hamare masayel

محاذاۃ کی صورت میں عام طور پر صرف مرد کی نماز فاسد ہوتی ہے

(سلسلہ نمبر: 374)

محاذاۃ کی صورت میں عام طور پر صرف مرد کی نماز فاسد ہوتی ہے

سوال: حضرت محاذاۃ کا جو مسئلہ ہے اسمیں صرف مرد کی نماز فاسد ہوتی ہے یا عورت کی بھی؟

المستفتی: عبد الماجد شیرواں، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

اگر محاذاۃ کے جملہ شرائط پائے جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوتی ہے عورت کی نہیں، ہاں اگر عورت بعد میں نماز میں شریک ہونے کے لئے آئے اور مرد کے اشارہ سے روکنے کے باوجود شریک ہوجائے تو ایسی صورت میں عورت کی نماز فاسد ہوگی مرد کی نہیں۔

نوٹ:  محاذاۃ كے شرائط درج ذیل ہیں:

(1) وہ عورت مشتہاة ہو۔

(2) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے بالمقابل پڑرہا ہو۔

(3) یہ سامنا کم ازکم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(4) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے یعنی نماز جنازہ کا حکم یہ نہیں ہے۔

(5) مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(6) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(7) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو۔

(8) مرد نے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو وہاں نہ کھڑے ہونے کا اشارہ نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا پھر بھی عورت برابر میں کھڑی رہی تو اب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔

(9) امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

الدلائل

ومنها محاذاة المرأة الرجل في صلاة مطلقة يشتركان فيها فسدت صلاته عندنا استحسانا والقياس أن لا تكون المحاذاة مفسدة صلاةالرجل وبه أخذ الشافعي، حتى لو قامت امرأة خلف الإمام ونوت صلاته وقد نوى الإمام إمامة النساء ثم حاذته فسدت صلاته عندنا، وعنده لا تفسد. (بدائع الصنائع: 1/ 239).

محاذاة المرأة الرجل في صلاة مطلقة مشتركة، توجب فساد صلاة الرجل استحسانا، ولا توجب فساد صلاة المرأةاستحسانا. (المحيط البرهاني: 1/ 424).

قولہ: “وتاسع شروط المحاذاة الخ” وأولہا: المشتہاة، ثانیہا: أن یکون بالساق والکعب علی ما ذکرہ، ثالثہا: أن تکون فی أداء رکن أو قدرہ، رابعہا: أن تکون فی صلاة مطلقة، خامسہا: أن تکون فی صلاة مشترکة تحریمة، سادسہا: إتحاد المکان، سابعہا: عدم الحائل، ثامنہا: عدم الإشارة إلیہا بالتأخر․ (وتاسع شروط المحاذاة) أن یکون الإمام قد نوی إمامتہا․ (طحطاوي مع المراقي: ص: 331، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت).

لو حاذت المقتدی بعد الشروع وأشار إلیہا بالتأخر ولم تتأخر فسدت صلاتہا دونه. (رد المحتار: 1/ 576).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

29- 10- 1441ھ 22- 6- 2020م الاثنین.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply