hamare masayel

زندہ جانور وزن سے بیچنا جائز ہے، زندہ جانور تول کر فروخت کرنا؟

(سلسلہ نمبر: 382)

زندہ جانور وزن سے بیچنا جائز ہے

سوال: آج کل بکرے وغیرہ زندہ وزن کرکے خریدے بیچے جاتے ہیں، کیا اس طرح کی بیع شرعاً فاسد اور ناجائز ہے؟ اگر فاسد ہے تو اگر کوئی اس طرح جانور خرید کر قربانی کرے تو اس کی قربانی درست ہوگی یا نہیں؟ براہ کرم تشفی بخش جواب مرحمت فرمائیں۔

المستفتی: عبد اللہ اعظمی، سنوارہ، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 شریعت مطہرہ میں ہر ایسا معاملہ ناجائز ہے جس میں ایسی جہالت ہو جو بعد میں جھگڑے کا سبب بنے، لیکن اگر کسی معاملے میں ایسی معمولی جہالت ہو جس کی طرف لوگ توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی وہ جھگڑے کا سبب بنتی ہے تو وہ شرعاً معاف اور معاملہ درست ہے، اس لئے وزن سے زندہ جانور خریدنے میں گرچہ جانور کے سانس اندر باہر کرنے سے کچھ وزن کم زیادہ ہونے کا احتمال ہے لیکن کمی بیشی کے اس احتمال کی وجہ سے جھگڑے کی نوبت نہیں آتی اس لئے زندہ جانور کی وزن سے خرید وفروخت عرف عام اور تعامل ناس ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز ہے، اور جب خریدنا جائز ہے تو اس کی قربانی بھی بلا شبہہ جائز ہوگی۔ (دیکھئے فتاویٰ عثمانی: 3/ 98، فتاوی قاسمیہ: 19/ 353، احسن الفتاوی: 6/ 497، فتاوی ریاض العلوم: 5/ 457، 457، ایضاح المسائل: 158).

نوٹ: بعض حضرات کو ہدایہ کی ایک عبارت سے غلط فہمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے معاملہ کو فاسد قرار دیا ہے، لیکن شیخ الاسلام حضرت مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے فتاوی موسوم فتاوی عثمانی (3/ 98-101) میں اس پر تفصیلی گفتگو موجود ہے، اہل علم کے لئے اس کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید ہوگا ۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَأْكُلُوٓاْ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَٰرَةً عَن تَرَاضٍۢ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (النساء: 29).

وما لا نص فيه، ولم يعرف حاله على عهد رسول الله ﷺ يعتبر فيه عرف الناس، فإن تعارفوا كيله فهو كيلي، وإن تعارفوا وزنه فهو وزني، كذا في المحيط. (الفتاوى الهندية: 3/ 117).

وقال أبو حنيفة وأبو يوسف: يجوز بيع اللحم بالحيوان؛ لأن الحيوان ليس من مال الربوا، وهو بيع موزون بغير موزون. (أوجز المسالك: 5/ 105).

والعرف له في الشرع اعتبار، لذا عليه الحكم قد يدار، وفي شرح البيري عن المبسوط: الثابت بالعرف كالثابت بالنص. (شرح عقود رسم المفتي: 96).

والعرف ينفي النزاع.(رد المحتار: 7/ 286، زكريا).

 والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

8- 11- 1441ھ 30- 6- 2020م الثلاثاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply