(سلسلہ نمبر: 501)
صریح الفاظ طلاق میں نیت کی ضرورت نہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام نام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
زید کی اپنی بیوی سے سے فون پر بحث و تکرار چلی وہ اتنی بڑھی کہ کہ زید غصے میں آ گیا اور اسی غصہ کی حالت میں زید نے اپنی بیوی کو فون پر یہ الفاظ کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی طلاق دی طلاق دی، فون پر بات ختم ہونے کے بعد بعد زید نے اپنے والدین کو انہی الفاظ کے ساتھ پورا واقعہ بتا دیا کہ میں نے ایسا کہا، بیوی نے بھی اپنے والدین کو بتایا کہ میرے شوہر نے مجھے تین مرتبہ طلاق دے دی تقریبًا چار ماہ کے بعد زید کہتا ہے کہ لفظ طلاق سے میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، طلاق کے الفاظ غصہ سے نکل گئے۔ اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ زید نے پہلے جو طلاق کے الفاظ صریحاً کہے ہیں ان کا اعتبار کیا جائے یا اس کی نیت کا؟ اور شرعی قوانین کے رو سے کون سی طلاق واقع ہوگی؟ تسلی بخش جواب سے نوازیں۔
المستفتی: محمد بلال ٹولی چوکی، حیدرآباد۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوچکی ہے، طلاق کے صریح لفظ میں نیت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب اس کے ساتھ بلا حلالہ نکاح کرنا جائز نہیں۔
نوٹ: حلالہ یہ ہے کہ پہلے طلاق کی عدت ختم ہونے کے بعد کوئی دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کرے اور ہم بستری بھی کرے، پھر اگر بلا کسی دباؤ یا پلاننگ کے کسی وجہ سے طلاق دیدے یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو اب عدت گزرنے کے بعد اگر شوہر اول اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اگر صرف دوسرے سے اسی لئے نکاح کرایا گیا کہ کچھ دن ساتھ رہ کر طلاق دیدے تو ایسا کرنے اور کرانے والے سخت گنہگار ہوں گے، ایسے لوگوں پر اللہ اور رسول کی کی طرف سے لعنت ہے اور ایسے شخص کو کرایہ کا سانڈ فرمایا گیا ہے۔
الدلائل
قال الله تعالى : ﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ ﴾ (البقرة :290).
وقال اللیث عن نافع کان ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال: لو طلقت مرۃ أو مرتین، فإن النبي علیہ السلام أمرني بہٰذا؛ فإن طلقہا ثلاثا حرمت حتی تنکح زوجًا غیرہ۔ (صحیح البخاري ۲؍۷۹۲ رقم: ۵۲۶۴، صحیح مسلم ۱؍۴۷۶ رقم: ۱۴۷۱).
عن ابن عباس – رضي الله عنهما – قال: ” لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – المحلل والمحلل له. (سنن أبي داود/كِتَاب النِّكَاح/ بَابٌ فِي التَّحْلِيل، رقم الحديث: ٢٠٧٧).
عن عقبة بن عامر الجهني – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ” ألا أخبركم بالتيس المستعار؟ ” , قالوا: بلى يا رسول الله , قال: ” هو المحلل , لعن الله المحلل , والمحلل له” (سنن ابن ماجه/ كِتَابُ النِّكَاح/ بَابٌ: الْمُحَلِّلُ وَالْمُحَلَّلُ لَهُ، رقم الحديث: ١٩٣٦). لو کرر لفظ الطلاق وقع الکل۔ (الدر المختار ۳؍۲۹۳ کراچی، ۴؍۵۲۱ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۳۵۶ زکریا).
الصريح لايحتاج إلى النية. (رد المحتار: ٣/ ٢٤٩).
ویقع طلاق من غضب خلافا لابن القیم، وہٰذا الموقف عندنا۔ (شامي ۴؍۴۵۲ زکریا، ۳؍۲۴۴ کراچی).
هذا ما ظهر لي والله أعلم وعلمه أتم وأحكم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
26 – 2- 1442ھ 14- 10- 2020م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.