چھ مہینے رات یا دن والے علاقوں میں نماز کا حکم
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر فرمایا:
’’یا محمد! إنھن خمس صلوات کل یوم ولیلة لکل صلاۃ عشرفذلک خمسون صلاۃ‘‘. (صحیح مسلم: 162)
محمد! یہ دن اور رات میں کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گنا ہے ،اس طرح سے یہ پچاس نمازیں ہوگئیں۔
اورحضرت طلحہ بن عبیداللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک صاحب نے اسلام کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا:
’’خمس صلوات في الیوم واللیلة فقال: ھل علی غیرھن؟ قال: لا إلا أن تطوع…‘‘(صحیح البخاري: 46)
رات اور دن میں پانچ نمازیں ۔عرض کیا :کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی کوئی نماز ہے ؟فرمایا : نہیں الا یہ کہ اپنی خوشی سے پڑھ لو۔
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ:
’’…وزعم رسولک أن علینا خمس صلوات في یومنا ولیلتنا قال: صدق، قال: فبالذي أرسلک اللہ أمرک بھذا؟ قال نعم…‘‘(صحیح مسلم: 12)
آپ کے قاصد کا کہنا ہے کہ ہمارے ذمے دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ۔عرض کیا :جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں خواہ ان کاتعلق دنیاکے کسی بھی خطے سے ہو، اس لیے جن علاقوں میں کئی دن، کئی ہفتہ یا مہینوں سورج طلوع یا غروب نہیں ہوتا وہاں کے لوگوں پر بھی چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھناضروری ہے، اور ان نمازوں کے درمیان وہاں بھی وہی فاصلہ اور تناسب رکھا جائے گا جو معتدل ممالک کی نمازوں میں ہوتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے بارے میں بیان فرمایا، صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ وہ کتنے دنوں تک رہے گا، آپؐ نے فرمایا:
’’أربعون یوماً، یوم کسنة، ویوم کشھر، ویوم کجمعة، و سائرأیامه کأیامکم، فقیل: یا رسول اللہ الیوم کسنة أیکفینا فیه صلاۃ یوم؟ قال: لا اقدروا له‘‘ (صحیح مسلم:2937)
چالیس دن تک جس کا ایک دن ایک سال کی طرح اور ایک دن ایک مہینہ کی طرح اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح ہوگا اور بقیہ ایام عام دنوں کی طرح ہونگے ۔عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ایک دن جو ایک سال کی طرح ہوگا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہوگی! فرمایا نہیں بلکہ تم اندازہ لگا کے پورے سال کی نماز پڑھو
محقق علامہ ابن ہمام اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فاستفدنا أن الواجب في نفس الأمر خمس علی العموم، غیرأن توزیعھا علی تلک الأوقات عند وجودھا فلایسقط بعدمھا الوجوب‘‘. (فتح القدیر 156/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں اور ہر ایک پر پانچ نمازیں فرض ہیں البتہ ان کو ان کے اوقات میں اس وقت تقسیم کیا جائیگا جب وہ موجود ہوں اور اگر موجود نہ ہوں تو اس کی وجہ سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ۔
یہی حکم ان علاقوں کابھی ہے جہاں سورج غروب ہونے کے بعد فوراً طلوع ہوجائے، رہے و ہ علاقے جہاں بائیس بائیس گھنٹے کی رات یا دن ہوتا ہے وہاں سورج ڈوبنے اور نکلنے کے درمیان مغرب، عشاء اور فجر کی نماز ادا کی جائے گی اور ان کے درمیان فاصلے کا وہی تناسب ہوگا جو معتدل ممالک کی نمازوں کے درمیان ہوتا ہے، جیسے کہ مغرب اورفجر کا وقت پوری رات کے ۱_ ۸ حصے کے بقدر ہوتا ہے تو ان علاقوں کی مختصر رات کے آٹھویں حصے تک مغرب کا وقت ہوگا اور پھر عشاء کا اور سورج نکلنے سے پہلے فجر کا اور دن میں ظہر اورعصر کی نماز ادا کی جائے گی، اس طرح سے کہ پورے دن کے آدھے کے بعد ظہرکی نماز اور پھرسورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی نماز، چنانچہ دجال سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ:
’’وآخرأیامه کالشررۃ، یصبح أحدکم علی باب المدینة فلا یبلغ بابھا الآخرحتی یمسي، فقیل: یا رسول اللہ! کیف نصلي في تلک الأیام القصار؟ قال: تقدرون فیھا الصلاۃ کما تقدرونھا في ھذہ الأیام الطوال ثم صلوا‘‘. (سنن ابن ماجه: 4077)
اور آخر کے دن شعلہ کی طرح ہونگے ۔تم صبح کے وقت شہر کے دروازے ہوگے اور دوسرے دروازے تک پہنچنے سے پہلے شام ہوجائے گی ۔عرض کیا گیا کہ ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے ؟فرمایا کہ ان میں بھی نماز کے وقت کا اندازہ اسی طرح سے لگانا جیسے کہ تم بڑے دنوں میں لگاؤ گے پھر اس کے مطابق نماز پڑھو۔
یہی حکم اس صورت کا بھی ہے جب کہ دن مختصر اور رات بہت لمبی ہو، اور اگر رات اتنی مختصرہو کہ مغرب اورفجر کاوقت مل جائے لیکن عشاء کا وقت نہ ملے تو جس کا وقت مل جائے اسے پڑھ لے اور جس کا وقت نہ ملے اس کی قضاء کرے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.