رکعات تراویح

رکعات تراویح احاديث وآثار كى روشنى ميں



رکعات تراویح احاديث وآثار كى روشنى ميں KB 546

رکعات تراویح احاديث وآثار كى روشنى ميں

بقلم: حضرت مولانا مفتی محمد شاکرصاحب قاسمی مدنی استاذ تخصص فی الحدیث، مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر، اعظم گڑھ، يوپى انڈيا

        ‘‘تراویح’’ ترویحہ کی جمع ہے ، ‘‘ترویحہ’’ اس نشست کو کہتے ہیں جس میں کچھ آرام کے لئے بیٹھا جائے، چونکہ تراویح کی چار رکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دعاپڑھی جاتی ہے اور اس طرح کچھ آرام مل جاتا ہے، اس لئے تراویح کی چار رکعت کو ایک ترویحہ کہتے ہیں اور پوری تراویح میں پانچ ترویحہ ہیں، اس لئے پانچوں کا مجموعہ تراویح کہلاتا ہے۔

        رمضان المبارک میں عہدنبوی سے لے کر آج تک اسی پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت تراویح پر امت کے سواداعظم کا عمل رہا ہے ، لیکن ایک شرذمۂ قلیلہ جن کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ، یہ شور وغوغا مچارہی ہے کہ یہ عمل سنت کے خلاف اور بدعت ہے، جس کی وجہ سے امت محمد یہ علیٰ صاحبہاالف الف صلاۃ وسلام بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے، اس لئے سطور آئندہ میں اس بات کو واضح کرنے کی طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے کہ بیس رکعت ہی عین سنت اور احادیث وآثار سے ثابت ہے اور اس کے برخلاف بات کرنے والوں کی گفتگو میں کوئی دم نہیں ہے، تاکہ امت مسلمہ حق بات پر اطمینان وسکون سے گامزن رہ سکے اور ان لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئے، اﷲ ربّ العزت ہرایک کو حق بات قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ (آمین)

  تراویح سے متعلق احادیث وآثار

        تراویح سے متعلق احادیث وآثار میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تراویح میں تدریجاً (آہستہ آہستہ) ترقی ہوئی ہے جس کو ہم ذیل میں نمبر وار تحریر کرتے ہیں:

  (۱) مطلقاً ترغیب:

یعنی حضورصلی اﷲعلیہ وسلم نے شروع میں رمضان المبارک کی راتوں میں نماز پڑھنے کی صرف ترغیب فرمائی، چنانچہ بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ کی روایت ہے کہ جناب محمد رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ’’. (صحیح البخاری حدیث نمبر۳۷،۲۰۰۹ وصحیح مسلم حدیث نمبر۱۸۱۵)  یعنی جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان اور ثواب کی نیت سے نماز پڑھے اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔اس حدیث پاک میں آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے صرف نمازتراویح کی ترغیب فرمائی ہے، نہ تو نماز پڑھنے کو ضروری قرار دیا اور نہ ہی رکعات کو بیان فرمایا۔

  (۲)سنت ہونے کی صراحت:

صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ آقامدنی صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ‘‘إِنَّ رَمَضَانَ شَهْرٌ افْتَرَضَ اللَّهُ صِيَامَهُ، وَإِنِّي سَنَنْتُ لِلْمُسْلِمِينَ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ‘‘ (صحیح ابن خزیمہ:۳/۳۳۵ حدیث نمبر۲۲۰۱) یعنی رمضان المبارک ایسا مہینہ ہے جس کے روزے کو اﷲتعالیٰ نے فرض فرمایا ہے اور اس کی تراویح کو میں نے مسلمانوں کے لئے سنت قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھے اور اس کی تراویح کو ادا کرے، وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے، جیساکہ اس دن تھا جس دن پیدا ہوا تھا۔اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں تراویح کے سنت قرار دینے کی نسبت خود اﷲربّ العزت کی طرف فرمائی ہے ، چنانچہ ایک مرتبہ رمضان المبارک سے ایک روز قبل حضورصلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران فرمایا تھا:  ‘‘جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا’’(صحیح ابن خزیمہ:۳؍۱۹۱ حدیث نمبر۱۸۸۷) یعنی رمضان المبارک ایسا مہینہ ہے جس کے روزے کو اﷲتعالیٰ نے فرض اور تراویح کو سنت قرار دیا ہے۔

(۳)عملی ثبوت:

چنانچہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ان ترغیبی اقوال کے بعد کچھ لوگوں نے رمضان المبارک میں تراویح پڑھنا شروع کردیا جیساکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے مروی ہے: ‘‘كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا، يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الشَّيْءُ مِنَ الْقُرْآنِ، فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوِ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ، يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ،’’(مسنداحمد:۶؍۲۶۷، حدیث نمبر۲۶۳۵۰) یعنی مسجد نبوی میں رمضان المبارک میں لوگ رات میں الگ الگ جماعتوں میں نماز پڑھتے تھے، جس شخص کو قرآن پاک کا کچھ حصہ یاد ہوتا، اس کے ساتھ پانچ چھ یا اس سے کم یا زیادہ لوگ مل کر نماز تراویح پڑھتے تھے۔

 (۴) بغیر اطلاع کے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنا:

روایات میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک میں آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نفل نماز پڑھتے تو کچھ صحابہ کرام رضی اﷲعنہم آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو بغیر بتائے آپ کی اقتدا میں نماز ادا فرماتے تھے ، جیساکہ حضرت انس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم رمضان المبارک میں نماز پڑھ رہے تھے، میں آکر آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا پھر دوسرے شخص آئے، وہ بھی کھڑے ہوگئے، پھر تیسرے شخص، یہاں تک کہ ہم لوگ ایک جماعت ہوگئے، جب آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو احساس ہواکہ میرے پیچھے کچھ لوگ کھڑے ہیں، تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے نماز مختصر کرکے ختم کردی اور گھر میں تشریف لے جاکر نماز پڑھنے لگے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر۲۶۲۵)

        اس روایت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ شروع میں آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو معلوم نہیں تھاکہ میرے پیچھے کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، لیکن جب معلوم ہوا تو نماز ختم کرنے کے بعد منع نہیں فرمایا، اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو اسی وقت بذریعہ وحی مطلع کردیا جاتا ،اس لئے کہ نبی کو کبھی بھی غلطی پر برقرار نہیں رکھاجاتا۔

  (۵) مسجد یا گھرمیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کا نکیرنہ فرمانا:

حضرت جابررضی اﷲعنہ کی روایت میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اﷲ کے رسول میرے ساتھ رات میں ایک معاملہ پیش آیا ، آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ تو کہا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہمیں قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا تمہارے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت نماز پڑھادی، تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے خاموش رہ کر اپنی رضامندی ظاہر فرمائی۔ (مسند ابی یعلی:۳؍۳۳۶ حدیث نمبر۱۸۰۱) ،اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم مسجدمیں تشریف لائے تو کچھ لوگوں کو مسجد کے گوشہ میں دیکھا، تو دریافت فرمایا یہ کون لوگ ہیں؟ تو بتایاگیا کہ ان لوگوں کو قرآن یاد نہیں ہے، ابی بن کعب رضی اﷲعنہ کی اقتدا میں یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں نے ٹھیک کیا، یا فرمایا کہ بہت اچھاکیا ۔ (ابوداؤد حدیث نمبر۱۳۷۹)

(۶) خود آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کا اپنے گھر والوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا:

حضرت انس رضی اﷲعنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع فرماکر ۲۱ویں شب کو تہائی رات تک نماز پڑھائی پھر ۲۲ویں کو آدھی رات تک اور ۲۳ ویں کو دوتہائی رات تک نماز پڑھائی اور ۲۴ ویں کو اپنے اہل خانہ کو حکم فرمایا کہ غسل کریں اور پوری رات نماز پڑھائی، اس کے بعد گھر والوں کو جمع نہیں فرمایا۔ (قیام رمضان للمروزی حدیث نمبر۱۰) اس روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کو تین رات مختلف مقدار میں نماز پڑھائی ہے ۔

  (۷) آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کا اپنے اہل خانہ اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ باجماعت تراویح ادا کرنا:

حضرت ابوذر رضی اﷲعنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے ہمیں ۲۳ویں شب کو تہائی رات تک نماز تراویح پڑھائی، پھر ۲۴ویں کو چھوڑکر ۲۵ویں شب میں آدھی رات تک نماز تراویح پڑھائی ،تو ہم نے درخواست کی کہ اے اﷲ کے رسول! کاش ہمیں آپ پوری رات تراویح پڑھاتے، تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ امام کے ساتھ آخر تک نماز پڑھتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کا ثواب ملتا ہے پھر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ۲۶ویں شب چھوڑ کر ۲۷ویں شب کو اپنے اہل خانہ اور بہت زیادہ لوگوں کے ساتھ اتنی دیر تک نماز (تراویح) پڑھائی کہ ہمیں سحری کے چھوٹنے کا اندیشہ ہونے لگا۔ (سنن ابی داؤد :۱۳۷۷، سنن الترمذی :۸۰۶، سنن النسائی :۱۳۶۴، سنن ابن ماجہ :۱۳۲۷)

  (۸) فرضیت کے خوف سے جماعت کا ترک کرنا:

صحیح مسلم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے (رمضان میں) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی، لوگوں نے بھی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی، پھر دوسری رات آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے نماز پڑھی، تو مقتدیوں کی تعداد بڑھ گئی، پھر تیسری یا چوتھی رات آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح آکر فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا تھا، لیکن میں اس اندیشہ سے مسجد نہیں آیا کہ کہیں نماز تراویح تم پر فرض نہ کردی جائے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر۱۸۱۹) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر فرضیت کا خوف نہ ہوتا تو آپ ضرور تشریف لاتے اور پورے رمضان تراویح پڑھاتے۔

  (۹) بیس رکعت تراویح کا ثبوت:

یہ بات مسلّم ہے کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے قول وفعل سے صحیح سنداور غیرمضطرب روایت کے ساتھ رکعات تراویح کا کوئی متعین عدد ثابت نہیں ہے ،لیکن متعدد ضعیف روایات میں بیس رکعت تراویح کا پڑھنا حضور صلی اﷲعلیہ وسلم سے صراحۃً ثابت ہے ، چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ (۵؍۲۲۵ حدیث نمبر۷۷۷۴) میں حِبرِامت حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما کی روایت ہے: ‘‘إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ’’ یعنی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے، اسی طرح تاریخ جرجان (ص:۱۴۲) میں ہے: ‘‘خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ أَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَأَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ’’ یعنی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم رمضان میں ایک رات تشریف لائے تو لوگوں کو چوبیس رکعت (چارفرض اور بیس تراویح) اور تین رکعت وتر پڑھائی۔

        یہ روایات گرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن ان کا ضعف کسی طرح قابل اشکال نہیں،کیونکہ محدثین کرام کا قاعدہ ہے کہ جس روایت کو امت میں تلقی بالقبول (امت کے ہرطبقہ میں قبولیت) حاصل ہو، اس کا ضعف کوئی حیثیت نہیں رکھتا، چنانچہ ان روایات کو خلفاء راشدین حضرت عمر وعثمان وعلی ، مہاجرین وانصار اور بڑے بڑے صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ ہر ایک نے تسلیم کیا ہے، مختصر یہ ہے کہ چند گنے چنے افراد کو چھوڑ کر پوری امت نے ان روایات پر عمل کیا ہے۔

  (۱۰) تراویح عہد صدیقی میں:

خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر رضی اﷲعنہ کا دور خلافت بہت مختصر تھا، طرح طرح کے نئے فتنوں سے مقابلہ کی وجہ سے تراویح میں کوئی خاص تدریج نہیں ہوئی ،بلکہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے زمانے کی طرف تراویح کی رکعتوں کا کوئی شمار نہیں تھا، جس کی جتنی مرضی ہوتی تھی اتنی ہی رکعتیں پڑھ لیا کرتا تھا۔

 (۱۱) تراویح عہد فاروقی میں:

سنن ابی داؤد کی روایت ہے: ‘‘أَنَّ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ علی اُبَّيِ بْنِ کَعْبٍ فِيْ قِیَامِ رَمَضَانَ، فَکَانَ یُصَلِّیْ لَہُمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً’’ (سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۱۴۳۱) یعنی حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب کی امامت پر جمع فرمایا، وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔

        خلیفۂ دوم امیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ کا مقام ومرتبہ یہ ہے کہ خود حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے آپ کے اسلام لانے کے لئے خصوصی دعافرمائی ، اور جن کے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے کے بعد اﷲتعالیٰ نے مذہب اسلام کو سربلندی نصیب فرمائی۔

        حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے اسلام لانے کے بعد قرآنی تعلیمات کے مطابق تربیت پائی اور اﷲتعالیٰ کے فیضانِ بے کراں اور توفیق کامل کی وجہ سے قرآنی زندگی کے ساتھ اسلامی شریعت وآداب کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتے رہے ، قرآن کریم کے مقاصد پر آپ کو مکمل عبورحاصل تھا، اﷲربّ العزت نے آپ کو اعلیٰ درجہ کی قوتِ فکروفہم سے نوازا تھا، متعدد مواقع پر آپ کی جورائے تھی ، بالکل اسی کے مطابق قرآن کریم میں اﷲربّ العزت نے آیات نازل فرماکر تاقیامِ قیامت آپ کی اصابتِ رائے پر مہر تصدیق وتائید ثبت فرمادی۔

        خود حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو آپ پر اتنا اعتماد تھاکہ امت کو ان کی اقتدا کا حکم فرمایا ، چنانچہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اﷲعنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتدا کرو۔ (سنن ترمذی؍المناقب؍مناقب ابی بکروعمر؍الرقم:۳۶۶۲)

        اسی طرح بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم جس راستے سے گذرتے ہو شیطان اس کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔ (صحیح البخاری؍بدء الخلق؍صفۃ ابلیس وجنودہ ؍الرقم:۳۱۲۰)

        لہٰذا جوحضرات حضرت عمررضی اﷲعنہ کے فعل کو بدعت کہتے ہیں ان کو حضور اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے ان ارشادات پر غور کرنا چاہئے، اور یہ سوچنا چاہئے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے بیس رکعت کا ہی حکم کیوں دیا؟ نہ اس سے کم نہ زیادہ ؟ کوئی نماز کتنی رکعت اور کس طرح پڑھی جائے؟ یہ کوئی عقلی چیز نہیں ہے کہ عقل سے سوچ کر بتادی جائے، نماز کا طریقہ اور رکعتوں کی تعداد یہ وہ امور ہیں جن میں عقل واجتہاد کا ذرا بھی دخل نہیں، اس لئے حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے بیس رکعت کے حکم کو تمام صحابہ کا تسلیم کرلینا سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ خود حضرت عمر وعثمان وعلی اور دیگر صحابہ کرام رضی اﷲعنہم نے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کا اس طرح قول یا فعل سنایا دیکھا ہو گا، بغیر اس کے تمام صحابہ کرام رضی اﷲعنہم کا تسلیم کرلینا ممکن نہیں ،کیونکہ یہ عقلی اور اجتہادی چیز نہیں تھی۔

 (۱۲) تراویح عہدعثمانی میں:

داماد رسول سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲعنہ کے زمانہ خلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی، چنانچہ بیہقی میں سائب بن یزیدکی روایت میں ہے ‘‘کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً قَالَ: وَکَانُوْا یَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئِیْنَ وَکَانُوْا یَتَوَکَّؤُوْنَ عَلٰی عِصِیِّہِمْ فِيْ عَہْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّۃِ الْقِیَامِ’’ (سنن کبریٰ :۲؍۴۹۶ حدیث نمبر ۴۸۰۱) یعنی حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے دور مبارک میں (صحابہ وتابعین) بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اور امام سوسوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اﷲعنہ کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔

  (۱۳) تراویح عہد حیدری میں:

حضرت علی رضی اﷲعنہ کے دور خلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی، چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ (۵؍۲۲۳ حدیث نمبر۷۷۶۳) میں حضرت ابوالحسناء کی روایت ہے ‘‘أَنَّ عَلِیًّا أَمَرَ رَجُلاً یُصَلِّي بِہِمْ فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً’’ یعنی حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائیں۔

 (۱۴) تراویح دورائمہ اربعہ میں:

جس طرح تمام صحابہ کرام بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اسی طرح ائمہ اربعہ میں سے کسی کے یہاں بیس رکعت سے کم تراویح کا ثبوت نہیں ملتا۔ (تفصیل کے لئے مذاہب اربعہ کی کتب فقہیہ کو دیکھا جائے)۔

 (۱۵) تراویح حرمین شریفین میں:

مسجد حرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں چودہ سوسال سے بیس رکعت سے کم تراویح پڑھنا ثابت نہیں بلکہ ۲۰ رکعت ہی متوارث ومتواتر عمل رہا ہے، چنانچہ جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے سابق استاذ شیخ محمد علی صابونی نے اپنے رسالہ ‘‘الہدي النبوي الصحیح في صلاۃ التراویح’’ میں خلافت راشدہ سے لیکر سعودی حکومت تک مکہ مکرمہ اور مسجد حرام میں مسلسل بیس رکعات تراویح پڑھنے کا ثبوت پیش کیا ہے، اسی طرح مسجد نبوی کے مشہور استاذ اور مدینہ منورہ کے قاضی شیخ عطیہ سالم نے اپنی کتاب ‘‘التراویح أکثرمن ألف عام في المسجد النبوي’’ میں ثابت کیا ہے کہ چودہ سوسالہ مدت میں مسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور اس سے کم پڑھنا کبھی بھی ثابت نہیں۔

        قارئین کرام ! اب تک کی گفتگوسے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح ہوچکی ہے کہ اصل سنت تراویح ۲۰ رکعت ہی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے اور اس پر اعتراض کرنے والے خلفاء راشدین ، اہل مکہ واہل مدینہ ، ائمہ اربعہ ، جمہورعلماء کرام اور کروڑوں مسلمان کے مخالف ہیں، اس لئے آپ خود فیصلہ کریں کہ حق بجانب کون ہے؟

 تراویح اور غیرمقلدین:

غیرمقلدین بیس رکعت تراویح کو بدعت عمری کہتے ہیں اور آٹھ رکعت تراویح کو سنت قرار دیتے ہیں ، مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں اب اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس پر گفتگو کی جائے لیکن قارئین کرام کی تسلی کے لئے غیر مقلدین کی سب سے مضبوط دلیل کو یہاں پیش کرکے اس کا جائزہ بھی پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ روایت تراویح سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں، چنانچہ بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے رمضان میں آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا نے فرمایا:‘‘مَا کَانَ یَزِیْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَافِيْ غَیْرِہَا عَلٰی إِحْدیٰ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّيْ أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّی أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّي ثَلاثًا’’ ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۱۱۴۷ وصحیح مسلم:۱۷۵۷) یعنی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، پہلے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم ایسی چار رکعت پڑھتے تھے کہ بس ان کے حسن اور درازی کے بارے میں مت پوچھو، پھر چار رکعت ایسی پڑھتے تھے کہ ان کے حسن اور درازی کے بارے میں پوچھوہی مت، پھرتین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔

        غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ اس روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم رمضان میں بھی اور رمضان کے علاوہ (بقیہ گیارہ مہینوں) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نماز رات میں نہیں پڑھتے تھے، اسی وجہ سے غیر مقلدین نے قیامت تک کے لئے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تراویح آٹھ رکعت ہی ہے، حالانکہ بخاری ہی میں حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی دوسری روایت ہے جس میں حضرت مسروق رضی اﷲعنہ نے حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: ‘‘سَبْعٌ وَتِسْعٌ وَإِحْدیٰ عَشْرَۃً سِویٰ رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ’’ (صحیح البخاری:۱۱۳۹) یعنی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کبھی سات رکعت کبھی نورکعت اور کبھی گیارہ رکعت فجر کی دورکعت سنت کے علاوہ پڑھتے تھے۔

        آپ دیکھئے کہ اس روایت میں ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھنے کی تردید ہورہی ہے اور دونوں روایتیں بخاری شریف کی ہیں؛ اس لئے غیر مقلدین صحیح اور ضعیف کہہ کر بھی راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے ، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ بخاری شریف کی ان دونوں روایتوں اور ان جیسی دیگر اور روایتوں کا تعلق تہجد سے ہے ، تراویح سے نہیں ، ان روایات کا یہی مطلب جمہور امت نے سمجھا ہے اس لئے غیرمقلدین کا ان روایات کو تراویح کی دلیل میں پیش کرناسراسر غلط ہے۔

        غیرمقلدین کا اپنے مستدل روایت کے خلاف عمل:ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا کی جس روایت کو غیر مقلدین اپنی سب سے مضبوط دلیل بناکر پیش کرتے ہیں، وہ خود اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ، چنانچہ غیر مقلدین تراویح دودورکعت کرکے پڑھتے ہیں، حالانکہ اس روایت میں چار چار رکعت کا ذکر ہے، اسی طرح غیرمقلدین وتر ایک رکعت پڑھتے ہیں، جب کہ اس روایت میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے اور اگر کبھی تین رکعت وتر پڑھتے بھی ہیں، تو دورکعت پر سلام پھیرکر ایک رکعت علیٰحدہ پڑھتے ہیں ، جب کہ روایت میں دو رکعت پر سلام پھیرنے کا ذکر نہیں ہے۔

 غیرمقلدین کی سینہ زوری:

غیرمقلدین کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے بھی آٹھ رکعت تراویح کا حکم دیا تھا بیس رکعت کا نہیں ، چنانچہ جو روایت اس کی دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا بھی سرسری جائزہ ملاحظہ فرمائیں، حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اﷲعنہما کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ۔ (مؤطاامام مالک :۱۴۴ حدیث نمبر۲۵۱، سنن کبریٰ للبیہقی:۲؍۴۹۶ حدیث نمبر۴۸۰۰)

        اس روایت میں دس باتیں قابل غور ہیں: (۱) اس روایت میں رمضان کا تذکرہ نہیں (۲) اس روایت میں تراویح کا نام نہیں (۳) اس کی تائید میں دوسری روایات نہیں (۴) کتنے دن یہ نماز پڑھانی ہے اس کی صراحت نہیں (۵) اس روایت پر مہاجرین وانصار کا عمل نہیں (۶) اس روایت پر صحابہ کا اجماع نہیں (۷) اس روایت پر ائمہ اربعہ میں سے کسی کا عمل نہیں (۸) اس روایت پر اجماع امت نہیں (۹) اس روایت پر خلفائے راشدین صحابہ کرام، تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ متبوعین میں سے کسی کا عمل نہیں(۱۰) یہ حکم حضرت عمر رضی اﷲعنہ کا ہے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کا نہیں، اور غیر مقلدین کس طرح یہاں حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے حکم کو تسلیم کررہے ہیں حالانکہ دوسری جگہ ان کے عمل کو بدعت کہتے ہوئے تھکتے نہیں، ان دس اشکالات کا جواب غیرمقلدین سے مطلوب ہے اور یقین ہے کہ وہ کسی طرح جواب نہیں دے سکتے، ہماری طرف سے اس روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت حددرجہ اضطراب کی شکار ہے ، اسی وجہ سے امت مرحومہ کے سواداعظم نے اس پر عمل نہیں کیا۔

        لہٰذا ان تمام معروضات کی روشنی میں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ غیر مقلدین کا آٹھ رکعت تراویح کا دعویٰ بالکل بے دلیل اور بے بنیاد ہے اور رکعات تراویح کی صحیح تعداد بیس ہی ہے جس پر قرناً بعد قرنٍ چودہ سوسال سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے، اﷲتعالیٰ ہرایک کو حق بات قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔(آمین)



رکعات تراویح احاديث وآثار كى روشنى ميں KB 546

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply