باپ مشغول، ماں بیزار ، بچے برباد
بقلم: محمد یعقوب اعظمی(مقیم ملیشیا) طالب عربی زبان وادب
انسان کو اللہ رب العزت نے جوڑا بنا کر پیدا کیا اسی لئے حضرت آدم کے ساتھ زوجہ حواء کی تخلیق کی اور دونوں کو جنت میں ایک ساتھ رہنے کا حکم دیا پھر دنیا کی تعمیر کے لئے انھیں زمین پر اتارا ان سے نسلوں کو پروان چڑھایا اوران کے درمیان رحمت ومودت کے ازدواجی رشتے قائم کئے تاکہ نخل انسانی الفت ومحبت سکون واطمینان کے ساتھ پھلے اور پھولے۔
لہذا اس نخل انسانی کو جتنا پیار سے سیراب کیا جائیگا اتنا ہی یہ پر بہار ہوگا ، جیسے جیسے اس پر محبت کی شبنم پڑیگی اس کی چھاؤں اتنی ہی گھنیری اور رعنا ہوگی ، پھر اس میں ایک نیا شگوفہ کھلے گا یعنی ایک انسانی ہستی معرض وجود میں آئیگی جسے ہم بیٹا یا بیٹی کہتے ہیں۔
اس شگوفہ کے کھلنے کے بعد اسے پروان چڑھانے اور اس کی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے ماں باپ دونوں کی یکساں ضرورت ہوتی ہے ، گویا بچہ اپنے بچپن میں ایک ایسی بادبانی کشتی پر سوار ہوتا ہے جس کے دونوں طرف کے پتوار ماں اور باپ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اب اگر ایک جانب سے پتوار کو روک دیا جائے تو کشتی غیر متوازن رہےگی اور اس میں سوار بچہ چکرا کر گرجائےگا اس کی سفینئہ حیات ساحل مراد نہ ہو گی، خدانخواستہ اگر کشتی کے دونوں جانب سے پتوار کو ہٹا دیا جائے تو کشتی اپنا توازن کھودیگی اور اس میں سوار ہلاک وبرباد ہوگا۔
افسوس آج معاشرہ میں پلنے والا بچہ ایسی ہی کشتی پر سوار ہے جس کے دونوں پتوار غائب ہیں ، باپ مشغول ، تو ماں بیزار دونوں کی موجودگی میں بھی بچہ ايك یتیم کی طرح پلتا اور بڑھتا ہے اسی کو امیرالشعراء شوقی نے کیا ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے۔
إنّ اليتيم هو الذي تلقى له * أُماً تخلّت أو أباً مشغولا.
بلاشبہ یتیم وہ ہے جس کی ماں کو تم بیزار اور باپ کو مشغول پاؤ۔
حضرت علی بن أبی طالب کرم اللہ وجہہ کا ایک شعر اسی بات کو اور واضح کرتا ہے۔
ليس اليتيمُ الذي قد ماتَ والدُه
إن اليتيمَ يتيمُ العلمِ والأدبِ
یتیم وہ نہیں ہے جس کے والد وفات پاجائیں ، بلکہ علم وادب سے محروم بچہ یتیم ہے۔
ذیل کی سطروں میں بچوں کی تربیت میں ماں باپ کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سب سے پہلے باپ کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا گیا ہے کیونکہ گھر کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور بچےکے حق میں اس کا کردار کلیدی کردار ہوتا ہے۔
بچےصحیح تربیت کے لئے جس قدر ماں کے محتاج ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ انہیں باپ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے لئے اگر ماں کی گود ممتا ہے تو باپ کا کاندھا سراپا شفقت ہے، ماں اگر چاند ہے تو باپ سورج ہے۔ بچے ان دونوں کے یکساں محتاج ہیں۔
عموما ہمارے معاشرے میں بچوں کی تمام تر ذمہ داریاں ماں کے سپرد کردی جاتی ہیں. پیدائش سے لیکر رضاعت ، رضاعت سے لیکر بلوغت تک بچہ ماں کی سپردگی میں ہوتا ہے ، ماں ہی کے ذمہ اس کی نگہداشت اور تربیت ہوتی ہے۔ باپ کا کردار محض اس کی خارجی ضروریات کو پورا کرنا اور مادی وسائل فراہم کرنا سمجھا جا تا ہے . بچوں کی نشو ونما کے دوران ماں باپ کی ذمہ داریوں کی یہی تقسیم سمِ قاتل ہے۔
جس طرح پرندہ کا ایک پر اگر اس سے علحدہ کردیا جائے تو نہ تو وہ اڑان بھر سکتا ہے اور نہ ہی صحیح سمت سفر کر سکتا ہے اسی طرح اولاد پر اگر ماں باپ میں سے کسی کی توجہ کمزور پڑے تو وہ صحیح رخ پر نہیں ہونگے۔
ہر کامیاب باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں تین طرح کا کردار نبھائے:
1) مثالی باپ ۔
2) نگہبان باپ ۔
3) دوست باپ۔
ان تینوں کردار کو مكمل طريقہ سے پورا کرنے کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
1) وقت۔
2) کوشش ومحنت۔
3) توجہ۔
(۱) مثالی باپ: باپ کا یہ کردار بچوں کے ساتھ بڑا واقعی ہوتاہے، جس میں باپ بچے کے لئے بحیثیت نمونہ ہوتا ہے اس میں بچہ باپ کے ہر قول وفعل نقل و حرکت کی کاپی کرتا ہے اور اسی جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے ، باپ اگر غصہ والا ، بدگو ہے گھر باہر گالم گلوج سے کام لیتا ہے تو بچے بھی دھيرے دھيرے ان بری خصلتوں کے عادی ہونگے ، اگر باپ سگریٹ تمباکو اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرے نیز حرام حلال کی تمیز نہ کرے تو بچے پر بھی اس کا اثر لامحالہ پڑےگا۔اس کے برخلاف اگر باپ نیک ہوگا اللہ کی بندگی اور اطاعت کرےگا ، گھر باہر حسن اخلاق کا مظاہرہ کرےگا ، پیار ومحبت کے بول بولےگا ؛ تو بچے بھی اخلاق کے اعلی معیار پر ہونگے۔
بلاشبہ باپ کے اندر موجود نیکی بیٹوں کو نیک بنائے گی ، باپ کا اچھا سلوک اور رویہ بیٹوں میں منتقل ہوگا ، لہذا ہر باپ کو چاہئے کہ بیٹوں کے سامنے بہترین نمونہ بنے ، خود نیک بنے گا تو بچے بھی نیک رہیں گے. پس اگر باپ چاہتا ہے کہ بچے نمازی بنیں تو خود گھر میں ان کے سامنے نماز پڑھے کچھ بڑے ہونے پر انھیں ساتھ مسجد لے جائے ، اس كو رحم دل مہربان اور نرم مزاج بنانا چاہتا ہے تو اسے غریبوں کے پاس لے جائے اور اسی کے ہاتھ سے صدقہ و خیرات کرے، فجر کی نماز کا عادی بنانا ہے تو پہلے خود تہجد اور فجر کا پابند بنے ۔
غور کرو بچے لاشعوری طور پر تمھارے ہرعمل کی کاپی کرتے ہیں جب تم دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہو تو بچے بھی گوں گاں کرتے ہوئے اپنے ہاتھ بلند کرتے ہیں ، نماز جانتے نہیں مگر تمھیں گھر میں نماز پڑھتا دیکھ كر کبھی سجدے میں گرتے ہیں تو کبھی قیام وقعود کرتے ہیں ، غرضیکہ بچے تمھارے ایک ایک عمل کو اپنے ذہن کے کینوس پر نقش کرتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں اس لئے اپنی اولاد کے لئے بہترین نمونہ بنو۔
تمھارے لئے تمھاری اولاد ایک خام کپڑے کے مثل ہے جس کانام “كل مولود يولد على الفطرة الحديث” ہے اس خام کپڑے پر تم جس طرح کا نقش ونگار بناؤ گے ویسے ہی ظاہر ہوگا ، تم چاہو نیک بناڈالو تم چاہو برا بناڈالو اسی لئے قرآن کریم نے حکم دیا “اے ایمان والو خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن لوگ اور پتھر ہونگے”. [سورة التحريم 6]
باپ کی قربت اور دوری کا اثر
بچے فطرتا ماں کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں لیکن باپ کو چاہئے کہ پیار ومحبت کے ذریعہ انھیں اپنے بھی سے قریب کرے ، انھیں وقت دے ان کے لئے اپنے مخصوص اوقات فارغ کرے ان کو کھانے پینے میں ساتھ رکھے ، ان کی دل لگی کے لئے ان کے ساتھ بعض کھیل کود میں شریک ہو اپنے جیتے جی کبھی یہ محسوس نہ ہونے دے کہ وہ بے باپ کے یتیم بچے ہیں۔
باپ کی غیر موجودگی بچوں میں طرح طرح کے غلط اقدامات کا حوصلہ فراہم کرتی ہے ،منشیات یا جرائم کی وادیوں میں پھنسے ہوئے اکثر نوجوان اپنے بچپن میں باپ کی غیر موجودگی کا شکار ہوتے ہیں بالآخر بربادی ان کا مقدر بنتی ہے۔
اس تحریر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں کام چھوڑ کر بچوں کے ہی ساتھ ہر وقت رہنے کا داعی ہوں اور میرے نزدیک کام کی اہمیت نہیں بلکہ میرا مقصد اعتدال اور توازن ہے ، کام ہی کو سر پر نہ سوار کرلیں ، كہ بس کام کام کام پیشِ نظر رہے، اور بچوں کے لئے وقت نہ رہے ، مشغولی کا بہانہ بناکر وقت نہ ہونے کا عذر کرنے والے لوگ کسی ناگہانی کے وقت پورا پورا وقت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں قبل اس کے کہ کوئی ایسی نازک گھڑی آئے بچوں کو وقت دو، پیار دو، محبت دو، آپ جہاں بچے کو جسمانی غذا فراہم کرتے ہیں وہیں بچے روحانی غذا کے بھی محتاج ہیں ، اس لئے بعض وقت ان کے ساتھ گذارو ایسا نہ ہو کہ جب بچے آپ کی غیر موجودگی کا نوٹس لیں تو آپ کو احساس ہو لیکن۔
پھر پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت
احمد اور سلمی میاں بیوی ہیں جن سے ایک بیٹا محمد اور ایک بیٹی سعاد ہے، کل چار افراد پر مشتمل فیملی ہے احمد جاب کرتا تھا اور دیر رات گھر آتا پھرصبح کام پر نکل جاتا ، وہ کب آتا اور کب جاتا بچوں کچھ پتہ نہ چلتا۔ سنیچراور اتوار کے دن چھٹی میں بھی وہ آؤٹ ڈیوٹی کرتا۔ بیوی بارہا کہتی: احمد تم بچوں کو وقت دو ان کے ساتھ بیٹھو، انھیں ساتھ کھانے کے لئے باہر لے جاؤ؛ لیکن اس کے کان میں جوں تک نہ رینگتی وہ سنی ان سنی کردیتا۔ سلمی لاکھ سمجھاتی کہ بچوں سے اس قدر دوری اچھی نہیں، بچوں سے قربت بڑھاؤ لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتا، یا “بہت کام ہے” کا عذر کردیتا۔
ایک مرتبہ احمد اتفاقا سویرے آگیا ، بیوی نے اصرار کیا کہ سعاد آپ کے ساتھ باہر جانے کو کہہ رہی ہے اپنے ساتھ لے جاؤ اور کہیں کھلا پلاکر تھوڑا تفریح کراکر واپس لے آؤ ۔ احمد تھوڑا کسمسایا لیکن آخر میں راضی ہوگیا، بچی کو ساتھ لیا اور ایک ریسٹورنٹ پر كچھ کھلا پلا کر واپس آنے لگا ،گاڑی جب محلے کی گلی میں مڑنے لگی تو سعاد نے اپنے ابا سے پکار کر کہا ” ابا آپ کونسی گلی میں رہتے ہیں ؟؟ احمد اس کے سوال سے سٹپٹایا کہ یہ کیا معلوم کررہی ہے۔ اس نے پوچھا: کیا کہا: بیٹی كیا كہہ رہی ہو؟ بیٹی نے جواب ديا: آپ کا گلی نمبر کیا ہے ؟؟ احمد نے اپنا گلی نمبر بتایا تو سعاد نے کہا : اس گلی میں تو ہم رہتے ہیں ابا آپ کہاں رہتے ہیں؟؟ بچی کا یہ سوال احمد پر بجلی بن کر گرا!.
اگلے ہی دن احمد کو کسی پیپر کی تلاش تھی جسے وہ کمرے میں بڑی محنت سے ڈھونڈ رہا تھا محمد سے رہا نہ گیا ۔ معلوم کیا: ابا کیا تلاش رہے ہیں ؟ احمد نے کہا: ایک پیپر ہے جس پر چند دوستوں کے نمبر تھے ان سے آج اہم ملاقات تھی ۔ محمد نے پلٹ کر پوچھا : ابا: كيا میرا بھی اس لسٹ میں نام ہے؟ یہ سننا تھا کہ محمد کے پیروں تلے زمین کھسک گئ ؛ اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہوا پھر اس نے دھیرے دھیرے اپنا رویہ بدلا۔
کاش میں موبائل فون ہوتا
کہتے ہیں کہ ایک سکول ٹیچر نے ایک روز اپنی کلاس میں اعلان کیا کہ … ہر طالبعلم اچھی طرح غور وفكر کر کے اپنی سب سے ضروری اور اہم تمنا اور خواہش لکھ کر لائے… جس کی تمنا اور خواہش سب سے اچھی ہو گی اسے انعام ملے گا… اگلے دن تمام بچے اپنی اپنی تمنا لکھ کر لائے اور ماسٹر صاحب کو دے دی… چھٹی کے بعد وہ استاد صاحب گھر پہنچے اور بچوں کے جوابات پڑھنے لگے… اچانک ایک کاغذ پڑھتے ہوئے ان کی حالت بدل گئی… وہ رونے لگے، کانپنے لگے…اور پھر ان کے رونے کی آواز بلند ہوتی چلی گئی… ان کی بیوی نے آواز سنی تو دوڑ کر آئی …پانی پلایا وجہ پوچھی… انہوں نے بتایا کہ طلبہ کی تمنائیں پڑھ رہا تھا ایک بچے کی تمنانے دل اور آنکھوں کو رلا دیا… بیوی نے کہا مجھے بھی سنائیں… ماسٹر صاحب کاغذ لے کر پڑھنے لگے… بچے نے لکھا تھا:
“میری سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ کاش میں موبائل فون ہوتا… تاکہ میرے ابو مجھے ہر وقت اپنے کان اور دل سے لگائے رہتے…اور میری امی گھنٹوں مجھ سے باتیں کرتی اور مجھ پر اپنی انگلیاں اور ہاتھ پھیرتی اور مجھے سینے پر رکھ کر سوتی… مگر میں تو ان کا بیٹا ہوں… ان کا ٹچ موبائل نہیں… اس لئے مجھے یہ ساری توجہ نہیں ملتی جو ان کے ٹچ موبائل کو ملتی ہے… اس لئے میں اپنی تنہائی اور محرومی کے دوران یہی سوچتا رہتا ہوں کہ کاش میں… ان کا موبائل فون ہوتا”
ماسٹر صاحب یہ پڑھتے ہوئے پھر رو پڑے… بیوی نے سنبھالا اور کہا… ماشاء اللہ کوئی سمجھدار بچہ ہے والدین کو واقعی اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے… اور انہیں وقت دینا چاہیے… ماسٹر صاحب پھر زور زور سے رونے لگے اور کہا … بیگم! یہ تحریر کسی اور نہیں ہمارے اپنے بیٹے کی ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ہدایت عطاء فرمائے… ماسٹر صاحب کے رونے کی آواز بلند ہوئی… مگر اب وہ اکیلے نہیں تھے…کمرے میں دوافراد رو رہے تھے اور دونوں کے ٹچ موبائل پر…واٹس ایپ کی گھنٹیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا… ہم سب کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے… اس سے سبق لینا چاہیے…
’’فون سے نہیں ہمارے ساتھ کھیلیں‘‘
15 ستمبر 2018ء جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے رہائشی 7 سالہ رسٹیگ ایمل نے اُن تمام والدین کے خلاف احتجاج کیا جو اپنے بچوں کو کم وقت دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہر وقت موبائل فون ہوتا ہے ۔ ایمل نے اپنے والدین کی مدد سے اپنے علاقے سے ایک احتجاجی ریلی نکالی، جس میں دس سال سے کم عمر شہر کے 150 بچوں نے شرکت کی انہوں نے اس احتجاج کے لیے باقاعدہ ایک نعرہ تیار کیا، جس میں مطالبہ تھا کہ میرے ساتھ کھیلیں، اپنے فون سے نہیں! ۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق 13 سے 17 برس تک کے بچوں کا سوشل میڈیا پر کہنا ہے کہ: ان کی خواہش ہے کہ ان کے والدین موبائل فون ڈیوائسز سے دور ہو جائیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایڈولیسینٹ ڈویلپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر رون ڈہل کا کہنا ہے کہ: یہ بچے والدین اور دوستوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے پریشان ہیں، یہ لوگ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اہمیت و توجہ نہیں دی جارہی ہے۔تحقیق کے مطابق جن بچوں کو والدین کی جانب سے توجہ نہیں ملتی وہ اپنے آپ کو تنہا اور غیر اہم محسوس کرتے ہیں اور نتیجتاً دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(۲) نگہبان باپ. ہر باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کرے ، ان کے جسمانی ، تعلیمی، اور دینی امور کا مکمل خیال کرے ، بچے گھر دیر سے آئیں یا زیادہ دیر غائب رہیں تو باز پرس کرے ، خراب صحبت سے بچائے ، غلط جگہ اٹھنے بیٹھنے سے روکے ، اللہ کا خوف ان کے دل میں پیدا کرے نماز کا عادی بنائے ، غلط کام اور غلط بات پر شروع سے تنبیہ کرے ، تنبیہ کرنے کے باوجود بڑی غلطی سرزد ہونے پر کبھی کبھار حسب ضرورت ہلکی مار کا بھی استعمال کرے حديث پاک میں ارشاد ہے: “کلُّکم راعٍ وکلُّکُم مسؤُولٌ عَن رَعيَّتِه” تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت ( اس کے ماتحت آنے والے لوگوں ) کے تعلق سے سوال ہوگا۔ حدیث مذکور سے پتہ چلا کہ ہر نگراں اپنی ذمہ داریوں پر مسؤول ہوگا ، بادشاہ اپنی رعایا پر ، والدین اپنی اولاد پر نگراں ہیں ان سے اپنی اولاد کے بارے میں سوال ہوگا۔
اسی ذمہ داری کے احساس نے حضرت سلیمان کو اپنی رعیت میں موجود چھوٹی مخلوق “ہدہد ” پرندہ کے تعلق سے سوال پر آمادہ کیا، جب انہوں نے اپنی رعایا پر نگاہ ڈالی اور انہیں پرندوں میں “ہد ہد ” نہیں نظر آیا ۔ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی: {وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ} سورة النمل(20). حضرت سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو پوچھا کیا بات ہے کہ مجھے ” ہد ہد” پرندہ نہیں دکھ رہا ہے کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے. ؟؟؟
حدیث میں مذکور لفظ راع ٍمحافظ اور نگراں کے معنی میں مستعمل ہے لیکن اصل معنی چرواہے کے ہیں۔
غور کریں كہ چرواہا اپنے جانور کی کس طرح نگرانی کرتا ہے ہر جانور کی دیکھ ریکھ كيسےکرتا ہے، انہیں وقت وقت پر چارہ دیتا ہے ، اپنے ساتھ چراگاہ لیکر جاتا ہے اور ساتھ ہی واپس لاتا ہے ، نہ تو خود جانوروں کو کسی دوسرے کی چراگاہ سے کھلاتا ہے اور نہ ہی انہیں کسی دوسرے کی چراگاہ میں چرنے دیتا ہے ، ہر ایک پر جاتے آتے اس کی نگاہ ہوتی ہے ، شام میں واپسی کے بعد باڑہ میں اگر کوئی جانور نہ دکھے تو اس کی تلاش میں نکل جاتا ہے ،جب تک مل نہ جائے سکون کی نیند نہیں سوتا، اسے خوف ہوتا ہے اکیلا پاکر کوئی بھیڑیا نہ کھا جائے یا کوئی چور نہ پکڑ لے جائے اس لئے ہمہ وقت چوکنا رہتا ہے۔
ایک نگہبان باپ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی ذریت کا اسی طرح خیال کرے انکی مادی ضرورتوں کو پورا کرے،حلال اور صاف ستھری غذا کھلائے، نہ خود حرام کھائے نہ بچوں کو کھلائے اور نہ انہیں کھانے دے، بچوں کی تربیت میں ان کی غذا کا بڑا دخل ہوتا ہے اس لئے حرام غذا سے بچوں کو مکمل محفوظ رکھے۔ اس موقعہ پر مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی (رحمہ اللہ) کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں فرماتے ہیں: ” بچوں کے مذہبی واخلاقی اٹھان اور ان کے اس قابل ہونے میں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کو کوئی خدمت لے یا قبولیت عطا فرمائے دو چیزوں کا بڑا دخل ہے ایک یہ کہ وہ (اپنی عمر کے مطابق) ظلم اور دل آزاری سے محفوظ رہیں اور کسی دکھے دل کی آہ یا مظلوم کی کراہ ان کے مستقبل پر اثر نہ ڈالے، دوسرے یہ کہ ان کی غذا غصب وحرام اور مشتبہ مال سے پاک رہے. ” (کاروان زندگی ص 81-82)۔
باپ کو چاہئے کہ بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھے نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بچائے ، بچے کی حرکتوں پر نگاہ رکھے اس بات کو یقینی بنائے کہ بچے جہاں بھی رہیں شام ڈھلے گھر واپس آجائیں ؛ جس طرح چرواہا اصطبل میں موجود کوئی جانور کم ہو تو پریشان ہوجاتا ہے تلاش شروع کردیتا ہے اسی طرح باپ بھی اولاد کے تعلق سے فکر مند رہے ، کوئی بچہ رات میں گھر دیر سے آئے یا پوری رات غائب رہے تو اس پر سختی کرے ورنہ معاشرہ میں موجود بھیڑیا نما انسان اسے اچک لیں گے اس کے دل کی فارغ تختی پر طرح طرح کے رنگ بھریں گے نتیجۃ اس کے کیریکٹر کو تباہ و برباد کردیں گے ۔پوری کوشش ہو کہ اس کو گاؤں يا محلہ کی نکڑ سبھا سے بچائے اسے اتنا فارغ وقت نہ دے کہ آلتو فالتو لڑکوں کے ساتھ وقت گزارے ۔کسی نہ کسی بہانے کام میں لگائے رکھے ،بس تھوڑا بہت تفریح کا وقت ضرور دے تاکہ بچہ کھلی فضا میں سانس لے سکے، اور خود کو مکمل پابند سلاسِل نہ سمجھے کیونکہ مکمل پابندی سے بغاوت کا شعور بیدار ہوتا ہے۔
ع: پہرے جذبات پر لگے جتنے اتنے طوفان سر اٹھاتے ہیں
ان کی تعلیم کے لئے معیاری اسکول کا انتخاب کرے ، گھر باہر ہر جگہ تعلیم کے لئے مناسب ماحول فراہم کرے ، ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تعلیمی ہدف متعین کرے کہ بیٹا آ گے چل کر تمہیں” مولانا” “مفتی” “ڈاکٹر” “انجینئر” وغیرہ وغیرہ بننا ہے تاکہ شروع سے تعلیمی رخ متعین رہے اور بچہ ادھر ادھرٹامک ٹوئیاں نہ مارے۔ تعلیم کی اہمیت کو ان کے دل میں بٹھائے اور سب سے اہم بات ہر علم کا مقصد دین اسلام کی خدمت اور اللہ کی رضا بتائے جسمانی صحت کے ساتھ روحانی تربیت پر بھی زور دے. انہیں دین کا داعی اور اسلام كا شیدائی بنائے۔
اللہ کے خلیل ابراہیم اور نبی یعقوب علیہما السلام کی اپنے بیٹوں کو آخری وصیت یہی تھی: {وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [البقرة: 132] اے میرے بیٹوں اللہ نے تمھارے لئےاس دین (اسلام) کو منتخب کردیا ہے لہذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا”۔
بچے قریب ہیں تو ان پر نگاہ رکھے اور دور ہوں تو ان کی خبر گیری کرے تاکہ انھیں یہ احساس رہے کہ ان کے والد ان کے لئے فکر مند ہیں۔
بچوں کے لئے باپ کا یہ کردار جتنا اہم ہے اتنا ہی مشقت بھرا ہے اس مرحلے میں بڑی جدو جہد کرنی پڑتی ہے بڑے صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے لیکن اس کے تین عظیم فائدے ہیں۔
1)اللہ کے یہاں جوابدہی آسان ہوگی۔
2) بچوں کی اچھی تربیت پر بڑا اجر وثواب ملے گا۔
حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے” آدمی اپنے بیٹے کو ادب سکھائے اللہ کے نزدیک اس کا یہ عمل بہتر ہے اس بات سے کہ وہ ایک صاع صدقہ کرے. “
بلاشبہ معاشرہ کو ایک با اخلاق با ادب فرد فراہم کرنا بڑے اجر کا کام ہے اس کا اثر دائمی ہوگا مستقبل میں وہ بچہ لوگوں کی نفع رسانی کام کریگا اسی لئے صدقہ خیرات کے ثواب پر تربیت کے ثواب کو فوقیت حاصل ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان سب کی اچھی تربیت کرے شفقت ومحبت کے ساتھ ان کی کفالت کرے ایسے شخص کے لئے جنت واجب ہوگی ” صحابہ فرماتے ہیں: ہم نے کہا اے اللہ کے رسول اگر دو بیٹیاں ہوں تو بھی یہی اجروثواب ملےگا ؟ آپ نے جواب دیا “اگرچہ دوبیٹیاں ہوں”۔
3)تربیت اولاد کا تیسرا بڑا فائدہ وہ لطف اور لذت ہے جو بچوں کے والدین پاتے ہیں.
سچ ہے اولاد کی نعمت اور قیمت کا اسی وقت احساس ہوگا جب آپ ان کی بہترین تربیت اور دیکھ بھال کریں گے پھر وہ بدلے میں آپ کو پیار محض پیار دیں گے جہاں تشکر سے پھٹی آنکھیں آپ کا استقبال کریں گی تو تبسم سے بھرا چہرہ آپ کی ساری تکان دور کردیگا ، کبھی کھلونوں کی آواز سے آپ کے کان بجیں گے لیکن پھر بھی آپ کو لطف ملےگا،کبھی بچوں کی جانب سے محبت بھرا تحفہ یا پیار بھرا جملہ آپ کے پورے وجود کو خوشی سے نڈھال کردیگا اور آپ اپنی ساری تکلیف ومشقت بھول کر اسی خوشی میں مست ہوجائیں گے۔
سفر کی ساری الجھن اور تھکن میں بھول جاتا ہوں
مرے بچے مجھے جب دیکھ کے مسکانے لگتے ہیں.
تاہم خوشی کے یہ پل اور لطف ولذت کا یہ فرحت بخش احساس انہیں ملتا ہے جو بچوں سے اپنی قربت باقی رکھتے ہیں اور ان کے لئے خوشی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ایک باپ بیوی کے اصرار پر بچی کو باہر تفریح کرانے لے گیا اس نے راستہ کے ایک ریسٹورنٹ پر گاڑی روکی اور کھانے کے لئے دو عدد کیک منگایا کچھ دیر میز پر بیٹھے باپ نے بیٹی سے رسما کہا: “منی ” میں تجھ سے پیار کرتا ہوں تھوڑی دیر میں ویٹر نے دوپلیٹ میں الگ الگ کیک لاکر دیا باپ نے بچی سے بغیر کچھ کہے چمچہ اٹھایا اور ایک پلیٹ اپنی طرف کھینچ کر کیک کاٹنا شروع کیا ؛ بچی سے رہا نہ گیا اس نے اپنی پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے کہا :” ابا لیں نوش فرمائیں” باپ کو اپنی کمزوری کا احساس ہوا اور اسے لگا کہ بیٹی بڑی ہے اور وہ چھوٹا ہے۔
آدم ایک باپ کا معذور بیٹا ہے ، جو پیدائشی جسمانی اور ذہنی کمزور ہے، نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے اس سے بڑے تین بھائی ہیں اس کے باپ کا بیان ہے کہ مجھے اس كی معذوری ناپسند تھی اور میری خواہش تھی کہ اللہ اس کو موت دیدے تاکہ اس تکلیف سے نجات پاجاؤں ، لیکن علاج ومعالجے کے بعد کچھ سدھار آیا گھسٹ کر چلنے لگا اور کچھ سمجھنے بھی لگا، میں نے اپنی سالگرہ کے موقع پر چاروں بچوں اور بیوی کو کار میں بٹھایا باہر کھانے کے لئے لے گیا، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ایک جگہ راستے میں گاڑی روک کر ایک دکان سے بچوں کو مٹھائ دلانے لگا تینوں بڑے بچوں نے مختلف مٹھائیاں لیں، لیکن آدم نے ایک پھول لیا، میں نے سمجھا آدم ناسمجھ ہے اس نے مٹھائی کی جگہ پھول لے لیا ہے میں نے کہا: بیٹے اس کو رکھ دو یہ مٹھائی نہیں ہے، آدم اندر گیا اسے رکھ کر اسی جیسا دوسرا پھول لے آیا ، مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اس کے ہاتھ سے پھول لیکر واپس دکان والے کو دیا اور آدم سے کہا:جاؤ مٹھائی لے لو مٹھائی ، آدم تیسری بار گھسٹتا ہوا گیا اور پھر ایک پھول لیکر آیا، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا آدم کیا چاہ رہا ہے ۔بادل نخواستہ مٹھائیوں اور پھول کا پیسہ دیکر بچوں کو واپس گھر لایا رات ہوچکی تھی تینوں بچے اپنے اپنے بستر پر جاکر سوگئے۔
آدم دیر رات گئے اٹھا ایک گلدان لیا اور اس میں پھول رکھ کر گھسٹتا ہوا میرے پاس آیا اور آواز نکالتے ہوئے مجھے متوجہ کیا ، میں جب اس کی طرف دیکھا تو اس نے کمزور ہاتھوں سے آہستہ آہستہ اٹھاتے ہوئے مجھے گلدان پکڑایا ، اور اپنی زبان میں کچھ بڑ بڑایا مجھے لگا وہ ” ہیپی برتھ ڈے ٹو یو” ( آپ کی سالگرہ مبارک ہو) کہہ رہاہے . میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا میری آنکھوں میں خوشی کا سیلاب امڈ آیا، میں نے آدم کو سینے سے لگایا اور دیر تک چمٹائے رکھا واپس جب اپنے بدن سے جدا کیا تو مجھے لگا آدم نے اس ایک پل میں میری ان تمام تکلیفوں کو جو اس کی پرورش کے دوران ہوئیں تھیں یکسرختم کردیا اور اپنی محبت کو میرے دل کے نہاں خانےمیں پیوست کردیا۔
راقم السطور کا پہلا بیٹا محمد یوسف بھی آدم کی طرح پیدائشی معذور ہے سہارے سے چلنے کی کوشش کرتا ہے ، گھسٹ کر زياده چلتا ہے مگر معذوری کے باوجود غیر معمولی سمجھ کا مالک ہے ، دور رہنے کی وجہ سے مجھ سے زیادہ بیوی اس کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے ، بیوی کا بیان ہے کہ ہر وہ لمحہ جب مجھے یوسف تھکادیتے ہیں اور میرا صبر وتحمل ٹوٹنے لگتا ہے یوسف کو فورا محسوس ہوجاتا ہے وہ پلٹ کر بدن کا جو حصہ پاجائیں اتنے بوسے دینے لگتے ہیں کہ مجھے ترس آنے لگتا ہے، آخر پیار جیت جاتا ہے تکان ہار جاتی ہے۔
انھیں کھلونوں میں جہاز اور گاڑی بے حد پسند ہے ناچیز کبھی کبھار محبت کو “کَیش” کرنے کیلئے اس طرح کا کوئی کھلونا خرید کر لیجاتا ہے ، دیکھتے ہی اپنی ران پر ہاتھ مار مار کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے فورا بیٹری ڈال کر چلانے کی کوشش ہوتی ہے جہاز چلتا اور جلتا دیکھ تشکر وامتنان کی پھٹی آنکھوں سے بار بار میرا شکریہ ادا کرتے ہیں اور میں بھی اس پر لطف “کیش” محبت سے سرشار ہوجاتا ہوں۔
عفاف راقم السطور كی چھوٹی بیٹی کی بنسبت یوسف مجھ سے زیادہ قریب رہے ہیں، محبت تو وہ بھی بہت کرتی ہے لیکن یوسف سب پر بھاری ہیں، یوسف كا حال یہ ہے كہ وہ ہر نئی بات اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں مجھ سے ضرور شیئر کرتا ہے ، گھر میں کوئی مخصوص کھانا بنے تو ماں کی طرح مجھے یادکرتا ہے کہ ابا نہیں ہیں اور آج یہ خاص ڈش بنی ہے. مطالبہ کرتا ہے کہ ابا کو بلاؤ تب کھائیں گے. (اس بیچارے کو نہیں معلوم کہ باپ پردیس میں زندگی کے کڑوے گھونٹ پی رہا ہے۔ خدا کرے بہت جلد اہل وعیال کی معیت میں زندگی کی صبح و شام گذرے)۔
فرط جذبات اور موقعہ کی مناسبت سے یہ چند پرسنل باتیں نوک قلم میں آگئیں امید کہ قارئین پر گراں نہیں گذریں گی بلکہ ایک درس ثابت ہوں گی۔
یہ تو ان بچوں کے احساسات تھے جو معذور ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ بچے جن کی عقل پختہ ہے وہ ہماری توجہ کے کس قدر مستحق اور محتاج ہیں۔
۳) دوست باپ. باپ کا یہ کردار بھی بڑا دلچسپ کردار ہے جب باپ اپنے بچوں کے لئے دوست بنے ان کے ساتھ کھیلے کودے اور اس فرق کو ختم کرنے کی کوشش کرے جو ایک باپ اور بیٹے کے درمیان حائل ہوتا ہے۔
بیٹے کے ساتھ باپ کا یہ دوستانہ سلوک عمر کے مختلف مرحلوں میں مطلوب ہے :
1) تین سے سات سال تک جب بیٹے شگفتہ پھول ہوتے ہیں عمر کے اس مرحلے میں باپ کا رویہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رہے۔
جس کےسیرت رسول اکرم ﷺ سے ہمیں مختلف نمونے ملتے ہیں.
آپ ﷺ پشت اوپر کرکے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور حسنین سے کہتے :” میں تمھارا گھوڑا ہوں مجھ پر سواری کرو”، “کبھی کبھی حسنین سجدے میں آپ کی پشت پر سوار ہوجاتے تو آپ سجدہ لمبا کردیتے”، آپ ﷺ مجلس میں ہوتے حسنین آتے کوئی آپ کی گردن مبارک پکڑ کر جھولنے لگتا کوئی گود میں بیٹھ کر اچھلتا کودتا آپ ﷺ ان کے اس عمل سے بے حد خوش ہوتے صحابہ (رضوان اللہ علیہم ) سے رہا نہ گیا آخر پوچھ لیا اے اللہ کے رسول !آپ ان سے اتنا محبت کرتے ہیں؟ نبی پاک ﷺ نے جواب دیا: ” کیوں نہ کروں حسنین میرے لئے دنیا کا سب سے بہترین تحفہ اور پھول ہیں”۔
آپ ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے ساتھ کھیلتے اور اپنی باہیں پھیلا کر کہتے: ” اے عباس کے بیٹو! دوڑلگاؤ جو تم میں سبقت کرکے میرے پاس پہلے پہونچے گا کامیاب ہوگا، سارے بچے دوڑتے ، پھر آپ ﷺ سب کو اپنی باہوں میں لیکر پیار کرتے اور سینے سے لگاتے”۔
کبھی ابوعمیر(چھوٹا بچہ جس نے ایک بلبل پال رکھی تھی اور وہ مرگئی تھی ) سے مزاحا کہتے: “يا أبا عمير ما فعل النغير” ابوعمیر! تیری بلبل کا کیا بنا؟۔
۲) دوسرا مرحلہ سات سال سے بارہ سال ۔ عمر کےاس مرحلے میں محبت کو باقی رکھتے ہوئے تربیت پر زور دے آپ ﷺ نے اس عمر میں بچوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ارشاد ہوا:” «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ»”. جب بچے سات کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو۔ دس سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارو ، اور ان کےدرمیان بستر کو جدا جدا کردو ۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: میں اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں سوتا تھا آپ ﷺ جب ان کے گھر تشریف لاتے تو معلوم کرتے” بچے نے نماز پڑھ لی ہے”۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عمر کے اس دور میں باپ کو چاہئے کہ بچوں کو نیکی کی طرف راغب کرے ، نماز کا عادی بنائے ، قرآن کی تعلیم دے ، ان کے سینوں کو اس کی تلاوت سے معمور رکھے ، حفظ قرآن پر توجہ دے کیونکہ اس وقت کا یاد کیا ہوا ” نقش کالحجر ” ہوتا ہے۔ نبی کی سیرت صحابہ کے قصوں سے ان کے ذہن کو آباد کرے ،اس طرح یہ نونہال ان شاء اللہ ضائع نہیں ہوگا کیونکہ”First Step is the last step” پہلا قدم ہی آخری قدم ہوتا ہے۔
۳) تیسرا مرحلہ بارہ سال سے پندرہ سال کا ہے ۔ اس عمر کے بچوں کو (مراہق) کہا جاتا ہے ، ایسے بچے عموما دوستی چاہتے ہیں اور اپنے ہم عمر دوستوں کا ایک حلقہ بنا لیتے ہیں ، جن کے ساتھ کھیلنا کودنا ہوتا ہے ، اور ان سے رسم وراہ ہوتی ہے ، ایسے میں باپ کو چاہئے کہ اچھے دوستوں کے ساتھ اس کے ہاتھ باندھے ، مگر بچے کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب کرے ، اس سے دوستانہ تعلق رکھے، اس کے پسندیدہ کھیلوں میں اس کا حوصلہ بڑھائے ، شفقت ونرمی الفت ومحبت سے اپنا اسیر بنائے، بچے کے اندر اپنی محبت پر دوستوں کی محبت کو غالب نہ ہونے دے ، سختی اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے بچوں پراپنی گرفت مضبوط نہ کرے ؛ مبادا بیٹا باپ کے قبضہ سے نکل جائے اور غلط دوستوں کے ہتھے چڑھ جائے ، کوشش ہو کہ اپنے کاموں میں اس کو اپنے ساتھ شریک کرے یہی اسوہ انبیاء ہے۔
حضرت اسماعیل جب اپنے باپ ابراہیم کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگے، اور ان کے کاموں میں شرکت کے لائق ہوئے تو اللہ نے خواب میں قربانی کا حکم دیا ، باپ بیٹے سے رائے لی اور کہا : اے میرے پیارے بیٹے میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں اللہ کے نام پر قربان کررہا ہوں ، تو بتا تیری کیا رائے ہے ، اطاعت شعار بیٹے نے سر تسلیم خم کیا اور کہا: اے ابا جان جو حکم ملا ہے اس کر گزرئے مجھے آپ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ قرآن میں آیت نازل ہوئی: {قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ} [الصافات: 102]
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
بعد میں یہی بیٹا خانہ کعبہ کی تعمیر میں باپ ابراہیم کا ساتھ دیتا ہے اللہ کو یہ ساتھ اتنا پسند آیا کہ جب کعبہ کے تعلق سے قرآن میں آیت اتاری دونوں کا نام ایک ساتھ ذکر کیا ارشاد باری ہے: {وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ } [البقرة: 127]. جب ابراہیم واسماعیل خانہ کعبہ کی دیوار کو اٹھا رہے تھے ، دعا کر رہے تھے اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے ، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
نبی پاک ﷺ بچوں کوتیر اندازی کے لئے جمع کرتے اور کہتے: “اے اسماعیل کے بیٹوں تیر چلاؤ ، تمھارے آباء واجداد تیر انداز تھے۔
باپ کو چاہئے کہ بیٹے کو اہم دینی مجلس اور خاص مقام پر اپنے ساتھ رکھے تاکہ اس کے دل کی تختی پر دین وایمان کے نقوش بیٹھ جائیں۔
صحابی رسول جابر بن عبد اللہ کے والد عبد اللہ بن حرام ( رضی اللہ عنہما ) بیعت عقبہ کے پاکیزہ موقع پر جابر کو اپنے ساتھ لے گئے ، بیعت عقبہ کا یہ واقعہ بڑا پر خطر تھا ، سردارانِ قریش کی نگاہیں اس پر تھیں اس کے باوجود ان کے باپ بارہ سالہ بیٹے جابر کو اپنے ساتھ لے گئے ۔لوگوں نے ان کے باپ سے کہا: تم اپنے بیٹے پر خوف نہیں کھائے ، اسے ساتھ لے گئے ان کے باپ عبداللہ نے کیا ہی خوبصورت جواب دیا ! کہا : میں نہیں چاہتا تھا کہ اس قیمتی لمحے سے میرا بیٹا محروم رہے۔
۴) پندرہ سے بیس سال عنفوان شباب كا زمانہ ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں قید وبند سے آزادی کا تصور بغاوت کی حد تک کم وبیش ہر بچے میں ہوتا ہے ، والدین کچھ کہیں گے بچہ کچھ اور چاہےگا، کسی کا کہا نہ ماننے کی عجیب و غریب ہٹ دھرمی ہوتی ہے،کبھی مجبورا دباؤ میں بات مان بھی لیں تو بھی دل چسپی سے کام نہیں کریں گے ، ان کو موبائل انٹرنٹ سرفنگ اوراپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش ہوتی ہے، ایسے میں والدین کی ذمہ داری بہت اہم ہوتی ہے کہ بچے کو کس طرح کنٹرول کریں، کس طرح اسے خراب مجلسوں بری صحبتوں اور فضول آوارہ گردیوں سے بچائیں، بچے کو ایسا ماحول دیں جہاں نہ بہت پابندی ہو نہ بالکل شتر بے مہار ، جہاں بچے کی دل چسپی بھی ملحوظ خاطر ہو اور معقول آزادی بھی فراہم ہو ، اس کے حوصلے کو پروان چڑھایا جائے اسے مختلف میدانوں میں حصہ لینے اور تعلیمی پیش رفت کی طرف ترغیب دی جائے، تابناک مستقبل کے لئے اسے ہر طرح موٹیویٹ کیا جائے۔ اچھوں کی صحبت کے ساتھ ساتھ نماز کی پابندی کا عادی بنایا جائے، اور اس کی اچھی بری حرکتوں پر غائبانہ نظر رکھی جائے۔
۵) بیس سےتیس اور اس سے اوپر کا مرحلہ۔عمر کے اس پڑاؤ پر باپ کو چاہئے کہ اب اپنے بچوں سے بھائیوں کا سلوک کرے ، محبت و وارفتگی ان پر نچھاور کرے ، ان سے مشورہ لینا ان کی منا سب رائے کا احترام کرنا ، اور عزت کی نگاہوں سے ان کی قدر کرنا شروع کر دے ؛ پھر بچےبھی ٹوٹ کر اسے چاہیں گے ، اور کھل کر اپنا ہر راز اور ہر بات کہہ سکیں گے ۔
آپ ﷺ بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بےپناہ محبت کرتے تھے ، جب کبھی وہ آپ کےگھر آتی تھیں آپ ﷺ: مرحبا میری بیٹی مرحبا کہتے ، شفقت سے ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ بٹھاتے ، پیشانی پربوسہ دیتے ۔ اور جب آپ بیٹی فاطمہ کے گھرجاتے تو بیٹی بھی آپ سے اسی طرح پیار کرتی ۔
کبھی آپ ﷺ ازواج مطہرات سے کہتے :” فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، میرا درد اس کا درد ہے اس کی تکلیف میری تکلیف ہے” ، توکبھی فاطمہ سے کہتے :” کیا تم اس سے محبت کروگی جس سے تمھارے باپ محبت کرتے ہیں ؟ بیٹی نے کہا : ہاں ۔ آپ ﷺ نے کہا: پس تم عائشہ سے محبت کرو۔
الفت ومحبت شفقت وپیار کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچے کو دُلار میں خوار کردیا جائے بلکہ تربیت کا یہ عمل توازن واعتدال کے ساتھ ہو جہاں سنجیدگی بھی نرمی کے ساتھ ہو ، شفقت کے ساتھ سختی بھی ہو ، ڈانٹ ڈپٹ زجر و توبیخ، مار اورتنبیہ ایک محدود دائرے میں ہو تاکہ بچہ پر لگام بھی باقی رہے اور وہ خود كو پابند سلاسل بھی نہ سمجھے۔
یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے بیٹی فاطمہ کو جہاں بے پناہ پیار دیا وہیں سنجیدگی برتتے ہوئے کبھی کہا :” خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا”۔
ہر باپ کو چاہئے کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ مشفق ، مہربان ، سنجیدہ ، خیر خواہ ،معتدل مزاج ، زیرک دوست بن کر رہے ، اور تربیت کے ان تینوں مراحل کو کشادہ دلی سے انجام دے ، اس طرح معاشرہ کو ایک نیک صالح فرد ملے گا ، بیٹے بھی فرمانبردار اور اطاعت شعار بنیں گے ، ہر باپ کو نیک نامی ملے گی جنہیں دیکھ ان کی جبین مسرت کھل اٹھیں گی اور آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔[1]
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} [الفرقان: 74]
[1] نوٹ : مضمون بالا کا بیشتر حصہ عربی کی شاندار کتاب ” الجنّۃ فی بیوتنا” (مصنف: عمرو خالد) سے مستفاد ہے ۔ ترجمہ ترتیب وتبویب راقم السطور کا حصہ ہے۔ مزید ناچیز کی جانب سے خاطر خواہ اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.