موبائل فون اورانٹر نٹ کے خرافات سے کیسے بچا جائے
محمد ہاشم قاسمی بستوی استاذ جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڈھ یوپی انڈیا،
موبائل فون ایک بہت ہی دلچسپ ڈوائس ہے، کیا جوان کیا بوڑھا، کیا عالم کیا جاہل، کیا چھوٹا کیا بڑا ہر کوئی اس کا دیوانہ ہوتا ہے،یہ دیوانگی اب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ موبائل فون کے بنا کسی کو بھی ایک پل بھی قرارنہیں آتا، آدمی جہاں بھی ہو،جس حالت میں ہو، چاہے وہ کتنے اہم اور ضروری کام میں مشغول ،ہو لیکن وہ ہر ہر منٹ پر نظریں چرا کر اپنے موبائل فون کی اسکرین پردیکھنے کی کوشش ضرور کرتاہے، گویا کہ موبائل فون اس کے جسم کا حصہ بن چکا ہے، ایک سکنڈ کے لیے بھی اس کی جدائی برداشت نہیں ، اگر کسی وجہ موبائل فون گھر پر چھوٹ جائے تو وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، اگر کسی کا موبائل فون گم ہو جائے تو مانو اس کے اوپرقیامت ٹوٹ پڑتی ہے، وہ اپنے آپ کو بے سہارا اوربے دست وپا محسوس کرتا ہے، گویا کہ اس کے جسم سے روح نکل گئی ہے ۔
ہم ہوئے وہ ہوئے میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اوپر کی تمہید بکواس نہیں ایک تلخ حقیقت ہے ، سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی ہے چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، صبح شام ، دن رات کا مشاہدہ ہے، اب تو اتنی بات تو طے ہو چکی ہے کہ اس وقت موبائل فون ہر ایک انسان کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے، اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے،آدمی کی اکثر ضروریات اس سے وابستہ ہو چکی ہیں ، لیکن ان وابستہ ضروریات کے چور دروازے سے ایسے ایسے خرافات بھی راہ پا گئے ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے ناسورثابت ہو رہے ہیں ،جس کے تصور سے روح کانپ اٹھتى ہے، دل گھبرانے لگتا ہے،اپنے گرد وپیش نگاہ دوڑانے سے معاشرے کی ایک بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، گھرانا کا گھرانا اس کی لپیٹ میں آچکا ہے، سرِ شام ہی سے تقریباًہر گھر میں موبائل فون پر فلموں اور سیریلز کا دور چلتا ہے جس سے گھر کے تمام افراد سیراب ہوتے ہیں ، اور دیر رات تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اب تو ان پڑھ اور جاہل لوگ بھى انٹر نيٹ كى خراب رہ گزر پر آسانى سے پہنچ جاتے ہيں اور پڑھے لكھے لوگوں كى طرح نٹ کی فحش وادیوں کی سیر کرتے ہیں ، صورتِ حال اس قدر تسویش ناک ہو ہو چکی ہے کہ لوگوں کے دلوں سے گناہ کا احساس بھی مٹ چکا ہے ۔ آدمی اچھا خاصا نمازی ہے لیکن رات میں موبائل کی اسکرین پر دوسری دنیا کی سیر کرتا نظر آتا ہے ۔
ع چوں بہ خلوت مى روند كارِ ديگر مى كنند
اللہ تعالی ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائیں آمین ۔
موبائل فون کا اصل مقصد تو ٹیلی فون ہے یا ایک دوسرے سے رابطہ کرنا ہے، لیکن اس مقصد کی حیثیت اب ثانوی درجے کی ہو گئی ہے، اس کی حدِ پرواز اب بہت اونچی ہو چکی ہے، اس کے تصور کا دائرہ اب بہت وسیع ہو چکا ہے، اس کے دائرے میں اب سادہ اور سمپل موبائل فون کی جگہ برائے نام باقی رہ گئی ہے، سادہ موبائل فون کو گھر کے چھوٹے بچے بھی اب کوئی اہمیت نہیں دیتے، اب موبائل فون کا تصور آتے ہی ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ وہ ملٹی میڈیا ہو، اور اس سے بھی اہم چیز اس میں نٹ کی سہولت بھی ہو، اگر یہ دونوں خصوصیت موبائل فون میں نہ ہوں تو وہ موبائل فون بے کار سمجھا جاتا ہے، یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ اب دنیا میں تقریبا 75% فیصد لوگ موبائل فون ہی سے اپنا سارا کام کاج کرتے ہیں ،جس میں آن لائن شاپنگ ،بینکنگ، منی ٹرانسفرنگ، ٹکٹ بکنگ، زمینوں اور سرکاری دفاتر کے کاغذات، ای میل،اور ہزار طرح کے کام شامل ہیں ۔ اگر نٹ کی سہولیت موبائل فون میں نہ ہو تو بسا اوقات بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ نٹ کی ان خصوصیات کی آڑ میں اچھے خاصے پڑھے لکھے دین دار لوگ بھی نٹ کی ان رنگین وادیوں کی سیر کرتے نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ یہ بھی اسی کوٹھے کے دیوانے ہیں ، بہت سارے لوگوں نے جب بغرضِ اصلاح جب اپنا موبائل فون ہم کو دیا تو ان کے موبائل کے خد وخال کو دیکھ کرہم دنگ رہ گئے، ذہن نے اوّلِ وہلہ میں اس بات سے انکار کیا کہ کیا ایسے لوگ بھی نٹ پر اتنی خراب چیزیں دیکھتے ہیں ،
مير كيا سادہ ہيں بيمار ہوئے جس سبب
اسى عطار كے لڑكے سے دوا ليتے ہيں
مزید حیرت اس بات سے ہوتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ابھی بمشکل چل پھر سکتے ہیں وہ بھی گھر والوں کی دیکھا دیکھی یوٹیوب سے اپنے من پسند سیریلز اور فنی ویڈوز بڑی آسانی سے تلاش کر لیتے ہیں ، اور نوجوانوں کیا کہنا وہ تو یوٹیوب کے رسیا ، اور سوشل میڈیا کے دلدادہ ،اور فیسبک کے شیدائی، اور نٹ کی دنیا کے بے تاج باشاہ بن چکے ہیں ، اس تیز رفتار انٹرنٹ کے زمانے میں وہ براہ راست ان رنگین وادیوں کی سیر کرتے ہیں جہاں تک پہلے وہ نہیں پہونچ سکتے تھے ، ان وادیوں کی سیر میں وہ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں ۔ نٹ کی اسپیڈ بڑھنے کی وجہ سے یہاتوں کا معاملہ اور بھی نازک ہو گیا ہے، وہاں کے نوجوان شہروں کی بنسبت زیادہ فری ہوتے ہیں ، دن رات اسی میں مشغول رہتے ہیں ،گاؤں کے ایک نوجوان لڑکے نے بر سبیلِ تذکرہ ایک مرتبہ مجھ کو بتایا کہ وہ رات میں 2 بجے سے پہلے نہیں سوتا ہے، میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگا :MB نہیں ختم ہوتی ہے، میں نے لا حول ولا قوۃ پڑھا ۔
یہ ایک مثال ہے اس جیسی لاکھوں مثالیں آپ کو اپنے آس پاس، اپنے علاقے، اپنے شہر اور اپنے صوبے میں مل جائیں گی،اب یہ نوجوان MB کو کہاں ختم کرتے ہیں اور رات رات بھر کیوں جاگتے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے آئیے ہم کچھ اہم اور مشہور ویب ساءٹوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں Online website research tools کے ریکارڈ کے حوالے سے پوری دنیا میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ویب سائیٹں موجود ہیں ، یہ وہ سائٹیں ہیں جو اس ریکارڈ کے ضمن میں آتی ہیں ویسے نہ جانے کتنی ہوں گی، اور ہمارے ملک انڈیا ميں تقریباً ساڑھے تین لاکھ ویب سائٹیں ہیں ، اس میں نمبر ۱ یک پر google.comہے، جس کو مہینے میں83 ارب سے زیادہ لوگ استعمال کرتے ہیں ، دوسرے نمبر youtube.com ہے جس کوجس کو مہینے میں لگ بھگ 29 ارب سے زیادہ لوگ وزٹ کرتے ہیں ، تیسرے نمبر google.co.in ہے (یہ گوگل انڈیا کا سرچ انجن ہے ) جس کو تقریبا 632 ملین لوگ وزٹ کرتے ہیں ،اور چوتھے نمبر پر facebook.com ہے جس کو مہینے میں پوری دنیا میں 21 ارب زیادہ لوگ وزٹ کرتے ہیں ، پھر انسٹا گرام ہے instagram.com اس كو 6 ارب سے زيادہ لوگ وزٹ كرتے ہيں پھر amazon.in ہے اسے بھی تقریبا 365 ملین لوگ وزٹ کرتے ہیں اس کے بعد چھٹے نمبر پر ایک پورن فلم کی ویب ساءٹ ہے جس کا اڈرس میں جان بوجھ کر درج نہیں کیا ہے اس کو تقریبا مہینے میں 29 ملین لوگ استعمال کرتے ہیں ، ان ساءٹوں کے بعد انڈیا دوسری مشہور ساءٹوں کا نمبر آتا ہے جیسے wikipedia, irctc, onlinesbi, وغیرہ جن کومہینے بھر میں کروڑوں لوگ وزٹ کرتے ہیں ، ہم تفصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف اوپر ذکر کردہ چھ ویب ساءٹوں کا تجزیہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :
گوگل کو لوگ صرف اپنی مطلوبہ چیز سرچ کے لیے سواری کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، جو ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے، اور یوٹیوب کو 75% فی صد لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے استعمال کرتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ یوٹیوب میں صرف خراب ویڈیوز ہوتی ہیں ، اس میں پڑھنے لکھنے اور سیکھنے سکھانے سے متعلق بھی دنیا کی ہر زبان میں لاکھوں ویڈیوز مل جاتی ہیں ، لیکن یہ یوٹیوب پر اپلوڈ شدہ ویڈیوز کا پچیسواں حصہ ہے، ان کا پچہتر فی صد حصہ انٹر ٹینمنٹ اور مخرب الاخلاق ویڈیوز پر مشتمل ہے،اگر یہ بات کہی جائے تو بے جا نہ ہوگی کہ اس وقت یوٹیوب دنیا کا تیسرا بڑا سرچ انجن بن چکا ہے، لوگ اپنی مطلوبہ چیز گوگل کے علاوہ یوٹیوب پر بھی تلاش کرتے ہیں ، اس کی ڈیٹا بیس میں اچھی خراب ہر طرح کی ویڈیوز ہیں ، یہ یوزر پر پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی ویڈیو دیکھنا چاہتا ہےamazon کو لوگ آن لائن خریداری کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اور فیس بک کو خبروں اور چیٹنگ، اور انٹر ٹینمنٹ کے لیے یوز کرتے ہیں ، اور پورن والی سائٹ کے بارے میں کیا کہا جائے وہ تو اس کے نام سے ظاہر ہے، انڈیا میں اس چھٹی رینک ہے، جو بہت ہی ہائی ہے،اس کی رینک خود ہی بتا رہی ہے کہ وہ انڈیا بہت ہی زیادہ لوگ اس کو دیکھ رہے ۔
میری اپنی ذاتی ریسرچ کے مطابق اکثر نوجوان اور خاص طور پر غیر شادی شدہ حضرات، اور کالجوں یونیورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ بھی ان ہی تینوں ویب سائٹيوں (انسٹا گرام، فیس بک، یوٹیوب، پورن فلم والی سائٹ) میں رات رات بھر بزی رہتے ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی کام کے حوالے سے دیر رات تک نہیں جاگتا، کام کرتے کرتے آدمی کا دماغ تھک جاتا ہے ، پھر اس کا نیند کی آغوش میں چلے جانا لازمی بات ہے، لیکن جب آدمی کونفسانی خواہشات کی غذا وافر مقدار میں مل رہی تو وہ نیند کی دنیا سے کوسوں دور چلا جاتا ہے، اور رات رات بھر جاگنا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ، اب صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ ہر گھر میں اكثر افراد ایسے ضرور مل جاتے ہیں جو گھر والوں سے زیادہ اپنے فون میں بزی رہنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں ،یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے قیمتی اوقات کا خون کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں ۔
معاشرے کی اس صورتِ حال سے نپٹنے کے ليےہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس کے لیے ہمیں کیا لائحۂعمل تیار کرنا چاہئے؟ ہم اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کو اس ناسور سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ اس سلسلہ میں میرا جو ذاتی تجربہ ہے اس کی روشنی میں دو چار باتیں آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی ان سے فائدہ پہونچے ۔
سب سے پہلے ہم کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لیے ایک ان لمٹیڈیٹا بیس بنا رکھا ہے جس میں اس آدمی کا ہر چھوٹا بڑا کام اسٹور ہوتا رہتا ہے، ڈیٹا بیس میں جمع شدہ اعمال و اقوال کی نوعیت کے لحاظ سے کل قیامت دن اچھا یا برا بدلہ ملے گا، سورہ ق کی آیت نمبر ۸۱ میں اسی کی طرف اشارہ ہے، موبائل فون استعمال کرنے والے تمام حضرات کو بھی یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ اپنے موبائل میں دیکھتے یا سنتے وہ سارے کے سارے اعمال اللہ کی ڈیٹا بیس میں جمع ہو رہے ہیں ، اگر میں اس کا غلط استعمال کروں گا تو مجھے اس کا حساب دینا ہوگا ۔
کہتے ہیں کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے، اگر آدمی اپنے کام کاج میں مشغول ہے تو ویسے بھی اسے موبائل فون کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کی فرصت نہیں ملتی،لیکن اگر آدمی کو فراغت اور تنہائی حاصل ہو،اور وہ نٹ کے خد وخال سے واقف ہو تو آج کے تیز رفتار انٹرنٹ کے زمانے میں گناہ سے بچنا بہت مشکل ہے، زیادہ تر لوگ خالی وقت ہی میں گناہوں کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں ، پھر دھیرے دھیرے اس کے دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں ، جلوت میں پارسائی کا لبادہ اوڑھنے والے حضرات بھی جب خلوت میں اپنے موبائل فون کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی پارسائی دھری کی دھری رہ جاتی ہے، اللہ مغفرت فرمائے اکبر الہ آبادی مرحوم کی کتنی معرفت کی بات اپنے شعر میں کہہ گئے ہیں :
بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں
بہت آساں ہے یاروں میں معاذ اللہ کہہ دینا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الا ما شاء اللہ، تواگر کسی کو کبھی تنہائی میسر آئے تو موبائل چلانے کے بجائے کوئی دینی واقعات کی کتاب پڑھنا شروع کر دے، تاکہ اس کا ذہن بٹ جائے، اور تنہائی میں اللہ کے عذاب سے اپنے نفس کو ڈراتا رہے، اور توبہ واستغفار کرتا رہے ۔
موبائل فون سے بچوں کو دور رکھیں ، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب والدین اور گھر والے خود بھی اس سے دور رہیں اور اس کو حسبِ ضرورت ہی استعمال کریں ، اکثر گھروں کا ماحول آج کل جو خراب ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھر والے خود بھی موبائل فون میں الٹی سیدھی چیز دیکھتے ہیں اور بچوں کو بھی دکھاتے ہیں ، دھیرے دھیرے بچوں کو بھی اس کا چسکا لگ جاتا ہے،کھانے پینے کی طرح ان کو موبائل فون کی بھوک لگ جاتی ہے اس کے بعد معاملہ کہاں تک پہونچ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔اگر بچے کبھی کبھی موبائل پر ویڈیو دیکھنے کی ضد کریں تو ان ہی ویڈیوز(نعت، نظم، اور ان ہی کی سوشل اکٹویٹیز) ریکارڈ کرکے ان کو دکھلائیں ، ان كو يوٹيوب سے آن لائن بالكل نہ دكھائيں جس سے وہ سمجھ جائیں گے کہ ہمارے موبائل کی کل کائنات یہی ہے، موبائل كے بجائے انہيں ليپ ٹاپ عادى بنائيں ، اور اس ميں آف لائن كچھ ويڈيوز سيو كر كے دكھائيں ۔
بچے یوٹیوب اور گیم کے شیدائی ہوتے ہیں ، آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے موبائل فون سے سب سے پہلے گیم اور یوٹیوب اور فیس بک اور انسٹاکے ایپ کو ختم کر دیں ، اگر آپ کو ان کو کھولنے کی ضرورت محسوس ہو تو ڈائریکٹ براوزر سے کھولیں ، کیونکہ اب چھوٹے چھوٹے بچے بھی جانتے ہیں کہ ان کے کام کی چیز اسی لال رنگ کے آئى کان میں ہے، جب یہ ایپ نہیں رہیں گے تو تنگ آ کر بچے خود ہی آپ کو موبائل واپس کر دیں گے ۔ مزيد يہ بات سائنسى تحقيق سے بھى ثابت ہو چكى ہے كہ بچوں كے كارٹونس اور گيمز وغيرہ بچوں كى آنكھوں اور ان كى دماغ كے ليے بہت مضر ہيں، جو بچے موبائل فون پر بہت زيادہ وقت گزارتے ہيں وہ جسمانى اور دماغى لحاظ سے مفلوج ہو جاتے ہيں ، وہ ٹراما ميں چلے جاتے ہيں، اس ميں سارا قصور والدين ہى كا ہے، وہ بچوں كےساتھ وقت بتانے كے بجائے اور اس سے جان چھڑانے كے ليے ان كے ہاتھ ميں موبائل فون پكڑا ديتے ہيں ۔ اس ليے ضرورى ہے كہ چھوٹے بچوں كو موبائل فون سے بالكل دور ركھا جائے ۔
نٹ کو بقدر ضرورت استعمال کیجئے، کسی نے بہت ہی خوبصورت جملہ کہا ہے کہ: نٹ کی دنیا میں ہماری مثال شہد کی مکھی طر ح ہونی چاہئے جو پھولوں کا رس چوس کر اپنے چھتے کی طرف واپس لوٹ جاتی ہے کسی اور چیز سے اس کو مطلب نہیں ہوتا، ہم کو بھی اپنی مطلوبہ چیز تلاش کرکے واپس اپنی دنیا میں آ جانا چاہئے ، اگر ہم اس بھنور میں پھنس گئے تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جائیں گے، آج کل سرچ انجن بھی بہت حساس ہو گیا ہے اگر آپ ایک خراب چیز تلاش کرتے ہیں تو وہ اس سے ریلیٹڈ لاکھوں خراب چیزیں پلک جھپکتے ہی آپ کے سامنے لا کر پیش کر دیتا ہے، جن سے دامن چھڑانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
یہ کچھ ہدایات ہیں جو ہم نے اپنے تجربات سے سیکھا ہے، ان پر عمل کرنے سے الحمد للہ ہم کو بہت فائدہ ہوا ہے ، آپ بھی عمل کرکے دیکھیں اور اپنا تجربہ شیر کریں ، اللہ تعالی ہم سب کو موبائل کے خرافات سے بچائے آمین ۔


Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.


