﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿1﴾
کہہ دو : بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔
اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿2﴾
اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿3﴾
نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿4﴾
اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں۔ (٥)
نام اور کوائف
اس سورة کا نام سورة الاخلاص ہے ”اخلاص“ کے معنی ہیں دل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کیلئے خاص کرنا گویا یہ سورة انسانوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے ساتھ خاص اور مختص کرنے والی ہے ،اس سورت مبارکہ میں تمام ادیان باطلہ، فرق زائغہ وضالہ، یہود، نصاریٰ ، مجوس، مشرکین اور مجمسہ، مشہبہ، حلولیۃ، اتحادیہ (جو ذات وصفات باری تعالیٰ میں الحادوکفریہ عقائد کے مرتکب ہوئے) سب کا رد ہے (کذافي الإکلیل) (ماخوذ از معارف القرآن ، مولانا عبد القيوم قاسمى)
شانِ نزول
ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں: ”مشرکین نے کہا، اے محمد ! ہمارے لیے اپنے رب کا نسب بیان کیجیے تو اللہ عزوجل نے ”قل ھو الله أحد“ نازل فرمائی۔ “ (مستدرک حاکم : ٢/٥٣٠، ج : ٣٩٨٨)
سورہ اخلاص كا خلاصہ
اس سورة کی ان چار مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی آیت میں ان کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خداؤں کے قائل ہیں، دوسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کار ساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں، تیسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد مانتے ہیں، اور چوتھی آیت میں ان لوگوں کا ردّ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے، اسی طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے، اس لیے اس سورت کو سورة اخلاص کہا جاتا ہے، اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے : توحید، رسالت اور آخرت اور اس صورت نے ان میں توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے،
سوره اخلاص كے فضائل
اس سورت کے صحیح احادیث میں بہت سے فضائل آئے ہیں، اختصار کی وجہ سے چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں:
(١) ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کو (قیام اللیل میں) ”قل ھو الله أحد“ بار بار پڑھتے ہوئے سنا (اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں پڑھ رہا تھا۔ ) صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے کم سمجھ رہا ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: (والذي نفسي بیدہ! إنھا لتعدل ثلث القرآن) (بخاری، فضائل القرآن ، باب فضل :(قل ھو اللہ احد): ٥٠١٣، ٥٠١٣)” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ سورت قرآن کے ایک ہتائی حصے کے برابر ہے۔ “
(٢) عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ نماز میں اپنی قرأت کو ” قل ھو الله أحد “ کے ساتھ ختم کرتا تھا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: (سلوہ لأي شيء يصنع ذلک؟ )” اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ “ لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: (لأنھا صفة الرحمٰن و أنا أحب أن أقرأ بھا)” اس لیے کہ یہ رحمان کی صفت ہے اور مجھے اس کے پڑھنے سے محبت ہے۔ “ تو نبی ﷺ نے فرمایا: (أخبروہ أن الله یحبه) (بخاری، التوحید، باب ما جاء في دعاء النبي ﷺ: ٨٣٨٥)” اسے بتادو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے۔“
سوتے وقت اور دوسرے اوقات میں معوذتین کے ساتھ ملا کر یہ سورت پڑھنے کی احادیث معوذتین کے فضائل مىں ذكر كى گئىں ہىں۔
تنبیہ : بعض روایات میں اس سورت کو روزانہ دو سو مرتبہ یا سو مرتبہ یا پچسا مرتبہ پڑھنے کی مختلف فضیلتیں ائٓی ہیں، مگر ان روایات کی سندیں صحیح نہیں ہیں۔ شوکانی نے فتح القدیر میں وہ روایات درج کر کے ان کا ضعف واضح کیا ہے۔ ابن کثیر نے بھی ان روایات پر کلام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورت کو تین سے زیادہ کسی عدد میں مسنون سمجھ کر پڑھنا درست نہیں۔ ہاں ڈ ! اپنی سہولت کے لیے کوئی شخص کوئی عدد مقرر کرلے، اسے مسنون نہ سمجھے تو درست ہے۔ (ماخوذ از تفسير القرآن عبد القيوم بھٹوى)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.