دار العلوم دیو بند آزادی وطن کے تناظر میں
از: مولانا حضرت قیام الدین القاسمی، جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند ضلع بستی، يوپى، انڈيا
ایشیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دار العلوم دیو بند کو یہ فخر حاصل ہے کہ آزادی ہند کیلئے جس مرد مجاہد نے سب سے پہلے ہندوستان کو دار الحرب قرار دیکر انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا ، وہ مرد مجاہد دار العلوم دیو بند کے فکر اساسی سے ہم آہنگ یعنی خاندان ولی اللہی سے وابستہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی ذات اقدس ہے جو دارالعلوم دیوبند کے مؤسس اعلی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلی کے فرزندار جمند ہیں نیز یہ کہ بانیان دار العلوم دیو بند اسی وقت سے یعنی انیسویں صدی کے آغاز ہی سے اپنی فکری و عملی ہمہ گیریت و آفاقیت کے ساتھ شکل تحریک ولی اللہی سرگرم عمل رہے اور فرنگی باد صر صر کے رخ کو موڑنے کیلئے نبرد آزما ہوتے رہے اور مزاحمت کرتے رہے، رفتہ رفتہ مزاحمت کا یہ سلسلہ ایک زبر دست تحریک بن گئی جو ہندوستان کی آزادی کیلئے اس قدر سرگرم ہوئی کہ انگریز جیسی نا قابل تسخیر طاقت اسے نہ دبا سکی۔
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہيں ہم
سو بار كر چكا ہے تو امتحاں ہمارا
توحيد كى امانت سينوں ميں ہے ہمارے
آساں نہيں مٹانا نام ونشاں ہمارا
اور یہ ایسا کیوں ؟ جی ہاں ! انگریزوں نے حکومت واقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھینا تھا اس لئے قدرتی طور پر مسلمان ہی زیادہ مشتعل تھے اسے خوبی کہئے یا اس قوم کی خامی کہ جب یہ قوم مشتعل ہو جاتی ہے اس کی غیرت وحمیت کو للکارا جاتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ فریق مخالف کی طاقت کیا ہے؟ ان نتائج سے بے پرواہ ہو کر اس سے ٹکرا جاتی ہے چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز کے فتوىء جہاد سے پورے ہندوستان کی زمین تھرا اٹھی۔ شریعت کا فتوی تھا حق کی منادی : کہ ہندوستان کی زمین سب ہلا دی ، آزادی کی سرگرمیوں کا آغاز آپ کے تربیت یافتہ حضرت سید احمد رائے بریلوی اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید آزادی کی قیادت میں ہوا۔ مجاہد کبیر سید احمد رائے بریلوی کون ہیں؟ یہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے خلیفہ ہیں جنکے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زائد غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔
تو مجاہدین کی یہ جماعت ( جن کے رہبر مجاہد کبیر سید احمد اور سرخیل آزادی مولانا شاہ اسماعیل شہید تھے ) تحریک آزادی کی جنگ اس طرح نہ لڑنا چاہتی تھی کہ محض شہادت پالے بلکہ اس کے پیش نظر اولا ایسے حالات پیدا کرنے تھے کہ جن سے آزادی ہند کیلئے راہیں ہموار ہو جائیں اس لئے انہوں نے حالات کے پیش نظر اس عظیم نصب العین کیلئے یہ طریق اختیار کیا کہ پہلا محاذ سکھوں کے مقابلہ میں کھولا، ان بزرگان دین کا خیال تھا کہ اگر ہمیں یہاں غلبہ مل جاتا ہے تو پھر پورے ہندوستان میں جنگ آزادی بڑی کامیابی سے لڑی جاسکتی ہے چنانچہ مجاہدین سرحد کیطرف روانہ ہوئے جہاں جہاں سے یہ گذرتے گئے سینکڑوں مسلمان ان کے ساتھ ہوتے جاتے اور تحریک کا دروازہ وسیع ہوتا جا تا بالآخر یہ حضرات ( سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید) شمال مغربی ہند میں بحالت سرگرم جہاد میں بالا کوٹ پر ۱۸۳۱ء میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیئے۔
سید صاحب کی شہادت کے بعد اضمحلال پیدا ہوا مگر جانشین نے بہت جلد جماعت کے نظام کو سنبھال لیا اس کو استحکام بخشا اور اس کے دائرے کو وسیع کیا اور جماعت کا صحیح رخ بھی متعین ہوا قدرتی طور پر انگریزی حکومت از خود نشانہ پر آگئی اور جنگ شروع ہوگئی۔ تحریک سید کے لازوال ولولے کے بارے میں ولیم ولسن ہنٹر لکھتا ہے: یہ تحریک کسی رہنما کی موت وحیات سے بالکل مستعفی ہوگئی تھی۔
شہدائے بالا کوٹ کی شہادت کے بعد بھی مجاہدین بستى قائم رہی، ان كا جذبہء جہاد زندہ رہا، انگريزى فوجوں كو كئى بار شكستيں ديں اور كبھى مجاہدین کے حملوں کا دباؤ اتنا بڑھ جاتا تھا کہ بڑی سی بڑی فوج اس کے دفاع میں لگانے کی ضرورت پڑتی تھی اس تحریک کو ختم کرنے کیلئے انگریزوں نے پوری طاقت لگا دی کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ لڑائی تو سرحد میں لڑی جارہی ہے لیکن اس کے اثرات سے پورا ملک جوالا مکھی بنا ہوا ہے ، اس طرح سرحد میں چھوٹی بڑی لڑائیاں مجاہدین کی انگریزی فوجوں سے ہوتی رہیں کہ پورے ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہو گیا، بالاکوٹ کے شہدا غیرت وحمیت کے وہ چراغ روشن کر گئے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ، تحریک دیو بند، تحریک ریشمی رومال تحریک جمعیۃ علماء ہند اور تحریک خلافت کے تاریک خاکوں میں رنگ بھرتے رہے، یہاں تک کہ آزادی کا سورج چمکا جمہوریت کا بول بالا ہوا انگریزوں کو برصغیر سے نکلنا پڑا ۔
بموقع ہنگامہ ۱۸۵۷ء فکر ولی اللہی کا یہ کارواں بانیان دار العلوم دیو بند کے مرشد کامل شیخ العالم حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (شاگرد رشید مولانا نصیر الدین دہلوی جنہوں نے واقعہ بالا کوٹ کے بعد سید احمد رائے بریلوی کی تحریک جہاد کو ایک نئی روح پھونکی) کی قیادت و امامت میں ہندوستان کی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم عمل رہا۔ ۱۸۵۷ء کے معرکہ کے متعلق حضرت مولانا حسین احمد مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند کا بیان چشم دید شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا مدنی تحریر فرماتے ہیں:
” پھر جہاد کی تیاری ہوئی اور اعلان کر دیا گیا حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کو امام مقرر کیا گیا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند کوسپہ سالار افواج قرار دیا گیا اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کو قاضی بنایا گیا اور مولانا محمد منیر نانوتوی اور حافظ ضامن صاحب تھانوی کو میمنہ اور میسرہ ( داہنے بازو اور بائیں بازو )کے افسر مقرر کئے گئے” ، چونکہ اطراف و جوانب میں مذکورہ بالا حضرات کے تقوی وعلم کا بہت زیادہ شہرہ تھا ان حضرات کے اخلاص وللہیت سے لوگ بہت زیادہ متاثر تھے اس لئے بہت تھوڑی مدت میں جوق در جوق لوگوں کا اجتماع ہونے لگا مجاہدین ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور تھانہ بھون اور اطراف ميں حكومت قائم كر لى گئى اور انگریزوں کے ماتحت حکام نکال لئے گئے اسی دوران یہ خبر آئی کہ انگریز حکام کی طرف توپ خانہ سہارنپور سے شاملی کو بھیجا گیا ہے، ایک پلٹن لارہی ہے ، رات کو یہاں سے گذرے گی ، اس خبر سے لوگوں میں تشویش ہوئی کیونکہ جو ہتھیار ان مجاہدین کے پاس تھے وہ تلوار، تو پ دار بندوقیں اور برچھے وغیرہ تھے مگر توپ کسی کے نہ پاس تھی توپ خانہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائیگا ۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا: فکر مت کرو، سڑک ایک باغ کے کنارے سے گذرتی تھی حضرت گنگوہی تيس یا چالیس مجاہدین پر حضرت حاجی امداد اللہ نے افسر مقرر کر دیا تھا آپ اپنے ماتحتوں کو لیکر باغ میں چھپ گئے اور سب کو حکم دیا کہ پہلے سے تیار رہو جب میں حکم کروں سب ایکدحملہ کرنا چنانچہ جب پلٹن معہ توپ خانہ باغ کے سامنے پیونچی تو سب نے ایکدحملہ کر دیا پلٹن گھبرا گئی کہ خدا جانے کس قدر یہاں آدمی چھپے ہوئے ہیں توپ خانہ چھوڑ کر سب بھاگ گئے حضرت گنگوہی نے توپ خانہ کھینچ کر حضرت حاجی صاحب کی مسجد کے سامنے لاکر ڈال دیا ، اس سے لوگوں میں ان حضرات کی فراست ذکاوت فنون حربیہ کی مہارت کا سکہ بیٹھ گیا ، شاملی اس زمانے میں مرکزی مقام ضلع سہارنپور سے متعلق تھا وہاں تحصیل بھی تھی کچھ فوجی طاقت وہاں بھی رہتی تھی قرار پایا کہ اس پر حملہ کیا جائے چنانچہ چڑھائی اور قبضہ کر لیا گیا جو طاقت پولیس اور فوج کی وہاں تھی وہ مغلوب ہوگئی اور حافظ ضامن صاحب اسی ہنگامہ میں شہید ہو گئے ، حافظ ضامن کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا ان کی شہادت سے پہلے روزآنہ خبر آتی تھی کہ آج فلاں مقام انگریزوں سے چھین لیا گیا آج فلاں مقام پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہو گیا اور یہی حال ہر جگہ کی خبروں کا تھا۔ “
حضرت مدنی لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ الہند فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ تمام معاملہ جوش و خروش جنگ و جدال کا حضرت حافظ ضامن صاحب کی شہادت کیلئے کیا گیا تھا۔ بہر حال حافظ صاحب کی شہادت اور دہلی کے سقوط کی خبر سے لوگوں کی ہمتیں بالکل پست ہو گئیں ۔ سرسید احمد مرحوم بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تحرير فرماتے ہيں كہ یہ قتل و خونریزی شاملی میں ۴ ا/ ستمبر ۱۸۵۷ء کو ہوئی جو دن فتح دہلى کا تھا (لائل محمڈ نس آف انڈیا) ١٩/ ستمبر ۱۸۵۷ء کو بہادر شاہ ظفر گرفتار ہوئے دہلی پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہوا تو فتح مند فوجوں نے اطراف دہلی پر بھی قبضہ شروع کر دیا، چند روزہ بعد ہی تھانہ بھون کا نمبر آگیا فصیل توڑ دی گئی دروازے اڑا دیئے گئے مٹی کا تیل ڈال کر مکانوں کو آگ لگادی گئی، جو ملا اس کو تہ تیغ کیا گیا، قیمتی مال و اسباب سے فوج نے اپنی جیبیں بھریں ، تھانہ بھون ایک اجڑا ہوا دیار بن گیا ، یہ چاروں بزرگ ( حاجی امدادالله، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا منیر احمد نانوتوی) باہر نکلنے پر کامیاب ہو گئے، علاقہ تھانہ بھون کے یہ رہنما جنہوں نے انگریزوں کی زبان میں بغاوت اور غدر میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا تھا پھر بھی ہر قسم کی سزا سے بچ جانا کر شمۂ خداوندی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کی گرفتاری جولائی ۱۸۵۹ء میں عمل میں آئی پھر چھ ماہ بعد رہا کر دیئے گئے، تحریک ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد حاجی امداد اللہ مکہ مکرمہ ہجرت فرما گئے اور وہیں سے آخر تک ہندوستانی تحریک کی قیادت فرماتے رہے، حضرت مولانا مولا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور مولانا رشید احمد گنگوہی سر پرست دارالعلوم دیو بند و مولا نا محمد منیر اور انکے برادر محترم مولانا محمد مظہر کو مشورہ سے ہندوستان چھوڑا گیا اور ابھی شہیدوں کا خون خشک ہونے نہیں پایا تھا یعنی ہنگامہ ۱۸۵۷ء سے صرف آٹھ سال میں بعد ۱۸۶۶ء بمطابق ۱۲۸۳ھ میں کہ ان بزرگوں نے تحریک کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دارالعلوم دیوبند، جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد، مظاہر علوم سہارنپور کے تعلیمی وتربیتی حلقے قائم کر دیئے ، دارالعلوم دیو بند کی نے ابتدا نہایت معمولی تھی لیکن اللہ کے کرم اور بانیوں کے حسن نیت جلد ہی اس نے ترقی شروع کردی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے شروع ہی سے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا اسکے علاوہ مولا نا محمد یعقوب صاحب کو اس مدرسہ کی توسیع میں بڑا دخل ہے وہ خود الگ جامع العلوم بزرگ تھے انکے والد مولانا مملوک علی، سرسید احمد خاں (بانی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) اور مولانا محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند) کے استاذ تھے اور اس وجہ سے ان کا حلقہ اکثر بہت وسیع تھا کہ وہ خودڈ پی ایجوکیشنل انسپكٹر کے معزز عہدے پر مامور تھے اور جدید محکمہ تعلیم کے نظام اور طریقہ کار سے بخوبی واقف تھے جس سال مدرسہ کا آغاز ہو اسی سال انہوں نے اپنی اعلی ملازمت اور معقول مشاہرے کو قربان کر کے علوم اسلامی کی خدمت کیلئے مدرسہ دیوبند میں پچیس روپے کی مدرسی قبول کر لی اور وہ دارالعلوم کے پہلے صدر مدرس ہوئے ۔
دار العلوم دیو بند کی سرگرمیاں محض درس و تدریس تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس نے قومی ملکی اور سیاسی معاملات میں بھی اندرون حدود شرعیہ بڑھ چڑھ کر قائدانہ حصہ لیا اور ایک لے رہا ہے، اور اس کے اکا بر وفضلا کے کارنامے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ جنہوں نے سیاسیات سے علیحدگی کا اعلان کیا مگر دین ومذہب اسکی ہمہ گیر تفسیر میں ان بزرگوں کے عقیدے کے مطابق وطنی سیاست اور جد و جہد آزادی ایک فرض کی حیثیت رکھتی تھی اسی احساس فرض کا نتیجہ تھا کہ جیسے ہی ۱۸۵۸ء میں انڈین نیشنل کانگریس قائم کی گئی اس جماعت کے سربراہ شیخ الہند نا محمود حسن دیوبندی نے اور آپکے ساتھیوں نے مسلمانوں کیلئے شرکت کانگریس کا فتوی صادر کیا اور برطانیہ سامراج کے ہاتھوں کھیلنے والے اور خان بہادروں کے پھینکے ہوئے تمام تیر پوری جوانمردی سے اپنے سینوں پر لئے پھر بیسویں صدی