surah nooh with urdu translation

Surah Nooh With Urdu Translation, Surah Nuh With Urdu Translation

ترجمہ اور تفسير سورہ نوح

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿1﴾

بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف یہ حکم دے کر بھیجا تھا کہ تم اپنی قوم کو دردناک عذاب آنے سے پہلے آگاہ کردو۔

 قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ ﴿2﴾

انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم میں تمہارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں،

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ ﴿3﴾

یہ کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔

 يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿4﴾

وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں وقت مقرر تک مہلت دے گا بیشک اللہ کا مقرر کیا ہواوقت جب آجائے گا ٹلے گا نہیں کاش تم جان لیتے۔

 قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ﴿5﴾

نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو رات دن (حق و صدات کی طرف) بلایا

 فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا ﴿6﴾

مگر میری دعوت ان کیلئے اور زیادہ بھاگنے کا موجب ہوئی۔

 وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ﴿7﴾

اور جب بھی میں ان نے ان کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے ، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔

 ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ﴿8﴾

پھر میں نے ان کو بلند آواز سے بلایا۔

 ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ﴿9﴾

پھر میں نے ان کو علانیہ بھی سمجھایا اور ان کو بالکل پوشیدہ طور پر بھی سمجھایا۔

 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ﴿10﴾

اور میں نے ان سے کہا تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو بیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔

 يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا ﴿11﴾

وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔

 وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا ﴿12﴾

اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغ تیار کردے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔

 مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ﴿13﴾

تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو،

 وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ﴿14﴾

حالانکہ اسی نے تم کو طرح طرح سے بنایا۔

 أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ﴿15﴾

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سات آسمان اوپر تلے کس طرح بنائے ہیں

 وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ﴿16﴾

اور ان میں چاند کو نور (کی چیز) بنایا اور آفتاب کو چراغ (کی طرح روشن) بنایا۔

 وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ﴿17﴾

اور اس نے تمہیں خاص طور سے زمین میں پروان چڑھایا۔

 ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ﴿18﴾

پھر وہ تمہیں اسی زمین میں لوٹا دے گا اور پھر (قیامت میں زمین سے) تمہیں باہر نکالے گا

 وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا ﴿19﴾

اور اللہ نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا ،

 لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا ﴿20﴾

تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو پھرو۔

 قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ﴿21﴾

نوح (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی، اور پیروی ایسوں کی کی جن کے مال واولاد نے انھیں نقصان ہی زیادہ پہنچایا۔

 وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ﴿22﴾

اور انھوں نے میرے خلاف طرح طرح کی چالیں چلیں

 وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴿23﴾

اور انھوں نے (اپنے ماننے والوں سے) کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز مت چھوڑنا۔  نہ ود کو نہ سواع کو نہ یغوث کو نہ یعوق کو اور نہ نسر کو۔

 وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ۖ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا ﴿24﴾

اور بیشک انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کردیا ہے۔ اے اللہ آپ بھی ان ظالموں کی گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی عطا نہ فرمائیے۔

 مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا ﴿25﴾

چنانچہ وہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب (زبردست طوفان میں) غرق کر دئیے گئے ، آگ میں داخل کر دئیے گئے اور انھوں نے اللہ کے سوا بچانے میں کسی کو مددگار نہ پایا۔

 وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴿26﴾

اور نوح نے یہ بھی کہا کہ : میرے پر ورگار ! ان کافروں میں سے کوئی ایک باشندہ بھی زمین پر باقی نہ رکھئے۔

 إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴿27﴾

اگر آپ ان کو باقی رکھیں گے تو یہ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے، اور ان سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ بدکار اور ی کی کافر ہی پیدا ہوگی۔

 رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ﴿28﴾

اے میرے پروردگار مجھے بخش اور میرے ماں باپ کو، اور جو بھی میرے گھر میں داخل ہوبحیثیت مومن کے اور کل ایمان والوں اور ایمان والیوں کو اور (ان) ظالموں کی ہلاکت تو بڑھاتا ہی جا۔

كياحضرت نوح تمام لوگوں کے رسول  بناكر بھيجے گئےتھے؟

علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول تھے جن کو تمام روئے زمین والوں کی طرف بھیجا گیا۔ ( الجامع الاحکام القرآن : جز ١٨ ص ٢٧٣)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن مالکی قرطبی مالکی ٦٦٨ ھ نے سورة نوح کی تفسیر کا آغاز مذکور الصدر حدیث سے کیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو تمام روئے زمین والوں کی طرف مبعوث کیا گیا تھا، اس حدیث کو علامہ سیوطی نے ابن عساکر کے حوالے سے ذکر کیا ہے، مگر اس میں صرف اتنا ہے کہ سب سے پہلے جس نبی کو بھیجا گیا وہ حضرت نوح ہیں۔ ( الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٢٨٤٥)

﴿يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ  ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾

تقدیر مبرم اور تدیر معلق

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت کے پہلے حصہ میں فرمایا ہے، اللہ تمہیں مہلت دے گا یعنی موت یا عذاب کو مؤخر کر دے گا اور دوسرے حصہ میں فرمایا ہے : اللہ کی معین کردہ مہلت مؤخر نہیں ہوتی اور یہ صریح تناقض اور تضاد ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی دو قسمیں ہیں : تقدیر مبرم اور تقدیر معلق، تقدیر مبرم وہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اس میں تبدیلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم بد جائے اور یہ محال ہے کیونکہ علم بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کا علم نہ ہو بعد میں اس کا علم ہو اور یہ محال ہے، اس لیے تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، قرآن مجید میں ہے :

﴿لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ الله﴾ (یونس : ٦٤) اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

اور تقدیر معلق کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو دوسرے کام پر موقوف کر کے لوح ِ محفوظ میں لکھ دیا ہے، مثلاً اگر تمام قوم نوح ایمان لے آئی تو ان پر طوفان کا عذاب نہیں ٓئے گا اور اگر تمام قوم ایمان نہیں لائی تو ان پر عذاب آجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کو قطعیت سے علم ہوتا ہے کہ کیا ہوگا اور وہی ام الکتاب ہے، اس کا ثبوت اس آیت میں ہے :

﴿یَمْحُوا الله ُ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُج وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ﴾ (الرعد : ٣٩) اللہ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا یہ اور جس کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تقدیر کو صرف دعا بدل سکتی ہے اور عمر میں صرف نیکی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٩)

اس تقدیر سے مراد معلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی نفع کو کسی بندہ کی دعا پر موقوف کردیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو قطعی طور پر علم ہوتا ہے کہ وہ بندہ دعا کرے گا یا نہیں اور اس کو وہ علم ہی تقدیر مبرم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

ابو خزامہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ بتایئے کہ ہم جو دم کراتے ہیں یا دوا سے علاج کرتے ہیں یا پرہیز کرتے ہیں، آیا اس سے اللہ کی تقدیر بدل جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ چیزیں بھی اللہ کی تقدیر سے ہیں۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٣٧، مسند احمد ج ٣ ص ٤٢١ )

﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا﴾

خوش حالی کے حصول کے لیے اور استغفار کی فضلیت میں آیات، احادیث اور آثار

امام رازی فرماتے ہیں کہ مقاتل نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بہت طویل عرصہ تک حضرت نوح کی تکذیب کی، اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو روک لیا اور چالیس سال تک ان کی عورتیں بانجھ ہوگئیں، ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، پھر اس سزا کے تدراک کے لیے انھوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف رجوع کیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : تم اپنے شرک اور کفر پر اپنے رب سے توبہ کرو اور اپنے گناہوں کو معافی مانگو، تمہارا رب تمہارے اوپر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا۔

اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرنے سے اور اس کی اطاعت اور عبادت کرنے سے اللہ عزوجل کی رحمت اور وسعت اور کشادگی حاصل ہوتی ہے اور اس پر حسب ذیل آیات دلالت کرتی ہیں :

﴿وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ﴾ (الاعراف : 96)

اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور اللہ سے ڈرتے رہتے تو ہم ان کے اوپر آسمان اور زمینوں کی برکتیں کھول دیتے۔

﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَ کَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ﴾ (المائدہ :66 )

اور اگر یہ لوگ توراۃ اور انجیل کو قائم کرتے اور اس کو قائم کرتے جو ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو یہ اپنے اوپر سے کھاتے اور اپنے نیچے سے۔

﴿وَّاَنْ لَّوِاسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰـہُمْ مَّآئً غَدَقًا﴾ (الجن :16)

اور اگر یہ لوگ راہ راست پر سیدھے چلتے تو ہم ان کو ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔

﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِب﴾ (الطلاق : 2-3)

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا رہتا ہے، اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دیتا ہے۔ اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔

امام ابن مردویہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت سلمان فارضی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سے بہت زیادہ استغفار کیا کرو کیونکہ اللہ نے تم کو استغفار کی اسی لیے تعلیم دی ہے کہ وہ تم کو بخشنا چاہتا ہے۔ (الدرالمنثور ج ٨ ص ٢٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کو استغفار کی توفیق دی گئی، وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوگا کیونکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا﴾  (نوح : ١٠)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابلیس نے اپنے رب عزوجل سے کہا: تیری عزت اور جلال کی قسم ! میں جو آدم کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں روحیں ہیں، تب اس کے رب نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! میں ان کی مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے۔ ( مسند حمد ج ٣ ص ٦٧۔ ٤١۔ ٢٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٩٩۔ ١٢٧٣)

حضرت زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا صحیفہ ٔ اعمال اس کو خوش کرے وہ بہت زیادہ استغفار کرے۔

( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٨٤٣، اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٥٧٩)

امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) لوگوں کو نماز استسقاء پڑھانے کے لیے نکلے، آپ نے استغفار کرنے کے اوپر اور کچھ زیادہ نہ کیا حتیٰ کہ آپ واپس آگئے، لوگوں نے کہا : ہم نے آپ کو بارش کی طلب کے لیے دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا : میں نے حاجت برآری کے ان آلات سے بارش کو طلب کیا ہے جن سے بارش ہوتی ہے، پھر یہ آیات پڑھیں :

﴿اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّـہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرْسِلِ السَّمَآء عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا﴾

تم اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا۔

الربیع بن صبیح بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حسن بصری سے قحط سالی کی شکایت کی، اس سے حسن نے کہا : اللہ سے استغفار کرو، پھر دوسرا شخص آیا، اس نے ان سے فقر کی شکایت کی، حسن نے اس سے بھی کہا : اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ان سے کہا : آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بیٹا دے، انھوں نے اس سے بھی کہا : تم اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ان سے کہا : آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بیٹا دے، انھوں نے اس سے بھی کہا : تم اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے شکایت کی کہ میرے باغات خشک ہوگئے ہیں، حسن نے اس سے بھی کہا : تم اللہ سے استغفار کرو،ہم نے ان سے کہا : آپ کے پاس مختلف لوگ مختلف شکایات لے کر آئے اور آپ نے سب کو استغفار کرنے کا حکم دیا، حسن بصری نے کہا : میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی، میں نے قرآن مجید کی ان آیات سے استدلال کیا ہے کہ جب حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا : تم اپنے رب سے معافی مانگو، وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا، اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اگائے گا اور تمہارے لیے دریا بہائے گا۔ (نوح : ١٢۔ ١٠)

انسان چاہتا ہے کہ آخرت کے اجر وثواب کے علاوہ اس کو دنیا میں بھی آرام اور راحت نصیب ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرو، تم کو معافی بھی ملے گی اور دنیا کی راحت بھی نصیب ہوگی، استغفار کرنے سے بارش ہوگی، مال و دولت اور اولاد میں اضافہ ہوگا، کھیتوں اور باغات کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور تمہارے لیے دریا رواں دواں ہوجائیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام بنیادی اور اصولی نعمتیں استغفار کرنے سے حاصل ہوتی ہیں، سو ہمیں چاہیے کہ ہم بہ کثرت استغفار کیا کریں تاکہ ہماری ہر حاجت پوری ہو، اس لیے ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے کہ بارش کی طلب میں اصل چیز اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا ہے اور نماز استقامت لازمہ نہیں ہے، سنت مشروعہ ہے، یعنی یہ نماز بھی پڑھنی چاہیے لیکن اصل چیز اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا ہے۔

﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا﴾

اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور توقير، اور اللہ تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارشی بنانے کا عدم جواز

” وقار “ کا معنی تعظیم ہے: وَتُوَقِّرُوهُ (الفتح : ٩) کا معنی ہے : تم اس کی تعظیم کرو، اس آیت کا معنی ہے، تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال سے ڈرتے کیوں نہیں یعنی تمہارے حال سے یہ کیوں ظاہر نہیں ہوتا کہ تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور توقیر کرنے والے ہو، اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور توقير اور اس کی ہیبت اور جلال سے ڈرنے کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔

حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! لوگ پریشان ہوگئے، بچے ضائع ہو گئے، اموال کم ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے، آپ ہمارے لیے اللہ سے بارش کی دعا کیجئے، ہم اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفیع بناتے ہیں اور اللہ کو آپ کے حضور میں شفیع بناتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پر افسوس ہے ! کیا تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھنے لگے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافی دیر تک سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھتے رہے، حتیٰ کہ آپ کے اصحاب کے چہروں پر ملال کے آثار ظاہر ہوئے، پھر آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے ! تم پر افسوس ہے ! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کو شفاعت ( سفارش) کرنے والا نہیں بنایا جاتا، اللہ کی شان اس سے بھی بہت بلند ہے، تم جانتے ہو اللہ کیا ہے ؟ بیشک اس کا عرش سات آسمانوں کے اوپر اس طرح ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو گنبد کی طرح بنایا اور بیشک وہ چر چر کررہا ہے جس طرح سوار کے بوجھ سے سواری چرچر کرتی ہے۔ ( امام ابو داؤد نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ یحییٰ بن معین، علی بن مدینی اور ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی موافقت کی ہے۔ ) سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٢٦، مشکوٰة رقم الحدیث، ٥٧٢٧ )

امام ابو سلیمان الخطابی المتوفی ٣٨٨ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گنبد کی مثال بنا کر جو دکھائی اور عرش کے چر چر کرنے کا ذکر فرمایا، یہ اس کم فہم اعرابی کو سمجھانے کیلیے تھا اور آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کیا ہے ؟ اس کا معنی ہے : کیا تم اللہ کی عظمت اور اس کے جلال کو جانتے ہو ؟ اور سواری کے چرچر کرنے کی مثال سے آپ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو عرش بھی برداشت نہیں کرسکتا، اور اس مثال کو بتانے سے یہ مراد ہے کہ جس کی اتنی عظیم شان اور جلالت قدر ہو اس کو کسی کے پاس سفارشی بنانا جائز نہیں ہے۔ ( معالم السنن ص ٩٦۔ ٩٤، دارالمعرفہ، بیروت) ۔

علامہ حسین بن محمد الطبی المتوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارشی بنایا جائے، اور آپ کا بار بار سبحان اللہ پڑھنا اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے خوف کی وجہ سے تھا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی اس سے تنزیہ اور برأت کے لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارش کرنے والا بنایا جائے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گنبد کی مثال جودی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو دلوں میں بٹھانا مقصود ہے اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اس کے منافی ہے کہ اس کو کسی کے پاس سفارشی بنایا جائے۔

(الکاشف عن حقائق السنن ج ١٠ ص ٣٢٩، ادارۃ القرآن، کراچی، ١٤١٣ ھ)

ملا علی بن سلطان القاری المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

آپ کے بار بار سبحان اللہ پڑھنے پر آپ کے اصحاب کے چہرے اس لیے متغیر ہوگئے تھے کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے غضب ناک ہوئے ہیں کہ اس اعرابی نے اللہ تعالیٰ کو آپ کی جناب میں سفارشی بنایا، سو وہ آپ کے غضب سے خوف زدہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے ان کے چہرے متغیر ہوگئے، آپ نے اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی ہیبت کی وجہ سے بار بار سبحان اللہ پڑھا اور آپ نے جو گنبد کی مثال دی ہے، اس سے مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور عظمت اس سے بلند ہے کہ اس کو کسی کے پاس سفارشی بنایا جائے۔ (مرقاۃ المفاتیح ج ٩ ص ٧٢٢۔ ٧٢٠، ملخصا، المکتبہ الحقانیہ، پشاور)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ لکھتے ہیں :

بدرستی شان اینست کہ طلب شفاعت کردہ نمے شود بخدا برہیچ یکے و وسیلہ گرفتہ ئمے شود اور ا، امر خدا و قدر و مرتبہ اوبزرگترست ازاں کہ وسیلہ سازند او انزد کسے۔ ( یعنی نہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارش کرنے والا بنایا جائے، نہ کسی کے سامنے اللہ تعالیٰ کا وسیلہ پیش کیا جائے۔ ) (اشعۃ اللمعات ج ٤ ص ٦١، تیج کمار، لکھنؤ، ہند)

﴿اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا، وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا﴾

اس آیت میں فرمایا ہے کہ آسمان اوپر تلے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر منطبق ہیں، حالانکہ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٩٨، مسند احمد ج ٢ ص ٣٧٠)

اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان ایک دوسرے پر منطبق ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ وہ ایک دوسرے سے مماس ہوں اور پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں، دو آسمان ایک دوسرے سے منفصل ہونے کے باوجود اوپر تلے اور ایک دوسرے پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

دوسراسوال یہ ہے کہ نوح : ١٦ میں فرمایا ہے : ان ( آسمانوں) میں چاند کو روشن فرمایا حالانکہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق چاند آسمان دنیا سے بہت نیچے اور زمین سے پونے دو لاکھ میل کی مسافت پر ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان دنیا زمین کو محیط ہے اور تمام زمینیں اور فضا اور خلا سب آسمانوں کے احاطہ میں ہیں، اس لیے جب چاند خلا میں ہے تب بھی وہ آسمانوں کے احاطہ میں ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ چاند کسی آسمان میں مرکوز ہو یا نصب ہو، جب چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں خلاء کے اندر گردش کر رہے ہوں گے ، تب بھی آسمانوں کے احاطہ میں ہوں گے ، اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ چاند اور سورج آسمانوں میں ہیں۔

﴿وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا،ثُمَّ يُعِيْدُكُمْ فِيْهَا وَيُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا﴾

انسان کو زمین سے پیدا کرنے کی توجیہات

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو نطفہ سے پیدا کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی یہی فرمایا ہے۔

﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ﴾ (النحل : ٤) انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔

﴿انا خلقنا الانسان من نطفة امشاج﴾ (الدھر : ٢) بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہمارے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور وہ ہماری اصل ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے تو چونکہ اصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے تو اس وجہ سے فرمایا : ہم نے تم کو اس زمین سے پیدا کیا ہے، ایک اور سورت میں اللہ تعالیٰ نے ہماری خلقت کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے :

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰـہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰـرَکَ اللہ ُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ﴾ (المؤمنون : ١٢۔ ١٤)

اور بیشک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا فرمایا۔ پھر ہم نے اس کو مضبوط جائے قرار میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنادیا، پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا، پھر گوشت کی بوٹی سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا، پھر ہم نے ( اس میں روح ڈال کر) ایک اور مخلوق بنائی، سو اللہ بڑی برکت والا ہے جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔

اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ انسان کی پیدائش نطفہ اور حیض کے خون سے ہوتی ہے، اور نطفہ اور حیض کا خون دونوں غذا سے بنتے ہیں اور غذا گوشت اور سبزیوں سے حاصل ہوتی ہے اور گوشت بھی حیوانوں کے سبزہ کھانے سے بنتا ہے تو غذا کا رجوع اور مآل سبزیوں کی طرف ہے، اور سبزیاں پانی اور مٹی کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں تو خلاصہ یہ ہے کہ نطفہ اور حیض کا خون زمین کی مٹی سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہر انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے۔

اس اعتراض کا تیسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے، اس کے اوپر اس کی قبر کی مٹی چھڑ کی جاتی ہے، ابو عاصم نے کہا : تم حضرت ابوبکر اور عمر کے لیے اس جیسی فضلیت نہیں پا سکو گے، کیونکہ ان دونوں کی مٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مٹی سے ہے۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٣١٨۔ رقم الحدیث : ٢٣٨٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر انسان کو اس مٹی میں دفن کیا جانا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا۔ ( مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٦٥٣١، مطبوعہ مکتب اسلامی، بیروت، ٣ ١٤٠ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے، فرشتہ زمین سے مٹی لے کر اس کی ناف کاٹنے کی جگہ پر رکھتا ہے، اس مٹی میں اس کی شفاء ہوتی ہے اور اسی میں اس کی قبر ہوتی ہے۔ ( مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٦٥٣٣، مطبوعہ بیروت)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے، اس کی ناف میں وہ مٹی ہوتی ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے، اور جب وہ ارذل عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس مٹی میں اس کو دفن کیا جاتا ہے اور میں اور ابوبکر اور عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی مٹی سے ہم اٹھائے جائیں گے۔ (فردوس الاخبار ج ٤ ص ٢٣٥، اللئالی المصنوعۃ ج ١ ص ٢٨٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور ابوبکر اور عمر ایک مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (فردوس الاخبار ج ٢ ص ٣٠٥۔ رقم الحدیث : ٢٧٧٥، کنز العمال رقم الحدیث : ٣٢٦٨٣، تنزیہ الشریعۃ ج ١ ص ٣٤٩ )

﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا  ڏ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا﴾

ود، سواع، بغوث، یعوق اور نسر و غیرہا کی تاریخی حیثیت

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

محمد بن قیس نے کہا : یہ بات ( ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر) حضرت آد م (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نیک لوگ تھے اور ان کے پیرو کار تھے جو ان کے اقتداء کرتے تھے، جب وہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو ان کے پیرو کاروں نے کہا : اگر ہم ان نیک لوگوں کے مجسمے بنالیں تو پھر ہم کو عبادت کرنے میں زیادہ ذوق اور شوق حاصل ہوگا، سو انھوں نے ان کے مجسمے بنا لیے، اور جب یہ نسل بھی ختم ہوگئی اور دوسری نسل آئی تو ابلیس نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ تمہارے آباء و اجداد ان مجسموں کی عبادت کرتے تھے اور ان ہی کی وجہ سے ان پر بارش برسائی جاتی تھی، سو بعد کے لوگوں نے ان کی عبادت کرنی شروع کردی۔ ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧١٥٤ )

قتادہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ ود دومۃ الجندل میں بنو کلب کا بت تھا، اور سواع رباط میں ہذیل کا بت تھا، اور یغوث جرف میں مراد کے بنو غطیف کا بت تھا، یہ سب میں تھا، یعوق بلخ میں ہمدان کا بت تھا اور نسر ذی کلاع کا بت تھا جو حمیر سے تھے، قتادہ نے کہا : یہ وہ بت تھے جن کی حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عبادت کرتی تھی، پھر بعد میں اہل عرب نے ان کو اپنا معبود بنا لیا ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧١٥٦ )

امام عبد الرحمن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عرو بن الزبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) بیمار ہوئے اور ان کے گردان کے بیٹے تھے، ان میں ود، بغوث، سواع اور نسر تھے اور ودان کے سب سے بڑے بیٹے اور سب سے زیادہ نیک تھے۔ ( تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٩٩٦)

امام ابو جعفر نے ود کا ذکر کیا اور کہا : ود مسلمان شخص تھا اور بہت نیک تھا اور اپنی قوم میں بہت محبوب تھا، جب وہ فوت ہوگیا تو لوگ اس کی قبر پر ارض بابل میں گئے اور اس کی یاد میں رونے لگے، جب ابلیس نے ان کی آہ زاری کو دیکھا تو وہ ان کے پاس انسانی شکل میں آیا اور کہنے لگا : اس شخص کی یاد میں، میں تمہارے رنج و غم کو دیکھ رہا ہوں، تمہارا کیا خیال ہے میں اس شخص کی مثال کا ایک مجسمہ تمہارے لیے بنا دوں، تم اس مجسمہ کو اپنی مجلس میں رکھ لینا، پھر تمہارا دل بہل جائے گا، انھوں نے کہا : ہاں ! ٹھیک ہے، سو اس نے ود کی مثل کا ایک مجسمہ بنادیا اور انھوں نے اس کو اپنی مجلس میں رکھ لیا، اور وہ اس کو یاد کرتے رہتے تھے، جب ابلیس نے دیکھا کہ وہ اس کو بہت یاد کرتے ہیں تو اس نے ان لوگوں سے کہا : کیا خیال ہے میں تم میں سے ہر شخص کے گھر میں ود کی مثال کا ایک مسجمہ بنا کر رکھ دوں، ان لوگوں نے اس پیش کش کو قبول کرلیا، اور وہ ان مجسموں کو دیکھ کر ود کو یاد کرتے رہے، پھر ان کی نسل نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کرتے ہوئے دیکھا اور وہ یہ بھول گئے کہ ان کے آباء و اجداد صرف ان بتوں کو دیکھ کر ود کو یاد کرتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر ان بتوں کو اپن معبود بنا لیا، پھر وہ نسل در نسل ان بتوں کی عبادت کرتے رہے، اور اللہ کو چھوڑ کر جس بت کی سب سے پہلے عبادت کی گئی وہ ود کا بت تھا۔ ( تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٩٩٧)

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمیر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں:

محمد بن قیس نے کہا ہے کہ یغوث، یعوق اور نسر، حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہما السلام) کے درمیان عہد کے لوگ ہیں، یہ بہت نیک لوگ تھے اور ان کے بہت پیروکار تھے، جب یہ نیک لوگ فوت ہوگئے، تو ان کے پیروکاروں نے کہا : اگر ہم ان کی مثال کے مجسمے بنالیں تو ہماری عبادت میں زیادہ ذوق اور شوق ہوگا، پھر انھوں نے ان کی مثال کے مجسمے بنا لیے، پھر جب ان کی نسل ختم ہوگئی اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس نے ان کے دماغوں میں یہ خیال ڈال دیا کہ تمہارے آباء و اجداد ان بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ان ہی کی وجہ سے بارش ہوتی تھی، سو انھوں نے ان کی عبادت کرنی شروع کردی۔ اس کے بعد حافظ ابن کثیر نے حافظ ابن عساکر کی یہ روایت نقل کی ہے :

حافظ ابن عساکر نے حضرت شیث (علیہ السلام) کی سوانح میں یہ روایت ذکر کی ہے : حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کی چالیس اولاد ہوئی، بیس بیٹے اور بیس بیٹیاں، ان میں سے جو زندہ رہے وہ ھابیل اور قابیل تھے اور صالح اور عبد الرحمن ، جن کا نام عبد الحارث رکھا تھا، اور ود کو ہی شیث کہا جاتا تھا، اور ان کو ھبۃ اللہ بھی کہا جاتا تھا، اور ان کے بھائیوں نے ان کو سردار بنادیا تھا اور ان کے بیٹوں کے نام سواع، بغوث، یعوق اور نسر تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٢٥ ص ١٨٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت) ( تفسیرابن کثیر ج ٤ ص ٤٧٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

امام رازی نے تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٥٧، علامہ قرطبی نے جز ١٨ ص ٢٨١ میں، علامہ بغوی نے معالم التنزیل ج ٥ ص ١٥٧ میں، اور علامہ آلوسی نے روح المعانی جز ٢٩ ص ١٣٣۔ ١٣٢ میں ان روایات کو نقل کر کے ان پر اعتماد کیا ہے۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

یہ بھی حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ود کا بت مرد کی صورت کا تھا، سواع کا بت عورت کی صورت کا تھا، یغوث کا بت شیر کی صورت کا تھا، یعوق کا بت گھوڑے کی صورت پر تھا اور نسرکا بت گدھ کی صورت کا تھا، اور یہ حکایت ان تصریحات کے منافی ہے کہ یہ بت نیک انسانوں کی صورتوں پر بنائے گئے تھے اور یہ تصریحات ہی اصح ہیں۔ (روح المعانی جز ٢٩ ص ١٣٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

واضح رہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ نے اسی اصح روایت کو اختیار کیا ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٦ ص ١٠٤، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ١٤١١ ھ)

اس روایت کی تحقیق کہ کفار مکہ جن بتوں کی عبادت کرتے تھے، یہ وہی بت تھے جن کی کفار نوح عبادت کرتے تھے

حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی عبادت کرتی تھی ان کے متعلق امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے :

ابن جریج سے روایت ہے کہ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ قوم نوح جن بتوں کی عبادت کرتی تھی وہ بت عرب میں اب بھی ہیں، رہا ود تو وہ دومۃ الجندل میں بنو کلب کا معبوڈ ہے، رہا سواع، تو وہ ہذیل کا معبود ہے، رہا بغوث تو وہ مراد معبود ہے، پھر بنو غطیف کا جوف میں سبا کے پاس معبود ہے، ریا یعوق تو وہ ہمدان کا معبود ہے اور رہا نسر تو وہ حمیر کا ذی الکلاع کے لیے معبود ہے، یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگوں کے اسماء ہیں، جب یہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن مجالس میں وہ بیٹھے ہیں، وہاں ان نیک لوگوں کے مجسمے بنا کر رکھ دیئے جائیں اور ان نیک لوگوں کے ناموں پر ان بتوں کے نام رکھ دیئے جائیں، پھر جب تک ان لوگوں کی نسل باقی رہی، ان بتوں کی عبادت نہیں کی گئی اور جب وہ لوگ فوت ہوگئے اور ان کا علم نہ رہا تو ان کی عبادت کی جانے لگی۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢٠ )

امام بخاری کی اس رایت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ ود حضرت آدم (علیہ السلام) کا بیٹا تھا، اور اسی کا نام شیث تھا اور باقی ود کے بیٹے تھے اور یہ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) سے بہت پہلے گزر چکے تھے اور یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ کے صالحین نہیں تھے۔

اور اس پر دوسرا اعتراض حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے سند کے لحاظ سے کیا ہے کہ اس حدیث کو عطا خراسانی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، حالانکہ عطا خراسانی کا حضرت ابن عباس سے سماع نہیں ہے، لہٰذا اس حدیث کو سند منقطع ہے، پس یہ حدیث ضعیف ہے، پھر اس کا ایک کمزور سا جواب دیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کی سند میں مذکور عطاء سے مراد عطاء خراسانی نہ ہو بلکہ عطاء بن ابی رباح ہو، اور ابن جریج نے اس کو عطاء بن ابی رباح سے بھی روایت کیا ہے اور یہ بات امام بخاری سے کیسے مخفی رہ سکتی ہے کیونکہ ان کے حدیث وارد کرنے کی شرط اتصال ہے۔ ( فتح الباری ج ٩ ص ٦٧٠، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

علامہ بدر الدین عینی متوفی ٨٥٥ ھ نے اس جواب کو رد کردیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

امام بخاری کا حدیث لانے کے لیے اتصال کی شرط عائد کرنا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ ان سے یہ مخفی نہ ہو کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، پس سبحان ہے وہ ذات جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، نیز جس حدیث میں عطاء خراسانی منفردہو اس کی حدیث کو امام مسلم وارد کرتے ہیں۔ ( عمدۃ القاری ج ١٩ ص ٣٧٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

اس روایت پر سب سے قوی اعتراض امام رازی نے کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

یہ پانچ بت سب سے بڑے بت تھے، پھر یہ بت حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم سے اہل عرب کی طرف منتقل ہوئے، پس ود بنو کلب کا ہوگیا، اور سواع ہمدان کا ہوگیا، یغوث مذحج کا ہوگیا، یعوق مراد کا ہوگیا اور نسرحمیر کا ہوگیا، اسی وجہ سے اہل عرب کو عبدود اور عبد یغوث کہا جاتا تھا، تاریخی کتب میں اسی طرح مذکور ہے اور اسی پر یہ اشکال ہے کہ طوفان کے زمانہ میں تمام دنیا ملیا میٹ ہوچکی تھی تو یہ بت کیسے باقی بچ گئے، اور عرب کی طرف منتقل ہوئے اور یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان بتوں کو اپنے ساتھ کشتی میں لے آئے تھے، پھر انھوں نے ان بتوں کو حفاظت کے ساتھ رکھا تاآں کہ یہ امانت عربوں کے پاس پہنچ گئی، کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) بتوں کے محافظ نہیں تھے بت شکن تھے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٥٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ان دلائل کی بناء پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ عرب میں جن بتوں کی پرستش ہوتی تھی، یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالحین کی صورتوں کے مجسمے ہیں اور یہ وہی بت ہیں جن کی حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پرستش کرتی تھی، ہاں ! یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان ناموں کا ذکر پچھلے لوگوں سے سنتے آئے تھے تو انھوں نے اپنے بتوں کے بھی وہی نام رکھ لیے۔

﴿وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا﴾

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کافروں کی جو اولاد پیدا ہوگی وہ بدکار کافر ہی ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو اس علم اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور تجربہ سے ہوا، رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو وہ یہ ہے :

﴿أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ﴾ (ھود : ٣٦) بیشک آپ کی قوم میں سے جو ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ ہرگز کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔

اور تجربہ کا معاملہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال رہے اور اس طویل عرصہ میں صرف اسی (٨٠) لوگ ایمان لائے، باقی اپنے کفر پر ڈٹے رہے، اور وہ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے تھے کہ ان کی بات نہ سننا، یہ بہت بڑے جھوٹے ہیں، اور جب وہ شخص مرجاتا تو وہ اپنی اولاد کو ایسی ہی نصیحت کرتا تھا اور ان کی نسل در نسل میں جو بھی پیدا ہوتا تھا وہ بدکار کافر ہی ہوتا تھا۔ اس آیت کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ اے اللہ ! تیرے علم اور تیری تقدیر میں یہ مقرر ہے کہ ان کی اولاد میں سب سے کافر اور بدکار ہی ہوں گے ۔

﴿رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ  وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا﴾

حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا پر اعتراضات کے جوابات

حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کا نام لمک بن متو شلخ اور ان کی والدہ کا نام ہے شخمی۔ ( روح المعانی ٢٩ ص ١٣٨)

اور حضرت نوح کے والدین مومن تھے، کیونکہ کافر کے لیے دعا کرنا جائز نہیں ہے یا اس سے مراد ہے : حضرت آدم (علیہ السلام) تک ان کے سلسلہ ٔ نسب کے تمام آباء اور امہات

حضرت نوح (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے لیے دعا کی، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ انسان سب سے زیادہ خود اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا محتاج ہے، پھر اپنے والدین کے لیے دعا کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسان پر سب سے زیادہ احسان اس کے والدین کا ہے، اس کے بعد تمام مؤمنین کے لیے دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا یہی طریقہ ہے، حضرت نوح نے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی طریقہ سے دعا کی ہے۔

اپنے، اپنے والدین اور تمام مؤمنین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) نے کفار کے لیے ہلاکت کی دعا کی اور فرمایا : اور ظالموں میں صرف ہلاکت کو زیادہ فرما۔

افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ ہرحال میں کفار کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے، اسی وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس خلاف اولیٰ دعا پر پہلے ہی اپنے لیے مغفرت کی دعا کی، کیونکہ آپ نے ان کے لیے ہلاکت کی دعا اس لیے کی تھی کہ وہ آپ کو ایذاء پہنچاتے تھے اور آپ کے پیغام کو قبول نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کے خلاف دعا کرنا بظاہر ان سے انتقام لینا تھا، اسی وجہ سے میدان حشر میں بھی جب لوگ حضرت نوح سے شفاعت کے طالب ہوں گے تو وہ گریز فرمائیں گے۔

اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا سے ان کی قوم کے کافروں پر جو طوفان آیا، اس کے نتیجہ میں بچے بھی غرق کردیئے گئے حالانکہ وہ مکلف نہ تھے، اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) طوفان آنے سے چالیس سال یا نوے سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو بانجھ کردیا تھا، اس لیے طوفان کے وقت ان کو کوئی نابالغ اولاد نہ تھی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے ہاں اولاد پیدا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ضروری قرار دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں اور جب انھوں نے استغفار نہیں کیا تو ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، جیسا کہ اس آیت میں سے ظاہرہوتا ہے :

پس میں نے ان سے کہا : تم اپنے رب سے استغفار کرو (إلیٰ قوله تعالیٰ) وہ مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا۔ ( نوح : ١٢)

اس آیت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ استغفار نہیں کریں گے تو ان کے ہاں اولاد نہیں ہوگی اور جب انھوں نے اللہ کی طرف رجوع نہیں کیا تو ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، س لیے طوفان سے پہلے کوئی نابالغ بچہ نہیں تھا۔

(٢) اگر بالفرض طوفان سے پہلے بچے ہوں تو وہ طوفان ان کے لیے طبعی موت کا سبب بنا اور وہ ان کے حق میں عذاب نہیں ہوا۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply