hamare masayel

نماز استسقاء کے اعلان کے بعد بارش ہوجائے

(سلسلہ نمبر: 815)

 نماز استسقاء کے اعلان کے بعد بارش ہوجائے

سوال: ہم لوگوں نے استسقاء کی نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تھا اور اعلان بھی ہوگیا تھا کہ صبح 10 بجے نماز ادا کی جائیگی؛ لیکن رات ہی 1:30 بجے سے بارش شروع ہوگئی اچھی بارش بھی ہوئی، جسکی وجہ سے نماز نہیں ہوپائی،

اب کچھ لوگ کہرہے ہیں نماز پڑھنا چاہئیے کہ جب ارادہ ہوگیا تھا تو نماز پڑھنی چاہیۓ، اس میں ایک دو عالم بھی شامل ہیں جو یہ کہرہے ہیں۔

کیا اس صورت میں نماز استسقاء پڑھنی چاہیۓ جبکہ استسقاء کا مقصد بارش کا حصول ہے اور وہ مقصد پہلے ہی حاصل ہوگیا، بارش ہوگئی اور اسوقت بھی رم جھم بارش ہورہی تھی جو نماز کا وقت متعین تھا۔

اور اگر نماز استسقاء ادا نہیں کی گئی اور بارش ہوگئی تو کیا ہم لوگوں کو شکرانہ کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیۓ؟ جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

المستفتی: عبد القدیر بارہ بنکی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: نماز استسقاء کا مقصد ضرورت کے وقت بارش کے حصول کی دعا کرنا ہے، اگر اعلان کے بعد نماز سے پہلے اتنی بارش ہو جائے جو ضرورت کے لئے کافی ہو تو اب نماز استسقاء کے بجائے شکرانہ کی نماز پڑھنی چاہیئے؛ لیکن اگر بارش معمولی ہو تو نماز استسقاء پڑھنی چاہئیے۔

الدلائل

وإنما يكون الاستسقاء في موضع لا يكون لهم أودية ولا أنهار وآبار يشربون منها ويسقون مواشيهم أو زروعهم أو يكون لهم ولا يكفيهم ذلك فأما إذا كانت لهم أودية وآبار وأنهار فإن الناس لا يخرجون إلى الاستسقاء لأنها إنما تكون عند شدة الضرورة والحاجة، كذا في المحيط. (الفتاوى الهندية: 1/ 154، كوئٹه).

وإن سقوا قبل الخروج ندب أن يخرجوا شكرا لله تعالى. (رد المحتار: 3/ 73، زكريا).

وفي الحموي عن النظم الهاملي إذا سقوا قبل الخروج وقد كانوا تهيؤا له ندب أن يخرجوا شكرا لله تعالى ويستزيدون من فضله ورحمته اهـ حاشية الطحطاوي على المراقي، ص: 49، 50).

اختلف العلماءُ فيما إذا سُقوا قبل خُروجِهم لصلاةِ الاستسقاءِ: هل يُصَلُّونَ أو لا؟ على قولينِ:

 القَوْلُ الأَوَّل: إذا سُقوا قبل خُروجِهم، يُستحبُّ أن يخرجوا ويُصَلُّوا، وهو مذهَبُ الحَنَفيَّة، والشافعيَّة، والحَنابِلَة؛ وذلك لأنَّ الصلاة شُرِعَت لأَجْلِ العارِضِ من الجَدْب، وذلك لا يحصُلُ بمجَرَّدِ النُّزولِ.

القول الثاني: إذا سُقوا قبل خُروجِهم، لا يخرجونَ للصَّلاةِ، وهو قولٌ للشَّافعيَّة؛ صحَّحه ابنُ الصَّلاحِ وهو اختيارُ ابنِ قُدامةَ وابنِ عثيمينَ؛ وذلك لأنَّ صلاةَ الاستسقاءِ إنَّما تُشرَع لطلَبِ السُّقيا، فإذا سُقوا فلا حاجَةَ لها. (الموسوعة الفقهية لعلوي بن عبد القادر السقاف).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

25- 1- 1446ھ 1-8- 2024م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply