مال تجارت میں زکوۃ
بقلم: مفتى ولى الله مجيد صاحب قاسمى
تجارت درحقیقت کرنسی کو سامان کی شکل میں اور سامان کو کرنسی کی شکل میں بدلنے کا نام ہے اور اس تبادلے کا مقصد نفع حاصل کرنا اور اپنے سرمایہ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے بلکہ دیکھا جائے تو سونا، چاندی، اونٹ، گائے، بکری اور زراعت کی بنسبت سامان تجارت میں بڑھوتری اور افزائش کی صلاحیت زیادہ ہے اس لئے یقینی طور پر اس میں زکوۃ ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دولت محض چند ہاتھوں تک سمٹ کر رہ جائے گی اس لیے کہ کرنسی کی گردش میں تاجر کا فائدہ اور اس کو محفوظ رکھنے میں اس کا نقصان ہے لہٰذا وہ اس سے سامان خریدتا اور بیچتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس طرح سے کرنسی پر سال گزرنے کی نوبت نہیں آئے گی اور اس کے نتیجے میں زکات واجب نہیں ہو گی اور اس کے سبب ہونے والے اقتصادی نقصان اور ناداروں کی حق تلفی کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مال تجارت میں زکوۃ کی فرضیت کے دلائل یہ ہیں:
پہلى دليل
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ} [البقرة: 267]
اے ایمان والو جو کچھ تم نے کمایا اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے بہتر حصہ خرچ کرو۔
یہ آیت عام ہے اور ہر طرح کی کمائی کو شامل ہے اور تجارت بھی کمائی میں داخل ہے چنانچہ امام جصاص رازی کہتے ہیں:
اس آیت کا عموم ہر طرح کے مال میں صدقہ کو واجب قرار دیتا ہے کیونکہ ما كسبتم (جو کچھ تم نے کمایا ہے) کا لفظ اس کو شامل ہے (احكام القرآن للجصاص جلد ١/ص٥٤٣)
اورامام فخر الدین رازی کہتے ہیں:
اس آیت کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ ہر اس مال میں زکاۃ واجب ہے جسے انسان کمائے لہذا اس میں تجارت، سونا، چاندی اور جانوروں کی زکات داخل ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس کی کمائی ہے (تفسيركبير: جلد٢/ص٦٥)
اور امام ابن عطیہ کہتے ہیں:
ما کسبتم کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے حصول میں تمہاری کوشش کا دخل ہو یا تو اسے حاصل کرنے کے لئے تم نے اپنے جسم کو تھکایا ہو یا تجارت کی ہو (المحرر الوجيز جلد١/ص٣٦٢)
اور امام بخاری نے عنوان قائم کیا ہے” باب صدقة الكسب والتجارة” (تجارت اور کمائی میں صدقہ) اور اس عنوان کو ثابت کرنے کے لئے مذکورہ آیت ذکر کی ہے۔
اور علامہ ابو بکر ابن عربی لکھتے ہیں:
ہمارے علماء کہتے ہیں کہ “ما كسبتم” سے مراد تجارت اور “مما أخرجنا لكم من الأرض” سے مراد زمینی پیداوار ہے (احكام القرآن لابن العربى: جلد١/ ص٢٣٥)
دوسرى دليل
{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا} [التوبة: 103]
تم ان کے مال میں سے صدقہ لے لو جس کے ذریعہ تم انہیں پاک و صاف کر دو گے اور ان کے لیے باعث برکت بنو گے ۔
علامہ ابن عربی کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں لفظ “مال” عام ہے اور ہر طرح کے مال کو شامل ہے خواہ اس کی نوعیت اور اس کا نام کچھ بھی ہے اس کا فائدہ اور مقصد ایک ہو یا الگ الگ ہو اور جو کوئی کسی چیز کے ساتھ اسے خاص کرنا چاہتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دلیل پیش کرے (شرح ترمذى لابن العربي جلد٣/ص١٠٤)
تيسرى دليل
{وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ} [الذاريات: 19]
اور ان کے مال میں سائلوں اور محروم لوگوں کا (باقاعدہ) حق ہوتا تھا
چوتھى دليل
{ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ (24) لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (25)} [المعارج: 24، 25]
اور وہ جن کے مال و دولت میں ایک متعین حق ہے سائلوں اور محروم لوگوں کا،
امام طبری لکھتے ہیں کہ متعین حق سے مراد زکوۃ ہے اور سائل وہ ہے جو زبان سے اپنی ضرورت کا اظہار کرے اور محروم وہ شخص ہے جو محتاج ہونے کے باوجود کسی سے کچھ مانگے نہیں (تفسيرطبرى:جلد٢٣/ص٦١٣)
مذکورہ دونوں آیتوں میں بھی لفظ “مال” عام ہے اور ہر طرح کی دولت و ثروت کو شامل ہے جس میں تجارت سے ہونے والی آمدنی بھی داخل ہے۔
پانچويں دليل
فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم (صحيح البخاري: ١٣٩٥/ ١٤٥٨ /٧٣٧٢، سنن النسائي: ٢٥٢٢،سنن أبي داود: ١٥٨٤)
اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں کو واپس کر دیا جائے گا۔
چھٹى دليل
اتَّقُوا الله، وصَلُّوا خَمسَكُم، وصُومُوا شَهرَكُم، وأَدُّوا زَكَاة أَموَالِكُم، وأَطِيعُوا أُمَرَاءَكُم تَدخُلُوا جَنَّة رَبِّكُم (سنن الترمذي: ٦١٦، مسند أحمد: ٢٢١٦١)
اپنے رب سے ڈرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو، ایک ماہ کا روزہ رکھو، اپنے مالوں کی زکوۃ دو اور امیر کی اطاعت کرو! اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے.
مذکورہ دونوں احادیث میں بھی لفظ “مال” عام استعمال کیا گیا ہے جس میں مال تجارت بھی شامل ہے۔
ساتويں دليل
حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں:
فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نخرج الصدقة من الذي نعده للبيع (سنن أبي داود: ٥٦٢، السنن الكبرى: جلد٤/ص ٢٤٧، امام ابوداؤد اور منذری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے جو ان دونوں کے نزدیک حسن ہونے کی دلیل ہے (مرقات المفاتيح: جلد ٤/ ص١٥٨) اور ابن عبد البر نے اسے حسن قرار دیا ہے (نصب الرایۃ جلد ٢/ص٢٧٦) ابن حزم نے اس کے راویوں کو مجہول قرار دیا ہے لیکن احمد شاکر کہتے ہیں: بل هم معروفون ذكرهم ابن حبان في الثقات (المحلى جلد٥/ص٢٣٤ تحقيق احمد شاكر)
حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامان تجارت میں صدقہ نکالنے کا حکم دیا کرتے تھے اور حکم فرضیت پر دلالت کرتا ہے لہذٰا اس سے نفلی صدقہ مراد لینا صحیح نہیں ہے نیز لفظ صدقہ سے مراد زکوٰۃ ہے جیسا کہ متعدد احادیث میں زکوۃ کو صدقہ کہا گیا ہے لہذا اس لفظ سے زکاۃ کے علاوہ اور کچھ مراد لینا غلط ہے۔
آٹھويں دليل
حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں ہیں:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “فِي الْإِبِلِ صَدَقَتُهَا وَفِي الْغَنَمِ صَدَقَتُهَا وَفِي الْبَزِّ صَدَقَتُهُ: أخرجه أحمد (21597) والدار قطني (1933) والحاكم (1432) وقال: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي في تلخيصه. قال الحافظ في الدراية(1/260): إسناده حسن.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اونٹ میں صدقہ صدقہ ہے۔ بکری میں صدقہ ہے اور کپڑے میں صدقہ ہے ۔
اس حدیث میں اونٹ اور بکری کےساتھ کپڑے میں بھی زکاۃ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد پہننے اور استعمال کے کپڑے نہیں ہیں کیونکہ شریعت نے استعمالی چیزوں کو زکوۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس لیے لازمی طور پر اس سے مراد تجارت کے کپڑے ہیں۔
واضح رہے کی بعض لوگوں نے اسے را کے ساتھ “البر” (گیہوں) نقل کیا ہے لیکن محدثین نے وضاحت کردی ہے کہ یہ غلط ہے اس لیے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے (نصب الراية: جلد٢/ص٣٧٧)
نويں دليل
حضرت عمر کے متعلق منقول ہے کہ وظیفہ تقسیم کرنے کے موقع پر مال تجارت کا حساب کرتے خواہ وہ نقد ہو یا ادھار اور پھر ہر شخص کی زکوۃ وصول کرلیتے خواہ وہ موقع پر موجود ہو یا غیر موجود
“فإذا خرج العطاء جمع عمر أموال التجارة فحسب عاجلها وآجلها، ثم يأخذ الزكاة من الشاهد والغائب: (مصنف ابن أبي شيبة: جلد٢/ص٤٧٦) كتاب الاموال لأبي عبيد: ص ٥٢٠) وصححه ابن حزم (المحلى: جلد ٤/ص٤٠)
حضرت عمر کا یہ عمل صحیح سندوں سے منقول ہے جو مال تجارت میں زکوۃ کی واضح دلیل ہے اور اسے سونے اور چاندی کے ساتھ خاص کرنے کی گنجائش روایت کے الفاظ میں موجود نہیں ہے۔
دسويں دليل
حضرت حماس کہتے ہیں کہ حضرت عمر میرے پاس سے گزرے اور کہا کہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو، میں نے کہا میرے پاس صرف موزے اور چمڑے ہیں انہوں نے کہا کہ ان کی قیمت لگاؤ اور زکوۃ نکالو۔
عَنْ حَمَاسٍ قَالَ: مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ، فَقَالَ: «أَدِّ زَكَاةَ مَالِكِ» قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي مَالٌ أُزَكِّيهِ إِلَا فِي الْخِفَافِ، وَالْأُدْمِ قَالَ: «فَقَوِّمْهُ، وَأَدِّ زَكَاتَهُ». رواه ابن زنجويه في الأموال (1687) وعبد الرزاق في مصنفه (7099) وابن أبي شيبة في مصنفه (10456) والبيهقي في السنن الكبرى (7678)
ابن حزم نے حماس اور ان کے بیٹے کو مجہول قرار دیا ہے لیکن احمد شاکر کہتے ہیں: كلا بل هما معروفان ثقتان (المحلى:جلد٥/ص٢٣٥ تحقيق احمد شاكر)
علامہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات مشہور ہو جایا کرتے ہیں لیکن کسی صحابی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس سے اختلاف کیا ہو لہٰذا اس پر اجماع ہے (المغني جلد ٣/ص٣٠ ۔
گيارہويں دليل
حضرت عبداللہ بن عمر فتوی دیا کرتے تھے کہ تجارتی غلام، جانور اور کپڑے میں ہر سال زکوۃ ہے۔
بارہويں دليل
اور ان سے منقول ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ سامان میں زکوۃ نہیں ہیں الا یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہو۔
فيما كان من مال في رقيق أو في دواب أو بز يدار لتجارة الزكاة كل عام. (مصنف عبدالرزاق: جلد ٤/ص ٩٧) إسناده صحيح. (الدراية:جلد١/ص٢٦١) و عنه قال: ليس فى العروض زكاة إلا أن تكون لتجارة (مصنف ابن ابي شيبة: جلد ٢/ص٤٠٦،السنن الكبرى: جلد ٤/ص ٢٤٨) إسناده صحيح (المحلی: جلد٤/ص٤٠، الدراية: جلد١/ص٢٦١)
تيرہويں دليل
حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ تجارتی مال میں زکاۃ ہے (كتاب الاموال لابي عبيد: ص٤٢٦، سند صحيح ہے (المحلى: جلد٤/ص٤٠)
البتہ ان سے منقول ایک روایت میں ہے کہ سامان میں زکاۃ نہیں ہے “لا زكاة فى العرض” لیکن اسنادی حیثیت سے روایت بہت کمزور ہے نیز اس کی یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ اگر تجارت کے لئے نہ ہو تو سامان میں زکاۃ نہیں ہے ،دیکھئے (السنن الکبری: جلد٤/ص٢٤٨)*
حاصل یہ ہے کہ کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ مال تجارت میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے اس طرح کا قول منقول ہے کہ مال تجارت میں زکاۃ نہیں ہے اس کے بر خلاف کتاب و سنت کے عموم سے اور خصوصی احادیث اور صحابہ کرام کے اقوال سے مال تجارت میں زکاۃ ثابت ہے ، نیز تابعین میں سے کسی سے اس کی مخالفت منقول نہیں ہے اور مدینہ کے سات مشہور فقہاء اسی کے قائل ہیں اور چاروں اماموں کا یہی مسلک ہے. غرضیکہ اس پر ایک طرح سے اجماع اور اتفاق ہے چنانچہ ابن منذر کہتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ سامانِ تجارت میں سال گذرنے پر زکاۃ ہے (المغني: جلد٣/ص٣٠)
اور ابو عبید نے اس پر اجماع نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ کچھ لوگ اس کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ اہل علم کا مسلک نہیں ہے (کتاب الاموال:٤٢٩)
اور خطابی کہتے ہیں کہ متأخرین اہل ظاہر کے نزدیک سامان تجارت میں زکاۃ نہیں ہے لیکن ان کا قول غیر معتبر ہے کیونکہ ان سے پہلے اس پر اجماع ہو چکا ہے (معالم السنن:جلد٢/ص٢٢٣)
بعض متاخرین ظاہریہ سامان تجارت میں زکاۃ کے قائل نہیں ہیں جیسے کہ علامہ ابن حزم اور علامہ شوکانی وغیرہ اور اس سلسلے میں ان کے دلائل یہ ہیں:
1- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس فيما دون خمس أَوَاقٍ من الورق صدقة، ولا فيما دون خمس ذَوْدٍ من الإبل صدقة (صحيح البخاري: ١٤٠٥ وغيره)
دو سو درہم سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ نہیں ہے۔
