(سلسلہ نمبر 278)
مقروض شخص کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے
سوال: زید نے کاروبار کرنے کیلئے خالد، عمر، بکر، سے تین لاکھ روپئے بطور قرض لئے، ادائیگی کی مدت ایک سال طے ہوئی؛ لیکن کاروبار آگے نہیں بڑھ سکا، تجربہ کم ہونے کی بنیاد پر سارا مال اسی طرح پڑا رہا اور سال مکمل ہوگیا، کچھ مال فروخت ہوا جسکی رقم 80000 بنتی ہے وہ موجود ہے، قرض دینے والے ادائیگی کیلئے سر پر کھڑے ہیں، زید کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے، کیا اس صورت میں زید زكوة کی رقم سے قرض ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟ شریعت وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
المستفتی: احقر عبد اللہ تھانہ ممبئی۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
جی اگر زید کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو زید دوسروں سے زکوٰۃ کی اتنی رقم لے سکتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کے بقدر اس کے پاس باقی نہ رہے۔
الدلائل
قال اللّٰه تبارک وتعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْنِ … وَالْغَارِمِیْنَ﴾ [التوبة: 60]
عن قبیصة بن مخارق … قال رسول اللّٰہ ﷺ … یا قبیصة! إن المسئلة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: … ورجلٌ أصابته جائحةٌ اجتاحت ماله فحلت له المسئلة …الخ.(صحیح مسلم 1/334 رقم: 1044).
مدیون لا یملک نصابا فاضلا عن دینه، وفي الظہیریة: والدفع للمدیون أولی منه للفقیر. (الدرالمختار مع الشامي 3/289 زکریا)
وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إليه مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلّا، أو لا یفضل بعد دینه نصاب فلا یکرہ. (الدر المختار مع الشامي/ باب المصرف3/ 304 زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / فی بیان أحکام المصارف 1/ 333 بیروت)
قوله: والمدیون أطلقه کالقدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینه؛ لأنه المراد بالغارم في الآیة، وہو في اللغة: من عليه دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاوی الظہیریة: الدفع إلی من علیه الدین أولی من الدفع إلی الفقیر. (البحر الرائق/ باب المصرف 2/242 کراچی).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
تاريخ الرقم: 10- 8- 1441ھ 5- 4- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.