(سلسلہ نمبر: 396)
قربانی کے جانور کو بدلنا
سوال: میرے گھر دو بکرے ہیں اور میرے والد صاحب نے نیت کی تھی کہ دونوں کی قربانی کراؤنگا، مگر پھر بعد میں پتہ چلا کہ میرے رشتہ دار ایک صاحب کے گھر قربانی کا جانور نہیں ہے اس لئے میرے والد صاحب نے ایک بکرا ان کو دیدیا حالانکہ دونوں بکروں کی قربانی کی نیت کیے تھے، اور ان سے کہہ دیا کہ آپ میرا ایک بکرا اپنے نام سے قربانی کرا لیجئے اور ہمارے والد صاحب ایک دوسرا جانور خریدکر قربانی کرانا چاہتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے؟
المستفتی: عبد الحکیم حلیمی، امبیڈکر نگر۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں اگر اپ کے والد صاحب نصاب ہیں تو اپنا متعین کردہ جانور قربانی سے قبل بدلنے کا اختیار ہے، اور اس کی جگہ دوسرے جانور کی قربانی کر سکتے ہیں؛ کیوں کہ غنی شخص کے متعین کرنے سے قربانی کا جانور متعین نہیں ہوتا؛ لہٰذا اسے بدلنے کا اختیار رہتا ہے۔
الدلائل
وأما الذي یجب علی الفقیر دون الغنی فالمشتری للأضحیة إذا کان المشتری فقیراً بأن اشتری فقیر شاۃ ینوي أن یضحی بها وان کان غنیاً لا تجب علیه بشراء شیء. (الفتاوى الهندیة: 5/ 291).
ووجهه أن نیة التعیین قارنت الفعل وهو الشراء فأوجبت تعیین المشتری للأضحیة إلا أن تعیینه للأضحیة لا یمنع جواز التضحیة بغیرها. (بدائع الصنائع: 5/ 68).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
20- 11- 1441ھ 12- 7- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.