قبلہ نما پراعتماد
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ما بین الشرق والمغرب قبلة‘‘. (سنن الترمذي: 342، سنن النسائي: 2243، سنن ابن ماجه: 1011)
مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ اور اس کی سمت میں رہنے والوں کے لیے فرمایا کہ ان کے لیے ٹھیک کعبہ کا استقبال ضروری نہیں ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے بلکہ ان کے لیے کعبہ کی سمت میں رخ کرلینا کافی ہے۔
سمت کعبہ کو جاننے کے لیے دن میں سورج کے طلوع و غروب اوررات میں چاندکے طلوع وغروب اور قطب شمالی کا سہارا لیاجاتا رہا ہے، آج کے دور میں اس کے لیے قطب نمایاالیکٹرانک آلات ایجاد کرلیے گئے ہیں اور تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کے ذریعہ عام طور پر قبلہ کا پتہ چل جاتا ہے، اس لیے قبلہ کی تعیین میں اس پراعتماد کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ دوسرے طبعی ذرائع سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے۔
ہوائی جہاز، ٹرین اور بس میں استقبال قبلہ
نماز صحیح ہونے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنا شرط ہے، اس لیے ٹرین، بس یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اور اگر دوران نماز ان کا رخ بدل جائے تو نمازتوڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنا رخ بھی بدل کر قبلہ کی طرف کرلینا چاہیے،اور قدرت کے باوجود رخ تبدیل نہ کرنے پر نماز نہیں ہوگی۔[1]
اوراگر ہجوم یا گاڑی کی ساخت کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہواور باہر نکل کرنماز پڑھنے پر بھی قدرت حاصل نہ ہو تواستقبال قبلہ کی بغیر بھی نماز درست ہے۔[2]
واضح رہے کہ بس اورجہاز وغیرہ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہو تو پھر قبلہ کااستقبال دشوار ہے، ایسی حالت میں بہتر ہے کہ اگر وقت کے اندر منزل پر پہنچنے کا امکان ہوتو نمازکومؤخر کر دیا جائے یابس کہیں ٹھہر جائے تو اس سے اتر کے نماز ادا کرے اور اگر ایسا نہ ہواوربس رکوانے پر قدرت بھی حاصل نہ ہو توپھرقبلہ کی طرف رخ کیے بغیر بھی نماز درست ہے[3]، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ} [البقرة: 115]
[1] ’’ویلزم التوجه إلی القبلة عند افتتاح الصلاۃ…وکلما دارت السفینة یحوله وجهه إلیھا، ولو ترک تحویل وجهه إلی القبلة وھوقادر علیھا لا يجزيه‘‘. (الفتاوى الهندية 44/1)
[2] دیکھیے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (146/2)
[3] وقبلة العاجزعنھا لمرض وإن وجد موجھا عند الإمام أو خوف مال، وکذا کل من سقط عنه الأرکان جھة قدرته،(الدر المختار) فکما تجوزله الصلاۃ علی الدابة ولو کانت فرضا وتسقط عنه الأرکان، کذالک یسقط عنه التوجه إلی القبلة إذا لم یمکنه، ولا إعادۃ علیه إذا قدر، فیشترط في جمیع ذالک عدم إمکان القبلة، ویشترط في الصلاۃ علی الدابة إیقافھا إن قدر، وإلا بأن خاف الضرر کان تذهب القافلة وینقطع، فلا یلزمه إیقافھا ولا استقبال القبلة. (رد المحتار 115/2 )
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.