حلال جانور کو حرام اور ناپاک غذا کھلانا
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
جانوروں میں گوشت کے وزن یا دودھ کو زیادہ کرنے کے لیے ان کو ایسی غذائیں دی جاتی ہیں جو حرام اور ناپاک چیزوں سے تیار ہوتی ہیں جیسے کہ خون یا ناپاک جانوروں کے گوشت سے تیار شدہ غذا۔
فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ جس چیز کا کھانا حرام ہے اسے دوسروں کو کھلانا بھی حرام ہے اگرچہ وہ غیر مسلم یا حلال یا حرام جانور ہو البتہ اس میں قدرے تفصیل ہے:
اگر وہ عین نجاست ہے جیسے کہ مردار اور خون تو اسے کسی کو بھی کھلانا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ کتے اور بلی کو بھی۔[1]
اگر وہ بذات خود ناپاک نہیں ہے بلکہ کسی ناپاک چیز کے ملنے کی وجہ سے ناپاک ہو گیا ہے تو دیکھا جائے کہ نجاست غالب ہے یا مغلوب، غالب ہونے کی صورت میں وہ عین نجاست کے حکم میں ہے اور کسی جانور کو بھی اسے کھلانا جائز نہیں۔ [2]
اور مغلوب ہونے کی حالت میں ادمی اور حلال جانور کو کھلانا جائز نہیں ہے البتہ حرام جانور جیسے کتے بلی وغیرہ کو کھلانا درست ہے (یہ پوری تفصیل امداد الفتاوی ج: 9/ ص: 545 سے ماخوذ ہے)
حنابلہ کے یہاں حلال جانور کو حرام یا ناپاک چیز کھلانا درست نہیں البتہ حرام جانور کو کھلانے کی گنجائش ہے اس کے برخلاف مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک ہر طرح کے جانور کو حرام اور ناپاک غذا کھلانا درست ہے خواہ وہ بذات خود ناپاک ہو یا پاک ، مگر اس میں کوئی ناپاک چیز مل گئی ہو (دیکھئے الموسوعة الفقهیة: ج: 40/ ص: 108 )
کسی حلال جانور کو ناپاک غذا کھلائی جائے یا وہ خود سے ناپاک غذا کھائے تو اگر اس کی پوری یا غالب غذا ناپاک ہو اور اس کی وجہ سے اس کے گوشت میں بدبو پیدا ہو جائے تو شرعی اصطلاح میں ایسے جانور کو جلالہ کہا جاتا ہے اور اس طرح کے گوشت کا کھانا مکروہ تحریمی ہے چنانچہ حدیث میں ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل الجلالة وألبانها (سنن الترمذي: 1825)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالہ جانور کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا ہے۔
موجودہ دور میں گوشت یا دودھ میں اضافہ کے لیے خون یا مردار وغیرہ پر مشتمل جو ہارمونی غذائیں دی جاتی ہیں وہ اپنی اصلی شکل میں نہیں ہوتیں بلکہ ٹیبلٹ یا انجکشن کی شکل میں دی جاتی ہیں اور اس وجہ سے بظاہر دودھ یا گوشت وغیرہ میں کسی طرح کی بدبو وغیرہ پیدا نہیں ہوتی مگر یہ ہارمونی غذائیں انسان اور جانور دونوں کی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں اس لیے اس طرح کی غذاؤں سے بچنا چاہئے۔
حواشى
[1] قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على أي وجه، ولا يطعمها الكلاب والجوارح (الفتاوى الهنديه: 5/ 398 ط زكريا)
[2] إذا تنجس الخبز أو الطعام لا يجوز أن يطعم الصغير، أو المعتوه، أو الحيوان الماكول اللحم. (الفتاوى الهنديه:5/ 398)، لأن ما تنجس باختلاط النجاسة به والنجاسة مغلوبة لا يباح أكله ويباح الانتفاع به فيما وراء الأكل. (الدر المحتار تحت صاحب قول الدر المختار فيطعم للكلاب فصل في البئر :1/ 376 ط زكريا)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.