ایک رکعت اور تین رکعت تراویح کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر حافظ صاحب نے تراویح میں ایک رکعت یا تین رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ نیز ان رکعتوں میں پڑھی گئی آیات کا دوبارہ پڑھنا ضروری ہے؟ بینوا توجروا
المستفتي: منصور احمد، پوٹریا جون پور
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
ایک رکعت نماز تو ہر صورت میں باطل ہے اور اس میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ ضروری ہے، اور تین رکعت کی صورت میں امام نے اگر دو رکعت پر قعدہ کیا ہے تو دو رکعت صحیح ہونگی اور ان میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور بعد والی ایک رکعت باطل ہے اور اس میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ ضروری ہے۔
اور اگر تین رکعت دو رکعت پر قعدہ کئے بغیر پڑھا ہے تو تینوں رکعتیں باطل ہوگئیں، اور ان میں جو قرآن پڑھا گیا ہے اسے بھی دہرانا ضروری ہے۔
الدلائل
إن صلاة رکعة فقط باطلة لا أنها صحیحة مکروهة. (رد المحتار، کراچی 2/ 52، زکریا 2/505، حاشیة الطحطاوي علی مراقی الفلاح، کتاب الصلاة، باب إدراک الفریضة، دارالکتاب دیوبند، ص: 449).
وأما إذا صلی ثلاثا بتسلیمة واحدة، إن قعد علی رأس الرکعتین یجزیه عن تسلیمة واحدة، وعلیه قضاء الرکعتین، و إن لم یقعد علی رأس الثانیة ساهیا أو عامداً، لا شک أن صلاته باطلة قیاساً، وهو قول محمد وزفر رحمهما اللّٰه، وهو روایة عن أبی حنیفة، وعلیه قضاء رکعتین فحسب. (الفتاویٰ التاتارخانیة 2/330 رقم: 2573 زکریا).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
29/8/1439ه 16/5/2018م الأربعاء
۞۞۞۞۞۞
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.