نماز كے درميان موبائل بند کرنا
ٹیلیفون کا جواب دینے کے لیے نماز توڑنا درست نہیں ہے، کیونکہ کسی شدید مجبوری ہی میں نماز توڑ ی جاسکتی ہے، اس کے بغیر نہیں، جیسے کہ کسی کے چھت سے یا گڈھے میں گرجانے کا یا آگ وغیرہ لگ جانے کااندیشہ ہو، فون کے ذریعے عام طور پر اس طرح کی چیزوں کے بارے میں اطلاع نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو فوری طور پر نماز توڑ کر کوئی مدد بھی نہیں کی جاسکتی، اس لیے محض گھنٹی کی آواز سن کر نماز ختم کردیناجائز نہیں۔
اور اگر بہت زیادہ عمل اور حرکت کے بغیر اسے بند کیا جاسکتا ہو تو بند کردینا چاہیے تاکہ اس کی اور دوسرے لوگوں کی یکسوئی اورخشوع و خضوع متاثر نہ ہو۔
بہت زیادہ عمل اور حرکت کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اگر کوئی شخص ایک ہاتھ باندھے ہوئے دوسرے ہاتھ سے موبائل بند کردے تو دیکھنے والوں کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اس لیے اگر اس طرح سے موبائل کی گھنٹی کو بند کر سکتا ہو تو کرلینا چاہیے۔اور اگر معمولی عمل کے ذریعے موبائل کو بند کرنا ممکن نہ اور گھنٹی کی آواز ایسی ہو کو خود اس کو اور دوسرے نمازیوں کو وحشت ہورہی ہو اور نماز میں خلل پیدا ہورہا ہے تو نماز توڑ کر اسے بند کردینا چاہئے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
” إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ (صحيح البخاري: 5463، صحيح مسلم: 557، سنن الترمذي: 353)
جب شام کا کھانا آجائے اور نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو پہلے کھانا کھالو۔
امام ترمذی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : لَا نَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ.
صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ نے حدیث سے یہ مراد لیا ہےکہ کوئی نماز کے لئے اس وقت کھڑا نہ ہو جب کہ اس کا دل کسی چیز میں مشغول ہو اور حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ ہمیں اس حال میں نماز میں نہیں کھڑا ہونا چاہیے جب کہ ہمارے دلوں میں کچھ ہو۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ”. (صحيح مسلم: 560، سنن أبي داود: 89)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ کھانے کی موجودگی میں اور پیشاب پاخانہ کے شدید تقاضے کے وقت نماز نہیں ہے۔
اس حدیث کی شرح میں لکھا گیا ہے کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ دل اس میں اٹکا ہوا ہوگا اور خشوع وخضوع باقی نہیں رہیگا اور اس کے حکم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو دل کو مشغول کردیں اور کمال خشوع باقی نہ رہے۔[1]
اور ان احادیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر نماز شروع کرنے کے بعد بھی ضرورت کا تقاضا ہونے لگے تو وقت میں گنجائش ہوتو نماز توڑ کر پہلے ضرورت پوری کرے۔[2]
اور زیادہ بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ نماز کے وقت موبائل کو بند کر دیا جائے یا سائلنٹ موڈ پر کردیا جائے ۔
حوالاجات
[1] لاشتغال القلب به وذهاب الخشوع ويلحق به كل ما هو في معناه مما يشغل القلب ويذهب كمال الخشوع. عون المعبود وحاشية ابن القيم (1/ 112)
[2] وصلاته مع مدافعة الأخبثين أو أحدهما … سواء كان بعد شروعه أو قبله فإن شغله قطعها إن لم يخف فوت الوقت. (رد المحتار 408/2)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.