عذاب قبر کا ثبوت آيات قرآنيہ اور احاديث نبويہ كى روشنى ميں
بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا
علماء اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر اجماع ہے کہ کفار اور گناہ گار مسلمانوں کے حق میں عذاب قبر برحق ہے، اور يہ کتاب اللہ وسنت متواترہ سے ثابت ہے، اور سوائے بعض معتزلہ وغیرہ کے کوئی اس کا منکر نہیں تھا۔ لیکن حوادثات زمانہ نے یہ دن دکھایا کہ ہمارے اس خطہ برصغیر میں بعض نئی روشنی کے دلدادہ اور مغربى تہذيب كے پروردہ لوگوں نے معتزلہ کا مذہب اپنا لیا ہے، اور عذاب قبر کے انکار میں شد ومد سے مشغول ہوگئے ہیں، ہیں لہٰذا اس مسئلہ میں تفصیل سے بحث كرنے كى ضرورت درپیش ہے، سب سے پہلے ہم منكرين عذابِ كے دلائل اور ان كے جوابات پيش كرتے ہيں اس كے اپنے دلائل ذكر كريں گے۔
عذاب قبر کی نفی پر قرآن مجید سے دلائل اور ان کے جوابات
عذاب قبر کے منکرین نے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا ہے :
﴿لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ﴾ (الدخان : 56)
ترجمہ: اور وہاں سوائے اس موت کے جو دنیا میں آ چکی تھی کسی اور موت کا مزہ نہ چکھیں گے۔ اور اللہ ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے گا۔
منکرین کہتے ہیں کہ قبر میں حیات ہو تو حیات جنت سے پہلے دو موتیں ہوں گی، پہلی موت قبر میں جانے سے پہلے اور دوسری موت قبر میں جانے کے بعد، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف پہلی موت کے چکھنے کا بیان کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اہل جنت، جنت میں موت کو نہیں چھکیں گے اور جس طرح دنیا میں ان کی نعمتیں موت سے منقطع ہوگئی تھیں، جنت میں ان کی نعمتیں موت سے منقطع نہیں ہوں گی، لہٰذا اس آیت میں یہ دلیل نہیں ہے کہ دخول جنت سے پہلے ان پر کوئی اور موت نہیں آسکتی، اور یہ جو فرمایا ہے کہ وہ جنت میں پہلی موت کے سوا اور کوئی موت نہیں چکھیں گے تو یہ جنت میں ان پر موت نہ آنے کی بطور تعلیق بالمحال تاکید ہے، یعنی اگر پہلی موت کا چکھنا ممکن ہوتا تو وہ جنت میں پہلی موت چکھ لیتے لیکن پہلی موت کا چکھنا تو ممکن نہیں ہے (کیونکہ وہ آچکی) اس لیے اب موت کا چکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ”الموتة الأولی“ میں جنس موت مراد ہے اور یہ موت کے تعدد کے منافی نہیں ہے، کیونکہ جنس متعدد کو بھی شامل ہوتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کے زمانہ میں کئی مردوں کو زندہ کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ بعض جنتی جنت میں آنے سے پہلے کئی موتیں چکھ چکے تھے اس لیے ماننا پڑے گا کہ ”الموتة الأولی“ سے جنس موت مراد ہے، لہٰذا قبر میں حیات کے بعد دوبارہ موت آئی ہو اور دخول جنت سے پہلے جنتیوں نے دو موتیں چکھ لی ہوں تو یہ اس آیت کے منافی نہیں ہے۔
دوسری آیت کریمہ جس سے منکرین استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہے :
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾ (فاطر :22)
ترجمہ: اور نہ زندہ اور مردے یکساں ہوں گے ۔ بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔
قبروں والے اس لیے نہیں سن سکتے کہ وہ حیات سے عاری اور مردہ ہیں اور جب وہ مردہ ہیں تو عذاب قبر ثابت نہ ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اہل قبور حاسہ سمع یعنی کانوں سے نہیں سنتے کیونکہ جسم تو کچھ عرصہ بعد گل سڑ کر مٹی ہوجاتا ہے، صرف ہڈیاں رہ جاتی ہیں اور کچھ عرصہ بعد ہڈیاں بھی نہیں رہتیں۔ اس لیے اس آیت میں حواس سے سننے کی نفی ہے اور اہل قبور حواس سے نہیں روح کی قوت سے سنتے ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آپ کے سنانے کی نفی ہے، قبروالوں کے سننے کی نفی نہیں ہے، یعنی جس طرح قبر والوں کے لیے ان کی موت کی وجہ سے آپ کی نصیحت کارگر نہیں ہے اسی طرح کفار مکہ پر بھی ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ کی نصیحت کارگر نہیں ہے، تیرا جواب یہ ہے کہ کفار کو قبر والوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہاں مراد کفار ہیں اور اسماع کی نفی سے سماع کے خلق کی نفی مراد ہے، یعنی آپ کفار میں سماع کو پیدا نہیں کرتے، تو اگر کفار آپ کی نصیحت کو نہیں سنتے تو آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ الغرض اس آیت سے قبر والوں کے سننے کی نفی نہیں ہے اس لیے یہ آیت عذاب قبر کے خلاف نہیں ہے۔
اب اس كے بعد ہم اہل سنت والجماعت كے مستدلات اور دلائل پيش كرتے ہيں:
آيات قرآنيہ سے عذاب قبر پر استدلال
جہاں تک کتاب اللہ اس کے ثبوت کا تعلق ہے تو متعدد آیات اس پر دلالت كرتى ہيں، ان ميں سے ايك آيت سورہ غافر كى ہے:
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (الغافر: 46)
ترجمہ: وہ لوگ صبح وشام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی (یہ کہا جائے گا) اہل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کرو۔
اس آيت كى تفسير ميں امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: ” ہمارے علماء نے اس آیت سے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ آگ ان پر یعنی فرعون اور اس کے آل و خاندان پر صبح وشام پیش کی جاتی ہے اور یہ ” عرض نار “ قیامت کے دن ہونا مراد نہیں لیا جاسکتا آگے اس بات کی صراحت ہے کہ: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾[غافر: 46] اور نہ ہی اس سے دنیا میں عرض نارمراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا میں ان کے ساتھ ایسا ہونا ثابت نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ عرض نار موت کے بعد اور قیامت سے قبل ہوگا اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے حق میں عذاب قبر ثابت ہے اور جب ان کے حق میں عذاب قبر کا برحق ہونا ثابت ہوگیا تو دوسروں کے حق میں بھی ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ان میں اور دوسروں میں فرق کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
امام ابو جعفر طبری الہذیل بن شرجیل سے روایت کیا ہے کہ: آل فرعون کو دوزخ کی آگ پر پیش کرنے کا معنی یہ ہے کہ آل فرعون کی روحیں سیاہ رنگ کے پرندوں کے پیٹوں میں ہیں، وہ ان کے ساتھ صبح اور شام دوزخ میں جاتے ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٤٢٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ) علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں تین قول ہیں :
١) قتادہ نے کہا : دوزخ کی آگ میں جو ان کا ٹھکانا ہے وہ صبح اور شام ان پر پیش کیا جاتا ہے اور آل فرعون کو ڈانٹتے ہوئے کہا جاتا ہے : یہ تمہارے گھر ہیں۔
٢) حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا : آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹوں میں ہیں، وہ پرندے صبح اور شام جہنم پر وارد ہوتے ہیں اور ان کو آگ پر پیش کرنے کا یہی معنی ہے۔
٣) مجاہد نے کہا : ان کو صبح اور شام ان کی قبروں میں آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور یہ عذاب خصوصاً آل فرعون کے لیے ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٥٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
عذاب قبر كى دوسرى آيت
﴿مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا﴾ (النوح: 25)
ترجمہ: اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کئے گئے، پھر وہ آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ پس انھوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔
یہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب سے غرق کردیئے گئے، پس ان کو فوراً دوزخ کی آگ میں داخل کردیا گیا۔
اس آیت میں جس دوزخ کی آگ کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد وہ آگ نہیں ہے جس میں کافروں کو قیامت کے بعد ڈالا جائے گا، کیونکہ اس آیت میں فرمایا ہے : ” ان کو غرق ہوتے ہی فوراً دوزخ کی آگ میں داخل کردیا جائے گا “ اور آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ فوراً نہیں ہوگا، غرق ہونے کے قوراً بعد جو عذاب ہوگا وہ قبر میں ہی ہوگا۔
عذاب قبر كى تيسرى آيت
﴿وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾ (الأنعام: 93)
ترجمہ: کاش آپ اس وقت دیکھیں جب (یہ) ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ (ان کی طرف) بڑھا رہے ہوں کہ اپنی جانیں (جلد) نکالو، ۔ آج تمہیں ذلک کا عذاب ملے گا بہ اس کے کہ تم اللہ پر جھوٹ اور اللہ کے ذمے ناحق باتیں جوڑا کرتے تھے اور تم اللہ کی نشانیوں کے مقابلہ میں تکبر کیا کرتے تھے۔
عذاب قبر كى چوتھى آيت
﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾ (التوبة: 101)
ترجمہ: اور جو دیہاتی آپ کے اردگرد ہیں ان میں سے بعض منافق بھی ہیں اور مدینہ والوں میں سے بھی بعض لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ انھیں نہیں جانتے۔ ہم انھیں (اچھی طرح) جانتے ہیں۔ ہم انھیں دوہری سزا دیں گے۔ پھر وہ اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ جو بہت بڑا عذاب ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ دو بار کے عذاب سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ ، قتادہ رضی اللہ اور ابن جریج رحمة اللہ اور محمد بن اسحٰق رحمة اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلا عذاب دنیا کا عذاب اور دوسرا قبر کا عذاب ہوگا۔
عذاب قبر كى پانچويں آيت
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ﴾ (إبراهيم: 27)
ترجمہ: اللہ اہل ایمان کو قول محکم کی بدولت دنیا کی زندگی میں بھی ثبات عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی اور اللہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے اعمال رائگاں کردے گا اور اللہ جو چاہے کرتا ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو یہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراھیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔
شعبہ نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ مذکورہ آیت: ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
عذاب قبر کے ثبوت میں احادیث
حضرت امام خالد بنت خالد (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عذاب قبر سے پناہ طلب کررہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٦٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٠٩)
حضرت سعد (رض) پانچ کلمات پڑھنے کا حکم دیتے تھے اور ان کلمات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے تھے : (١) اے اللہ ! میں بخل سے سیری پناہ میں آتا ہوں (٢) اے اللہ ! میں بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں (٣) اے اللہ ! میں ارزل عمر (ناکارہ حیات) سے تیری پناہ میں آتا ہوں (٤) اے اللہ ! میں دنیا کے فتنہ یعنی فتنہ دجال سے تیری پناہ میں آتا ہوں (٥) اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٦٥، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٥٤٤٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٦٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٥٦٧ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہود کی بوڑھی عورتوں میں سے دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں، وہ کہنے لگیں کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، میں نے ان کی تکذیب کی اور ان کی تصدیق کرنے کو اچھا نہیں جانا، وہ چلی گئیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے، میں نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ ! اور ان دو بوڑھی عورتوں کے آنے اور عذاب قبر کی خبر دنے کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا : ان دونوں نے سچ کہا، قبر والوں کو اتنا عذاب دیا جائے گا کہ اس کو تمام جانور سنیں گے، پھر میں نے دیکھا کہ آپ جب بھی نماز پڑھتے تو عذاب قبر سے پناہ طلب کرتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٤٩، ٢٣٦٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٨٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٦٣، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٨٧٦)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے آپ پر یہ وحی نہیں کی گئی تھی کہ مؤمنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، آپ کو وحی سے صرف یہ علم تھا کہ یہود کو عذاب قبر ہوتا ہے اور اس موقع پر آپ کے پاس یہ وحی آئی کہ مؤمنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، آپ کو وحی سے صرف یہ علم تھا کہ یہود کو عذاب قبر ہوتا ہے اور اس موقع پر آپ کے پاس یہ وحی آئی کہ مؤمنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، تب آپ نے عذاب قبر سے پناہ طلب کی۔ (فتح الباری ج ١٢ ص ٤٦٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں عاجزی سے سستی سے، بزدلی سے اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٦٧۔ ٢٨٢٣، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٥٤٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٦، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٧٤٢ )
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں کو قبر میں عذاب دیا جائے گا حتی کہ جانور بھی ان کی آوازوں کو سنیں گے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٤٥٩، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہیں، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٦ )
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم مردوں کو دفن کرنا نہ چھوڑو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦٨، اللترغیب والترہیب للمنذری رقم الحدیث : ٥٢١٢، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٥٣٧)
حضرت عثمان بن عفان (رض) کے آزاد کردہ غلام ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے بھیگ جاتی، آپ سے کہا گیا کہ آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ نہیں روتے اور قبر کو یاد کرتے ہیں تو اس قدر روتے ہیں، آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل قبر ہے، اگر انسان کو اس منزل سے نجال مل جائے تو اس کے بعد کی منازل زیادہ آسان ہوتی ہیں اور اگر اس منزل میں نجات نہ ہو تو بعد کی منازل زیادہ دشوار ہوتی ہیں اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ میں نے قبر سے زیادہ ڈراؤنا اور وحشت ناک منظر اور کئی نہیں دیکھا، اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (سنن الترمذی الحدیث : ٢٣٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٧ )
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کافر پر اس کی قبر میں ننانوے سانپ مسلط کیے جاتے ہیں جو اس کو کاٹتے ہیں اور بھنبھوڑتے رہیں گے حتیٰ کے قیامت قائم ہوگی، اگر ان میں سے ایک سانپ زمین میں پھونک مارے تو زمین سبزہ نہیں اگائے گی۔ (اس حدیث کی سند ضعیف ہے) (مسند احمد ج ٣ ص ٣٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٧ ص ٤٣٤، رقم الحدیث : ١٣٣٤، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٣ ص ١٧٥، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ٣١٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١٢١، الشریعۃ للاجری، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٢٩ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کی قبر میں ضرور سرسبز باغ ہوتا ہے، اس کی قبر میں ستر ہاتھ وسعت کردی جاتی ہے اور اس کی قبر کو چودھویں رات کے چاند کی طرح منور کردیا جاتا ہے، کیا تم کو علم ہے کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے ؟ ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾ [طه: 124]
اور جو میری یاد سے اعراض کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں گزرے کی اور اسے ہم قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ تنگی میں زندگی گزارنے سے کیا مراد ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے، آپ نے فرمایا : اس سے مراد کافر کا عذاب قبر ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس (کافر) کے اوپر ننانوے تنین مسلط کیے جائیں گے، تم کو معلوم ہے تنین کیا چیز ہیں ؟ وہ ستر سانپ ہیں، ہر سانپ کے سات سر ہیں، وہ اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈنک مارتے رہیں گے۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٦٤٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١٢٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رونیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ کہیں گے کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ پس وہ شخص وہی کہے گا : جو وہ زندگی میں کہتا تھا، وہ کہے گا : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، وہ فرشتے کہیں گے کہ ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر میں ستر ہاتھ در ستر ساتھ وسعت کردی جائے گی، پھر اس کی قبر منور کردی جائے گی، پر اس سے کہا جائے گا : سو جاؤ ! وہ کہے گا : میں اپنے گھرجا کر گھر والوں کو اس کی خبر دوں، فرشتے کہیں گے : تم اس دلہن کی طرح سو جاؤ جس کو وہی شخص بیدار کرتا ہے جو اس کو گھر والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے حتیٰ کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا اور اگر وہ منافق ہو تو وہ کہے گا : میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا تو میں نے بھی اس کی مثل کہہ دیا، مجھے کچھ علم نہیں، فرشتے کہیں گے : ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر زمین سے کہا جائے گا : اس کو دباؤ، زمین اس کو دبائے گی تو اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف نکل جائیں گی، پھر اس کو مسلسل عذاب ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٧١، السنۃ لابی عاصم رقم الحدیث : ٨٦٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١١٧، الشریعۃ للاجری رقم الحدیث : ٣٦٥)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو وہ لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تم اس شخص (سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کیا کہا کرتے تھے ؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں، پھر اس سے کہا جاتا ہے : دیکھو اپنے دوزخ کے ٹھکانے کو، اللہ نے اس کو تمہارے لیے جنت کے ٹھکانے سے تبدیل کردیا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کو دیکھے گا اور رہا کافر یا منافق تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، اس سے کہا جائے گا : تم نے نہ کچھ جانا نہ کہا، پھر اس کے دو کانوں کے درمیان لوہے کہ ہتھوڑے سے ضرب لگائی جاتی ہے جس سے وہ چیخ مارتا ہے اور جن وانس کے علاوہ سب اس کی چیخ کو سنتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٧٠، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٢٣١۔ ٤٧٥٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٥١۔ ٢٠٤٩ )
حضرت براہ بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ [إبراهيم: 27] عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس سے پوچھا جائے گا : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا : میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٧١)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد متوفی ٣٦٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان بندہ فوت ہوجاتا ہے تو اس کو اس کی قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے ؟ پس اللہ اس کو ان کے جوابات میں ثابت قدم رکھتا ہے، پس وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، پھر اس کی قبر میں وسعت کی جاتی ہے اور اس کے لیے اس میں کشادگی کی جاتی ہے، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ آیت پڑھی ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ﴾ [إبراهيم: 27] (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩١٤٥، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٤، بیروت، الشریعہ للا جری رقم الحدیث : ٨١١)
حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے، ہم قبر تک پہنچے، جب لحد بنائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ آپ زمین کو کرید رہے تھے، آپ نے اپنا سر (اقدس) اٹھا کردو یا تین بار فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور فرمایا : جب لوگ پیٹھ پھیر کر جائیں گے تو یہ ضرور ان کی جوتیوں کی آواز سنے گا، جب اس سے یہ کہا جائے گا : اے شخص ! تیرا رب کون ہے ؟ اور تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیر نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے اور اس کو بٹھا دیں گے اور اس سے کہیں گے : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا : میرا رب اللہ ہے، پھر وہ کہیں گے : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا : میرا دین اسلام ہے، پھر وہ کہیں گے : وہ شخص کون تھا جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہے گا : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، پھر وہ کہیں گے : تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ وہ کہے گا : میں نے کتاب پڑھی، میں اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے: ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ [إبراهيم: 27] پھر آسمان سے ایک منادی یہ ندا کرے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت سے فرش بچھا دو اور جنت سے لباس پہناؤ دو اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو ، پھر اس کے اپس جنت کی ہوائیں اور جنت کی خوشبو آئے گی اور اس کی منتہائے بصر تک اس کی قبر کھول دی جائے گی، پھر آپ نے کافر کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اسش کے جسم میں اس کی روح لوٹائی جائے گی اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھائیں گے اور اس سے کہیں گے : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا، پھر وہ اسے کہیں گے : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا، پھر وہ کہیں گے : یہ شخص کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا۔ پھر آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا : اس نے جھوٹ بولا، اس کے لیے دوزخ سے فرش بچھا دو اور اس کو دوزخ کا لباس پہنادو اور اس کے لیے دوزخ سے ایک دروازہ کھول دو ، پھر اس کے پاس دوزخ کی تپش اور دورزخ کی گرم ہوائیں آئیں گی اور اس پر اس کی قبر تنگ کردی جائے گی، حتیٰ کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف نکل جائیں گی، پھر اس پر ایک اندھا اور گونگا مسلط کیا جائے گا، اس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوگا جس کی ضرب اگر پہاڑ پر لگائی جائے تو وہ بھی مٹی کا ڈھیر ہوجائے، پھر وہ گرز اس پر مارے گا جس سے وہ کافر چیخ مارے گا جس کو جن وانس کے سو اسب سنیں گے اور وہ کافر مٹی ہوجائے گا اور اس میں پھر دوبارہ روح ڈال دی جائے گی۔ امام عبدالرزاق متوفی ٢١١ ھ، امام احمد متوفی ٢٤١ ھ، امام آجری متوفی ٣٦٠ ھ اور امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ نے اس حدیث کو بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٥٣، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٦٧٣٧، مسند احمد ج ٤ ص ٢٨٧ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٧٣٣، الشریعہ للآ رقم الحدیث : ٨١٢، المستدرک ج ١ ص ٣٧)
حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب میت کو دفن کرکے فارغ ہوئے تو آپ اس کی قبر پر کھڑے رہے اور فرمایا : اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ اس سے سوال کیا جائے گا۔ (سنن ابوداؤد رقمالحدیث : ٣٢٢١، المستدرک ج ١ ص ٣٧٠، شرح السنہ رقم الحدیث : ١٥٢٣، عمل الیوم والیلہ لا بن السنی رقم الحدیث : ٥٨٦)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اسے ڈوبتے ہوئے سورج کی مثل دکھائی جاتی ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے : مجھے نماز پڑھنے دو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٧٢، موارد الظلمآن رقم الحدیث : ٧٧٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٣١٢، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ٢٥٣)
حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خچر پر سوار ہو کر بنو نجار کے باغ میں جارہے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ ایک جگہ خچر نے ٹھوکر کھائی، قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دیتا، وہاں پر پانچ یا چھ یا چار قبریں تھیں، آپ نے فرمایا : ان قبروالوں کو کون پہچانتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : میں پہچانتا ہوں۔ آپ نے پوچھا : یہ لوگ کب مرے تھے ؟ اس نے کہا : یہ لوگ زمانہ شرک میں مرے تھے۔ آپ نے فرمایا، اس امت کو اپنی قبروں میں آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دوں گے تو میں تم کو عذاب قبر سنواتا جس کو میں سن رہا ہوں، پھر آپ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : دوزخ کی عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ہم نے کہا : ہم دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، پھر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ہم نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، پھر فرمایا : ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ہم نے کہا : ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، پھر فرمایا : دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ہم نے کہا : ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦٧، مسند احمد ج ٣ ص ٢٣٣)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :حافظ ابن عبدالبر نے کہا : اس حدیث میں مذکور ہے کہ اس امت کو آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قبر میں سوال اور جواب اس امت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور امام ابوعبداللہ ترمذی نے نوادر الاصول میں کہا ہے کہ میت سے سوال کرنا اس امت کا خاصہ ہے کیونکہ ہم سے پہلی امتوں کے پاس جب رسول، اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے اور قوم ان کے پیغام کا انکار کرتی تو رسول ان سے الگ ہوجاتے اور ان پر عذاب بھیج دیا جاتا اور جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمت کے ساتھ بھیجا اور فرمایا : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ (الانبیاء :107) تو ان سے عذاب روک لیا اور آپ کو جہا کا حکم دیا، حتیٰ کہ جہاد کی برکت سے لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے اور اسلام ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا، پھر ان کو مہلت دی گئی، یہاں سے نفاق کا ظہور ہوا اور بعض لوگ کفر کو چھپاتے اور ایمان کو ظاہر کرتے اور مسلمانوں کے درمیان ان پر پردہ رہتا اور جب وہ مرگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قبر میں امتحان لینے والے بھیجے تاکہ سوال کے ذریعہ ان کا پردہ چاک ہو اور خبیث، طیب سے ممتاز ہوجائے، سو جو دنیا میں اسلام پر ثابت قدم تھا اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہی پر برقرار رکھتا ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں امام ابو عبداللہ ترمذی کی یہ تقریر اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ صرف مومن اور منافق سے قبر میں سوال ہوگا، حالانکہ احادیث میں تصریح ہے کہ کافر سے بھی سوال ہوگا۔ (التذکرہ ج ١ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، مطبوعہ دارالبخاری، المدینہ المنورہ، ١٤١٧ ھ)
حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات (مسلمانوں کی) سرحد کی حفاظت کرنا، ایک ماہ کے روزوں اور (نمازوں کے) قیام سے افضل ہے اور اگر وہ اسی حال میں فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جس عمل کو وہ کیا کرتا تھا، اس کا رزق جاری رہے گا اور وہ قبر کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩١٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٦٥، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٦١٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٣٢٧، مسند احمد ج ٥ ص ٤٤١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٦٢٣، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦٠٧٧، المستدرک ج ٢ ص ٨٠، السنن الکبری، للبیہقی ج ٩ ص ٣٨، شرح السنہ رقم الحدیث : ٢٦١٧)
