hamare masayel

اگر شوہر طلاق نہ دے تو بیوی شرعی پنچایت سے نکاح فسخ کرا سکتی ہے

(سلسلہ نمبر: 370)

اگر شوہر طلاق نہ دے تو بیوی شرعی پنچایت سے نکاح فسخ کرا سکتی ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں مسئلہ ذیل کےبارے ندا کی شادی 22.4.2019 کو ہوئی تھی اور وہ تقریباً 2 ماہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی اسکے بعد ابھی تک شوہر بیوی میں کسی بات کو لیکر ناراضگی ہے، اور اب بیوی کسی بھی حال میں شوہر کے ساتھ رہنے کو بالکل تیار نہیں ہے اور شوہر چھوڑنے کو بھی نہیں کہ رہا ہے، لڑکی والے اب چھوڑوانا چاہتے ہیں تو کیا شکل بنے گى؟

المستفتی: غفران احمد حقی کجرا کول، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 بر صدق سوال صورت مسئولہ میں جب کہ معاملہ زوجین کی آپسی مفاہمت سے آگے نکل چکا ہے، ایسی صورت میں قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ اولاً طرفین کے اولیا یا مقتداء حضرات باہم صلح کی کوشش کریں۔

 اگر ثالثی کرنے والے حضرات مخلص ہوں اور وہ واقعتا زوجین کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کے درمیان موافقت اور اتحاد واتفاق کی کوئی راہ نکال دے گا، خدانخواستہ اگر اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو شوہر کی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے کہ بیوی کو اپنی زوجیت سے نکال دے (بہتر یہی ہے کہ ایک طلاق دے)، اور اگر شوہر طلاق پر راضی نہیں ہے تو بیوی خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، اگر شوہر خلع پر بھی راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی کو یہ حق ہوگا کہ وہ مقامی شرعی پنچایت میں جا کر نکاح کو فسخ کرالے۔

نوٹ: بیوی کو جذبات میں آکر کوئی فیصلہ لینے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، کچھ نہ کچھ کمی ہر ایک کے اندر ہوتی ہے، لیکن کچھ اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، اس لئے کمیوں کو نظر انداز کرکے اچھائیوں پر نظر رکھنی چاہئے، طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اس لئے حتی الامکان اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

الدلائل

قالَ اللَّهُ تَعالیٰ: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾ (النساء: 35).

قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹].

عن ابن عمر ، عن النبي ﷺ قال: أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق. (سنن أبي داود: الطَّلَاقُ/ بَابٌ فِي كَرَاهِيةِ الطَّلَاقِ، الرقم: 2178).

وإن تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللّٰه فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال یخلعها؛ فإن فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقة بائنة ولزمها المال. (الهدایة: 2/ 403).

(وإلا بانت بالتفريق) من القاضي إن أبى طلاقها (بطلبها) (الدر المختار).

 (قوله: من القاضي إن أبى طلاقها) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف، فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه. (رد المحتار: 3/ 498).

ولها المهر کاملاً، وعلیها العدۃ بالإجماع، إن کان الزوج خلا بها. (الفتاویٰ الهندیة: 1/ 524).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

25- 10- 1441ھ 18- 6- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply