ایک جانور میں کئی لوگ شریک ہوں توقربانى كرتے وقت کس کی نماز کا اعتبار ہوگا؟
سوال: ایک جانور میں چند لوگ شریک ہیں کیا تمام لوگ جب تک نماز نہ پڑھ لیں اس جانور کو ذبح نہیں کیا جا سکتا ؟ ایک ہی شہر میں کئی جگہ الگ الگ وقت سے نماز ہوتی ہے، تو اعتبار کس کا ہوگا ؟
المستفتی: محمد اظفر اعظمی جکہاں
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:
قربانی میں اعتبار مکان اضحیہ کا ہے یعنی اگر جانور دیہات میں ہو تو اس کی قربانی صبح صادق کے بعد نماز عید سے قبل بھی کی جاسکتی ہے خواہ شرکاء دیہات کے ہوں یا شہر کے، اور اگر جانور شہر (ایسی جگہ جہاں جمعہ وعیدین جائز ہو) میں ہو تو نماز عید سے قبل قربانی جائز نہیں، اور اگر اس شہر میں کئی جگہ وقت کے فرق کے ساتھ نماز عید ہوتی ہو تو فقہاء کا اس میں اختلاف ہے:
ایک رائے یہ ہے کہ اس شہر کی پہلی نماز کا اعتبار ہوگا یعنی اگر ایک جگہ نماز عید ادا کردی گئی ہو تو اس شہر کے تمام لوگوں کے لئے قربانی کرنا جائز ہے خواہ ابھی تک انھوں نے نماز عید ادا نہ کی ہو، اکثر اردو کتب فتاوی میں یہی رائے مذکور ہے۔
دوسری رائے یہ کہ ہر محلہ والوں کے حق میں ان کے محلہ کی نماز عید کا اعتبار ہوگا یعنی جب تک اس محلہ میں نماز عید نہ ادا کرلی جائے اس وقت تک قربانی کرنا جائز نہیں ہے، اسی قول کو فقہاء نے حدیث رسول کے زیادہ موافق قرار دیا ہے اور اسی قول پر عمل کرنے میں احتیاط ہے۔
الدلائل
عن أنس بن مالک قال: قال النبي ﷺ: من ذبح قبل الصلاة فإنما یذبح لنفسه، ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسکه وأصاب سنة المسلمین. (بخاری شریف، أضاحي 832/2، رقم:5331، مسلم شریف أضاحي 154/2)
ولوضحیٰ بعد ما صلی أهل المسجد ولم یصل أهل الجبانة أجزأه استحسانًا؛ لأنها صلاة معتبرة حتی لو اکتفوا بها أجزأتهم. (شامي، زکریا 460/9، الهدایة اشرفي 446/4، البحرالرائق زکریا 322/8)
قال شمس الأئمه الحلواني: هذا إذا ضحی رجل من الفریق الذي صلی فأما إذا ضحیٰ رجل من الفریق الذي لم یصل فلم تجز أضحیته قیاسًا واستحسانًا. (الفتاوی التاتارخانیة، زکریا 419/17، رقم: 27996، وهکذا في البنایة شرح الهدایة 25/12)
وأول وقتها بعد الصلاة إن ذبح فی مصر أی بعد أسبق صلاة عید ولو قبل الخطبة ولکن بعدها أحب۔ (درمختار) وقال فی المنح وعن الحسن: لو ضحیٰ قبل الفراغ من الخطبة فقد أساء. (در المختار مع الشامی بیروت 9/ 385، زکریا 9/ 461)
وإن کان یصلی في المصر في موضعین بأن کان الإمام قد خلف من یصلی بضعفة الناس في الجامع وخرج هو بالآخرین إلی المصلی، وهو الجبانة، ذکر الکرخيؒ: أنه إذا صلی أھل أحد المسجدین أیهماکان جاز ذبح الأضاحی وذکر في الأصل: إذا صلی أھل المسجد فالقیاس أن لا یجوز ذبح الأضحیة وفي الاستحسان یجوز، وجه القیاس أن صلاة العید لما کانت شرطاً لجواز الأضحیة في حق أھل المصر فاعتبار صلاة أهل أحد الموضعین یقتضي أن یجوز واعتبار صلاة أهل الموضع الآخر یقتضي أن لا یجوز، فلا یحکم بالجواز بالشک؛ بل یحکم بعدم الجواز احتیاطًا. (بدائع الصنائع زکریا 211/4)
قوله: أجزأه استحسانا یشیر إلی أنه لا یجزیه قیاسًا، وذلک لأن اعتبار جانب أهل الجبانة یمنع الجواز واعتبار جانب أهل المسجد یجوز ذلک؛ فإنه قبل الصلاة من وجه وبعد الصلاة من وجه، فوقع الشک، وفي العبادات یؤخذ بالاحتیاط. ( فتح القدیر زکریا 526/9)
والله أعلم
تاريخ الرقم: 8- 12- 1440ھ 10- 8- 2019م السبت
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.