حضرت البراء بن عازب (رض) کے عذاب قبر کے متعلق ایک طویل حدیث ہے جس کو ہم نے سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٥٣ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، مسند احمد میں اس حدیث کی بعض تفاصیل ہیں جو سنن ابوداؤد میں نہیں ہیں، اب ہم اس حدیث کے ان اجزاء کا ذکر کررہے ہیں جو سنن ابوداؤد میں نہیں ہیں : جب بندہ مومن کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو اس کے جسم میں اس کی روح لوٹائی جاتی ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے، پھر پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں : وہ کون شخص ہے جو تم سے مبعوث کیا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، فرشتے پوچھیں گے : تمہیں ان کے رسول ہونے کا علم کیسے ہوا ؟ وہ کہے گا : میں نے کتاب اللہ کو پڑھا، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، پھر آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لیے جنت سے فرش بچھا دو اور اس کو جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لیے جنت کی طرف کھڑکی کھول دو ، پھر اس کے پاس جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آئے گی اور منتہائے بصر تک اس کی قبر کو وسیع کردیا جائے گا، پھر اس کے پاس ایک حسین و جمیل شخص آئے گا جس کا لباس بہت خوبصورت ہوگا اور اس کی خوشبو بہت پاکیزہ ہوگی اور وہ کہے گا : تم جس سے خوش ہو تم کو وہ مبارک ہو، یہ وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، وہ مومن کہے گا : تم کون ہو ؟ وہ شخص کہے گا : میں تمہارا نیک عمل ہوں، پس وہ شخص کہے گا : اے میرے رب ! قیامت کو قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ جاؤں۔
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اور کافر کی روح کو بھی اس کے جسم میں لوٹایا جائے گا اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھائیں گے اور اس سے پوچھیں گے : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا، پھر وہ اس سے پوچھیں گے : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا، وہ پھر پوچھیں گے : وہ کون شخص ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ وہ کہے گا : افسوس ! میں نہیں جانتا، پھر آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا، یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے دوزخ سے فرش بچھادو اور (اس کی قبر میں) دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دو ، پھر اس کے پاس دوزخ کی تپش اور گرم ہوائیں آئیں گی اور اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف نکل جائیں گی اور اس کے پاس ایک بہت بدصورت شخص آگے جس کے کپڑے بہت خراب ہوں گے ، اس سے سخت بدبو آرہی ہوگی اور اس سے کہے گا : تمہیں وہ چیز مبارک ہو جو تم کو غم ناک کرے گی، یہ تمہارا وہ دن ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا تھا، وہ کافر پوچھے گا : تم کون ہو ؟ وہ آنے والا کہے گا : میں تمہارا خبیث عمل ہوں، وہ کافر کہے گا : اے میرے رب ! قیامت قائم نہ کرنا۔ (مسند احمدج ٤ ص ٢٨٨۔ ٢٨٧، ملخصا وملتقطا طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٠ ص ٥٠٣، رقم الحدیث : ١٨٥٣٤، ملتقطاً ، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨٢۔ ٣٨٤۔ ٣١٠، ج ١٠ ص ١٩٤، کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : ١٢١٩، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٥٣، صحیح ابن خزیمہ ص ١١٩، الشریعۃ للآ جری ص ٣٧٠۔ ٣٦٧، المستدرک ج ١ ص ٣٨۔ ٣٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٩٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٤٩، الترغیب والترہیب للمنذری رقم الحدیث : ٥٢٢١، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٠۔ ٤٩ )
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب انسان اپنی قبر میں داخل ہوتا ہے تو اگر وہ مومن ہو تو اس کے نیک اعمال اس کا احاطہ کرلیتے ہیں، نماز اور روزہ وغیرہ، پھر فرشتہ نماز کی طرف سے آتا ہے تو نماز اس کو لوٹا دیتی ہے، پھر وہ روزہ کی طرف سے آتا ہے تو روزہ اسے لوٹا دیتا ہے، پھر فرشتہ اس کو پکار کر کہتا ہے : بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ جاتا ہے، پھر وہ فرشتہ کہتا ہے کہ تم اس شخص یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ وہ کہے گا : کون، فرشتہ کہے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کہے گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ میں اسی عقیدہ پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور اسی عقیدہ پر اٹھایا جاؤں گا اور اگر وہ انسان کا فرما فاجر ہو تو جب فرشتہ اس کے پاس آئے گا تو اس کے پاس کوئی ایسا نیک عمل نہیں ہوگا جو اس کو لوٹا سکے، وہ فرشتہ اس کو بٹھا کر اس سے سوال کرے گا کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ وہ کہے گا : کسی شخص کے سارے میں ؟ فرشتہ کہے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں، وہ کافر کہے گا : اللہ کی قسم ! میں کچھ نہیں جانتا، میں ان کے متعلق وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، پھر فرشتہ کہے گا : تم اسی عقیدہ پر زندذہ رہے، اسی پر مرے اور اسی پر اٹھائے جاگو گے، پھر اس کی قبر پر ایک جانور مسلط کیا جائے گا جس کے پاس ڈول کی طرف ایک آگ کا کوڑا ہوگا جس تک اللہ چاہے گا وہ اس کو اس کوڑے سے مارے گا اور اس کافر کی آواز کو کوئی نہیں سنے گا جس کو اس پر ترس آئے۔ (مسنداحمد ج ٦ ص ٢٥٣۔ ٢٥٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٤ صظ ٥٣٢۔ ٥٣٥، المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ١٠٥، رقم الحدیث : ٢٨١، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥١ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ یا مکہ کے باغات میں سے کسی باغ میں گزرے، آپ نے دو انسانوں کی آواز سنی جن کو ان کی قبروں میں عذاب ہورہا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو عذاب ہورہا ہے اور ان کو کسی بہت دشوار کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا، پھر فرمایا : کیوں نہیں، ان میں سے ایک شخص پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغلی کھاتا تھا، پھر آپ نے درخت کی ایک شاخ منگا کر اس کے دو ٹکڑے کیے، پھر آپ نے ان قبروں میں سے ہر قبر پر ایک ٹکڑا رکھ دیا، آپ سے پوچھا گیا : یارسول اللہ ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا : جب تک یہ شاخیں خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٢، سنن ابوادؤد رقم الحدیث : ٢٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢١٩٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٢٢٦ )
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص بنو نجار کے محلہ میں گیا، وہاں اس نے بنو نجار کے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوچکے تھے اور ان کو ان کی قبروں میں عذاب ہورہا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائے ہوئے باہر آئے اور آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ طلب کریں۔ (اس حدیث کی سند امام مسلم کی شرط کے موافق صحیح ہے، اس حدیث میں ایک شخص کے متعلق ذکر ہے کہ اس نے قبر سے آوازیں سنیں، یہ اس شخص کی کرامت ہے ورنہ عام لوگ یہ آوازیں نہیں سن سکتے) ۔ (مسنداحمد ج ٣ ص ٢٩٦۔ ٢٩٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٢ ص ٥٨، رقم الحدیث : ٤١٥٢، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٦٧٤٢، مسند البزار رقم الحدیث : ٨٧١، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٢١٤٩)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کافر پر (قبر میں) دو انپ بھیجے جائیں گے، ایک اس کے سر کی جانب اور دوسرا اس کے پیروں کی جانب، وہ اس کو کاٹتے رہیں گے، جب وہ اس کو کاٹ چکیں گے تو پھر دوبارہ کاٹیں گے، قیامت تک یونہی ہوتا رہے گا۔ (مسند احمد ٦ ص ١٥٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٢ ص ١٠٦، رقم الحدیث : ٢٥١٨٩، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٥)
حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجوروں کے باغ میں تھے، وہ باغ حضرت ابوطلحہ (رض) کا تھا، آپ قضاء حاجت کے لیے گئے اور حضرت بلال کے پیچھے چل رہے تھے، وہ آپ کی تعظیم کی وجہ سے آپ کے پہلو بہ پہلو نہیں چل رہے تھے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قبر کے پاس سے گزرے، آپ کھڑے ہوگئے اور بلال ایک کنارے ہوگئے، آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے اے بلال، کیا تم سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں ؟ حضرت بلال نے کہا : میں کچھ نہیں سن رہا، آپ نے فرمایا : اس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے، پھر اس قبر والے کے متعلق تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ١٥١، طبع قدیم، مسنداحمد ج ٢٠ ص ١١۔ ١٠، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٦ )
حضرت ام مبشر (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور میں اس وقت بنو نجار کے باغات میں سے ایک باغ میں تھی، اس میں ان لوگوں کی قبریں تھیں جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوچکے تھے، آپ نے ان پر عذاب دیئے جانے کی آوازیں سنیں تو آپ یہ کہتے ہوئے باہر آئے : عذاب قبر سے پناہ طلب کرو، میں نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا ان کو ان کی قبروں میں عذاب ہورہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اس عذاب کو وحی جانور سن رہے ہیں۔ (مسند احمدج ٦ ص ٣٦٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٤ ص ٥٩٢، رقم الحدیث : ٢٧٠٤٤، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ، المعجم الکبیر ج ٢٥ ص ١٠٣، رقم الحدیث : ٢٦٨، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٧٤، السنۃ لابن عاصم رقم الحدیث : ٨٧٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١٢٥، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند کے تمام راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٦)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک (بعض) مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جانور ان کی آوازوں کو سنتے ہیں۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٤٥٩، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٦) حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک سخت گرم دن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع الغرقد کے پاس سے گزرے اور لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ نے ان کی جوتیوں کی آہٹ سنی تو آپ ٹھہر گئے، حتیٰ کہ لوگوں کو اپنے آگے کردیا تاکہ آپ کے دل میں تکبر کا کوئی ذرہ نہ آئے، حضرت ابوامامہ نے کہا : یہاں پر دو آدمیوں کی قبریں ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم نے آج کن لوگوں کو دفن کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا : یا نبی اللہ ! فلاں فلاں ہیں، آپ نے فرمایا : ان کو اس وقت ان کی قبروں میں عذاب ہورہا ہے، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان میں سے ایک شخص چغلی کھاتا تھا اور دوسرا شخص پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا، پھر آپ نے ایک شاخ کے دو ٹکڑے کرکے ان کو ان قبروں میں گاڑ دیا، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا : تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوجائے صحابہ نے پوچھا : نبی اللہ ! ان کو کب سے عذاب دیا جارہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ غیب ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اگر تمہارے دلوں میں وحشت نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ آوازیں سنا دیتا جن کو میں سن رہا ہوں۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٨٦٩، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجروح ہے، مجمع الزوائد ٣ ص ٥٦ )
اس حدیث کے فوائد میں سے یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غایت درجہ کی تواضح فرماتے تھے حتیٰ کہ اپنے متبعین کو بھی اپنے سے آگے چلنے کے لیے فرماتے تھے، اور آپ برزخ کے احوال پر بھی نظر رکھتے تھے، آپ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ان کو عذاب ہورہا ہے اور آپ کو یہ بھی علم تھا کہ ان کو کس وجہ سے عذاب ہورہا ہے، اور آپ نے ان کی مدد فرمائی اور ان کے عذاب میں تخفیف کردی، اور اس کی فقہ یہ ہے کہ آپ دنیا میں رہتے ہوئے برزخ کے احوال سے غافل نہیں ہیں، اسی طرح جب آپ برزخ میں چلے جائیں گے تو دنیا والوں کے احوال سے غافل نہیں ہوں گے اور جس طرح دنیا میں رہتے ہوئے برزخ والوں کی مدد فرماتے ہیں اسی طرح برزخ میں جاکر دنیا والوں کی مدد فرماتے رہیں گے۔
عذاب قبر کے خلاف عقلی شبہات کے جوابات
علامہ ابی مالکی لکھتے ہیں:
قاض عیاض نے کہا ہے کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر ثابت ہے، اس کے برخلاف خوارج، جمہور معتزلہ، بعض مرجہ (اور بعض روافض) عذاب قبر کے قائل نہیں ہیں، اہل حق کے نزدیک بعین جسم کو عذاب ہوتا ہے یا جسم کے کسی جز میں روح کو لوٹانے کے بعد عذاب ہوتا ہے، محمد بن جریر اور عبداللہ بن کرام اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو عذاب دینے کے لیے روح کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، یہ رائے فاسد ہے، کیونکہ درد کا احساس صرف زندہ کے لیے متصور ہے، اگر یہ اعتراض ہو کہ میت کا جسم اسی طرح بغیر کسی تغیر کے پڑا ہوتا ہے اور اس پر عذاب دیئے جانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک آدمی خواب میں دیکھ رہا ہے کہ اس کو مار پڑ رہی ہے اور وہ خواب میں بھی درد اور تکلیف بھی محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے پاس بیٹھے ہوئے بیدار شخص کو کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کیا محسوس کررہا ہے، اسی طرح ایک بیدار آدمی کسی خیال کی وجہ سے لذت یا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ لذت یا تکلیف کے کس عالم میں ہے اور اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی آتی تھی، آپ حضرت جبرائیل سے ہم کلام ہوتے تھے اور حاضرین کو اس کا کوئی ادراک نہیں ہوتام تھا۔
علامہ ابی کہتے ہیں کہ منکرین عذاب قبر کی دلیل یہ ہے کہ میت سے سوال کرنا اور اس کو عذاب دیا جانا عقل اور مشاہدہ کے خلاف ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قتل کیا گیا یاسولی پر چڑھایا گیا اور ایک مدت تک اس کی لاش پڑی رہتی ہے حتیٰ کے اس کے اجزاء پھٹ جاتے ہیں اور ہم اس پر سوال و جواب یا عذاب دیئے جانے کے کوئی آثار نہیں دیکھتے، اسی طرح جس شخص کو درندے یا پرندے (مثلاً گدھ) کھاجاتے ہیں اور اس کے اجزاء ان کے پیٹ یا پوٹوں میں ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ واضح یہ ہے کہ جو شخص جل کر راکھ ہوجاتا ہے تو ان کے متعلق سوال اور عذاب کا دعویٰ کرنا عقل کے خلاف ہے۔ ابن الباقلانی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ مستبعد نہیں ہے کہ جس شخص کو سولی پر چڑھایا گیا ہو اس میں دوبارہ روح لوٹا دی جائے، اگرچہ ہمیں اس کا مشاہد نہیں ہوتا جیسے حضرت جبرائیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تھے اور حاضرین اس کا مشاہدہ نہیں کرپاتے تھے۔ اسی طرح جو شخص درندے کے پیٹ یا پرندے کے پوٹے میں ہو یا جل گیا ہو اس کے کسی ایک جز میں روح لوٹا دی جائے تو یہ ممکن ہے اگرچہ ہمیں اس کا مشاہدہ نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خرق عادت ہے اور تمام امور اخروی ایسے ہی ہیں۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٩ ص ٣١٨ میں اس کی صاف تصریح ہے۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
بہت سے اشاعرہ اور حنفیہ نے (قبر میں ) روح لوٹانے میں تردد کیا ہے، انھوں نے کہا : حیات کے لیے روح لازم نہیں ہے، یہ صرف امر عادی ہے، بعض احناف میں سے جو معاد جسمانی کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ جسم میں روح رکھی جاتی ہے، وہ لذت اور الم کا ادراک کرتی ہے اور جن کا قول یہ ہے کہ جب بدن مٹی ہوجاتا ہے تو روح اس مٹی کے ساتھ متصل ہوجاتی ہے اور روح اور مٹی دونوں کو الم ہوتا ہے اس قول میں یہ احتمال ہے کہ روح ایک جسم (لطیف) ہے اور بدن سے مجرد ہے اور ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ بعض احناف مثلاً امام ماتریدی اور ان کے متبعین یہ کہتے ہیں کہ روح (جسم سے) مجرد ہے، لیکن امام ماتریدی نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ! قبر میں گوشت کو روح کے بغیر کس طرح درد پہنچایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : جس طرح تمہارے دانت میں درد ہوتا ہے حالانکہ اس میں روح نہیں ہوتی، اسی طرح موت کے بعد جب روح جسم کے ساتھ متصل ہوگی تو اس میں درد ہوگا، اگرچہ اس میں روح نہیں ہوگی اور اس حدیث کے موضوع ہونے کے آثار بالکل واضح ہیں اور یہ مخفی نہ رہے کہ مٹی سے مراد جسم کے باریک اجزاء ہیں اور ان میں سے بعض اجزاء کے ساتھ بھی روح کا اتصال لذت اور الم کے ادراک کے لیے کافی ہے۔ (المسائرہ مع المسامرہ ص ٢٤٣۔ ٢٤٢، دارالمعارف الاسلامیہ، مکران)
علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی متوفی ٨٨١ ھ لکھتے ہیں : علامہ قونوی نے کہا کہ کفار کی روحیں ان کے جسموں کے ساتھ متصل ہوتی ہیں، ان کی روحوں کو عذاب دیا جاتا ہے اور ان کے جسموں کو الم ہوتا ہے، جیسے سورج آسمان میں ہوتا ہے اور اس کی روشنی زمین پر ہوتی ہے اور مؤمنین کی روحیں علیین میں ہوتی ہیں اور ان کا نور جسم کے ساتھ متصل ہوتا ہے، جیسے سورج آسمان پر ہے اور اس کا نور زمین پر ہے۔ (شرح المسائرہ مع المسامرہ ص ٢٤٣، مکران) ملا علی قاری حنفی متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :
انسان کے جسم کا جز اصلی وہ جز ہے جو اس کے جسم میں اوّل عمر سے لے کر آخر عمر تک باقی رہتا ہے اور اس کے بدن کی فربہی اور لاغری کے ہر دور میں وہ جز مشترک رہتا ہے، اسی کی حیات سے سارے بدن کی حیات ہوتی ہے اور جب انسان مرجائے تو خواہ اس کی قبر میں دفن کردیا جائے یا اس کو درندے کھالیں اس کے بدن کا وہ جزاء اصلی جس جگہ بھی ہو اس کی روح اس جز کے ساتھ متعلق کردی جاتی ہے اور اس تعلق کی وجہ سے اس میں حیات آجاتی ہے تاکہ اس سے سوال کیا جائے، پھر اس کو ثواب یا عذاب دیا جائے اور اس امر میں کوئی استبعاد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام جزئیات اور کلیات کا عالم ہے، اس لیے وہ بدن کے تمام اجزاء کو ان کی پوری تفاصیل کے ساتھ جانتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کونسا جز کس جگہ واقع ہے اور کونسا جز اس کے بدن کا جزء اصلی ہے اور کونسا جز زائد ہے اور وہ جز اصلی اس کے مکمل بدن میں ہو یا کائنات میں کہیں اکیلا ہو، ہرحال میں اللہ تعالیٰ انسان کی روح کو اس جز کے ساتھ متعلق کرنے پر قادر ہے، بلکہ اگر انسان کے بدن کے تمام اجزاء مشارق اور مغارب میں منتشر ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اس انسان کی روح کو ان تمام اجزاء کے ساتھ متعلق کرنے پر بھی قادر ہے۔ (مرقاۃ ج ١ ص ٢٠٣، ملتان)
علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ جس میت کو عذاب دینا چاہتا ہے اس کو عذاب دیتا ہے، خواہ اس کو قبر میں دفنا یا جائے یا اس کو سولی پر لٹکایا جائے یا وہ سمندر میں غرق ہوجائے یا اس کو جانور کھالیں یا وہ جل کر راکھ ہوجائے اور اس کے ذرات ہوا میں منتشر ہوجائیں، جس کو عذاب ہونا ہے ہرحال میں عذاب ہوگا اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ عذاب اور ثواب کا محل روح اور بدن دونوں ہیں۔ (شرح الصدور ص ٧٦۔ ٧٥، دارالکتب العربیہ الکبریٰ ، مصر)
عذاب قبر کی مزید وضاحت
ایک سوال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی قبر نہیں بنتی، پھر ان کے حق میں عذاب قبر کیسے ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قبر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں میت کے اجزاء اصلیہ ہوں، خواہ وہ زمین کا گڑھا ہو یا سمندر کی تہ یا جانور کا پیٹ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد بدن گل سڑ کر مٹی ہوجاتا ہے، پھر بدن پر عذاب کیسے ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بدن کے اجزاء اصلیہ کو اللہ تعالیٰ بہرحال باقی رکھتا ہے جن کے ساتھ روح کا تعلق قائم رہتا ہے اور ان پر عذاب کی کیفیات وارد ہوتی ہیں تیسرا سوال یہ ہے کہ بسا اوقات جنگلی جانور انسانوں کو کھا جاتے ہیں اور اگر ان پر آگ کا عذاب ہوتا ہے تو اس سے جانوروں کو تکلیف کیوں نہیں ہوتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جانور عالم دنیا میں ہے اور اس کے اندر میت کے اجزاء پر عالم برزخ میں عذاب کی کیفیات گزررہی ہیں اور ایک عالم کے احوال دوسرے عالم پر منکشف نہیں ہوتے، مثلاً ہمارے پیٹ میں جب کیڑے ہوتے ہیں، ان پر زندگی اور موت اور درد و راحت کے تمام احوال گزرتے ہیں اور ہم کو پتا نہیں چلتا۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے : میت کو گرز سے مارا جاتا ہے، وہ چیختا چلاتا ہے، اس کے سر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں، جسم جل جاتا ہے، لیکن جب قبر کھود کر میت کو دیکھا جائے تو جسم اسی طرح پڑا ہوتا ہے۔ کسی چوٹ کا نشان نہ جلنے کا، کوئی اور ٹوٹ پھوٹ نہ مار کی وجہ سے جسم میں حرکت اور اضطراب ہوتا ہے، اس کا جواب بھی وہی ہے کہ یہ الگ الگ عالموں کے احوال ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات اور فرشتوں سے باتیں کرتے تھے، اسی مجلس میں صحابہ ہوتے تھے انھیں پتا نہ چلتا، خواب میں کسی آدمی کو مار پڑتی اور اسی عالم میں وہ درد واذیت محسوس کرتا ہے لیکن اس کے پاس بیٹھے بیدار شخص کو پتا نہیں چلتا، اسی طرح برزخ کے احوال دنیا والوں پر منکشف نہیں ہوتے۔ پانچواں سوال ہے کہ قبر میں انسان زندہ رہ سکتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ کسی زندہ آدمی کو قبر میں دفن کردیں اور وہ زندہ رہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں زندگیوں کی نوعیت میں فرق ہے، اونٹنی کے پیٹ میں بچہ زندہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی انسان یا جانور کو اونٹنی کے پیٹ کا آپریشن کرکے اس میں ڈال دیا جائے تو ہو زندہ نہ رہ سکے گا۔
منکرین عذاب قبر کا شرعی حکم
جملہ اہل سنت والجماعت اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ قبر اور برزک میں اہل ایمان اور اصحاب طاعت کو لذت و سرور نصیب ہوتی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن وسنت اور اجماع امت کے صریح دلائل کے پیش نظریہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ حضرات فقہاء کرام کا ذمہ دار گروہ عذب قبر کے منکر کو کافر کہتا ہے حالانکہ وہ تکفیر کے معاملہ میں بڑے ہی محتاط ہیں۔ اور ان کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر کسی ایک کلمہ میں مثلاً سو معانی کا احتمال بھی پیدا ہوسکتا ہو جن میں ننانوے پہلو کفر کے نکلتے ہوں اور صرف ایک ہی پہلو اسلام کا پیدا ہوتا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ قائک کی مراد اسلام ہی کا پہلو ہو ہاں اگر وہ خود ہی کفر کا کوئی معنی اور پہلو متعین کر دے تو پھر کفر کے فتویٰ سے اس کو کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ مسئلہ کی وضاحت کے لیے ہم مسلم حضرات فقہاء کرام میں صرف دو بزرگوں کی شہادت نقل کرتے ہیں۔
(١) :۔ علامہ طاہر بن احمد الحنفی المتوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں کہ:
ولا یجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعة النبي (علیه السلام)، وینکر الکرام الکاتبین، وعذاب القبر، کذا من ینکر الرؤیة لأنه کافر “. (خلاصۃ الفتاویٰ : ص : ١٤٩: ج : ١)
ترجمہ: جو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت اور کرام کاتبین اور عذاب قبر اور رؤیۃ باری تعالیٰ کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے ۔
کیونکہ وہ کافر ہے۔ یہ عبارت اپنے مدلول پر بالکل واضح ہے مزید کسی تشریح کی حاجت نہیں۔
(٢) :۔ حافظ ابن الہمام الحنفی المتوفی ٨٦١ ھ فرماتے ہیں کہ:
”ولا تجوز الصلوٰۃ خلف منکر الشفاعة، والرؤیة، وعذاب القبر، والکرام الکاتبین لأنه کافر لتوارث ھذہ الأمور عن الشارع صلی اللہ علیه وآله وسلم“ (فتح القدیر باب الأمة: ص: ٣٦٠: ج :١: طبع بیروت)
ترجمہ: شفاعت اور اللہ تعالیٰ کے دیدار اور عذاب قبر اور کراما کاتبین کے انکار کرنے والے کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے کیونکہ وہ کافر ہے اس لیے کہ یہ امور شارع (علیہ السلام) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔ یہ حوالہ بھی اپنے مدلول میں صریح ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری : ص : ٣٠١: ج : ٢: طبع مصر) میں بھی ان کا عذاب قبر کو کفر لکھا ہے۔ ذخیرہ کتب حدیث میں صحیح اور صریح احادیث میں جن کا احصاء وشمار بھی مشکل ہے برائے وضاحت اور صراحت کے ساتھ قبر کی راحت اور عذاب کا ذکر ہے اور عذاب قبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی مذکور ہے۔ اگر بعض لوگ بدقسمتی سے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے محض اپنی عقل اور مادی طبیعت کے زور سے ان مسائل کا کوئی حل کرنے کی بےجا سعی کرتے ہیں اور اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کے خوگر ہیں وہ دیگر کئی مسائل کی طرح عذاب قبر کا بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کی ناقص سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مرنے کے بعد ثواب وعقاب اور راحت و عذاب بےجان جسم کو ہوا، لیکن نصوص قطعیہ اس باطل نظریہ کی پرزور تردید کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور قطع نظر احادیث کے قرآن کریم میں عذاب برزخ کا ذکر ہے۔ چنانچہ آیات مذکورہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ صبح و شام یعنی دوام واستمرار کے ساتھ فرعونیوں کو آگ کے عذاب پر پیش کیا جاتا ہے تو اس میں روح اور جسم دونوں ہوں گے۔ اور یہی عذاب قبر اور عذاب برزخ کہلاتا ہے کیونکہ قیامت کا عذاب تو ” ویوم تقوم الساعۃ “ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس میں بھی جسم اور روح دونوں ہوں گے۔ ” اشد العذاب “ ہوگا اور جو حکم فرعونیوں کا ہے یہی حکم جملہ کفار اور مشرکین کا ہے کیونکہ جو علت ان کے عذاب اور سزا کی ہے وہی دوسروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
حافظ ابن کثیر (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ قبر میں عذاب برزخ کے اثبات کے سلسلے میں اہل سنت کے لیے ایک بڑا قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ (ابن کثیر : ص : ١٢٩: ج : ٧: طبع بیروت لبنان)
حضرت نوح (علیہ السلام) کی نافرمان اور مجرم قوم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ﴿مما خطیئتھم اغرقوا فادخلوا ناراً فلم یجدوا لھم من دون اللہ انصاراً﴾ (سورة نوح : ٢٥) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی مجرم قوم غرقاب ہوتے ہیں فوراً عذاب میں مبتلا ہوگئی تو غرق جسم اور روح دونوں ہوئے نہ فقط روح اور نہ فقط جسم کیونکہ ﴿أغرقوا﴾ ماضی کا صیغہ ہے اور اسی طرح ﴿أدخلوا﴾ بھی ماضی کا صیغہ ہے جس میں حر ف فا ہے جو تعقیب بلا مہلت کے لیے آتا ہے۔ (الخیالی : ص : ١١٨)
اور اس غرقابی کے بعد فوراً جو عذاب ہوا ہے اسی کا نام عذاب قبر ہے اور عذاب برزخ ہے۔ اس میں جسم بھی شامل ہے اور روح بھی شامل ہے۔ ان آیات طبیات سے معلوم ہوا کہ اصل عذاب قبر کا ثبوت قرآن کریم میں جو مذکور ہے ہاں اس کی تفسیر و تشریح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر اپنی زبان مبارک سے بیان کردی جو بالکل حق ہے۔ (محصلہ تسکین الصدور : ص : ٨٢ تا ٨٦)
اب رہی دوسری بات جن روایات میں یہ آتا ہے کہ ارواح شہداء پرندوں کے پیٹوں میں جنت میں سیر کرتی ہیں یعنی یہ پرندے ان کی سواری ہوں گے اور کالے رنگ کے پرندے جن کو صبح شام جہنم کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ (روح المعانی : ص : ٤٤٧: ج : ٢٤)
جن کے اجواف میں آل فرعون کی ارواح ہیں۔ حافظ ابن قیم (رح) نے کتاب الروح میں مبسوط بحث کی ہے۔ وہ ثابت کرتے ہیں کہ نیک لوگوں کی روح ” علیین “ میں ہوتی ہے اور اس کا تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ علیین اور قبر کے ساتھ تعلق میں مربوط ہے اور جنت میں بھی چلتی پھرتی ہیں اور بد آدمی کی روح ” سجین “ میں ہے قبر میں بھی اس کا تعلق ہے اور یہ سارے تعلقات برحق ہیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں۔ اگر ہم عقل سے کام لیں گے تو معتزلہ بن جائیں گے ایمان سے کام لیں گے تو سب اپنی جگہ برحق ہیں کسی کا کسی سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ چنانچہ حافظ ابن قیم (رح) قبر کے عذب کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ہر وہ شخص جس کی وفات ہوگئی اور وہ عذاب کا مستحق ہے تو اس کی عذاب کا حصہ ضرور پہنچتا ہے اس کو قبر میں دفن کیا جائے پس اگر اس کو درندے کھا گئے یا وہ جلا کر راکھ کردیا گیا اور وہ راکھ ہوا میں اڑا دی گئی یا سولی پر لٹکا دیا گیا، دریا میں ڈوب گیا تو ان سب صورتوں میں اس کی روح اور اس کے بدن کو وہ عذاب پہنچے گا جو قبر میں دفن کئے ہوئے کو پہنچتا ہے۔ (کتاب الروح : ص : ٧١)
مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جس بدن کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اسی طرح درندے جس کو کھا جاتے ہیں یا راکھ وغیرہ کردیا جائے تو وہ صرف حسی اور مادی بدن ہی ہوتا ہے مثالی بدن ہرگز نہیں ہوتا۔ اس لیے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کو بھی باقاعدہ عذاب روح مع الجسم ہوتا ہے۔
مذكورہ بالا تفصيلات سے يہ بات اظہر من الشمس ہوگئى كہ عذابِ قبر برحق ہے ، جو لوگ اس كا انكار كرتے ہيں ان كا معاملہ الله كے سپرد ہے، الله تعالى ہم سب كو قبر كے عذاب سے محفوظ ركھے آمين۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.