Surah Hashr Last 3 Ayat With Urdu Translation

Surah Hashr Last 3 Ayat With Urdu Translation

 هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ ﴿22﴾

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، وہ ہر غیب اور شہادت (باطن و ظاہر) کا جاننے والا ہے، وہ نہایت رحم فرمانے والا بہت مہربان ہے

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿23﴾

اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ بادشاہ ہے۔ ہر عیب سے پاک ذات ہے، امن دینے والا، نگہبانی کرنے والا، تمام قوتوں کا مالک، نہایت زبردست ، بڑی عظمت والا، اور اس کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے جنہیں یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

 هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿24﴾

اللہ وہ ہے جو پیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا، صورت بنانے والا سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس کی تسبیح کرتا ہے۔ وہ زبردست حکمت والا ہے۔

تشريح

ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہ کی شان الوہیت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو لوگ اس کی ذات وصفات میں اور اس کی شان الوہیت میں جس کسی کو بھی شریک بناتے ہیں وہ ان شرک کرنے والوں کے شرک سے پاک ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے اولاً عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ فرمایا یعنی وہ غائب کی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور جو چیزیں ظاہر ہیں اس کی مخلوق کے سامنے ہیں انھیں بھی جانتا ہے غیب کے مفہوم عام میں سب کچھ آجاتا ہے جو چیزیں پیدا ہو کرنا پید ہوگئیں اور جو آئندہ وجود میں آئیں گی، ازل سے ابد تک اسے ہر چیزیں کا علم ہے، جو چیزیں وجود میں کبھی بھی آئیں گی اسے ان کا بھی علم ہے اور جو چیزیں ممتنع الوقوع ہیں اسے ان کا بھی علم ہے۔ الشہادۃ کا مفہوم بھی عام ہے مخلوق کو جن چیزوں کا علم ہے اور جن چیزوں کا مخلوق کو علم نہیں وہ انھیں بھی جانتا ہے اور ان کے نہ جاننے کو بھی جانتا ہے۔

غرضیکہ ہر ممتنع اور ہر موجود اور ہر غیر موجود کا اسے علم ہے۔ جو علم اللہ نے کسی کو دے دیا اور جتنا دیدیا، اسے اسی قدر مل گیا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو کچھ علم غیب دیا گیا وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہی ملا اور اتنا ہی ملا جتنا اللہ تعالیٰ نے دیا،کما قال اللہ تبارک و تعالیٰ

﴿ وَ مَا كَان اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ (الآیۃ) وقال تعالیٰ : عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖ اَحَدًا٠٠٢٦ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الآیۃ)

ثانیاً : صفت رحمت کو بیان کیا اور فرمایا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ کہ وہ رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور رحمت سے مشتق ہیں چونکہ دونوں کے معنی میں مبالغہ ہے اس لیے ترجمہ میں بھی مبالغہ کا خیال رکھنا جاتا ہے، اکثر علماء فرماتے ہیں لفظ رحمن میں لفظ رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے دنیا میں بھی اس کی رحمت کا بہت زیادہ مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت بڑا مظاہرہ ہوگا۔

ثالثاً : اَلْمَلِكُ فرمایا ملک بادشاہ کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ حقیقی بادشاہ ہے دنیا میں جو بادشاہ ہیں وہ سب اس کے بندے ہیں اور سب اس کی مخلوق ہیں۔ وہ ملک الملوک یعنی سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور وہ ہر چیز کا مالک ہے اور سارا ملک اسی کا ہے۔ سورة یٰسین میں فرمایا : ﴿ فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾
رابعاً : الْقُدُّوْسُ فرمایا، یعنی وہ ہر نقصان اور ہر عیب سے بہت زیادہ پاک ہے، یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتروں کا سلام پھیر کر تین مرتبہ ذرا اونچی آواز سے سبحان الملک القدوس پڑھا کرتے تھے اور القدوس کی دال کے پیش کو کھینچ کر پڑھتے تھے یعنی واؤ ساکن جو حرف مدہ ہے۔ اس کے مد کو مد طبیعی سے زیادہ ادا کرتے تھے۔
خامساً : السَّلٰمُ فرمایا۔ یہ لفظ مصدر ہے، علماء نے لفظ السَّلٰمُ کے کئی معنی لکھے ہیں اول یہ کہ وہ باسلامت ہے ہر طرح سالم ہے اس کی ذات وصفات میں کبھی بھی کوئی کمی آنے والی نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ وہ سلامتی دینے والا ہے۔
سادساً : الْمُؤْمِنُ فرمایا اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ وہ امن وامان دینے والا ہے، دنیا میں اپنے بندوں کو امن وامان سے رکھتا ہے، اہل ایمان کے قلوب کو اطمینان عطاء فرماتا ہے، نیک بندوں کو قیامت کے دن اطمینان عطا فرمائے گا، جس کے بارے میں ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ﴾ فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ ﴿ يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَ لَا اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ﴾ اور بعض حضرات نے الْمُؤْمِنُ کا یہ معنی بتایا ہے کہ اس نے اپنی مخلوق سے وعدہ فرما لیا ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
وقال بعضھم معناہ ھو ذوالامن من الزوال لا ستحالة علیہ سبحانہ وتعالیٰ وفی معناہ اقوال اخری ذکرھا صاحب الروح۔
سابعًا: الْمُهَيْمِنُ فرمایا اس کے معنی ہے نگران اللہ تعالیٰ شانہ اپنی ساری مخلوق کا نگران اور نگہبان ہے۔ قال صاحب الروح: أي الرقیب الحافظ لکل شيء مُفَیعِلٌ من إلا من بقلب ھمزته ھاء وإلیہ ذھب غیر واحد ثم استعمل بمعنی الرقیب والحفیظ علی الشيء.
ثامنا: الْعَزِيْزُ ، فرمایا یعنی وہ غالب ہے زبردست ہے اس کے ارادہ سے اسے کوئی چیز روکنے والی نہیں وہ جو چاہے کرے اسے ہر چیز کا اختیار ہے اور وہ ہر طرح صاحب اقتدار ہے۔
تاسعا : الْجَبَّار فرمایا، یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے جو جبر یجبر سے ماخوذ ہے بعض حضرات نے اس کو معروف معنی میں لیا ہے یعنی وہ جبار اور قہار ہے وہ اپنی مخلوق میں جو بھی تصرف کرنا چاہے کرسکتا ہے اسے کوئی بھی کسی تصرف سے روک نہیں سکتا۔
اور بعض حضرات نے اس کو مصلح کے معنی میں لیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ خرابیوں کو درست کرنے والا ہے ٹوٹی ہوئی چیزوں کو جوڑنے والا ہے۔ احوال کی اصلاح کرنے والا ہے۔
عاشراً : الْمُتَكَبِّرُ فرمایا، یہ باب تفعل سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے الکامل فی الکبریاء اسی لیے اوپر اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ وہ بڑی عظمت والا ہے۔ مخلوق کے لیے یہ لفظ بولتے ہیں تو یہ باب تفعل تکلف کے معنی میں ہوتا ہے اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص بڑا بنتا ہے، بڑائی اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہے مخلوق کو بڑائی بگھارنا جائز نہیں۔ اگر کسی مخلوق میں کوئی بڑائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ جس نے دی ہے اس کا شکر ادا کرے نہ یہ کہ اس کی مخلوق کو حقیر جانے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھے۔
سورة الجاثیہ کے ختم پر فرمایا ﴿وَلَہُ الْكبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكیْمُ﴾ (اسی کے لیے بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الکبریاء ردائی والعظمة ازاری فمن نازعني وا حدا منھا أدخلته النار (رواہ المسلم) یعنی کبریائی اور عظمت میری خاص صفات ہیں سو جو شخص ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی منازعت کرے گا میں اسے دوزخ میں ڈال دوں گا۔

الحادی عشر : الْخَالِقُ پیدا کرنے والا۔
الثانی عشر : الْبَارِئُ پیدا کرنے والا۔
ان دونوں کلمات کا ترجمہ قریب قریب ہے بعض حضرات نے الْخَالِقُ کا معنی بالکل صحیح ٹھیک اندازے کے مطابق بنانے والا کیا اور الْبَارِئُ کا معنی کیا ہے کہ وہ عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔
علامہ قرطبی نے الخالق ھاھنا المقدر والباري المنشی والمخترع لکھا ہے۔ ملا علی قاری (رح) مرقات شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں : الخالق من الخلق وأصله التقدیر المستقیم ویستعمل بمعنی الإبداع وإیجاد شيء من غیر أصل کقوله: تعالیٰ:  خلق السماوات والارض و بمعنی التکوین کقوله عزوجل : خلق الانسان من نطفة وقوله: بمعنی أنه مقدرہ أومو جدہ من أصل أو من غیر اصل.
اس کے بعد الباری کے بارے میں لکھتے ہیں : الھمزہ فی آخرہ أي الذی خلق الخلق بری من التفاوت۔
اس تصریح سے معلوم ہوگیا کہ خالق کا معنی یہ بھی ہے کہ اس نے بالکل ابتداء بغیر کسی اصل کے پیدا فرمایا اور یہ بھی ہے کہ اس نے پہلے سے کوئی چیز پیدا فرمائی ہو پھر اس سے کوئی چیز پیدا فرما دی اور ٹھیک اندازہ کے مطابق پیدا فرمانے کا معنی بھی ہے اور باری کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ پیدا فرمایا وہ تفاوت سے بری ہے۔
الثالث عشر : الْمُصَوِّرُ ، یعنی تصویریں بنانے والا، اجسام کی جتنی بھی تصویریں ہیں وہ سب اللہ کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے مظاہرے ہیں۔ سورة الانفطار میں فرمایا ﴿خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ فِيْ اَيِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ﴾ (جس نے تجھ کو پیدا فرمایا پھر تیرے اعضاء کو درست کیا پھر تجھ کو اعتدال پر بنایا جس صورت میں چاہا تجھ کو ترکیب دیدیا) ۔
پھر فرمایا ﴿ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى ﴾ (یعنی اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں) جن اسماء وصفات پر یہ اسماء دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ شانہ ان سے متصف ہے۔ سورة الاعراف میں فرمایا ﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ﴾ (اور اللہ کے لیے اچھے نام ہیں سو ان کے ذریعہ اس کو پکارو) اور سورة الاسراء میں فرمایا ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى﴾ (آپ فرما دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے اچھے اچھے نام ہیں)
صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انھیں اچھی طرح یاد کرلے گا۔ جنت میں داخل ہوگا۔
مزید تشریح و توضیح کے لیے انوار البیان اور علامہ جزری (رح) کی کتاب الحصن الحصین اور اس کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں۔ سنن ترمذی میں ننانوے نام مروی ہیں اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہیں ان میں بعض نام وہ ہیں جو سنن ترمذی کی روایت سے زائد ہیں یعنی ان میں سے بہت سے نام وہ ہیں جو سنن ترمذی میں مروی نہیں ہیں۔
﴿ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۔ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ (سب چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے) ۔
فائدہ : حضرت معقل بن یسار (رض) کا بیان ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم پڑھ کر سورة حشر کی یہ آخری تین آیات پڑھ لے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ شانہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دے گا جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے رہیں گے اور اگر اس دن مرجائے تو شہید مرے گا اور جو شخص شام کو یہ عمل کرے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ شانہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دے گا جو اس پر صبح تک رحمت بھیجتے رہیں گے اور اگر وہ اس رات میں مرجائے گا تو شہید مرے گا۔ (ترمذی)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply