زندگی میں جائداد کی تقسیم اور فاسق کی امامت
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: بینوا و توجروا.
ایک مورث باپ، بوڑھا اور کمزور ہوجائے اور اپنے وارثین میں سے کسی نافرمان اولاد کی طرف سے یہ خطرہ ہو کہ وہ اپنی دنیا طلبی، ضد، ہٹ دھرمی، قلبی خباثت اور بے راہ روی کی وجہ سے میرے انتقال کے بعد اپنی بہنوں یعنی میری کمزور بیٹیوں کا حق وراثت ادا نہیں کریگا اور اپنے دیگر بھائیوں کے بھی مال کے بارے میں جھگڑا کرے گا ۔ اسی خوف کی وجہ سے اگر یہ باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد پر اپنا مال قرآن و سنت کی روشنی میں تقسیم کردے اور قبضہ کرادے تو کیا یہ تقسیم کرنا از راہ شرع درست ہے؟
پھر وہی بیٹا جس کی طرف سے فساد کا خطرہ تھا اس وراثت کی تقسیم کی وجہ سے اپنے باپ مورث کو ظالم جابر بے ایمان کہے اور والد سے قطع کلامی کردے نیز جو دیگر بھائی ہمیشہ باپ کی خدمت کرتے ہیں اور اس تقسیم میراث میں بھی باپ کے معاون ومددگار بنے رہے ان کو بھی برا ٹھہراتا ہو، بدنام کرتا ہو، اور خود اپنی بہنوں پر الزام تراشی کرتا ہو، تہمت لگاتا ہو، حرام کھانیوالی تاجو بہن کہتا ہو، بھائیوں سے بطور قرض روپیہ لیکر وسعت کے باوجود ادا نہ کرتا ہو بلکہ ان بھائیوں کے خلاف سازشیں کرکے قتل کے پلان بناتا ہو، بڑے گناہوں کا مرتکب ہو، زناکاری جیسے جرائم میں مبتلا ہو اور پھر بڑے دھڑلے کے ساتھ سفید پوش بن کر کسی مسجد میں امامت بھی کرتا ہو ،کبائر سے پھر بھی اجتناب نہ کرے؛ بلکہ اپنی روش بد پر قائم رہے، تو کیا ایسے شخص کی امامت درست ہے یا نہیں؟ اگر مقتدیوں کو اس کی قطع رحمی، بے ایمانی ، غداری، دھوکہ بازی اور حرام حلال کی تمیز کئے بغیر بد معاملگی کا علم ہوجائے تو کیا اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ لازم ہے یا نہیں؟ اور ایسے امام کو منصب امامت پر برقرار رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
المستفتی: ابو حذیفہ، ابو ظبی
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:
اگر زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد وغیرہ تقسیم کرنا ہو تو سب لڑکے لڑکیوں کو برابر برابر دینا چاہئے، اور یہی بہتر ہے؛ لیکن اگر بیٹیوں کو بیٹوں کا آدھا دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
سوال میں مذکورہ باتیں جس شخص کے اندر پائی جائیں وہ شخص فاسق ہے ایسے شخص کا اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر امامت کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ کیونکہ امام کا صحیح العقیدہ اورنماز سے متعلق مسائل سے واقف ہونا، صحیح قرأت پڑھنے والا دیندار اور ظاہری گناہوں اور برائیوں سے پاک ہونا ضروری ہے، اور اگر ایسے شخص کو دوسرے لوگ خود امام بنائیں تو وہ بھی گنہگار ہوں گے؛ حدیث شریف میں ہے: “فاجر شخص کسی مومن کی امامت نہ کرے” کیوں کہ فاسق اپنے دین کا ہی اہتمام نہیں کرتا تو نماز جیسی عظیم الشان عبادت کے متعلق اس کا اعتبار کیونکر ہو، نیز اسے امامت کا منصب دینے میں اس کی تعظیم لازم آتی ہے حالانکہ شریعت میں اس کی اہانت واجب ہے۔
لہذا مخالف شریعت، واجب الاہانت امام کو معزول کردینا ضروری ہے ۔
ابو داود شریف میں ہے: ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی، اسے تھوک آیا تو قبلہ کی جانب تھوک دیا. آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے جب نماز سے فارغ ہوگیا تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں سے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص آئندہ تمہاری امامت نہ کرے، اس کے بعد اس شخص نے نماز پڑھانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اسے روک دیا اور بتادیا کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے، یہ شخص آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس واقعہ کا تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں میں نے کہا تھا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم نے ﷲ کو اور اس کے رسول کو اذیت پہنچائی تھی۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اگر ایسا امام نماز پڑھا دے تو اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔ (مستفاد فتاوی رحیمیہ وفتاوى قاسمیہ)
الدلائل
عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰه عنه وهو علی المنبر یقول: أعطاني أبي عطیة، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضی حتی تشهد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، فأتی رسول اللّٰه ﷺ، فقال: إني أعطیت ابني من عمرة بنت رواحة عطیة، فأمرتني أن أشهدک یا رسول اللّٰه! قال: أعطیت سائر ولدک مثل هٰذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا اللّٰه واعدلوا بین أولادکم. قال: فرجع، فردّ عطیته. (صحیح البخاري/ باب الإشهاد في الهبة 1/352 رقم: 2515).
وإن قصده فسوى بينهم، يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى، أي على قول أبي يوسف من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي قول محمد. (رد المحتار 501/8، زكريا).
یعطي الإبنت مثل ما یعطي للإبن وعلیه الفتویٰ. (الفتاویٰ الھندیة 4/391، فتاویٰ قاضيخان 3/379).
عن عطاء بن دینار الهذلی : أن رسول الله ﷺ قال: ثلاثة لا تقبل منهم صلاة ، ولا تصعد إلی السماء ، ولا تجاوز رؤوسهم: رجل أم قوماً وهم له کارهون. (صحیح ابن خزیمه باب الزجر عن إمامة المرء من یکره إمامته، المکتب الإسلامی 1/735، رقم: 1517).
عن جابر بن عبد الله قال:خطبنا رسول الله ﷺ فقال۔۔۔۔۔ ولا یؤم فاجر مؤمناً. الحدیث (سنن ابن ماجه، الصلاة، باب فرض الجمعة ، النسخة الهندیة 1/75، دارالسلام رقم: 1081).
عن أبي هریرة رضی الله عنه أن رسول الله ﷺ قال: صلوا خلف کل بر وفاجر، الحدیث. (سنن الدار قطنی ، الصلاة، باب تجوز الصلاة معه الخ دارالکتب العلمیة 2/42، رقم: 1750).
لو قدموا فاسقاً یأثمون بناءً علی أن کراهة تقدیمه کراهة تحریم. (کبیری شرح منیة المصلی، کتاب الصلاة، فصل فی الإمامة اشرفیه /513).
الأولیٰ بالا مامة اعلمھم بأحکام الصلوٰة، کذا في المضمرات، وھو الظاھر ھکذا في البحر الرائق ھذا إذا علم من القرأة قدر ما تقوم به سنة القراءة ھکذا في التبیین: ولم یطعن فی دینه کذا في الکفایة وھکذا في النھایة ویجتنب الفواحش الظاھرة. (فتاویٰ عالمگیري ج1 ص83 الفصل الثانی فی بیان من ھو أحق الامامة).
والفاسق من فعل کبیرة أو أصر علی صغیرة (شامی ج4 ص 531 باب الإمامة) وأما الفاسق فقد عللوا کراھة تقدیمه بانه لا یھتم لأمر دینه وبأن تقدیمه للإمامة تعظیمه‘ وقد وجب علیھم إھانته شرعا. (شامی ج1 ص 523 باب الإمامة).
إن رجلاً أم قوماً فبصق في القبلة ورسول ﷲ صلی اللّٰه علیه وسلم ینظر فقال رسول ﷲ ﷺ حین فرغ لا یصلي بکم فأراد بعد ذلک أن یصلي لھم فمنعوه، وأخبروه بقول رسول ﷲ ﷺ فذکر ذلک لرسول ﷲ ﷺ فقال: نعم، وحسبت أنه قال: إنک آذیت ﷲ ورسوله ﷺ (ابو داود ج1 ص 76 باب في کراھیة البزاق في المسجد).
ولو أم قوم وھم له کارھون أن الکراھة لفسادفیه أو لأنھم أحق بالإمامة منه کره له ذلک تحریماً لحدیث أبی داؤد لا یقبل ﷲ صلوٰة من تقدم قوما وھم له کارھون وأن ھو احق لا والکراھة علیھم. (درمختار مع شامی ج 1 ص 522 باب الإمامة)
والله أعلم
15- 12 – 1439 ھ 27-8-2018م الاثنين.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.