(سلسلہ نمبر: 515)
فجر کی جماعت کے وقت سنت پڑھنا
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فجر کی نماز ہو رہی ہو اور جو شخص ابھی سنت نہیں پڑھا ہو تو کیا وہ شخص پہلے سنت پڑھیگا یا بغیر سنت پڑھے جماعت میں شامل ہو جائے گا اور اگر سنت پڑھیگا تو فرض کو چھوڑ کر سنت پڑھنا کیسا ہے اگرچہ ایک ہی رکعت فرض چھوٹ رہی ہو تو کیوں فرض کو چھوڑ کر سنت پڑھیگا؟ مدلل جواب تحریر فرمائیں۔
المستفتی: حاجی فضل الرحمن، کجراکول اعظم گڑھ۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: مذہب اسلام میں با جماعت نماز کی بڑی اہمیت ہے چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب جماعت شروع ہوجائے تو کوئی اور نماز نہ پڑھو، (خواہ وہ دوسری نماز فرض ہو یا سنت)۔
لیکن یہ جاننا چاہئے کہ فجر کی دو رکعت سنت کی بھی احادیث میں بڑی فضیلت اور اس کے پڑھنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ “فجر کی دو رکعت سنت دنیا وما فیہا سے بہتر ہے”، ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ “فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں”، اسی اہمیت کے پیش نظر فقہاء احناف نے لکھا ہے اگر کوئی شخص مسجد میں جماعت شروع ہونے کے بعد آئے اور اسے سنت پڑھ کر جماعت میں شرکت کا یقین ہو تو اسے سنت پڑھ لینی چاہئیے، کیونکہ صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کے سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں ان میں سے کئی صحابہ کرام کا یہ عمل احادیث کی کتابوں میں منقول ہے کہ وہ مسجد میں ایسے وقت پہنچے کہ جماعت شروع ہوچکی تھی تو انھوں نے پہلے سنت پڑھی پھر جماعت میں شریک ہوئے۔
اس لئے جو شخص بعد میں آئے اور امام کے سلام پھیرنے سے پہلے سنت پڑھ لینے کا یقین تو جماعت کے حصے کے ہٹ کر مسجد میں ایک طرف سنت کو پڑھ لے. اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ اگر سنت پڑھے گا تو جماعت ختم ہو جائے گی تو سنت نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو سورج نکلنے کے بعد جب مکروہ وقت ختم ہوجائے تب پڑھے، سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے. (مستفاد از فتویٰ دارالعلوم دیوبند)۔
الدلائل
عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة “. (صحيح مسلم، كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : كَرَاهَةُ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ، رقم الحديث: 710).
عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: “ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها”. (صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، رقم الحديث: 725).
“لا تدعوا رکعتی الفجر وإن طردتکم الخیل” (آثار السنن ص: 180).
عن نافع قال أیقظت ابن عمر لصلاة الفجر وقد أقیمت الصلاة فقام فصلی رکعتین۔ (شرح معانی الآثار: 1/ 256).
عن أبی عثمان الأنصاری قال جاء ابن عباس والإمام فی صلاة الغداة ولم یکن صلی الرکعتین فصلی عبد اللہ بن عباس رکعتین خلف الإمام ثم دخل معھم․ (شرح معانی الآثار: 1/ 256).
عن أبی عثمان النھدی قال: کنا نأتی عمر بن الخطاب قبل أن نصلی الرکعتین قبل الصبح وھو فی الصلاة فنصلی الرکعتین فی آخر المسجد ثم ندخل مع القوم فی صلاتھم. (شرح معانی الآثار: 1/ 256).
عن عبد الله بن أبي موسی قال جاءنا ابن مسعود والامام یصلی الصبح فصلی رکعتین إلی ساریة ولم یکن صلی رکعتی الفجر․ رواه الطبراني، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد: رجاله موثقون: 2/ 75، ط: القدسی: القاہرہ).
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ……… نهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب الشمس. (صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة/ باب الصلاة بعد الفجر، رقم الحديث: 584).
رجل انتهیٰ إلی الإمام والناس في صلاۃ الفجر، إن خشي أن تفوته رکعة من الفجر بالجماعة ویدرک رکعة صلی سنة الفجر رکعتین عند باب المسجد ثم یدخل المسجد ویصلي مع القوم، وإن خاف أن تفوته الرکعتان جمیعًا دخل مع القوم في صلاتهم. (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الصلاۃ، الفصل الحادي عشر مسائل التطوع: 2/ 308، الرقم: 2511، مکتبة زکریا دیوبند).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
8- 3- 1442ھ 26- 10- 2020م الاثنين.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.