(سلسلہ نمبر: 588)
نماز میں دونوں قدموں کے درمیان دوری
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
کہ نماز میں بحالت قیام دونوں قدموں کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہئیے، کم از کم مقدار تو کتابوں میں لکھی ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ کی مقدار معلوم نہ ہوسکی، بعض حضرات پیر کو بہت زیادہ پھیلا کر کھڑے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں بھی عجیب سا لگتا ہے، برائے کرم مسئلہ کی مدلل وضاحت فرمائیں۔
المستفتی: حکیم اللہ حلیمی، ناون، کبیر نگر۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں پیروں کے درمیان کم از کم چار انگلی کا فاصلہ رکھنا چاہئے، اور یہی حالت خشوع وخضوع کے زیادہ موافق ہے، زیادہ سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے، لیکن ضابطہ یہ ہے انسان کی جو ہیئت نماز سے باہر ہوتی ہے وہی نماز کے اندر بھی رہے گی الا یہ کہ شریعت میں الگ سے کوئی طریقہ بتایا گیا ہو، صحابہ کرام کا عمل کتب حدیث میں یہ لکھا ہے کہ نہ پیر کو بالکل ملاتے تھے نہ ہی چیر کر کھڑے ہوتے تھے، اس لئے عام حالت میں کھڑے ہونے کی جو حالت ہوتی ہے وہی حالت نماز میں رہے گی، اس سے زیادہ پھیلانا مناسب نہیں ہے۔
الدلائل
نافع أن بن عمر كان يقرأ البقرة في ركعة وكان بطيء القراءة فيضرب بأصابع رجله على الارض وسألت عطاء عن ضم المرء قدميه في الصلاة فقال أما هكذا حتى تماس بينهما فلا ولكن وسطا من ذلك فقال بن جريج ولقد أخبرني نافع أن بن عمر كان لا يفرسخ بينهما ولا يمس إحداهما الأخرى قال بين ذلك. (مصنف عبد الرزاق: 2/ 264، الرقم: 3300).
وفي ” الواقعات “: ينبغي أن يكون بين قدمي المصلي قدر أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، والمراد من قوله عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «الصقوا الكعاب بالكعاب» اجتماعهما. (البناية شرح الهداية: 2/ 219).
وَيُكْرَهُ الْقِيَامُ عَلَى أَحَدِ الْقَدَمَيْنِ فِي الصَّلَاةِ بِلَا عُذْرٍ، وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا مِقْدَارُ أَرْبَعِ أَصَابِعِ الْيَدِ لِأَنَّهُ أَقْرَبُ إلَى الْخُشُوعِ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي نَصْرٍ الدَّبُوسِيِّ إنَّهُ كَانَ يَفْعَلُهُ كَذَا فِي الْكُبْرَى. وَمَا رُوِيَ أَنَّهُمْ أَلْصَقُوا الْكِعَابَ بِالْكِعَابِ أُرِيدَ بِهَا الْجَمَاعَةُ أَيْ قَامَ كُلُّ وَاحِدٍ بِجَانِبِ الْآخَرِ كَذَا فِي فَتَاوَى سَمَرْقَنْدَ. (رد المحتار: 1/ 444).
وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بين قَدَمَيْهِ أَرْبَعُ أَصَابِعَ في قِيَامِهِ
(الفتاوى الهندية: 1/ 81).
رابعاً: تَفْرِقَتُه بين قدميه, والقاعدة هنا { أن الهيئات في الصلاة تكون على مقتضى الطبيعة, ولا تخالف الطبيعة إلا ما دل النص عليه}, والوقوف الطبيعي أن يفرج بين قدميه فكذلك في الصلاة, فما كان على غير وفق الطبيعة يحتاج إلى دليل. (القول الراجح مع الدليل شرح منار السبيل: 2/ 85).
قال الأثرم: (رأيت أبا عبد الله وهو يصلي وقد فرَّج بين قدميه)۔۔۔ هذا هو الأولى ، لأن قبل هذا الفعل يجعل القدمين على طبيعتها ، وحيث لم يرد نص في قدميه حال القيام فإنه يبقيهما على الطبيعة. (شرح زاد المستقنع للشيخ حمد بن عبد الله: 5 /150).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
6- 6- 1442ھ 20- 1- 2021م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.