hamare masayel

متعین نفع طے کرنا جائز نہیں، رقم لے کر ہرماہ متعین رقم بطور منافع دینا

(سلسلہ نمبر: 469)

متعین نفع طے کرنا جائز نہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں:

زید نے عمرو سے ایک لاکھ روپئے کاروبار رنے کے لئے لیا، اور یہ کہا کہ جب تک یہ روپئے میرے پاس رہیں گے میں ہر مہینہ پندرہ سو (ڈیڑھ ہزار) روپئے تم کو دیتا رہوں گا، اور تمہاری اصل رقم (یعنی ایک لاکھ روپئے) علی حالہ باقی رہے گی، تم جب چاہو یہ پوری رقم واپس لے سکتے ہو، تو کیا اس طرح کا معاملہ کرنا درست ہے؟

المستفتی: خورشید احمد اعظمی، بلاقی پورہ، مئو۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 کاروبار میں شرکت کرنے کے لئے ایک لاکھ روپئے دیکر ہر مہینہ ڈیڑھ ہزار نفع لینے کی شرط لگانا شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ مشترکہ کاروبار میں متعین نفع کی شرط لگانا جائز نہیں، اور اگر کاروبار میں شرکت کے لئے نہیں بلکہ بطور قرض دیا ہے تب بھی فایدہ لینا جائز نییں، کیونکہ قرض دے مشروط فایدہ اٹھانا سود ہے ۔

الدلائل

ومن شرطھا أن یکون الربح بینھما مشاعا لا یستحق أحدھما دراھم مسماۃ من الربح ؛ لأن شرط ذلک یقطع الشرکة بینھما ولا بد منھا کما في عقد الشرکة. (الھدایة: 4/ 258).

عن فضالة بن عبید صاحب النبي ﷺ أنه قال: کل قرض جر منفعة، فهو وجه من وجوہ الربا. (السنن الکبریٰ للبیهقي، کتاب البیوع، باب کل قرض جر منفعة فهو ربا، دارالفکر: 8/ 276، الرقم:11092).

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به. (رد المحتار: 5/ 166).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

14- 1- 1442ھ 3- 9- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply