hamare masayel

بطور امانت رکھا زیور ترکہ میں شمار ہوگا

 (سلسلہ نمبر: 734)

 بطور امانت رکھا زیور ترکہ میں شمار ہوگا

سوال: زید کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، زید کے پاس کچھ زیورات تھے، زید نے ان زیورات کو پہلے اپنے اور دو بیٹوں کے درمیان رکھا پھر اپنا حصہ ایک تیسرے بیٹے کو دے دیا گویا کہ ان زیورات کو زبانی طور پر مذکورہ تینوں بیٹوں کے نام کردیا اور اس بات کی وصیت کی کہ میرے انتقال کے بعد مذکورہ تینوں بیٹے ان زیورات کے مالک ہوں گے ۔ پھر زید قریب الوفات ان زیورات کو بیچنے کا بار بار تقاضا کرتا رہا لیکن ان زیورات کو فروخت نہیں کیا گیا یہاں تک کہ زید کا انتقال ہوگیا ۔ اور وہ زیورات شروع سے ابھی تک جس بیٹے کی تحویل میں بطور حفاظت و امانت تھے موجود ہیں۔ فقط

صورت مذکورہ میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟  نوٹ: زید کے والدین اور بیوی کا پہلے انتقال ہوچکا ہے۔

المستفتی: محمد فیضان محلہ چندن پورہ کوپاگنج ، مئو۔

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: مذکورہ سوال سے معلوم ہورہا ہے کہ زید نے اپنے کسی بھی لڑکے کو زیور کا مالک نہیں بنایا تھا بلکہ ان کے پاس بطور امانت رکھا تھا اور یہ وصیت کیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تینوں لڑکے لے لیں گے، اس لئے یہ زیور زید کی موت تک اس کی ملکیت تھا، لہذا زید کے انتقال کے بعد یہ زیور اس کے ترکہ میں شمار ہوگا اور چونکہ اگر دیگر  ورثاء راضی نہ ہوں تو وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہے اس لئے یہ زیور زید کے تمام ورثہ کے درمیان شرعی طور پر تقسیم ہوگا، یعنی زید کا ترکہ دس حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے دو دو حصے چاروں لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ دونوں لڑکیوں کو ملے گا۔

الدلائل

قال الله تعالى: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ. (النساء: 11).

عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ “. (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الْوَصَايَا | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْوَصِيةِ لِلْوَارِثِ، رقم الحديث: 2870).

وإنما تبطل الوصية للوارث في قول أكثر أهل العلم من أجل حقوق سائر الورثة، فإذا أجازوها جازت، كما إذا أجازوا الزيادة على الثلث للأجنبي جاز. (عون المعبود شرح سنن أبي داود).

ومعنى الأحاديث أن الوصية للوارث لا تنفذ مطلقا، مهما كان مقدار الموصى به، إلا بإجازة الورثة، فإن أجازوها نفذت، وإلا بطلت. (الفقه الاسلامي وأدلته: 10/ 7477).

 والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند

13- 9- 1444ھ 5-4- 2023م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply