(سلسلہ نمبر: 410)
صرف شک کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی
سوال: نیچے دئے ہوئے مسئلوں کا علماء کرام جواب دیں :
(1) ہماری بیوی کی کہیں اور منگنی ہوئی تھی، تو بیوی نے ہمیں پریشان کرنے کے لئے کہا: ہم اس کے پاس چلی جائیں؟ ہم نے کہا ہماری طرف سے آزاد ہو، ہمارے دل میں یہ بات ہے کہ ہمارے نکاح میں ہو تو کیسے جاؤگی، آزاد الفاظ کہنے کے بعد یہ یاد نہیں ہے کہ ہم نے ” جاؤ” بھی کہا تھا، پھر بیوی نے کہا ایسے تھوڑی چھوڑو گے، اب ہمیں لگتا ہے کہ ہم خاموش ہوگئے تھے، پھر بیوی نے سوچ کر کہا: کہے تھے ماریں گے ایک تھپڑ۔
(2) بیوی کو ڈرانے کے لئے ہم نے کہا تمہاری موبائل پر تینوں لکھ کر بھیج دیا ہے، دیکھنا نہیں، نہیں تو ہوجائے گی، ہم نے لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ہمارا مطلب طلاق کے الفاظ کا تھا، ہم نے اس سے یہ نہیں کہا کہ طلاق لکھ کر بھیجا ہے، بس ہم نے یہ کہا کہ لکھ کر بھیجے ہیں اور اس نے دیکھ لیا لیکن ہم نے کچھ نہیں لکھا تھا، ہم نے اپنی تین فوٹو بھیجی تھی، اس نے فوٹو دیکھ کر کہا قبول ہے، قبول ہے، اس لئے کہ یہ فوٹو ہمارے شوہر کی ہے، اسی لئے قبول ہے، طلاق کی نیت سے نہیں کہی تھی ہم نے پوچھا تھا۔
(3) بیوی سے بحث کے دوران، بیوی نے ہم سے کہا ہم کو چھوڑ دو، ہم نے کہا چھوڑ دئیے، چھوڑ دیں گے۔ (اس پر مفتی صاحب نے کہا تھا ایک طلاق ہوگئی)
اب اس بات سے ہمارے دل میں ڈر اور شک پیدا ہوگیا کہ ایسی بحث تو کئی بار ہوئی ہے؛ لیکن اس میں ہمیں خیال آتا ہے کہ جتنے صاف الفاظ جو طلاق ہوئی ہے اس میں کہے ہیں، اتنے صاف الفاظ نہیں کہے ہیں، نہ ہمیں یاد ہے، ہاں دماغ پر زور ڈالنے سے یاد آتا ہے کہ بیوی سے ہم نے کہا ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو چھوڑ دیں گے، جو۔ اے یاد نہیں ہے تو اس سے دل میں شک اور ڈر بیٹھ گیا ہے کہ کہیں آق نہ ہوگئی ہو، کیا اس وجہ سے دور ہونا صحیح ہوگا؟
(4) بیوی کو دانتے وقت جو دماغ میں وسوسے آتے ہیں اس کا کیا حکم ہے، جیسے بیوی کو بولتے وقت ہم نے کہا چلی جاؤ، یا یہاں سے جاؤ، یہ کہتے وقت دماغ میں یہ وسوسے آتے ہیں کہ طلاق دے رہے ہو، اگر اس وقت دماغ ہی میں ہاں کہہ دیا جائے تو طلاق ہو جاتی ہے؟ پہلے سے کوئی ارادہ طلاق نہ ہو۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
مذکورہ بالا سوالات کے بالترتیب جواب ملاحظہ فرمائیں:
(1) بیوی کو یہ کہنا کہ تم آزاد ہو اس سے ایک طلاق رجعی پڑتی ہے۔ (امداد الفتاوی: 2/ 370).
اگر بیوی ابھی عدت کے اندر ہے تو شوہر اس سے رجوع کرسکتا ہے، اور اگر عدت ختم ہوگئی ہے تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔
(2) جب آپ نے اپنی فوٹو بھیجی اور دیکھنے سے منع کیا تھا تو گرچہ بیوی نے دیکھ لیا اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، ہاں اگر فوٹو دیکھنے پر طلاق کو معلق کیا ہوتا تو طلاق پڑ جاتی حالانکہ آپ نے ایسا نہیں کیا ہے، بلکہ فوٹو کو طلاق کا لفظ مراد لیا ہے اس لئے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
(3) اگر بیوی کے طلاق مانگنے پر آپ نے کہا کہ چھوڑ دئیے تو ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، عدت کے اندر بیوی سے رجوع کرسکتے ہیں، اور اگر چھوڑ دوں گا کہا ہے یا صحیح یاد نہیں ہے کہ کیا کہا ہے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
(4) بیوی کو ڈانٹتے وقت جو وسوسے آتے ہیں ان کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں، اس لئے بے فکر رہیں۔
نوٹ: آپ کے پورے سوال سے معلوم ہوا کہ آپ کو شبہہ کی بیماری ہے (اللہ آپ کو اس سے نجات دے) اور کوئی بات آپ کو یقین سے یاد نہیں ہے، اور شریعت کا ضابطہ ہے کہ جو چیز یقین سے ثابت ہو اور اس کے ختم ہونے میں شبہہ ہو تو وہ ختم نہیں ہوتی، چونکہ آپ کا نکاح یقین سے ثابت ہے اور طلاق کے بارے میں شبہہ ہے اس لئے طلاق کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
آپ کے دماغ میں جو طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں اس کی طرف بالکل توجہ نہ دیں، فارغ اوقات میں حسب سہولت استغفار اور درود شریف پڑھتے رہیں، ان شاء اللہ ذہنی سکون واطمینان اور اس بیماری سے نجات حاصل ہوگی، اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی بیماری سے شفاء کلی نصیب فرمائے. (آمین).
الدلائل
عن أبي هریرۃ رضي اللٰه عنه قال: قال رسول اللٰہ ﷺ: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة. (سنن الترمذي، الرقم: 1184).
والأصل الذي علیه الفتوی في زماننا هذا فی الطلاق بالفارسیة أنه إذا کان فیها لفظ لا یستعمل إلا فی الطلاق، فذلک اللفظ صریح یقع به الطلاق من غیر نیة إذا أضیف إلی المرأۃ. (الفتاویٰ الهندیة1/ 379 زکریا)
فإنّ سرحتک کنایۃ لکنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصریح، فإذا قال: رہا کردم، أي سرحتک یقع به الرجعي مع أن أصله کنایۃ أیضا. (رد المحتار: 3/ 299 کراچی).
وذكر في الفتح هناك: لو قال أنت بثلاث وقعت ثلاث إن نوى لأنه محتمل لفظه، ولو قال لم أنو لا يصدق إذا كان في حال مذاكرة الطلاق لأنه لا يحتمل الرد وإلا صدق. (رد المحتار: ٣/ ٣٠٣، كراچی).
علم أنه حلف ولم يدر بطلاق أو غيره لغا كما لو شك أطلق أم لا. ولو شك أطلق واحدة أو أكثر بنى على الأقل. (الدر المختار).
وفي الشامیة: إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنه. (الدر المختار مع رد المحتار: 3؍283 کراچی).
وزاد في الأشباہ: وإن قال الزوج عزمت أنه ثلاث یترکها و إن أخبرہ عدول حضروا ذلک بأنها واحدۃ وصدقهم أخذ بقولهم. (الأشباہ والنظائر / القاعدۃ الثالثۃ الیقین لا یرول بالشک، ص: 108).
ومن القواعد الفقهية: اليقين لا يزول بالشك. (الأشباہ والنظائر، ص: 108).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر لهأستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
30- 11- 1441ھ 22- 7- 2020م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.