا على على وكَفْروه”.   

حافظ ابن حجر کے الفاظ پر غور کیا جائے! کیا یہ وہی بات ہے جس کے مولانا سلمان صاحب کا مدعا ہے؟ حافظ ابن حجر یہ کہہ رہے ہیں کہ شرح الوجيز ميں خوارج کے جو ابتدائی اوصاف بیان ہوئے ہیں وہ دراصل نواصب کے اوصاف ہیں جو صفین میں حضرت معاویہ کے اتباع تھے۔

“نواصب معاویہ کے متبعین تھے” اور “معاویہ کے اتباع کرنے والے سب ناصبی تھے” ان دونوں جملوں میں جو واضح فرق ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ یعنی:

اس مرقع میں بھی انصاف کی تصویر نہیں

“نواصب اتباع معاویہ تھے” یہ فقرہ بلا شبہ درست ہے، لیکن “اتباع معاویہ سب ناصبی تھے” قطعاً غلط ہے اور ذہبی، ابن حجر یا کسی اور کی طرف اس کی نسبت کرنا ” تلخیص ”  یا   “روایت بالمعنی” نہیں بلکہ تحریف، تلبیس اور اتہام ہے۔  هذا ما عندي و الله أعلم بالصواب!

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.