hamare masayel

 رہائش کے لئے خریدی ہوئی زمین میں تجارت كى نىت اور زكوة

 رہائش کے لئے خریدی ہوئی زمین میں صرف تجارت کی نیت سے زکوة واجب نہیں ہوتی

سوال : ایک شخص نے کچھ زمین خریدی تھي اس نیت سے کہ اس پر مکان تعمیر کرے گا؛ لیکن بعد میں ارادہ بدل گیا اور اس زمین کو فروخت کرنے کی نیت کر لی، اب گھر میں جو پیسہ مکان کی تعمیر کیلئے رکھا تھا اس رقم میں ایک اور زمین خریدی اور ارادہ اس پر مکان بنوانے کا ہے، علاوہ ازیں موصوف کے پاس اسی طرح کی ایک اور زمین ہے جس کی قیمت بہت زیادہ ہے، اور دس سال بعد تقریباً اسے فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ بغرضِ تجارت خریدی ہوئی زمین پر جو زکوٰة واجب ہو رہی ہے وہ موصوف کی سالانہ آمدنی سے کہیں زیادہ ہے، ایسی صورت میں وہ کیا کریں؟ قرض لیکر زکوٰة ادا کریں یا اپنی زکوٰة کا حساب رکھیں اور زمین کی فروختگی کے بعد یکبارگی تمام زکوٰة ادا کریں؟

اس درمیان اگر موت واقع ہو گئی تو کیا زکوٰة کی وصیت کرنا لازم ہوگا ؟ اور کیا مال وراثت سے زکوٰة کی ادائیگی کی جائیگی؟

المستفتی : علیم شیخ ممبر پاسبان علم وادب

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

مکان بنانے کیلئے خریدی ہوئی زمین میں گھر بنانے کا ارادہ بدل جائے کہ قیمت بڑھ جانے پر اس کو فروخت کردوں گا، تو یہ زمین صرف نیت کرنے سے مال تجارت نہیں ہوئی؛ اس لئے جب تک اس کو فروخت نہ کرے زکوة واجب نہیں ہوگی، لہذا قرض لے کر زکوة دینے، حساب رکھنے، موت کے خوف سے وصیت یا ترکہ سے زکوة کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

الدلائل

عن نافع عن ابن عمر قال: لیس فی العروض زکاة إلا ماکان للتجارة. (السنن الکبریٰ للبیهقی، کتاب الزکاة، باب زکاة التجارة، دارالفکر 6/64، رقم: 7698).

اشتریٰ شیئا للقنیة ناویا أنه إن وجد ربحاً باعه لا زکوٰة علیه. (الدر مع الرد، کتاب الزکاة، قبیل باب السائمه،3/195، زکریا دیوبند، 2/274، کراچی).

رجل اشتریٰ خادما للخدمة وهو ینوی إن أصاب ربحاً یبیعه فحال علیه الحول لا زکوٰة علیه لأن المشتری للخدمة کذلک یکون إذا أصاب ربحاً یبیعه. (الولوالجیة دارالایمان سهارنپور، کتاب الزکاة 1/183).

وتشترط نیة التجارة في العروض ولابد أن تکون مقارنة للتجارة فلو اشتریٰ شیئاً للقنیة ناویاً أنه إن وجد ربحاً باعه لا زکوٰة علیه۔ (الاشباه زکریا 1/79، قدیم /38).

لکن لاتجب الزکوٰة إلا إذا اتجر لأن التجارة فعل لایتم بمجرد النیة. (شرح حموی زکریا1/79، قدیم /38).

ولا (زکاة) فی دور السکنیٰ ونحوها. وفی الشامیة کالحوانیت والعقارات. (رد المحتار، کتاب الزکاة، کراچی 2/265،زکریا 3/182).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 15/9/1439ه31/5/2018م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply