(سلسلہ نمبر: 812)
بلا عمل کمیشن لینا درست نہیں ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں:
مسئلہ یہ ہے کہ ایک فیکٹری میں فیکٹری کا ملازم کسی شخص کا کچھ سامان بنوانے کیلئے لاتا ہے اور اس سامان پر ملازم کو کمیشن دیا جاتا ہے، سامان بنوادیا اور معاملہ ختم ہو گیا، پھر کچھ عرصہ کے بعد جس شخص نے سامان بنوایا تھا وہ خود اپنے طور پر فیکٹری دیکھنے اور جائزہ لینے ہے لئے آتا ہے اور فیکٹری میں جو شخص سامان بناتا ہے اسکا امتحان لیتا ہے اور اس کی ڈگریاں دیکھتا ہے اور فیکٹری کی مشینوں سے بھی مطمئن ہوتا ہے اور فیکٹری میں جو سامان بنانے والا شخص کے اس سے متاثر ہوکر وہ دوبارہ سامان فیکٹری میں بنواتا ہے، اور یہ سامان صرف فیکٹری میں سامان بنانے والے کی وجہ سے بنواتا ہے، اگر یہ شخص نہ ہوتا تو وہ شخص اس فیکٹری میں اپنا سامان نہ بنوانا – تو اس صورت میں جو پہلا ملازم آڈر لیکر آیا تھا اُس کو اس دوسرے آڈر میں کمیشن ملیگا یا نہیں؟
اجيبوا بالصواب وتؤجروا عند الله التواب.
المستفتی: جمیل الرحمن حافظ، ریاض۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: جاننا چاہئیے کہ اجرت یا متعین کمیشن اس صورت میں ملتا ہے جب کہ اجرت یا کمیشن لینے والے کی طرف سے کوئی عمل پایا جائے، مثلا فیکٹری تک چل کر جانا، ان سے معاملات کو طے کرنا وغیرہ وغیرہ، اگر کوئی عمل نہیں پایا گیا مثلا صرف فیکٹری کا پتہ بتا دیا یا مالک کو عامل کے ایک بار معاملہ کرنے کی وجہ سے خود پتہ معلوم ہوگیا اور مالک اپنے طور پر خود مال تیار کرایا تو عامل کو اس پر کوئی اجرت یا کمیشن نہیں ملے گا، لہذا صورت مسئولہ میں مالک کے ذریعہ دوبارہ تیار کرائے گئے مال پر عامل کو شرعاً کمیشن نہیں ملے گا۔
الدلائل
قال الله تعالى: يأيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل. (النساء: (۲۹).
قال الآلوسي: وفيه إشارة إلى كمال العناية بالحكم المذكور، والمراد من الأكل سائر التصرفات، وعبر به لأنه معظم المنافع، والمعنى لا يأكل بعضكم أموال بعض، والمراد بالباطل ما يخالف الشرع كالربا والقمار والبخس والظلم قاله السدي، وهو المروي عن الباقر رضي الله تعالى عنه، وعن الحسن هو ما كان بغير استحقاق من طريق الأعواض (روح المعاني: 3/ 16).
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه. (مجمع الزوائد : 4/ 176).
فحل الشيء في الديانة لا يتوقف على الرضا الظاهر فقط بل يجب أن يكون معه طيب نفس المعطي. (فقه البيوع : 1/ 201).
لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر. (الدر مع الرد: 9/ 130).
وكذلك إذا قال هذا القول شخص معين فدله عليه بالقول بدون عمل فليس له أجرة؛ لأن الدلالة والإشارة ليستا مما يؤخذ عليهما أجر. (درر الأحكام شرح مجلة الأحكام: 1/ 502، 503).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
16- 1- 1446ھ 23-7- 2024م الثلاثاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.