hamare masayel

اپنی ماں کے گھر چلی جا، كنايہ الفاظ سے طلاق كا حكم

(سلسلہ نمبر: 533)

اپنی ماں کے گھر چلی جا

سوال: علمائے دین ومفتیان شرع متین کیا فرماتے ہیں:

کہ زوج نعمت اللہ بن نور اللہ شریف ساکن بنگلور، زوجہ عائشہ بنت ابراہیم ساکن بنگلور کے ما بین جھگڑا ہوا شوہر نے بہ نیت طلاق اپنی بیوی سے کہا کہ” میں بچے کی قسم کہا کر کھتا ہوں کہ مجھے تیری ضرورت نھیں اپنی ماں کے گھر چلی جا”.

شوہر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس نے مذکورہ بالا جملہ کہا ہے، لیکن بیوی اس کی منکر ہے،

نیز اس واقعے کے تقریبا ایک ماہ بعد پہر شوھر نے  خاندان والوں کی موجود گی میں بنیت طلاق کہا “کہ تم کو میں اپنے پاس نھیں رکھوں گا تم  اپنی میکے چلی جاؤ۔”

وضاحت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ جملوں سےطلاق واقع ہوگی یانہیں؟

 (1)کونسی اور کتنی واقع ہونگی؟

(2)عدت کب سے شروع ہوگی؟

(3)عدت کے دوران نکاح ما بین الزوجین جائز ہے؟

(4) نکاحِ جدید کے بعد شوہر کتنے طلاق کا مالک ھوگا؟

وضاحت فرماکر مشکور ہوں ۔ فقط والسلام

المستفتیان:  نعمت اللہ بن نوراللہ شریف بنگلور، عائشہ بنت ابراہیم بنگلور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: جب شوہر نے پہلی بار طلاق کی نیت سے کہا کہ اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ اس وقت ایک طلاق بائن پڑ گئی، اور ایک ماہ بعد یہ کہنا کہ “تم کو میں اپنے پاس نھیں رکھوں گا تم  اپنی میکے چلی جاؤ۔” اس سے کوئی طلاق نہیں پڑے گی، اس لئے کہ مستقبل صیغہ سے طلاق نہیں واقع ہوتی بلکہ ایک طرح کی دھمکی ہوتی ہے، اور اگر اس علاقے کے عرف میں صیغہ استقبال طلاق کے استعمال ہوتا ہو تب بھی دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ طلاق بائن کے بعد طلاق بائن واقع نہیں ہوتی. اس لئے صورت مسئولہ میں:

(1) ایک طلاق بائن واقع ہوئی.

(2) جب پہلی مرتبہ کہا کہ اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ اسی وقت سے عدت شروع ہوچکی ہے.

(3) اس عدت کے دوران اگر شوہر ہی نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے.

(4) اگر شوہر نکاح کرتا ہے، تو آئندہ صرف دو طلاق کا مالک ہوگا.

نوٹ:  حدیث شریف میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے، اس لئے بچوں کی قسم کھانا جائز نہیں، شوہر کو چاہئیے کہ توبہ کرلے، اور آئندہ ایسی باتوں سے احتیاط کرے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔

الدلائل

’’(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان‘‘. (البحر الرائق: 3/ 326).

(لا) يلحق البائن (البائن) بأن قال للمدخول بها أنت بائن، ثم قال في العدة أنت بائن لا تقع الثانية. (مجمع الأنهر: 1/ 406).

عن عبد الله رضي الله عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : “من كان حالفافليحلف بالله أو ليصمت”. (صحيح البخاري، رقم الحديث: 2679).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

2- 4- 1442ھ 18- 10- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply