حالتِ سفر میں چار رکعت نماز کا حکم
سوال: کیا فرماتے۔ہیں۔علماء دین ومفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ہم لوگ عمان میں ہیں جس جگہ ہم لوگوں کی کمپنی ہے اس جگہ سے روزانہ 100 سے200 کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں اور شام کو یا ایک روز بعد اسی جگہ پر واپس آجاتے ہیں تو ہم لوگ نماز فرض دو رکعت ادا کریں یا چار رکعت؟ نیز اگر ہم لوگ ایسی صورت میں مسافر ہیں اور اب تک چار رکعت نماز ادا کی ہے تو ہماری نماز ادا ہوئی یا نہیں؟ جواب مرحمت فرماہیں، عین نوازش ہوگی۔
المستفتی: مبارک علی، کمال پور میرٹھ۔
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
آپ کی جہاں رہائش ہے وہاں سے جب مسافت سفر (سوا ستہتر کیلو میٹر دوری) کے ارادے سے سفر کریں تو آپ مسافر ہوجائینگے اس طرح جب اپنی اس عارضی رہائش پر واپس آئینگے اور پندرہ دن یا اس سے زیادہ مسلسل رہنے کا ارادہ نہ ہو تو وہاں بھی مسافر رہینگے۔
اب جاننا چاہئیے کہ حنفیہ کے نزدیک مسافر کے لئے ظہر، عصر اور عشاء کی اصل فرض نماز دو رکعت ہی ہیں، چار رکعت کی دو رکعت نہیں ہوئی ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی ﷲ عنہم سے بہ سند صحیح روایت ہے کہ نماز اولاً دو رکعت فرض ہوئی تھی، پھر قیام کی حالت میں دو رکعت بڑھا کر چارکعت فرض کر دی گئیں اور سفر کی حالت میں دو رکعت بد ستور قائم رہیں، یہ دو رکعت بظاہر تخفیف معلوم ہوتی ہیں، اور اس بناء پر قصر کو رخصت اور رعایت کہا جاتاہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل یہی ہے، پس جس طرح فجر کی دو رکعت کی بجائے چار رکعت پڑھنا غلط ہے، اسی طرح مسافر کے لئے ظہر، عصر اور عشاء کی دو رکعت کے بجائے قصداً چار رکعت پڑھنا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے، جس کا اعادہ ضروری ہے۔
البتہ اگر کوئی مسافر منفرداً (تنہا) نماز ادا کرے اور بھول کر پوری چار رکعت پڑھ لے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔۔ اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ کیا تو فرض نماز ادا ہوجائے گی، لیکن گناہ گار ہوگا، پہلی دو رکعت فرض ہوجائیں گی اور دوسری دو رکعت نفل ہوجائیں گی، جب تک نماز کا وقت باقی ہو مسافر پر اس فرض نماز کا قصر کے ساتھ اعادہ کرنا واجب ہوگا، اور وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔
2۔۔ اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ میں نہیں بیٹھا تو اس کی فرض نماز باطل ہوجائے گی، اور پوری نماز نفل شمار ہوگی، وقت باقی ہو یا نہ ہو، اس پر فرض نماز قصر کے ساتھ لوٹانا واجب ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں آپ اپنی رہائش اور کام کی جگہ دونوں جگہ مسافر ہیں اس لئے چار رکعت والی نماز دو رکعت ہی پڑھیں. واللہ اعلم بالصواب۔
الدلائل:
(وَوَطَنُ) الْإِقَامَةِ يُنْتَقَضُ بِالْوَطَنِ الْأَصْلِيِّ؛ لِأَنَّهُ فَوْقَهُ، وَبِوَطَنِ الْإِقَامَةِ أَيْضًا؛ لِأَنَّهُ مِثْلُهُ، وَالشَّيْءُ يَجُوزُ أَنْ يُنْسَخَ بِمِثْلِهِ، وَيُنْتَقَضُ بِالسَّفَرِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ تَوَطُّنَهُ فِي هَذَا الْمَقَامِ لَيْسَ لِلْقَرَارِ وَلَكِنْ لِحَاجَةٍ، فَإِذَا سَافَرَ مِنْهُ يُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى قَضَاءِ حَاجَتِهِ فَصَارَ مُعْرِضًا عَنْ التَّوَطُّنِ بِهِ، فَصَارَ نَاقِضًا لَهُ دَلَالَةً ، وَلَا يُنْتَقَضُ وَطَنُ الْإِقَامَةِ بِوَطَنِ السُّكْنَى ؛ لِأَنَّهُ دُونَهُ فَلَا يَنْسَخُهُ . (بدائع الصنائع 104/1).
وقد مر أن وطن الإقامة يبطل بالسفر. (حاشية الطحطاوي علي المراقي 430/1).
فلو أتم مسافر إن قعد فی القعدة الأولی تم فرضه ولکنه أساء، ومازاد نفل (درمختار) فلو أتم المقیمون صلاتهم معه فسدت؛ لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل الخ۔ (درمختار مع الشامي ۲/٦۰۹-٦۱۲ زکریا).
صلی الفرض الرباعی رکعتین وجوبا لقول ابن عباس: إن اﷲ تعالی فرض علی لسان نبیکم صلاة المقیم أربعا، والمسافر رکعتین. (درمختار مع الشامی ۲/ ٦۰۳ زکریا).
فلو أتم مسافر إن قعد فی القعدة الأولی تم فرضه ولکنه أساء لو عامداً لتاخیر السلام وترک واجب القصر وواجب تکبیرة الافتتاح النفل، وخلط النفل بالفرض، وهذا لا یحل کما حرره القهستانی بعد أن فسر ’’أساء‘‘ بإثم و استحق النار وما زاد نفل کمصلی الفجر أربعا (در مختار) والمختار أن الإعادة لترک واجبٍ نفلٌ جابرٌ والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لا یتکرر (شامی، الصلاة / باب صفة الصلاة ۲/۱۲۸ کراچی، کذا في تبیین الحقائق، الصلاة / باب صلاة المسافرین ۱/۵۱۱ بیروت، الطحطاوي علی مراقی الفلاح ۲٤۸، مجمع الأنهر الصلاة/ باب صلاة المسافر ۱؍۱٦۲ بیروت).
كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ۔۔۔ وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر” البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147)
ومن خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصدًا ولو کافرا، ومن طاف الدنیا بلا قصد لم یقصر (درمختار) أشار به لو خرج ولم یقصد … لا یکون مسافرًا. (شامي ۲/٦۰۰ زکریا، الفتاویٰ الھندیة ۱/۱۳۹، البحر الرائق ۲/۲۲٦).
لایصح القصر إلا إذا نوی السفر فنیة السفر شرط لصحة القصر باتفاق؛ ولکن یشترط لنیة السفر أمران: أحدهما أن ینوي قطع تلک المسافة بتمامها من أولسفره … فلو خرج هائما علی وجهه لایدري أین یتوجه لا یقصر، ولو طاف الأرض کلها؛ لأنه لم یقصد قطع المسافة، وهذا الحکم متفق علیه وکذلک لا یقصر إذا نوی قطع المسافة ولکنه نوی الإقامة أثنائها مدة قاطعة لحکم السفر (الفقه علی المذاهب الأربعة ٦۲٤).
أمیر خرج مع جیشه في طلب العدو ولم یعلم أین یدرکهم فإنهم یصلون صلاة الإقامة في الذهاب، وإن طالت المدة کذلک المکث في ذلک الموضع، أما في الرجوع فإن کانت مدة سفر قصروا۔ (حاشیة جلبي علی تبیین الحقائق ۱/۵۰۷-۵۰۸).
وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر” البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله.
مسافر امام نے بھول کر چار رکعت نماز پڑھادیا
سوال: ایک مسافر صاحب نے عشاء کی نماز چار رکعت بھول کر پڑھا دیا ہے، کیا کیا جائے؟
المستفتی: مولانا محمد اکرم قاسمی شاہ گنج۔
الجواب: باسم الملهم للصدق والصواب:
صورت مسؤلہ میں اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ کیا اور آخر میں سجدہ سہو کر لیا تو امام کی نماز درست ہوگئی، اور اگر امام نے سجدہ سہو نہیں کیا تو اسكي نماز بھی قابل اعادہ ہے اور مقتدیوں کی نماز کسی صورت میں درست نہیں ہوئی، اس لئے مقتدیوں میں سے جتنے لوگ مل سکیں، فساد نماز کی اطلاع دے، ورنہ وہ گنہگار ہوگا اور جو مقتدی چلے گئے اور ان کو اطلاع دینے کی کوئی صورت نہیں ہے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرے۔ والله اعلم بالصواب۔
الدلائل:
صلی الفرض الرباعي رکعتین وجوبا لقول ابن عباس: إن ﷲ تعالی فرض علی لسان نبیکم صلاة المقیم أربعا، والمسافر رکعتین. (درمختار مع الشامی ۲/ ٦۰۳ زکریا).
لو اقتدیٰ مقیمون بمسافر وأتم بلا نیة إقامة وتابعوه فسدت صلاتهم لکونه متنفلاً في الأخریین۔ (شامي ۱؍۵۸۱ کراچی، شامي ۲؍۳۲۷ زکریا).
یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو بالقدر الممکن بکتاب أو رسول علی الأصح لو معنیین وإلا لا یلزمه – إلی قوله – لکونه عن خطأٍ معفو عنه۔ (تنویر علی الشامي ۱؍۵۹۱ کراچی، شامي ۲؍۳٤۰ زکریا).
فإن صلی أربعاً وقعد في الثانیة قدر التشهد أجزأته والأخریان نافلة ویصیر مسیئاً لتاخیر السلام، وإن لم یقعد في الثانیة قدرها بطلت، کذا في الهدایة۔ (الفتاویٰ الهندیة ۱؍۱۳۹، البحر الرائق ۲؍٦۰۹).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله
14/1/1440ه 25/9/2018م الثلاثاء
صرف سفر کی نیت سے مسافر نہیں ہوگا:
سوال: میں عمرہ کرکے واپس آیا میرے کفیل نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آتے ہی کویت چلنا ہے میں نے تب تک سفر کی نماز پڑھی؛ مگر تیسرے دن اس کے میسج سے معلوم ہوا کہ پندرہ دن کے بعد ہی کویت جانا ہے، مگر آج فون کر دیا کہ کل آوں گا تو اب میں کیا کروں، چار رکعت پڑھوں کہ دو رکعت؟
المستفتی محمد ربانی اعظمی۔
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب
عمرہ سے واپسی کے جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ سفر پندرہ دن کے بعد کرنا ہے تو آپ مقیم ہوگئے اب دوبارہ صرف سفر کے ارادہ سے مسافر نہیں ہونگے؛ بلکہ وہاں سے سفر شرعی شروع کرنے کے بعد ہی مسافر ہوں گے، لہذا ابھی جب تک آپ کویت کا سفر شروع نہیں کرتے چار رکعت والی نماز چار رکعت ہی پڑھیں۔
الدلائل:
ولا یصیر مسافراً بالنیة حتی یخرج۔ (الفتاوى الهندية ۱؍۱۳۹).
ووطن الإقامة یبطل بوطن الإقامة وبانشاء السفر۔ (الفتاوى الهندية ۱؍۱٤۲).
الأصل أن الوطن الأصلي يبطل بمثله دون السفر ووطن الإقامة يبطل بمثله وبالسفر وبالأصلي، (الهداية 81/1).
ومن حکم وطن السکنیٰ أنه ینتقض بکل شيء بالوطن الأصلي، و بوطن السفر وبوطن السکنیٰ وبإنشاء السفر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة ۲؍۵۱۱ رقم ۳۱۵۱ زکریا، کذا في الدر المختار ۲؍٦۱٤ بیروت، بدائع الصنائع ۱؍۲۸۰ زکریا، البحر الرائق ۲؍۲۳۹ زکریا، مجمع الأنهر ۱؍۲٤۳، حلبي کبیر ۵٤٤، هدایه ۱؍۱٦۷).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله.
5/1/1440ه 16/9/2018م الأحد.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.