کے شروع مؤتمر الانصار اور جمعیت الانصار کے نام سے ایک نظام قائم کیا گیا نظام کا اندرونی رخ یہ تھا کہ بقول شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ۱۹۰۷ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ریشمی خط کی تحریک شروع کی اور ۱۹۱۴ ء تک اسے اس حد تک پہنچا دیا کہ اگر کچھ ملک کے خائن خیانت نہ کرتے تو اسی وقت ہندوستان آزاد ہو چکا ہوتا ۱۹۱۴ء میں ریشمی رومال کی تحریک نا کام ہوئی اس کے رہنما جو دارالعلوم دیو بند سے وابستہ تھے حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی ، اور دوسرے اکابرین جلا وطن ہوئے لیکن ابھی پورے پانچ سال نہیں پائے تھے کہ انہیں بزرگوں کے ساتھیوں نے جو ہندوستان میں تھے نئی کروٹ لی اور ۱۹۱۹ء میں جمعیۃ علماء ہند کی باضابطہ تشکیل کر دی جس نے انڈین نیشنل کانفرنس کے ساتھ دوش بدوش تحریک آزادی میں حصہ لیتے ہوئے اور جانی و مالی قربانیاں پیش کرتے ہوئے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ۱۵/۱۴ راگست کی درمیانی رات کو بارہ بجے مکمل آزادی حاصل کر لی۔
پورا ہندوستان محوِ خواب تھا تو ہندوستان كا مفدر جاگ گيا، اور ہندوستانى وقت كے مطابق ٹھيك بارہ بجے آل انڈيا ريڈيو سے ہندوستان كى آزادى كا اعلان ہو گيا، مگر افسوس کہ آخر میں برطانیہ کا جادو کام کر گیا اور جسم ہندوستان دو ٹکڑے کر کے اسکی شہ رگ کا خون کھینچ لیا گیا اور تقسیم وطن کے بعد فرقہ پرست عناصر کی ایک خاص ذہنیت کے پیش نظر انہیں علماء مجاہدین کى زیر نگرانی ۲۸/۲۷ دسمبر ۱۹۴۸ء کو لکھنو میں منعقد ہونے والی آزاد کا نفرنس نے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا، اور آزاد ہندوستان میں سیکولر نظام اور جمہوری آئین کے نفاذ کیلئے بھی کلیدی رول ادا کیا، جس کے تحت ملک کی اقلیتوں کو مساوات اور برابری کے حقوق حاصل ہوئے۔
بہر حال یہ حریت و آزادی اور جمہوریت جس عنوان سے بھی آئی وہ نتیجہ ہے انہیں کوششوں کا ثمرہ ہے جن کے مبارک ناموں سے سرورق مزین ہے ، اور ثمرہ ہے ان مدارس اسلامیہ کا جو فکر ولی اللہی اور دارالعلوم دیو بند تحریک سے وابستہ ہیں۔ الحمد اللہ آج بھی ارباب دار العلوم دیو بند مدارس اسلامیہ، جمعیتہ علماء ہند اور دیگر ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے مادر وطن ہندوستان کی تعمیر وتحفظ کیلئے اہم رول ادا کر رہے ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی اور مدارس اسلامیہ کی ان خدمات کو ملک کی قومی تاریخ میں نظر انداز کر دیا گیا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ آج مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیکر بد نام کیا جارہا ہے جو سراسر تعصب اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریہ ہندوستان میں اسطرح کی فرقہ واریت مادر وطن کی سالمیت و جمہوریت کیلئے نہایت ہی نا قابل تلافی نقصاندہ ثابت ہوگا، جسکو وقت کا مؤرخ معاف نہیں کریگا۔ لہذا سیکولر تصورات سے ہم آہنگی اور مادر وطن کی خدمت خدمہ کے جذبہ سے ارباب حکومت کو چاہئے کہ اس نوعیت کے ذہنى مضر اثرات کی روک تھام کرے، اور اس کیلئے موثر تدبیر اپنائے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.