اسی طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چالیس بکری سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور نہ ہی پانچ وسق سے کم کھجور اور دانے میں زکاۃ ہے۔
تو جو لوگ سامانِ تجارت میں زکاۃ واجب قرار دیتے ہیں وہ ہر اس چیز میں زکاۃ واجب قرار دیتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی نفی کی ہے (المحلی: جلد٤/ص٤٤)
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں بعض چیزوں میں زکاۃ کے نصاب کو بیان کیا گیا ہے نہ کہ اموال زکات کو اس لئے اسے سامان تجارت میں عدم زکات کی دلیل بنانا درست نہیں۔
2- ليس على المسلم في عبده ولا فرسه صدقة: (صحيح مسلم: ٩٨٢ وغيره)
مسلمان کے گھوڑے اور غلام میں صدقہ نہیں ہے۔
3- عفوت لكم عن صدقة الخيل والرقيق: (سنن أبي داود: ٥٧٤ وغيره)
میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کے صدقے کو معاف کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے اور غلام میں زکات نہیں ہے خواہ وہ تجارت کے لئے ہوں یا کسی اور کام کے لئے لیکن جو لوگ سامان تجارت میں زکاۃ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ گھوڑے، گدھے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ ہے (المحلی: جلد٤/ص٤٤)
جواب یہ ہے کہ معمولی غوروفکر سے واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس غلام اور گھوڑے میں زکات کی نفی ہے جو خدمت اور سواری کے لئے ہیں اور ظاہر ہے کہ شریعت میں ضروریات زندگی اور استعمالی چیزوں کو زکوۃ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
4- اصل یہ ہے کہ ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے اور اسی طرح سے ایک دوسری اصل یہ ہے کہ مسلمان بری الذمہ ہوتا ہے اور وہ کسی چیز کا پابند نہیں ہوتا ہے الا یہ کی اس کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو اور اس معاملے میں اس طرح کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مختلف طرح کے تجارتی معاملے رائج تھے لیکن کسی صحیح حدیث میں مال تجارت میں زکات کا تذکرہ نہیں ہے اور حضرت عمر اور حضرت ابوذر کی حدیث ضعیف ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے خصوصا ایسے معاملے میں جس سے عام لوگوں کا سابقہ پڑتا ہو۔
جواب یہ ہے کہ اس سلسلے میں مذکورہ اصول اس اصل کے خلاف ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ہر مال میں محتاج کا حق ہے نیز کتاب و سنت کے عموم و خصوص اور امت کے اجماع سے مال تجارت میں زکاۃ ثابت نہیں ہے اور حضرت سمرہ کی حدیث درجہ حسن سے کم تر نہیں ہے اسی طرح سے حضرت ابوذر کی حدیث کو حاکم نے صحیح اور ابن حجر عسقلانی نے حسن قرار دیا ہے لہذا اسے ضعیف قرار دینا شدت پسندی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مال تجارت میں زکاۃ کی فرضیت پر پوری امت متفق ہے اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی رائے شاذ اور غیر معتبر اور دلائل کے اعتبار سے نہایت کمزور اور بے حیثیت ہے اور اسے کے ساتھ غیر معقول بھی اس لئے کہ مال تجارت ایک بڑھنے والا اور افزائش پذیر مال ہے لہذا جس طرح سے کھیتی، مویشی اور سونا چاندی میں افزائش کی وجہ سے زکاۃ فرض ہے اسی طرح سے یقینی طور پر سامان تجارت میں بھی فرض ہے کیونکہ اس میں افزائش کی صلاحیت دوسری چیزوں سے زیادہ ہے اس لیے اس میں بدرجہ اولیٰ زکاۃ ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.