surah fussilat with urdu translation

Surah Fussilat With Urdu Translation, Surah Fussilat Urdu Translation

سورہ فصلت ترجمہ اور تفسير

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ﴿1﴾

حم ۔

 تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿2﴾

یہ کلام نہایت رحم کرنے والے مہربان اللہ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔

 كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿3﴾

یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتوں کی تفصیل عربی قرآن کی صورت میں ان لوگوں کے لیے کی گئی ہے جو جاننا چاہیں۔

 بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿4﴾

خوشخبری دینے والی اور آگاہ کردینے والی۔ پس ان کی اکثریت نے اس سے اعراض کیا اور وہ اس کو نہیں سن رہے ہیں۔

 وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ﴿5﴾

اور کہتے ہیں کہ تم ہمیں جس طرف بلا رہے ہو اس سے ہمارے دل پردے ( غلاف) میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ( ڈاٹ) ہے اور ہمارے تمہارے درمیان ایک پردہ ہے۔ پس تم اپنا کام کئے جاؤ ، بیشک ہم تو اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔

 قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ ﴿6﴾

( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف تم جیسا ہی بشر ہوں البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا اور ہمارا رب ایک ہی ہے۔ بس تم اسی کی طرف سیدھے سیدھے چلو اسی سے مغفرت مانگو ۔ ان مشرکین کے لیے بڑی خرابی ہے

 الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴿7﴾

جو زکوۃ نہیں دیتے اور آخرت کے تو وہ منکر ہی ہیں۔

 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴿8﴾

(البتہ) جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے نیک عمل کئے ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے

 قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿9﴾

آپ کہئے کہ ارے تم تو اس (خدا کی توحید) کے منکر ہو جس نے زمین کو دو روز میں پیدا کردیا اور تم شریک ایسے کے ٹھہرا رہے ہو وہی تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

 وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ﴿10﴾

اور اس نے اس زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکتیں رکھیں اور اس میں اس کے غذائی ذخیرے ودیعت کئے سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔

 ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿11﴾

پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو ایک دھواں سا تھا پھر اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی ( آنا تو پڑے گا) دونوں نے کہا کہ ہم خوشی خوشی حاضر ہیں ۔

 فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿12﴾

پھر اس نے دونوں میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان ( کے فرشتوں) کو اس کے کام کی وحی کردی ۔ اور ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دے کر اس کی حفاظت (کا انتظام) کیا ۔ یہ غالب حکمت والے اللہ کا فیصلہ تھا۔

 فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴿13﴾

تو اگر یہ لوگ (اب بھی) اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایسی آفت سے ڈراتا ہوں جیسی آفت عاد وثمود (پر آئی تھی۔

 إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ﴿14﴾

جب کہ ان کے پاس ( لگاتار) آگے اور پیچھے رسول آتے رہے ( اور سمجھاتے رہے کہ) تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی مت کرنا ۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو وہ فرشتوں کو نازل کرتا لہٰذا تم جس ( پیغام حق) کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔

 فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿15﴾

عاد کا معاملہ یوں ہے کہ انھوں نے زمین میں بغیر کسی حق کے گھمنڈ کیا اور بولے کہ ہم سے بڑھ کر طاقت میں کون ہے۔ کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے اور وہ ہماری نشانیوں کا برابر انکار کرتے رہے

 فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ ﴿16﴾

تو ہم نے ان پر چند منحوس دنوں میں ایک بادتند بھیجی تاکہ ان کو دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ رسوا کن ہوگا اور وہاں ان کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔

 وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿17﴾

رہے قوم ثمود تو ہم نے انھیں راستہ دکھایا تھا لیکن انھوں نے ہدایت ( کے مقابلے) میں اندھا بنا رہنے کو پسند کیا۔ (نتیجہ یہ ہوا کہ) ان کو ذلیل و رسوا کردینے والے عذاب میں ایک زبردست چنگھاڑنے آپکڑا ۔ یہ اس کی سزا تھی جو وہ کماتے تھے۔

 وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿18﴾

اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور ڈرنے والے تھے۔

 وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿19﴾

اور جس دن اللہ کے دشمن ( کفار و مشرکین) جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے تو وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ۔

 حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿20﴾

یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہوجائیں گے تو ان کے کان، اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کے رونگٹے ان پر ان باتوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

 وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿21﴾

وہ (حیرت و تعجب سے) اپنی کھالوں ( گوشت پوست) سے پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ (اور یہ بولنے کی طاقت تمہارے اندر کہاں سے آئی ؟ ) جواب دیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے بولنے کی طاقت دی ہے جس نے ہر ایک بولنے کی طاقت عطاء کی ہے۔ اسی نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور تم اسی کی طرف لوٹائے گئے ہو

 وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ ﴿22﴾

(اس وقت فرمایا جائے گا کہ) جب تم چھپ چھپ کر گناہ کیا کرتے تھے تمہیں اس وقت اس کا خیال و گمان تک نہ تھا کہ تمہارے کان ، تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسموں کی کھالیں بھی تم پر گواہی دیں گی۔ تم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر بھی نہیں ہے۔

 وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿23﴾

تمہارے اسی جھوٹے گمان نے جو تم نے اپنے رب کے متعلق قائم کر رکھا تھا ہلاک و برباد کر ڈالا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔

 فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ ﴿24﴾

(قیامت میں کہا جائے گا کہ) اگر وہ صبر کریں تب بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور اگر اب وہ معافی بھی مانگیں تو وہ ان لوگوں میں سے نہ ہوں گے جن کو معاف کیا جاتا ہے۔

 وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ ﴿25﴾

(اس کی وجہ یہ ہے کہ) ہم نے ان پر ایسے ہم نشین (ساتھی) مسلط کردیئے تھے جو انھیں آگے اور پیچھے کی ہر چیز کو خوبصورت بنا کردکھاتے تھے۔ بہرحال ان پر بھی وہی عذاب آ کر رہے گا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنات اور انسانوں کے گروہوں پر مسلط کیا گیا تھا ۔ یقینا وہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔

 وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴿26﴾

اور کافر کہتے تھے کہ تم اس قرآن کو نہ سنو ! شور و غل مچاؤ تاکہ تم ان پر غالب آ جاؤ۔

 فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿27﴾

(فرمایا کہ) ہم ان کافروں کو سخت ترین عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے۔ اور یقینا ہم ان کو ان کے بد ترین اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے جنہیں وہ کیا کرتے تھے۔

 ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿28﴾

یہ اللہ کے دشمنوں کا بدلہ ہے : یعنی دوزخ ! ان کے لیے اسی میں ہمیشگی کا ٹھکانا ہوگا، بدلے میں اس بات کے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تھے۔

 وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ ﴿29﴾

( وہاں یہ) کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں جنات اور انسان دونوں گروہوں میں سے ان گروہوں کو دکھا دیجئے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں۔

 إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ﴿30﴾

بیشک ان لوگوں پر جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے، فرشتے اتریں گے کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو اور نہ کوئی غم اور اس جنت کی خوش خبری قبول کرو جس کا تم سے وعد کیا جاتا تھا۔

 نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿31﴾

ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی رہے اور آخرت کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں۔ اور تم کو اس جنت میں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔

 نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ ﴿32﴾

رب غفورو رحیم کی طرف سے سامان ضیافت کے طور پر

 وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿33﴾

اور اس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں

 وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿34﴾

( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیکی اور برائی برابر و یکساں نہیں ہو سکتے لہٰذا تم برائی کو بہترین انداز سے دور کرو پھر تم دیکھو گے کہ وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی تھی وہ تمہارا گہرا اور جگری دوست بن گیا ہے ۔

 وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿35﴾

اور یہ دانش نہیں ملتی مگر انہی لوگوں کو جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی مگر انہی کو جو بڑے نصیبہ ور ہوتے ہیں

 وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿36﴾

اور اگر شیطان تمہارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا کر ہی دے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈو۔ بیشک حقیقی سننے والا جاننے والا وہی ہے۔

 وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿37﴾

اور اس کی نشانیوں میں رات ہے اور دن ہے اور سورج ہے اور چاند ہے۔ (بس) تم لوگ نہ سورج کو پوجو اور نہ چاند کو بلکہ صرف اللہ ہی کو پوجو جس نے ان سب کو پیدا کیا اگر تم واقعی اس کے پرستار ہو۔

 فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ۩ ﴿38﴾

پھر اگر انھوں نے تکبر کیا تو ( اللہ کو کسی کی پروا نہیں ہے) وہ فرشتے جو تمہارے رب کے پاس ہیں وہ دن رات اس کی حمد وثناء کرتے ہیں اور وہ اکتاتے بھی نہیں۔

 وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿39﴾

اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ایک زمین ہے جو بالکل ویران پڑی ہوئی تھی ۔ پھر جیسے ہی ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہانے اور ابھرنے لگی ۔ بیشک وہ جس نے مردہ زمین کو زندہ کردیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا بیشک وہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔

 إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَنْ يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿40﴾

بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہیں سو بھلا جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن امن وامان کے ساتھ آئے، ف ٣٩۔ (خیر) جو جی چاہے کرلو، وہ تمہارا کیا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿41﴾

وہ لوگ جنہوں نے قرآن (کا سچا پیغام) آنے کے باوجود اس کا انکار کیا ( وہ اپنا انجام بہت جلد دیکھ لیں گے) بیشک ( قرآن ) ایک زبردست کتاب ہے

 لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿42﴾

اس میں باطل نہ اس کے آگے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ یہ خدائے حکیم وحمید کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے

 مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ ﴿43﴾

تمہیں وہی باتیں کہی جا رہی ہیں جو تم سے پہلے آنے والے رسولوں کو کہی جا چکی ہیں۔ بیشک تمہارا رب بڑی مغفرت والا بھی ہے اور درد ناک عذاب دینے والا بھی

 وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ ﴿44﴾

اور اگر اس قرآن کو عجمی زبان میں نازل کیا جاتاتو وہ کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف کیوں نہ نازل کی گئیں ( وہ یہی کہتے کیسی عجیب بات ہے کہ) کتاب عجمی اور ( اس کے مخاطب) عربی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ ایمان لائے یہ ان کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان کے کانوں کی ڈاٹ ہے۔ یہ ان پر اندھا پن مسلط ہے۔ انھیں ایسا لگتا ہے جیسے انھیں بہت دور سے پکارا جا رہا ہے۔

 وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ ﴿45﴾

بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی لیکن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ کی گئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ اور بیشک وہ تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں

 مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ﴿46﴾

جو نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اس کا وبال اسی پر آئے گا اور تیرا رب بندں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

الجزء ﴿ 25 ﴾

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ ﴿47﴾

اور قیامت کے علم کا معاملہ صرف اللہ ہی سے متعلق ہے اور کوئی میوہ اپنے غلاف سے باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے اور جس دن ان کو پکارے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں تو کہیں گے کہ ہم نے تجھ سے عرض کردیا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا گواہ نہیں رہا

 وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ ﴿48﴾

اور جن کو وہ پہلے پکارتے رہے تھے وہ سب ہوا ہوجائیں گے اور وہ جان لیں گے کہ اب ان کے لیے کوئی مفرباقی نہیں رہا

 لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ ﴿49﴾

اور انسان بھلائی کی دعا سے نہیں تھکتا اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے

 وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴿50﴾

اور اگر ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھا دیتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی ہوتی ہے تو کہتا ہے یہ تو میرا حق ہی ہے اور میں قیامت کے ہونے کا گمان نہیں رکھتا اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا ہی گیا تو میرے لیے اس کے پاس بھی بہتری ہی ہے۔ پس ہم ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال سے ضرور آگاہ کریں گے اور ان کو ایک سخت عذاب کا مزا لازماً چکھائیں گے۔

 وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ ﴿51﴾

اور جب ہم انسان پر اپنا فضل کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے

 قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿52﴾

آپ کہئے کہ بھلا یہ بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اللہ کے ہاں سے آیا ہوا ہو اور پھر تم اس سے انکار کررہے ہو تو اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا جو (ایسی) دوردراز مخالفت میں پڑا ہو۔

 سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿53﴾

ہم انھیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے۔ کیا تمہارے رب کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ ہے ؟

أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ ﴿54﴾

یاد رکھو کہ یہ لوگ اپنے رب کا سامنا کرنے کے معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو کہ وہ ہر چیز کو احاطے میں لیے ہوئے ہے۔

سُورۃُ حٰمٓ السَّجدۃ كا تعارف

سورة حٰمٓ السجدۃ کا دوسرا نام سورة فُصّلت ہے۔ دراصل ”السجدۃ“ کے نام سے قرآن مجید میں دو سورتیں ہیں اور دونوں ہی حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں۔ سورة الاحزاب سے متصلاً قبل کی سورة السجدۃ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے ‘ اس نسبت سے اس کا پورا نام الٓمّٓ السجدۃ ہے۔ لیکن چونکہ عام طور پر وہ صرف ”السجدۃ“ کے نام سے معروف ہے ‘ اس لیے ان دونوں میں فرق واضح کرنے کے لیے زیر مطالعہ سورت کو حٰمٓ السجدۃ کہا جاتا ہے۔

 سورة حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون ” دعوت توحید “ ہے۔ دعوت کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ایک ایسے شخص کا تصور ذہن میں لائیے جس نے عقیدہ توحید کو اختیار کرکے اپنے دل و دماغ کو باطل نظریات اور مشرکانہ خیالات سے پاک کرلیا ہے۔ نورِ توحید سے اس کا سینہ منور ہوگیا ہے اور اس نے خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری طرح جھکا لیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص کسی معاشرے کا حصہ ہے اور کسی بھی معاشرے میں رہتے ہوئے ایک توحید پرست شخص کے سامنے توحید کے حوالے سے درج ذیل دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوگی۔ یا تو اس معاشرے میں اللہ کا دین غالب ہوگا اور وہاں اسلامی حکومت ہوگی ‘ یا پھر وہاں اللہ کا دین مغلوب ہوگا۔ دین کے غلبے کی صورت میں تو ایک توحید پرست شخص کے لیے اللہ کی بندگی اختیار کرنا اور ہمہ تن اللہ کا بندہ بن کر رہنا آسان ہوگا۔ اور ایسی صورت میں اس سے تقاضا بھی یہی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں معاشرے کی صورت حال ایسی ہی تھی۔ یعنی مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ اللہ کی مرضی اور اس کے دین کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ اس نظام کے تحت عام لوگ بڑی آسانی اور سہولت سے اللہ کی اطاعت اور بندگی میں اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔ لیکن اگر کسی معاشرے یا ملک میں باطل نظام غالب اور اللہ کا دین مغلوب ہو تو ایک مومن یا موحد شخص کے لیے اپنی پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت اور بندگی میں ڈھالنا ممکن ہی نہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی شخص اللہ کی بندگی پانچ ‘ دس ‘ پندرہ فی صد تک یعنی جزوی طور پر ہی کرسکتا ہے۔

 اب سوال یہ ہے کہ ایک توحید پرست شخص اگر ایسے معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے جہاں باطل کا غلبہ ہے اور ملک میں مجموعی طور پر کفر کا نظام قائم ہے تو ایسی صورت میں وہ کیا کرے ؟ چنانچہ ایک موحد ّشخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی صورت حال کو ذہنی طور پر تسلیم (reconcile) نہ کرے۔ وہاں رہتے ہوئے وہ احتجاج (protest) کی کیفیت میں زندگی بسر کرے ‘ ہر وقت اس باطل نظام کو بدلنے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی فکر میں رہے اور عملی طور پر اس کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا رہے۔ اس جدوجہد کے حوالے سے اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کم سے کم اور ناگزیر حد (subsistence level) تک پوری کرنے کے بعد اپنی تمام تر صلاحیتیں ‘ اپنا وقت اور اپنے وسائل باطل نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش میں کھپا دے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی یہ جدوجہد اور کوشش گویا باطل نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔

 نظریاتی طور پر اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد اب یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ عملی طور پر اس جدوجہد کی ترتیب و تدریج کیا ہوگی۔ ظاہر ہے یہ کام کسی اکیلے آدمی کے بس کا تو ہے نہیں ‘ اکیلا چنا تو بھاڑ کو نہیں پھوڑ سکتا۔ باطل نظام کو اکھاڑ پھینکنا بہرحال کوئی آسان کام نہیں۔ اس کام کے لیے طاقت ناگزیر ہوگی اور طاقت حاصل کرنے کے لیے جمعیت درکار ہوگی۔ جبکہ جمعیت کی تشکیل کے لیے دعوت الی اللہ کو عام کرنے کی ضرورت ہوگی اور یہی سورة حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانے کے کام کا بیڑا ہر اس شخص کو اٹھانا ہوگا جس نے توحید کو ایک نظریہ کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ گویا ہر ّموحد شخص کو اپنے نظریے کا داعی بن کر میدان عمل میں اترنا ہوگا ‘ دوسروں کو قائل کرنا ہوگا اور اپنے ساتھ ملانا ہوگا ‘ تاکہ غلبہ حق یا اقامت دین کی ّجدوجہد ُ کے لیے جمعیت اور طاقت مہیا ہو سکے۔

 دعوت الی اللہ کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی لائق توجہ ہے کہ دعوت کا آلہ اور ذریعہ (Medium) قرآن مجید ہے۔ اس حوالے سے داعیان حق کے لیے قرآن میں بار بار تاکید آئی ہے کہ وہ انذار اور تبشیر کا ذریعہ بھی قرآن کو بنائیں ‘ تذکیر و تذکر کے لیے بھی قرآن سے رجوع کریں اور خود اپنے تزکیہ نفس کے لیے بھی قرآن ہی کا سہارا ڈھونڈیں۔ غرض وہ دعوت کے ہر ہر موڑ اور ہر ہر مرحلے پر ہدایت و رہنمائی قرآن سے حاصل کریں۔ قرآن میں اس حوالے سے قرآن کا ذکر بار بار آیا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں قرآن کا ذکر سولہ مرتبہ ہوا ہے۔ گویا اس سورت کا تانا بانا ہی قرآن کے ذکر سے ُ بنا گیا ہے۔ اسی طرح سورة الفرقان میں بھی قرآن کے ذکر کی تکرار ملتی ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ اس حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے ‘ چھ رکوعوں پر مشتمل اس مختصر سی سورت میں چھ مرتبہ قرآن کا حوالہ آیا ہے۔

 یہاں پر یہ نکتہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ زیر مطالعہ سورتوں کا مرکزی مضمون ”توحید عملی“ ہے اور ”دعوت“ کا یہ مضمون بھی اسی مضمون کا تسلسل ہے۔ اس تسلسل کو ذہن میں تازہ رکھنے کے لیے زیر مطالعہ سورتوں کے مضامین کی اس ترتیب کو ایک دفعہ پھر سے دہرا لیجیے کہ سورة الزمر اور سورة المومن میں توحید عملی کا مضمون انفرادی سطح پر بیان ہوا ہے۔ سورة الزمر میں توحید فی العبادت پر زور دیا گیا ہے جبکہ سورة المومن میں توحید فی الدعاء کے حوالے سے تاکید ہے۔ البتہ عبادت اور دعا کے ساتھ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّیْن کی شرط ان دونوں سورتوں میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ اس کے بعد سورة حٰمٓ السجدۃ اور سورة الشوریٰ میں توحید عملی کا مضمون بتدریج اجتماعیت کی طرف بڑھتا ہے۔ اجتماعیت کے حصول کے لیے چونکہ جدوجہد کا آغاز دعوت سے ہوتا ہے ‘ اس لیے سورة حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون دعوت الی اللہ ہے۔ البتہ اس مرکزی مضمون کے ساتھ ساتھ مکی سورتوں کے عام مضامین اور بعض علمی نکات بھی اس سورت میں ملیں گے۔

فضیلت

اس سورت کی فصاحت دیکھ کر بڑے بڑے شعرا کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ محمد بن کعب قرظی (رض) سے مروی ہے کہ ایک بار قریش نے اپنے میں سے بڑے شاعر عتبہ بن ربیعہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا۔ اس نے آکر آپ سے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے ہماری جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ لگتا ہے کسی دن اچانک ہمارے درمیان جنگ بھڑک اٹھے گی اور بھائی بھائی کے خلاف تلوار اٹھا کر نکل آئے گا اگر تمہیں مال چاہیے تو ہم تمہیں قریش کا مالدار ترین شخص بنا دیتے ہیں اگر نکاح کی تمنا ہے تو ہم قریش کی 10 ہزار عورتوں سے تمہاری شادی کردیتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حم سجدہ کی ابتدائی آیات لَاتَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ (آیت 37) تک پڑھ کر سنائیں۔ انھیں سن کر اس کا رنگ اڑ گیا وہ خاموش واپس چلا گیا قریش نے اسے دیکھا تو حیران ہوئے عتبہ نے کہا میں نے ایسا کلام سنا ہے جو جادو ہے نہ کہانت نہ شعر۔ بخدا جو کلام میں نے سنا ہے عنقریب اس کا بڑا نتیجہ نکلنے والا ہے قریش نے کہا عتبہ بھی گمراہ ہوگیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام صفحۃ 134 مطبوعہ شام)

مروی ہے کہ جب حضرت مصعب بن عمیر (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ہجرت سے قبل) مدینہ طیبہ میں تبلیغ کے لئے بھیجا تو حضرت سعد بن معاذ (رض) جو اس وقت اسلام لائے تھے نے انھیں دھمکایا مگر پھر اسعد بن زرارہ (رض) کے اصرار پر ایک دن وہ حضرت مصعب (رض) کے پاس آکر بیٹھے انھوں نے سورة حم سجدہ کی تلاوت کی جسے سن کر حضرت سعد کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور آخر کار انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (در منثور جلد 7 صفحۃ 310)

اسی لئے حضرت خلیل (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سوتے نہ تھے جب تک تبارک الذی او حم سجدہ نہ پڑھ لیتے (در منثور جلد 7 صفحہ 312 بروایۃ بیہقی عن شعب الایمان) اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد نبوی میں سورة حم سجدہ بآواز بلند پڑھنے لگے۔ پھر اپنے طبعی سجدہ کیا اور سجدے میں اس قدر بلند ذکر کیا جس کی آواز 2 میل تک جا رہی تھی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ سجدہ میں نے شکریہ میں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی عظیم معذرت قبول کی ہے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ : آپ اپنی امت کے لئے اس کو بڑھا دیں (یعنی اللہ سے اضافہ کی دعا فرمائیں) آپ نے فرمایا اللہ ستر ہزار میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار افراد کو بخش دے گا (اور ستر ہزار کو ستر ہزار سے ضرب دینے سے 4 ارب 90 کروڑ بنتا ہے) (درمنثور جلد 7 صفحہ 312) ان احادیث سے سورة حم سجدہ کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔

كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ

قرآن ایسی کتاب ہے جس کی آیات مفصل ہیں یعنی خوب صاف صاف بیان کی گئی ہیں سوم یہ فرمایا کہ یہ قرآن کی آیات ہیں جو عربی ہے اس کے اولین مخاطب اہل عرب ہیں اس کا سمجھنا ان کے لیے آسان ہے اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے چونکہ بہت اعلیٰ ہے اس لیے بطور معجزہ اہل عرب پر اس کے ذریعہ حجت قائم ہوچکی ہے اب جو شخص ایمان نہ لائے گا اپنا برا کرے گا یوں تو قرآن سب ہی کو حق کی دعوت دیتا ہے اور سب ہی پر اس کا ماننا اور اس پر ایمان لانا فرض ہے لیکن اہل علم ہی اس سے مستفید اور منتفع ہوتے ہیں اس لیے (لِقَوْمٍ یَعْلَمُوْنَ ) فرمایا چہارم (بَشِیرًا وَّنَذِیرًا) فرمایا کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو بشارت دینے والا ہے اور منکرین کو ڈرانے والا ہے اس کے بعد لوگوں کی رو گردانی کا تذکرہ فرمایا باوجود یہ کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو بشارت دینے والا ہے اور منکرین کو ڈرانے والا ہے اس کے بعد لوگوں کی رو گردانی کا تذکرہ فرمایا باوجود یہ کہ قرآن خوب اچھی طرح واضح طور پر بیان فرماتا ہے بشیر بھی ہے اور نذیر بھی اکثر لوگ اس کی طرف سے اعراض یعنی رو گردانی کرتے ہیں اور ساری سنی ان سنی کردیتے ہیں گویا کہ انھوں نے سنا ہی نہیں اسی کو فرمایا (فَاَعْرَضَ اَکْثَرُھُمْ فَہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ) اور نہ صرف یہ کہ ایمان نہ لائے اور جو کچھ سنا تھا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرکے یوں کہنے لگے کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ لگی ہوئی ہے تمہاری دعوت نہ ہمارے کان سننے کو تیار ہیں اور نہ ہمارے دلوں کو اس کا قبول کرنا گواراہ ہے اور مزید یوں کہا کہ تم اگرچہ حسی اور جسمانی طور پر قریب ہو لیکن حقیقت میں ہمارے اور تمہارے درمیان بعد ہے اور پردہ ہے جو کچھ کہو ہم سننے اور ماننے والے نہیں ان لوگوں نے یہ بھی کہا (فَاعْمَلْ اِنَّنَا عَامِلُوْنَ ) کہ آپ اپنا عمل کرتے رہیں ہم اپنے دین کے مطابق عمل کرتے رہیں گے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ تمہارا کاٹ کریں گے یہ کہہ کر دعوت حق سننے اور قبول کرنے سے بالکل ہی انکاری ہوگئے۔ ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ ہمارے دلوں پر پردے ہیں اور کانوں میں ڈاٹ ہے چونکہ اس سے اصرار علی الکفر مقصود تھا اس لیے (وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ آذَانِھِمْ وَقْرًا) اس کے منافی نہیں ہے جس میں جَعْلُ الْاَکِنَّۃِ عَلَی الْقُلُوْبِ کی نسبت اللہ جل شانہٗ کی طرف کی گئی ہے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ

امام فخرالدین محمد بن عمررازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ حٰم ٓ السجدۃ : ٦ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

آپ یوں فرمائیں کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ میں تم کو جبر اور قہر سے ایمان کے ساتھ متصف کروں کیونکہ میں تمہاری مثل بشر ہوں اور میرے اور تمہارے درمیان صرف یہ امتیاز ہے کہ اللہ عزوجل نے میری طرف وحی نازل فرمائی ہے اور تمہاری طرف وحی نازل نہیں کی، پھر اگر اللہ تم کو توحید پر ایمان لانے کی توفیق دے تو تم ایمان لاؤ اور اگر وہ تم کو اس توفیق سے محروم رکھے تو تم اس پر ایمان لانے کو رد کردو۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٤١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

میں فرشتہ نہیں ہوں اولاد آدم سے ہوں۔ حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس قول سے آپ کو تواضع کی تعلیم دی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٣٠٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :

میں فرشتہ یا جن نہیں ہوں کہ تمہارے لیے مجھ سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہو اور نہ میں تمہیں کسی ایسی چیز کی دعوت دیتا ہوں جس میں عقل اور کان متنفر ہوں، میں تو تم کو صرف توحید کی اور نیک عمل کی دعوت دیتا ہوں، جن کی صحت پر عل دلالت کرتی ہے اور نقل بھی اس کے درست ہونے پر شاہد ہے۔ (تفسیر بیضاوی مع ابخفاجی ج ٨ ص ٢٩٣۔ ٢٩٢۔ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٥١٧ ھ)

الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ

اس پر اشکال ہوتا ہے کہ یہ آیات تو مکی ہیں اور زکوۃ تو مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ ان پر عدم ادائیگی کا الزام کیسے درست ہے ؟ تو اس کا جواب حافظ ابن کثیر (رح) دیتے ہیں کہ اصل زکوۃ ابتداء اسلام میں نماز کے ساتھ فرض ہوئی تھی جس کا ذکر سورة مزمل میں آیا ہے۔ مگر اس کے نصابوں کی تفصیلات اور وصول یابی کا انتظام مدینہ طیبہ میں ہوا ہے۔ اس پر اشکال ہوتا ہے کہ کفار پر زکوۃ کا فرض عائد ہی نہیں ہوتا ان پر عتاب کیسا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے ائمہ کے نزدیک کفار مخاطب بالفروع ہیں اس لیے زکوۃ ادا نہ کرنے پر ان کو عتابکیسا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بہت سے ائمہ کے نزدیک کفار مخاطب بالفروع تو نہیں ہیں مگر تر ک زکوۃ اس لیے ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے ہیں ان کا قصور ہے کہ تم مومن ہوتے تو زکوۃ کی پابندی کرتے۔ (محصلہ بیان القرآن)

 یہاں ایک یہ بھی اشکال ہوتا ہے کہ احکام اسلام میں نماز مقدم ہے اس کا ذکر تو نہیں کیا زکوۃ کا خصوصیت سے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ تو اس کا جواب علامہ قرطبی وغیرہ نے یہ دیا ہے کہ قریش عرب مالدار لوگ تھے صدقہ خیرات غریبوں کی اعانت ان کا وصف خاص تھا۔ اگر جو آدمی مسلمان ہوجاتا تو یہ لوگ اس کو خاندانی اور معاشرتی امداد سے بھی محروم کردیتے تھے اس کی مذمت کرنے کے لیے خصوصیت سے زکوۃ کا ذکر کیا ہے۔ (قرطبی : ص : ٢٩٨: ج : ١٥: طبع پشاور)

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ

” لھم اجر غیر ممنون “ لفظ ” ممنون “ مقطوع کے معنی میں ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایمان و عمل صالح کے پابند لوگوں کو آخرت میں جو اجر دیا جائے گا وہ ہمیشہ کے لیے ہوگا وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اور دوسرا معنی ” ممنون “ کا کرتے ہیں احسان جتلایا گیا اور جس چیز کا احسان جتلایا گیا ہو اس کی وہ وقعت نہیں بنسبت اس کے کہ جس کا احسان نہ جتلایا گیا ہو تو یہ جو تمہیں اجر ملے گا اللہ تعالیٰ احسان نہیں جتلائے گے۔ اور بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے جن اعمال صالحہ کا اجر کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ختم نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں میرا بندہ جو عمل تندرستی اور فرصت کے اوقات میں پابندی سے کیا کرتا تھا اس کے اس عذر کے جال میں اس کے نامہ اعمال میں لکھتے رہیں۔ اس قسم کے مضمون کی احادیث بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے اور شرح السنۃ بغوی میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) سے اور رزین سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہیں۔ (تفسیر مظہری : ٢٨٢، ٢٨٣: ج : ٨)

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے جسم میں کوئی بیماری ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی حفاظت کرنے والے فرشتوں سے فرماتا ہے : میرا بندہ جو نیک عمل کرتا تھا، اس کے صحیفہ اعمال میں ہر روز وہ عمل لکھتے رہو۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٤٦، المعجم الکبیر ج ١٧ ص ٢٨٤)

نیز حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ کسی اچھے طریقے سے عبادت کررہا ہو پھر وہ بیمار ہوجائے تو جو فرشتہ اس پر مامور ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تندرستی کے ایام میں جو عمل کرتا تھا اس کا وہ عمل لکھتے رہو حتیٰ کہ وہ تندرست ہوجائے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٦٨٩٥، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٣٠٣)

عون بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن اور اس کی بیماری پر بےقراری تعجب خیز ہے، اگر اس کو معلوم ہوجائے کہ اس کی بیماری میں کتنا اجر ہے تو وہ چاہے گا کہ وہ تاحیات بیمار ہی رہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان کی طرف سر اٹھا کر ہنسنے لگے، آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کس وجہ سے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے دو فرشتوں کو دیکھ کر تعجب ہوا، وہ ایک جائے نماز میں اس کی نمازی کو ڈھونڈ رہے تھے، اس جگہ وہ نمازی نہیں ملا تو وہ واپس چلے گئے، پھر انھوں نے عرض کیا : اے ہمارے رب ! ہم تیرے فلاں بندہ کا نیک عمل دن رات لکھتے تھے، اب ہم کو معلوم ہوا تو نے اس کو اپنی (تقدیر) رسی سے باندھ لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم میرے بندہ کے اسی عمل کو لکھتے رہو جو وہ دن رات کیا کرتا تھا اور اس میں کوئی کمی نہ کرو اور میں نے جتنے ایام اس کو روک لیا ہے ان ایام کا اجر میرے ذمہ ہے اور جو عمل وہ کیا کرتا تھا اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٣١٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، مسند البزار ج ٢ ص ٣٦٥، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٣٠٧، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی بندہ بیمار ہوجائے یا کسی سفر پر جائے تو اس کو اس کے ان نیک اعمال کا اجر ملتا رہے گا جو وہ صحت کے ایام میں حالت اقامت میں کیا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٩٩٦، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٠٩١، مسند احمد رقم الحدیث : ١٩٩١٥، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٥٣٤)

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ

پھر اللہ کی قدرتوں کا ذکر کرتے ہوئے آسمانوں اور جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ رب العٰلمین یعنی وہ جہانوں کا رب ہے۔ موجودہ سائنس دان بھی اس نتیجہ پر اب پہنچا ہے کہ اس کائنات میں اس دنیا کے علاوہ بیشمار دنیائیں موجود ہیں۔ اس زمین کی حیثیت پوری کائنات میں ایک باریک ذرے کے برابر ہے کیونکہ ہمارا تعلق اس زمین سے بہت قریب ہے اس لیے صرف اسی کا ہی یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح آسمان بھی سات بنائے گئے ہیں جن میں ہمارا قریب ترین آسمان وہ ہے جس کو اللہ نے فرمایا کہ ستاروں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں سائنسی حقائق کی روشنی میں تفصیلات پچھلے اسباق میں گزر چکی ہیں۔

 ایک بہت بڑی حقیقت کہ زمین کی تخلیق پہلے ہوئی اور آسمان کی بعد میں ہوئی جبکہ دوسری بڑی حقیقت کہ آسمان دھوئیں اور مختلف گیسوں کا مجموعہ ہے۔ تیسری بڑی حقیقت یہ بیان کی گئی کہ آسمان صرف یہ ہی نہیں جو ہمیں ستاروں سے بھرا ہوا چھت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ چوتھی حقیقت یہ ہے کہ ہر آسمان کا علیحدہ علیحدہ کام ہے۔ جیسا کہ ہمارے آسمان دنیا میں حفاظت کے لیے کئی مختلف مفید قسم کی گیسوں کی بیشمار مضبوط تہیں بنائی گئی ہیں جو انپا اپنا کام کرتے ہوئے ہمیں شہاب ثاقب کی بارش سے محفوظ کرتی ہیں اور اسی طرح بیشمار فضائی آفات سے بچا کر ہمیں مناسب ترین فوائد مہیا کرتی ہیں : مثلاً اوزون کی تہہ ہمیں سورج کی جلا دینے والی تپش سے بچا کر انتہائی مناسب روشنی اور گرمی مہیا کرتی ہے جو انسان کی بقا کے لیے بےحد ضروری ہے۔ آج سائنسدان ان گیسوں کو مختلف نام دیتے ہیں۔ مثلاً وہ یوں کہتے ہیں کہ یہ دھواں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسیجن اور آبی بخارات کا آمیزہ ہے۔ جب کہ زمین کا سب سے پہلا ہوائی کرہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات پر مشتمل ہے اور یہ دونوں گیسیں دھوئیں کے اہم اجزاء ہیں۔ اس گیسی حالت سے ستاروں کے وجود میں آنے کا عمل اب بھی جاری ہے اور جاری رہے گا، اس گیسی عمل کو سائنسدان Nelulae یعنی ستاروں کے وجود میں آنے کا عمل کہتے ہیں۔ یہ تمام نظام کائنات بےحد پیچیدہ مگر انتہائی مناسب موزوں اور مستحکم ہے۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آسکتا۔ اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کے منظم منصوبے کے مطابق زمین و آسمان کو مل کر ایک کام پر لگنا تھا جس پر ان کو لگا دیا گیا اور اب قیامت تک وہ اس کام سے ہرگز کوتاہی، لاپرواہی یا سستی نہیں کرسکتے یہ اللہ کا ان کو حکم ہے جس کی نافرمانی وہ ہرگز نہیں کرسکتے۔ اس سے اللہ کی حاکمیت اور قدرت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

 ڈاکٹر دلدار احمد قادری صاحب اس آسمان و زمین کے رابطہ کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ تھا کہ آسمان و زمین باہم مربوط رہیں۔ جیسا کہ فی الحقیقت یہ ہیں۔ زمین شمسی نظام کا حصہ ہے۔ جو خلاء میں سفر کر رہا ہے۔ اور ایسے کرنے کے دوران وہ کئی coments کے راستوں سے گزرتا ہے۔ اور یہ کہ وہ تمام مادہ جو اللہ نے پیدا کیا ہے ان قوانین کی پیروی کرتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کئے ہیں۔ (از کائنات قرآن اور سائنس) مندرجہ بالا آیات کافی مشکل آیات ہیں۔ میں نے ان کی وضاحت بڑے ہی عام الفاظ میں کی ہے۔ کیونکہ ان کی وضاحت یا پوری طرح تمام رازوں سے واقف ہونا ابھی تک بڑے بڑے سائنسدانوں کی عقل سے بھی پوشیدہ ہیں۔ جب کہ کائنات کے بارے میں مختلف ماہرین مثلاً کا سمولوجی، ایسٹرو فزکس یا ایسٹرونومی کے ماہرین دن رات تحقیقات اور تجربات میں مصروف ہیں۔ کچھ معلومات بڑے دلچسپ انداز میں داکٹر دلدار احمد قادری صاحب نے لکھی ہیں ملاحظہ ہو:

Horizons by Michael A. Seeds – Page 386″

زمین ابتدا میں Protoplanet (زمین کی ابتدائی شکل) کے طور پر ظہور میں آئی۔ یہ مندرجہ ذیل چار مدراج سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچی : پہلا مرحلہ ” تفریق “ ( Differentiation )

یہ مرحلہ زمین کے ابتدائی طور پر وجود میں آنے کے دوران یا فوراً بعد میں شروع ہوا۔ یہاں تفریق سے مراد زمین کے مادوں کا کثافت کے فرق کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ ہونا ہے۔ اس مرحلے کے دوران زمین کے بھاری عناصر لوہا اور نکل زمین کے مرکز میں جمع ہوئے اور ہلکے مادے سلیکیٹس (Silicates) باہر کی طرف تیرتے ہوئے اٹھے اور سطح پر آگئے انھوں نے بالآخر ٹھوس حالت اختیار کر کے ایک پتلی تہہ کی شکل اختیار کی اس تہہ کو قشر (Crust) (زمین کا چھلکا) کہتے ہیں۔ چنانچہ تفریق کے مرحلے میں زمین بلند کثافت کے مرکز اور ادنیٰ کثافت کے قشر کی شکل میں متمیز ہوئی۔

گڑھوں کی تشکیل (Cratering)

یہ مرحلہ قشر ارض کے ٹھوس حالت اختیار کرنے پر شروع ہوا۔ شمسی بادل (Nebula Solar) میں موجود شہابوں کی بو چھاڑ سے قشر میں گڑھے بننے لگے۔ یہ عمل شمسی بادل کے چھٹنے تک جاری رہا۔ اس عمل میں زمین کے قشر میں اونچ نیچ پیدا ہوئی یعنی نشیب و فراز ظاہر ہوئے۔

سیلاب اندازی (Flooding) یہ اس مرحلے میں زمین کے قشر میں بننے والے نشیب (گڑھے) لاوا یا پانی یا دونوں سے بھر گئے۔ جب تابکار عناصر (Radioactive elements) کے زوال (Decay) کے عمل نے زمین کے اندرونی حصہ کو گرم کیا تو اندر کالا وا زمین کے قشر میں موجود زروں کے ذریعے عود کر باہر نکلنے اور گہرے نشیبوں میں جمع ہونے لگا۔ بعد میں جیسے جیسے کرہ ہوائی ٹھنڈا ہوا تو آبی بخارات کی تکثیف (Condensation) ہوئی اور وہ بارش کی شکل میں برسنے لگے پھر یہ پانی زمین کے قشر کے نشیبوں (گڑھوں) میں جمع ہوا اور اس نے ابتدائی سمندروں کی تشکیل کی۔

سطح کا سست رو ارتقاء (Slow Surface Evolution)

زمین کی سطح آہستہ آہستہ تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہوئی کوئی 3.5 ارب سالوں میں موجودہ شکل تک پہنچی۔ کئی عوامل (Factors) ہیں جنہوں نے زمین کی سطح کو موجودہ شکل تک لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ قشر زمین بڑے بڑے قطعوں (Sections) پر مشتمل ہے جو حرکت میں ہیں اور آپس میں باہمی عمل (Interaction) کرتے رہتے ہیں۔ قشر زمین کی قدیم تر تاریخ تو معلوم نہیں لیکن تقریبا 250 ملین سال (25 کروڑ سال) قبل آج کے تمام براعظم (Contenents) آپس میں جڑے ہوئے اور ایک ہی قطع کی شکل میں تھے جسے پنگائیا (Pangaea) کہتے ہیں۔ 25 کروڑ سال قبل زمین کے قشر کے نیچے کے حصے (Mantle) میں چلنے والی لہروں نے Pangaea کو دو قطعوں میں توڑ دیا۔ آگے چل کر ان قطعوں میں مزید تقسیمی عمل ہوا اور نئے قطعے وجود میں آئے اور سطح نے موجودہ شکل اختیار کی۔ پانی کے بہاؤ اور ہواؤں نے بھی زمین کی سطح کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ زمین کے قشر میں موجود قطعوں کے باہمی عمل کو Plate Tectonics کہا جاتا ہے اکثر پہاڑوں کی تشکیل اسی عمل میں ہوئی ہے۔ شروع میں زمین کا کر رہ ہوائی زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائید اور آبی بخارات پر مشتمل تھا۔ جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت گرتا گیا کرہ ہوائی کے بخارات بارش بن کر برستے رہے اور سمندروں کی جسامت بڑھتی گئی۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ نے پانی میں حل ہو کر حل شدہ مرکبات کے ساتھ تعامل کر کے کاربونیٹس (carbonates) اور دوسرے Mineral sediments) دھاتیں بنائیں۔ ہوا میں بڑی مقدار میں نائٹروجن گیس باقی رہ گئی۔ جب زمین 25 ارب سال کی ہوئی تو اس کا کرہ ہوائی میتھین (Methane) اور امونیا سے صاف ہوچکا تھا۔ زندگی کا آغاز زمین کی تشکیل کے ایک ارب سال کے اندر ہوا۔ شروع میں جو زندہ اشیاء وجود میں آئیں انھوں نے کرہ ہوائی کو کوئی خاص متاثر نہیں کیا۔ لیکن کوئی 33 ارب سال قبل جب پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کا عمل شروع ہوا تو کرہ ہوائی کی کاربن ڈائیـ آکسائیڈ اس عمل میں استعمال ہونے لگی۔ اس عمل میں آکسیجن گیس پیدا ہوتی ہے۔ اس آکسیجن کے ہوا میں خارج ہونے سے ہوا میں آکسیجن کی مقدار بڑھی۔ آج ہوا میں کوئی 21 فیصد آکسیجن گیس ہے اور 18 فیصد نائٹروجن ہے۔ باقی دوسری گیسیں ہیں جیسے ارگن، کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ۔ (از کائنات قران اور سائنس )

یہ سب کچھ قرآن کے حکم کے مطابق ہے کہ کائنات میں غور و فکر کرو۔ ماہرین فلکیات و سائنسدان دن رات نئی نئی دریافتوں اور کائنات کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی ٹھیک اور کبھی غلط نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ جبکہ قرآن پاک کے بتائے ہوئے راز اور بیشمار طبی سائنسی حقائق کی طرف کئے گئے اشارات بالکل سچ اور نہ بدلنے والے ہیں۔ انسان لگا ہوا تو ضرور ہے لیکن اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات کے راز انتہائی معمولی حد تک جان سکے ہیں۔ اور جو جان سکے ہیں ان میں بھی اکثر غلط ثابت ہوتا ہے مثلاً سورج کا ٹھہرے رہنا۔ جب کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ سورج اپنے مستقر کی طرف چل رہا ہے۔ اب سائنسدان بھی اس سے متفق ہوگئے ہیں۔ اسی طرح بہت سی بنیادی حقیقتیں قرآن پاک میں چودہ سو سال پہلے بتائی جا چکی ہیں۔ اور یہی حقیقتیں قرآن کے سچ ہونے، نبی کے اللہ کا رسول ہونے اور اللہ کے واحد لاشریک ہونے کے پکے ثبوت ہیں۔ حیرت کی بات ہے اتنا کچھ صاف صاف جان لینے کے بعد بھی ہمیشہ سے لوگ اللہ کا انکار، نبی کا انکار اور قرآن کا انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تو ایسے نافرمان لوگوں کے برے انجام سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ بیشمار قوموں نے اللہ کا انکار کیا خراب اور ناشکری کی زندگیاں گزار دیں اور پھر اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر دنیا سے ذلیل و خوار ہو کر رخصت ہوئے اور اس وقت قوم عاد اور ثمود کی مثال دی گئی ہے مگر آج کل کئی قومیں اسی ذلت و خواری کا شکار ہوچکی ہیں۔ ابھی حال ہی میں بہت بڑے ملک روس کا انجام ہمارے سامنے ہوچکا ہے۔

فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهًا ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ

” چلے آؤ “ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکم کے تابع بن جاؤ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ تم خوشی سے ہمارے حکم کے تابع بننا نہ چاہو، تب بھی تمہیں زبردستی تابع بننا ہی پڑے گا، یعنی زمین اور آسمان میں وہی کام ہوں کے جن کا اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق تکوینی طور پر ہم حکم دیں گے، تمہارے اندر یہ قدرت پیدا نہیں کی گئی ہے کہ تم ہمارے تکوینی احکام کی مخالفت کرسکو، لہٰذا اگر تم خوشی سے نہیں چاہو گے تو زبردستی تمہیں کرنا وہی ہوگا جو ہمارا حکم ہے۔ اس میں یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ انسان کا معاملہ کائنات کی دوسری مخلوقات سے مختلف ہے، انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے احکام کا پابند ہے، ایک تکوینی احکام ہیں، مثلا یہ کہ وہ کب پیدا ہوگا، کتنی عمر پائے گا، اسے کونسی بیماریاں لاحق ہوں گے ، اس کی کتنی اولاد ہوگی، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں، اور ان معاملات میں انسان کائنات کی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع رہنے پر مجبور ہے۔ یہاں آسمان و زمین سے یہ مکالمہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے، اور مجازی بھی، لیکن انسان کو بتانا یہ مقصود ہے کہ ان تکوینی احکام میں چونکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلنے پر مجبور ہے، اس لیے وہ ان احکام پر خوشی سے چلے، یا ان پر ناخوش ہو، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ لہٰذا ایک بندہ ہونے کی وجہ سے انسان کو وہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جو زمین اور آسمان نے کیا کہ انھوں نے کہ ہم تو خوشی خوشی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے تابع رہیں گے۔ لہٰذا غیر اختیاری معاملات میں جو بات بھی پیش آئے، انسان کو اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کم از کم عقلی طور پر راضی رہنا چاہیے۔

 اللہ تعالیٰ کے احکام کی ایک قسم اور ہے جنہیں تشریعی احکام کہا جاتا ہے، یعنی کو سی چیز حلال ہے، کونسی حرام، اللہ تعالیٰ کو کونسا کام پسند ہے، کونسا ناپسند۔ انسان کو حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ وہی کام کرے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، لیکن اس بات پر اسے اس طرح مجبور نہیں کیا گیا جیسے تکوینی احکام پر وہ مجبور ہے، بلکہ یہ احکام دینے کے بعد اسے یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان پر عمل کرے، اور اگر چاہے تو نافرمانی کا راستہ اختیار کرلے، اور یہی اس کا امتحان ہے جس کے نتیجے میں اس کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ چونکہ دوسری مخلوقات کو اس امتحان میں نہیں ڈالا گیا، اس لیے ان کو نہ تشریعی احکام دئیے گئے ہیں، اور نہ نافرمانی کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان احکام پر بھی انسان کو خوشی خوشی عمل کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی ابدی زندگی کی صلاح و فلاح اسی پر موقوف ہے۔

فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ

جن احادیث مرفوعہ میں تخلیق کائنات کے متعلق دونوں کی تعیین و ترتیب آئی ہے کہ فلاں فلاں چیز اللہ نے ہفتہ کے فلاں فلاں دن میں پیدا کی ان میں کوئی حدیث صحیح اب تک نظر سے نہیں گزری۔ حتیٰ کہ ابوہریرہ کی حدیث کے متعلق جو صحیح مسلم ہے ابن کثیر لکھتے ہیں۔ ” وہومن غرائب الصحیح وقد عللہ البخاری فی التاریخ فقال رواہ بعضہم عن ابی ہریرہ عن کعب الاحبار وہوالاصح۔ ” اور روح المعانی میں فقال شافعی سے نقل کیا ہے ” تفردبہ مسلم و قد تکلم علیہ الحفاظ علی ابن المدینی والبخاری وغیرہما وجعلوہ من کلام کعب وان ابا ہریرہ انما سمعہ منہ ولکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعًا۔ ” (باقی قرآن کریم کی اس آیت اور سورة ” بقرہ ” کی آیت “ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ” سے جو ظاہر ہوتا ہے کہ سات آسمان زمین کی پیدائش کے بعد بنائے گئے۔

اور سورة “نازعات” میں (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) 79 ۔ النازعات :30) سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین آسمان کے بعد بچھائی گئی۔ اس کے جواب کئی طرح دیے گئے ہیں۔ احقر کو ابو حیان کی تقریر پسند ہے یعنی ضروری نہیں کہ پہلی آیت میں ” ثم ” اور دوسری میں ” بعدذلک ” تراخی زمان کے لیے ہو۔ ممکن ہے ان الفاظ سے تراخی فی الاخبار یا تراخی رتبی مراد لیں۔ جیسے ” ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بالْمَرْحَمَةِ ” میں۔ یا دوسری جگہ ” عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ ۔ ” میں یہ ہی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم میں ترتیب زمانی کی تصریح نہیں۔ ہاں نعمت کے تذکرہ میں زمین کا اور عظمت وقدرت کے تذکرہ میں آسمان کا ذکر مقدم رکھا ہے جس کا نکتہ ادنیٰ تامل و تدبر سے معلوم ہوسکتا ہے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ یہ چند الفاظ اہل علم کی تنبیہ کے لیے لکھ دیے ہیں۔ ف ٧  یعنی جو حکم جس آسمان کے مناسب تھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یہ رب کو معلوم ہے کہ وہاں کون مخلوق بستی ہے اور ان کا کیا اسلوب (اور رنگ ڈھنگ) ہے۔ اتنی زمین میں ہزاروں ہزار کارخانے ہیں تو اتنے بڑے آسمان کب خالی پڑے ہوں گے ۔ ” (تفسير عثمانى)

وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ

اللہ کے دشمنوں کا دوزخ کی طرف جمع کیا جانا ان کے اعضاء کا ان کے خلاف گواہی دینا اور عذاب سے کبھی چھٹکارا نہ ہونا

ان آیات میں اللہ کے دشمنوں یعنی کافروں کی مصیبت بیان فرمائی کہ قیامت کے دن انھیں دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا جماعتیں جماعتیں بن کر اس کے قریب پہنچیں گے ایک جماعت آئے گی وہ روک لی جائے گی پھر دوسری جماعت آئے گی وہ بھی روک لی جائے گی جب یہ جماعتیں جمع ہوجائیں گی اور دوزخ کے قریب پہنچ جائیں گے تو ان کے خلاف ان کے کان اور آنکھیں اور کھالیں گا ہی دیں گی دنیا میں جو جو حرکتیں کی تھیں یہ اعضاء سب بتادیں گے کہ اس شخص نے ہمیں ایسے ایسے کاموں میں استعمال کیا آنکھیں اور کان تو اعضاء ہیں اس دن کھالیں یعنی چمڑے بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ایسے ایسے اعمال کرتے تھے۔ چمڑا تو پورے بدن کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ ہر گناہ میں استعمال ہوتا ہے سورة النور اور سورة یٰسین میں ہاتھوں اور پاؤں کی گواہی کا بھی ذکر ہے جب کافروں کے اعضاء ہی ان کے خلاف گواہی دے دیں گے جن کے بارے میں انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ کہیں گے کہ (لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا) کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی اس گواہی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہیں بھی عذاب ہوگا اور ہمیں بھی، کیونکہ ہمارے جسم کے اجزاء میں تم بھی شامل ہو ہمارے برے اعمال سے منکر ہونا تمہارے بچانے کے لیے ہی تو تھا اگر گواہی دے کر تم عذاب سے بچ جاتے تو تمہیں گواہی دینے کا کچھ فائدہ پہنچ جاتا۔ اعضاء کہیں گے کہ ہماری کیا مجال تھی کہ نہ بولتے اور خاموش رہ کر گواہی کو چھپالیتے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں زبان دے دی اور حکم دے کر کہلوایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم گواہی نہ دیتے تمہارا جو خیال تھا کہ ہم بول نہیں سکتے یہ خیال غلط تھا اللہ جسے چاہے بولنے کی قوت دے سکتا ہے جس نے ہر ہر بولنے والی چیز کو بولنے والا بنایا اسی نے ہمیں بھی قوت گویائی عطا فرما دی۔

صحیح مسلم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے آپ کو ہنسی آگئی آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو میں کس بات سے ہنس رہا ہوں ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا (قیامت کے دن) بندہ جو اپنے رب سے مخاطب ہوگا اس کی وجہ سے مجھے ہنسی آگئی بندہ کہے گا اے رب کیا آپ نے مجھے اس بات کا وعدہ نہیں دے دیا کہ مجھ پر ظلم نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا ہاں تجھ سے یہ وعدہ ہے اس پر وہ کہے گا کہ بس تو میں اپنے خلاف کسی کی گواہی کو تسلیم نہیں کرتا سوائے ایسے گواہ کے جو مجھ ہی میں سے ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا کہ آج تیرا نفس ہی تیرے خلاف گواہی دینے کو کافی ہے، اور کراماً کاتبین بھی تیرے خلاف گواہی دینے کو کافی ہیں، اس کے بعد اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا کہ بولو لہٰذا اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے پھر اسے بولنے کی قوت دے دی جائے گی۔ لہٰذا وہ اپنے اعضاء سے کہے گا کہ دور ہو تمہارے لیے ہلاکت ہے تمہاری ہی طرف سے تو میں جھگڑا کر رہا تھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٨٥) یعنی میں نے جو یہ کہا تھا کہ اپنے نفس کے خلاف کسی کی گواہی قبول نہیں کروں گا الایہ کہ میرے اندر کی کوئی چیز ہو اس کا مقصد ہی تو یہ تھا کہ تم عذاب سے بچ جاؤ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ منافق قیامت کے دن یوں کہے گا کہ اے رب میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی کتاب اور آپ کے رسولوں پر ایمان لایا اور میں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور صدقات دئیے اور جہاں تک ممکن ہوگا اپنی تعریف کرے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا یہاں ابھی پتہ چل جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ ہم ابھی گواہ پیش کرتے ہیں اس پر وہ اپنے نفس میں سوچے گا کہ کون ہے جو میرے خلاف گواہی دے گا پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران سے اور گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا کہ بولو ! لہٰذا اس کی ران اور اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال پر گواہی دیں گی یہ گفتگو اس لیے کرائی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہ رہے یہ جو کچھ مذکور ہوا منافق سے متعلق ہے اس سے اللہ تعالیٰ کو ناراضگی ہوگی۔ (صحیح مسلم ص ٤٠٩)

یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة النور میں فرمایا کہ مجرمین کی زبانیں بھی گواہی دیں گی اور سورة یٰسین میں اور مسلم شریف کی حدیث میں فرمایا کہ منہ پر مہریں لگا دی جائیں گی اس میں بظاہر تعارض ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مختلف احوال کے اعتبار سے ہے بعض احوال میں زبانیں گواہی دیں گی اور بعض مواقع میں ان پر مہر لگا دی جائے گی۔

(وَّھُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلی بار دنیا میں پیدا فرمایا پھر مرجاؤ گے اور اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے) اسی نے دنیا میں زبان کو بولنا سکھایا آخرت میں دوسرے اعضاء کو بھی بولنے کی طاقت دیدے گا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ

یہ بھی کافروں سے خطاب ہے وہاں ان سے کہا جائے گا کہ تم دنیا میں جو کام کرتے تھے اس کا تمہیں ذرا بھی احتمال نہ تھا کہ قیامت کے دن تمہارے کان اور آنکھیں چمڑے تمہارے خلاف گواہی دیدیں گے لہٰذا تم ان سے نہ چھپتے تھے نہ چھپ سکتے تھے جس کی وجہ سے تم دلیری کے ساتھ گناہ کرتے تھے تم سمجھتے تھے کہ ہمارے خلاف گواہی دینے والا کوئی نہ ہوگا مخلوق کے بارے میں تو تمہارا خیال تھا ہی تم نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہی خیال کر رکھا تھا کہ وہ تمہارے بہت سے اعمال کو نہیں جانتا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیت اللہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے، یہ بہت موٹے اور جسیم تھے اور ان کے دلوں میں فقہ بہت کم تھی، پس ان میں سے ایک نے کہا : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سن رہا ہے، دوسرے نے کہا : اگر ہم زور سے باتیں کریں گے تو وہ سنے گا اور اگر آہستہ باتیں کریں گے تو وہ نہیں سنے گا، دوسرے نے کہا : اگر وہ ہماری زور سے کی ہوئی باتیں سن سکتا ہے تو وہ ہماری آہستہ سے کی ہوئی باتیں بھی سن سکتا ہے، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : اور تم اس وجہ سے اپنے گناہ نہیں چھپاتے تھے۔ الخ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨١٧، سنن الرتمذی رقم الحدیث : ٣٢٤٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٤٦٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٣٢٨ )

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا آلہ اور ذریعہ چونکہ قرآن تھا اس لیے منکرین حق نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم لوگ اسے مت سنا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے دلوں پر اس کا اثر ہوجائے اور اس کی وجہ سے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ ہو جاؤ۔ اس لیے جب بھی وہ تمہیں قرآن سنانے کی کوشش کریں تم شور مچانا (hooting) شروع کردیا کروتا کہ اس کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن مجید کی تلاوت چونکہ غیر معمولی تاثیر کی حامل تھی اور اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا پیغام تیزی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا تھا ‘ اس لیے مشرکین مکہ ّاس عمل کو روکنے کے لیے اپنے زعم میں گویا ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ خم ٹھونک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں آگئے۔

جو لوگ ایسی گھٹیا، نیچ غیر سنجیدہ اور اوچھی حرکتیں کر رہے ہیں وہ اپنے بد ترین انجام سے بےخبر ہیں ورنہ وہ ایسی باتیں نہ کرتے ۔ جب قیامت کے دن ان کو ان کے برے اعمال کی سزا شدید ترین عذاب دیا جائے گا ۔ فرشتے ان کو جہنم کی آگ میں جھونکنے کے لیے گھسیٹتے ہوئے لائیں گے تو اس وقت وہ نہ صرف شرمندہ ہوں گے بلکہ اپنے کئے پر پچھتا کر ان لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا اور سبز باغ دکھائے تھے۔ وہ بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش کریں گے کہ الٰہی ! انسانوں اور جنات میں ان لوگوں کو ہمارے سامنے لایئے جو ہمارے اس بگاڑ اور تباہی کا سبب بنے ہیں ، وہ اگر آج ہمارے سامنے آجائیں تو ہم ان کو پاؤں تلے روند ڈالیں گے اور رسوا اور ذلیل کر کے رکھ دیں گے۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ

یعنی کافر لوگ کہیں گے اے اللہ ہمیں وہ لوگ دکھادے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ انسانوں میں سے قابیل اور جنوں میں ابلیس مراد ہے قابیل اس لیے کہ اس نے سب سے پہلے قتل کیا ہے اور ابلیس اس لیے کہ اس نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے یہ کفر کیا ہے۔ لوگ کہیں گے ہم انھیں اپنے پاؤں کے نیچے کچلنا چاہتے ہیں۔ علامہ آلوسی (رح) نے اس مقام پر لکھا۔ قابیل مومن گناہ گار تھا کافر نہیں تھا۔ (روح المعانی : ص : ٥٠٨: ج : ٢٤)

 دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہر گمراہ کرنے والا انسان اور ہر گمراہ کرنے والاجن مراد ہے۔ کہ یہ دنیا میں ہمیں سبز باغ دکھاتے رہے اور ہمیں سفارش کے ذریعے آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے رہے آج یہ ہمیں نظر نہیں آرہے ذرا ان کو ہمیں دکھا تو دے کہ ہم ان سے کچھ سوال وجواب یہیں کرلیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ

یعنی جس لوگوں نے دل گہرائیوں سے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہی ہے۔

 امام رازی (رح) فرماتے ہیں استقامت کے بارے میں دو قول ہیں پہلا قول یہ ہے کہ اس سے مراد توحید پر استقامت اختیار کرنا ہے اس قول پر دلیل حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا فرمان ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو الٰہ مت مانو صرف اسی کی طرف توجہ کرو۔ (کبیر : ص : ٥٦٠: ج : ٢٧)

 علامہ بغوی (رح) لکھتے ہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہے استقامت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی پر پابند رہو لومڑی کی طرح ادھر ادھر پھسلنے کی کوشش مت کرو۔ حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں استقام کا مطلب یہ ہے کہ عمل میں اخلاص پیدا کرو۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں استقامت کا مطلب یہ ہے عمل میں اخلاص پیدا کرو۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ فرائض کو ادا کرو۔ حضرت حسن بصری (رض) فرماتے ہیں استقامت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور گناہوں سے بچتے رہو۔ (معالم التنزیل : ص : ١٠١: ج : ٤: مظہری : ص : ٢٩٢: ج : ٨)

 اور دوسرا قول یہ ہے کہ اعمال صالحہ پر استقامت اختیار کرنا۔ (تفسیر کبیر : ص : ٥٦٠: ج : ٢٧)

 فائدہ : امام رازی (رح) فرماتے ہیں انسان کو جو کمالات حاصل ہوتے ہیں وہ دو قسم پر ہیں پہلی قسم علم یقینی ہے وہ صرف وحی الٰہی سے حاصل ہوتا ہے تو کامل انسان وہ ہوگا جس کو یقینی علم حاصل ہوگا۔ باقی تمام علوم یا تجرباتی ہوں گے یا ظنی۔ انسانی کمالات کا دوسرا ذریعہ عمل صالحہ ہے جو شخص اچھے اعمال سر انجام دے گا وہ کامل آدمی سمجھاجائے گا۔ الغرض کامل شخص وہ ہے جو علم یقینی کے ساتھ عمل صالح بھی سر انجام دیتا ہے۔ (تفسیر کبیر : ص : ٥٦٠: ج : ٢٧)

 تتنزل علیھم: فرشتے ان پر اترتے ہیں فرشتوں اہل استقامت پر اترنا ان کا انتہائی اعزازو اکرام ہے۔ الا تخافوا ولا تحزنوا۔۔ الخ  ایک تفسیر یہ ہے کہ توحید پرستوں کو موت کے وقت یہ بشارت دی جائیں گی تاکہ دنیا سے جدائی کا صدمہ نہ ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس وقت قبروں سے نکلیں گے فرشتے انھیں کہیں گے کہ ”ألا تخافوا ولا تحزنوا“ تیسری تفسیر یہ ہے کہ قبر میں فرشتے اہل ایمان کو کہتے ہیں ” الا تخافوا ولا تحزنوا “۔ (معالم التنزیل : ص : ١٠١: ج : ٤: کبیر : ص : ٥٦١: ج : ٢٧: مظہری : ص : ٢٩٣: ج : ٨)

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا

داعی الی اللہ کی فضیلت، اخلاق عالیہ کی تلقین، شیطان سے محفوظ ہونے کے لیے اللہ کی پناہ لینا

ان آیات میں داعی الی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے اشخاص و افراد کی فضیلت بیان فرمائی اور بعض امور پر تنبیہ کی ہے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یوں کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں، اس میں یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جو شخص بلائے یعنی توحید کی دعوت دے اور اس کے دین اور احکام دین قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دے اسے خود بھی اعمال صالحہ میں لگنا چاہیے جب خود عمل کرے گا تو دوسروں کو اعمال صالحہ کی دعوت دینا بھی مفید اور نافع ہوگا اور جو شخص داعی ہو اس میں تواضع بھی ہونی چاہیے حق کی دعوت بھی دے اور اپنے کو بڑا بھی نہ سمجھے اپنے بارے میں یوں کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں اپنے علم کو تکبر اور غرور کا ذریعہ نہ بنالے جب کوئی شخص حق کی دعوت لیے کھڑا ہوتا ہے تو تکے بےتکے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے معاندین اور متکبرین سامنے آتے ہیں زبان سے اور ہاتھ سے تکلیف دیتے ہیں ایسے مواقع پر صبر کرنا درگزر کرنا مناسب ہوتا ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دینا برائی کا بدلہ برائی سے دینا مناسب نہیں ہوتا، اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے اور اسی قدر دیا جائے جتنی زیادتی دوسرے نے کی ہے تو یہ جائز تو ہے لیکن خوبی اور بہتری حلم اور برداشت ہی میں ہے۔ اسی کو فرمایا (وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلا السَّیِءَۃُ) کہ اچھا برتاؤ اور برا برتاؤ برابر نہیں ہے پھر فرمایا (ادْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ) جو اچھی خصلت ہے اور عمدہ طریقہ ہے اس کو اختیار کیجیے اس کے ذریعہ مخالف کی بد معاملگی اور برے برتاو کو دفع کیجیے (فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَهُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّهُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) جب ایسا کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جس شخص سے آپ کی دشمنی تھی وہ آپ کا خالص دوست بن جائے گا۔

وَمِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ

رات اور دن چاند اور سورج اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ان کے پیدا کرنے والے کو سجدہ کرو

ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر بعض دلائل قائم فرمائے ہیں اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے رات بھی ہے اور دن بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں اور سورج اور چاند بھی اس کی نشانیوں میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا اور روشنی بخشی اور ان کے گردش کرنے کا مدار مقرر فرمایا اور طلوع و غروب کے اوقات مقرر فرمائے جس ذات پاک نے ان کو پیدا فرمایا صرف وہی مستحق عبادت ہے۔

(لاَ تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ) یہ مشرکین کو خطاب ہے مطلب یہ ہے کہ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ان کو بڑی چیزیں سمجھ کر سجدہ کرتے ہو حالانکہ جس نے انھیں پیدا کیا وہ سب سے بڑا ہے اور صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اسی کو فرمایا (وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ) (اور اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا) (اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ) (اگر تم ان کے پیدا کرنے والے کی عبادت کرتے ہو) مطلب یہ ہے کہ اگر خالق کی عبادت کرتے ہو تو مخلوق کی عبادت نہ کرو خالق کی وہ عبادت معتبر نہیں جس کے ساتھ مخلوق کی بھی عبادت کی جاتی ہو لہٰذا شرک اختیار کرتے ہوئے تمہارا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم اللہ کے عبادت گزار ہیں یہ غلط ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا

ملحدین ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں، جو چاہو کرلو اللہ دیکھتا ہے

قرآن مجید سے نفع حاصل کرنے والے اہل ایمان ہیں اور دو جماعتیں ایسی ہیں جو قرآن کی دشمن ہیں ایک جماعت تو وہ ہے جو قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہی نہیں یہ لوگ منکرین ہیں اور دوسری جماعت وہ ہے جو یوں نہیں کہتے کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں ہے لیکن ان کی دشمنی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قرآن کا مطلب اپنی طرف سے تجویز کرتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے مطابق آیات اور کلمات کا مطلب بتاتے ہیں یہ لوگ ملحدین ہیں جو قرآن میں کجروی نکالتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے الحاد کا یہی مطلب بتایا اور فرمایا یَصَفُون الکلام فی غیر موضعہٖ یعنی آیات کا مطلب اپنی طرف سے تجویز کرتے ہیں متشابہات کے پیچھے پڑنا اپنی نکالی ہوئی بدعتوں اور خواہشوں کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنا یہ سب الحاد کی صورتیں ہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی (رض) مسائل سلوک میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں ودخل فیہ غلاۃ الصوفیۃ نفیھم التفسیر المنقول و اختراھم ما یخالف الاصول یعنی اس میں غلو والے صوفی بھی داخل ہیں جو منقول تفسیر کی نفی کرتے ہیں اور اپنے پاس سے وہ چیزیں نکالتے ہیں جو اصول کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے فرمایا کہ جو لوگ ہماری آیات میں کجروی اختیار کرتے ہیں ان کا حال ہم پر پوشیدہ نہیں ہے انھیں الحاد اور بےدینی کی سزا ملے گی۔ اس کے بعد فرمایا (اَفَمَنْ یُّلْقَی فِی النَّارِ) قیامت کے دن دو قسم کے لوگ ہوں گے جو امن و اطمینان کے ساتھ بےخوف ہوں گے اور جنت میں داخل کردئیے جائیں گے اور بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو حیرانی پریشانی اور گھبراہٹ کے ساتھ قبروں سے نکل کر میدان حشر میں حاضر ہوں گے پھر دوزخ میں داخل کردئیے جائیں گے اب بتانے والے بتائیں اور سمجھدار لوگ جواب دیں کہ جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص بہتر ہے جو امن و چین اور اطمینان اور سکون سے قیامت کے دن حاضر ہوگا اور پھر جنت میں بھی اسی شان سے داخل ہوگا قیامت کے دن بھی سکون اور اطمینان اور اس کے بعد بھی امن و چین کے ساتھ خوش و خرم رہے گا۔ جَعَلَنَا اللّٰہ منھم

(اعْمَلُوْا مَا شِءْتُمْ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ) (کرلو جو چاہو بیشک اللہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے اس میں تہدید ہے کہ قرآن کے مخالفین اور منکرین جو چاہیں کرلیں، اپنے کیے کی سزا پائیں گے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو کچھ کرلیں گے اس کی خبر نہ ہوگی اللہ جل شانہٗ ان کے اعمال کو دیکھتا ہے وہ ان کے اعمال کی سزا دے گا۔

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ ڼءَاَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ ۭ

مکذبین کا عناد

(وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلاَ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ) (اور اگر ہم اس کو قرآن عجمی بنا دیتے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی آیات کو کیوں واضح طریقہ پر بیان نہیں کیا گیا)

جس کو حق سے بیزار ہو اور عناد پر کمر باندھ لے اس کا نفس اور شیطان طرح طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں قریش مکہ نے ایک یہ شوشہ چھوڑا کہ یہ قرآن عربی ہی میں کیوں ہے عجمی یعنی غیر عربی زبان میں بھی ہوتا تو اس کا معجزہ ہونا اور زیادہ ظاہر ہوجاتا، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم قرآن عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ پھر بھی ایمان لانے والے نہ تھے۔ یہ لوگ اس وقت یہ حجت نکالتے کہ ہم تو عرب ہیں ہمارے سامنے تو عربی ہی میں آیات ہوتیں جن میں صاف صاف بیان ہوتا اور یہ اعتراض اٹھاتے (ءَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ) یعنی یوں کہتے کیا بات ہے کتاب عجمی اور رسول عربی ہے؟ اب جو قرآن عربی میں ہے تو کہتے ہیں کہ عربی کیوں ہے اور عجمی ہوتا تو کہتے کہ عربی کیوں نہیں مقصود محض اعتراض ہے قبول حق نہیں اسی لیے بےتکی باتیں کرتے ہیں۔ (قال صاحب الروح وحاصلہ انہ لو نزل کما یریدون لاَنکروا ایضًا وقالوا مالک وللعجمۃ اومالنا وللعجمۃ) ” صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اور حاصل یہ ہے کہ اگر قرآن انھیں کی خواہش کے مطابق نازل کیا جاتا تو بھی یہ انکار کرتے اور کہتے آپ کیا لگیں اور عجمی کیا لگے یا کہتے ہمیں غیر عربی زبان سے کیا واسطہ؟ “ (ص ١٢٩: ج ٢٤)

قرآن مومنین کے لیے ہدایت ہے اور شفا ہے

(قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَآءٌ) (آپ فرما دیجیے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے) (وَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّھُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی) اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے اور وہ ان کے حق میں اندھے پن کا سبب بنا ہوا ہے (اُولٰٓءِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ ) (یہ لوگ دور جگہ سے بلائے جاتے ہیں) یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ جیسے کسی کو پکارا جائے وہ آواز تو سنے لیکن بات نہ سمجھے حق کی آواز کانوں میں پڑتی ہے لیکن اسے سمجھنا اور قبول کرنا نہیں چاہتے۔

یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ کی تفسیر

صاحب روح المعانی لکھتے ہیں (اُولٰٓءِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ) کا یہ مطلب (جو اوپر لکھا گیا ہے) حضرت علی (رض) اور حضرت مجاہد سے مروی ہے، اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ قیامت کے دن یہ لوگ کفر اور اعمال بد کی وجہ سے برے ناموں کے ساتھ پکارے جائیں گے اور یہ پکار دور سے ہوگی تاکہ اہل موقف بھی اس آواز کو سن لیں جس سے ان لوگوں کی شہرت ہوجائے کہ یہ لوگ ایسے ایسے تھے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply