hamare masayel

بعد میں آنے والا مقتدی اگلی صف سے کس کو پیچھے لائے

(سلسلہ نمبر: 360)

بعد میں آنے والا مقتدی اگلی صف سے کس کو پیچھے لائے

سوال:  اگر کوئی شخص ایک صف مکمل ہونے کے بعد درمیان نماز آئے، تو وہ پہلی صف سے کسی نمازی کو پیچھے کھینچ لے تو کہاں سے کھینچے؟ درمیان سے یا کنارے سے؟ کیا اس میں بھی کسی کا حق ہوتا ہے؟ جواب مع حوالہ مرحمت فرمائیں۔

المستفتی: ایم زیڈ اعظمی مقیم حال بھیونڈی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 صورت مسئولہ میں بعد میں آنے والا شخص کوشش کرے کہ اگلی صف میں جگہ بناکر کھڑا ہوجائے؛ لیکن اگر اگلی صف پوری طرح مکمل ہو اور کھڑے ہونے کی بالکل جگہ نہ ہو تو ایسی صورت میں امام کے رکوع کرنے تک انتظار کرلے، اکر کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے ہمراہ امام کی سیدھ میں صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے اور اگر کوئی نہ آئے تو اگلی صف سے کسی ایسے شخص کو جو مسئلے سے واقف ہو، کھینچ کر اپنے ساتھ کرلے اور دونوں صف کے پیچھے کھڑے ہوجائیں، اور اگر تمام لوگ مسئلے سے واقف ہوں تو بیچ سے کسی شخص کو کھینچے تاکہ نماز میں کم سے کم حرکت کرنا پایا جائے، اور اگر کوئی ایسا شخص نہ ملے جو مسئلے سے واقف ہو اور عام آدمی کو کھینچنے میں اندیشہ ہو کہ وہ اپنی نماز فاسد کردے گا تو ایسی صورت میں اکیلا ہی کھڑا ہوجائے، نماز ہوجائے گی۔

نوٹ: پہلی صف کا دوسری صف کے مقابلہ میں ثواب زیادہ ہے اس لئے پہلی صف سے دوسری میں آنے میں بظاہر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ زیادہ ثواب چھوڑ کر کم پر راضی ہوگیا؛ حالانکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ عبادات میں ایثار مکروہ ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو اپنے بھائی سے کراہت دور کرنے کی وجہ سے جو ثواب ملے گا وہ پہلی صف کے ثواب کے برابر ہوجائے گا اس لئے یہاں پیچھے آنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الدلائل

ومتى استوى جانباه يقوم عنيمين الإمام إن أمكنه وإن وجد في الصف فرجة سدها وإلا انتظر حتى يجيء آخر فيقفان خلفه، وإن لم يجئ حتى ركع الإماميختار أعلم الناس بهذه المسألة فيجذبه ويقفان خلفه، ولو لم يجد عالما يقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورة. (رد المحتار: 1/ 568).

القاعدة الثالثة: الايثار في القرب مكروه. ……… تنبيه: من المشكل على هذه القاعدة : من جاء ولم يجد في الصف فرجة ، فإنه يجر شخصا بعد الإحرام ، ويندب للمجرور أن يساعده ، فهذا يفوت على نفسه قربة ، وهو أجر الصف الأول. (الاشباه والنظائر).

 قال الحموي: قوله: “من المشكل على هذه القاعدة” قد يقال: لا إشكال فيه لأنه من باب دفع المكروه عن المفرد وتأخره معه لدفعه وهو اولى من الايثار بالفضيلة فلا ايثار إذن.  … وقيل بانه يمكن ان يقال ان ثبت انه يفوت لكن تحصل له قربة اخرى وهى أن لا يكون ذلك الرجل منفرداً في الصف، وهذا مما يساوي القربة الأولى. (غمز عيون البصائر: 1/ 360).

 والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

15- 10- 1441ھ 8- 6- 2020م الاثنین.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply