(سلسلہ نمبر: 561)
اقامت کے وقت ہاتھ باندھنا
سوال: اقامت کے وقت ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا کیسا ہے؟
المستفتی: حکیم اللہ حلیمی، ناون، کبیر نگر۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم نماز شروع کرنے کے بعد ہے، اس سے پہلے ہاتھ باندھنے کا حکم نہیں ہے، اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے میں نماز پڑھنے والے کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے حالانکہ ابھی نماز شروع نہیں ہوئی ہے، نیز تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھا کر اپنی عاجزی و بے بسی اور اللہ کبریائی وبڑائی کا صورۃ اظہار ہوتا ہے جو کہ ہاتھ چھوڑے رکھنے کی صورت میں زیادہ ہوتا ہے، اگر ہاتھ پہلے سے بندھے ہوں تو بہت کم اٹھانا پڑے گا؛ لہذا اقامت کے دوران جان بوجھ کر ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر بھولے یا انجانے میں کوئی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ (مستفاد فتاویٰ رحیمیہ واحسن الفتاوی)۔
الدلائل
قال الله تعالى: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرة: 238).
عن سهل بن سعد ، قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة، قال أبو حازم : لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم. (صحيح البخاري، رقم الحديث: 740).
وعن وائل ، قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على اليسرى في الصلاة قريبا من الرسغ. (مسند الإمام أحمد، رقم الحديث: 18873).
والأصل بقاء ما كان على ما كان حتى يوجد ما يغيره. (تبيين الحقائق: 3/ 297).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
5- 5- 1442ھ 21- 12- 2020م الاثنین.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.